مولانا توقیر کی گرفتاری کے بعد؟
-----------------------------
غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
بریلی میں ہوئے فساد کے بعد مولانا توقیر رضا سمیت آٹھ افراد گرفتاری کے بعد 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دئے گیے ہیں۔قریب پچاس افراد زیر تفتیش ہیں اور دو ہزار سے زائد نامعلوم افراد مقدمے میں ماخوذ ہیں۔حساسیت کے پیش نظر مولانا توقیر کو بریلی جیل سے فتح گڑھ سینٹرل جیل بھیجا گیا ہے۔اطلاعات ہیں کہ مولانا توقیر رضا کے قریبی افراد کے گھر/کاروبار وغیرہ کی تحقیق و تفتیش کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔یوپی وزیر اعلی کی تلخ زبانی سے پورا یقین ہے کہ متعلقہ افراد کے گھر مکان اور کاروبار حکومتی زد میں ضرور آئیں گے۔
________موجودہ صورت حال
فساد اور گرفتاری کے بعد احتجاج کے وقت ، مولانا کی منصوبہ بندی اور عوام کی جذباتیت پر مختلف جہتوں سے کافی کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے۔مولانا توقیر کے ماضی اور عوام کے رویے پر بحثیں ہو رہی ہیں۔لیکن اصل اور ضروری مدے پر خاطر خواہ یا یوں کَہ لیں سرے سے بات ہی نہیں ہو رہی ہے !!
مدا ہے مسلمانوں کے تئیں حکومت اور انتظامیہ کے دہرے اور متعصبانہ رویے کا، کیا ہم اس پر بات کرنے تیار ہیں؟؟
اجمیر شریف کے گدی نشین سرور چشتی، امیر جماعت اسلامی سید سعادت اللہ حسینی کے علاوہ کیا کسی نمایاں مذہبی چہرے/ادارے/خانقاہ/تنظیم نے اس مسئلے پر حکومت سے کوئی سوال کیا؟
کیا کسی وکیل/صحافی/ایکٹیوسٹ نے وزیر اعلیٰ یوپی کی متعصبانہ اور مذہبی دشمنی پر مبنی بیان بازی اور رویے پر کوئی سوال کیا؟
کیا ہائی کورٹ/سپریم کورٹ میں دوسری تنظیموں اور سماجی افراد کی مفت پیروی کرنے والے کسی مسلم وکیل نے بریلی حادثہ سمیت کانپور، گودھرا اور کاشی پور جیسے واقعات کو لیکر ہائی کورٹ/سپریم کورٹ میں کوئی رٹ پٹیشن کی؟؟
یہ وہ سوال ہیں جو ہر اس شخص سے جواب چاہتے ہیں جو کسی نہ کسی منصب/عہدے اور عوامی حلقہ سے وابستہ ہے۔
مولانا توقیر کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے۔مسلمانان بریلی جذباتی ہو سکتے ہیں۔کاشی پور کے بچے نا سمجھ ہو سکتے ہیں لیکن حکومت اور انتظامیہ کے رویے کو آپ کس خانہ میں ڈالیں گے؟؟
مہینہ بھر پہلے فتح پور یوپی میں نواب عبد الصمد کے مقبرے پر حملہ کرنے والے ہندو سنگٹھن کے لوگ آن کیمرہ ہتھیار بند تھے مگر ابھی تک یوپی پولیس کو ان کے ہتھیار نظر نہیں آئے۔اس لیے آج تک ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی مگر بریلی کے آن کیمرہ خالی ہاتھ دکھنے والے مسلمانوں سے بریلی پولیس کو کارتوس/پتھر/پیٹرول بوتلیں اور تمباکو کے ذخیرے مل رہے ہیں۔
29 مئی 2025 کو لکھنؤ کے حضرت گنج تھانے میں تعینات سپاہی ارجن چورسیا کو چار شرابی لڑکوں نے صرف ٹوکنے بھر پر اسی کی پولیس چوکی میں لے جا کر خوب پیٹا، وردی پھاڑ دی، سات پشتوں تک کی گالیاں دیں، بعد میں تین لڑکوں کو ہاتھوں ہاتھ تھانے ہی سے ضمانت دے دی گئی اور چوتھے لڑکے کا تو آج تک لکھنؤ پولیس کو نام تک نہیں ملا۔
ذرا سوچیں !!
فرض شناس اور چاک چوبند یوپی پولیس کی مستعدی اور بہادری لکھنؤ میں کہاں گم ہوگئی تھی؟
زیرو ٹالرینس کی بات کرنے والے یوپی وزیر اعلیٰ اس وقت قانون کی پاس داری کیوں نہیں کرا پائے؟
وجہ آپ اور ہم سب بہ خوبی سمجھتے ہیں۔
یہاں دانش ور/سیکولر اور ایکٹوسٹ طبقے کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ سبھی حضرات دیگر سماج اور افراد کے لیے تو آن واحد میں ایکٹو ہو جاتے ہیں لیکن جہاں مسلمانوں سے جڑا معاملہ سامنے آتا ہے یہ لوگ بھی یا تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا گھما پھرا کر مسلمانوں ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
6 ربیع الثانی 1447ھ
29 ستمبر 2025 بروز پیر
غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
بریلی میں ہوئے فساد کے بعد مولانا توقیر رضا سمیت آٹھ افراد گرفتاری کے بعد 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دئے گیے ہیں۔قریب پچاس افراد زیر تفتیش ہیں اور دو ہزار سے زائد نامعلوم افراد مقدمے میں ماخوذ ہیں۔حساسیت کے پیش نظر مولانا توقیر کو بریلی جیل سے فتح گڑھ سینٹرل جیل بھیجا گیا ہے۔اطلاعات ہیں کہ مولانا توقیر رضا کے قریبی افراد کے گھر/کاروبار وغیرہ کی تحقیق و تفتیش کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔یوپی وزیر اعلی کی تلخ زبانی سے پورا یقین ہے کہ متعلقہ افراد کے گھر مکان اور کاروبار حکومتی زد میں ضرور آئیں گے۔
________موجودہ صورت حال
فساد اور گرفتاری کے بعد احتجاج کے وقت ، مولانا کی منصوبہ بندی اور عوام کی جذباتیت پر مختلف جہتوں سے کافی کچھ لکھا اور بولا جا رہا ہے۔مولانا توقیر کے ماضی اور عوام کے رویے پر بحثیں ہو رہی ہیں۔لیکن اصل اور ضروری مدے پر خاطر خواہ یا یوں کَہ لیں سرے سے بات ہی نہیں ہو رہی ہے !!
مدا ہے مسلمانوں کے تئیں حکومت اور انتظامیہ کے دہرے اور متعصبانہ رویے کا، کیا ہم اس پر بات کرنے تیار ہیں؟؟
اجمیر شریف کے گدی نشین سرور چشتی، امیر جماعت اسلامی سید سعادت اللہ حسینی کے علاوہ کیا کسی نمایاں مذہبی چہرے/ادارے/خانقاہ/تنظیم نے اس مسئلے پر حکومت سے کوئی سوال کیا؟
کیا کسی وکیل/صحافی/ایکٹیوسٹ نے وزیر اعلیٰ یوپی کی متعصبانہ اور مذہبی دشمنی پر مبنی بیان بازی اور رویے پر کوئی سوال کیا؟
کیا ہائی کورٹ/سپریم کورٹ میں دوسری تنظیموں اور سماجی افراد کی مفت پیروی کرنے والے کسی مسلم وکیل نے بریلی حادثہ سمیت کانپور، گودھرا اور کاشی پور جیسے واقعات کو لیکر ہائی کورٹ/سپریم کورٹ میں کوئی رٹ پٹیشن کی؟؟
یہ وہ سوال ہیں جو ہر اس شخص سے جواب چاہتے ہیں جو کسی نہ کسی منصب/عہدے اور عوامی حلقہ سے وابستہ ہے۔
مولانا توقیر کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے۔مسلمانان بریلی جذباتی ہو سکتے ہیں۔کاشی پور کے بچے نا سمجھ ہو سکتے ہیں لیکن حکومت اور انتظامیہ کے رویے کو آپ کس خانہ میں ڈالیں گے؟؟
مہینہ بھر پہلے فتح پور یوپی میں نواب عبد الصمد کے مقبرے پر حملہ کرنے والے ہندو سنگٹھن کے لوگ آن کیمرہ ہتھیار بند تھے مگر ابھی تک یوپی پولیس کو ان کے ہتھیار نظر نہیں آئے۔اس لیے آج تک ایک بھی گرفتاری نہیں ہوئی مگر بریلی کے آن کیمرہ خالی ہاتھ دکھنے والے مسلمانوں سے بریلی پولیس کو کارتوس/پتھر/پیٹرول بوتلیں اور تمباکو کے ذخیرے مل رہے ہیں۔
29 مئی 2025 کو لکھنؤ کے حضرت گنج تھانے میں تعینات سپاہی ارجن چورسیا کو چار شرابی لڑکوں نے صرف ٹوکنے بھر پر اسی کی پولیس چوکی میں لے جا کر خوب پیٹا، وردی پھاڑ دی، سات پشتوں تک کی گالیاں دیں، بعد میں تین لڑکوں کو ہاتھوں ہاتھ تھانے ہی سے ضمانت دے دی گئی اور چوتھے لڑکے کا تو آج تک لکھنؤ پولیس کو نام تک نہیں ملا۔
ذرا سوچیں !!
فرض شناس اور چاک چوبند یوپی پولیس کی مستعدی اور بہادری لکھنؤ میں کہاں گم ہوگئی تھی؟
زیرو ٹالرینس کی بات کرنے والے یوپی وزیر اعلیٰ اس وقت قانون کی پاس داری کیوں نہیں کرا پائے؟
وجہ آپ اور ہم سب بہ خوبی سمجھتے ہیں۔
یہاں دانش ور/سیکولر اور ایکٹوسٹ طبقے کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ سبھی حضرات دیگر سماج اور افراد کے لیے تو آن واحد میں ایکٹو ہو جاتے ہیں لیکن جہاں مسلمانوں سے جڑا معاملہ سامنے آتا ہے یہ لوگ بھی یا تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا گھما پھرا کر مسلمانوں ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں۔
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
6 ربیع الثانی 1447ھ
29 ستمبر 2025 بروز پیر