قسط اول
اجتماعی قربانی ترمیم کے ساتھ
اجتماعی قربانی یا شرکت کی قربانی گوشت والی و بغیر گوشت والی کے متعلق تحقیق
عنوان:- آج کل اجتمائی قربانی کا بہت زور شور سے رواج پکڑ رہا ہے اور مختلف طریقوں سے اعلان کیا جارہا ہے اجتماعی قربانی کا ایک اعلان اس طرح اعلان کیا جاتا ہے کہ" اجتماعی حصہ والی قربانی فی حصہ 1500 روپے اور گوشت تقسیم کردیا جائے گا یا پھر 3500 فی حصہ اس حصہ میں گوشت حصے والے کو دیا جائے گا"
سوال طلب امر یہ ہے کہ اس اعلان پر قربانی کے لئے روپیہ بھیجنا اور قربانی کروانا صحیح ہے ؟کیا قربانی ہو جائے گی؟
المستفتی:- سلیم الدین کوئلی۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
الجواب بعون الملک الوہاب
آج کل اس کا رواج شروع ہوگیا ہے کچھ سال پہلے ایک دو جگہ سے اعلان ہوتا تھا اور آج کئی لوگ اس کاروبار میں مشغول ہورہے ہیں اس کو روکا جائے ورنہ کل آپ کو خود ایک دوسری صورت دیکھنی پڑی گی کہ آپ اپنے گھر پر قربانی کرنے سے محروم ہوتے چلے جائیں گے آج کبھی لاؤڈ اسپیکر سے نماز جائز کبھی موبائل سے نکاح جائز کہی تصویر جائز کا فتوی دیا جاتا ہے اب اجتماعی قربانی کو بھی ہمارے بعض حضرات بیع تطاطی کی وجہ سے جائز قرار دے رہے ہیں لیکن آنے والے نقصانات پر دھیان نہیں دے رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی اعلان کیا جائے کہ اب سب لوگ فی حصہ اتنے روپیہ ایک ہی جگہ بھیج دیں تاکہ وہاں قربانی ہوجایے ہر گھر میں کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ بعض صوبہ میں کم قیمت پر جانور مل بھی جاتا ہے تو اکثر لوگ کم قیمت فی حصہ ہونے کی وجہ سے اس میں حصہ لے سکتے ہیں اس لئے اب کہاں جائے گا ک اجتماعی قربانی میں کوئی نقص نہیں تو ہر گھر ہر گاوں ہر شہر میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور زیادہ قیمت پر حصہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے اجتماعی قربانی میں حصہ لیں اور کچھ سالوں کے بعد یہ بھی اعلان ممکن ہے کہ کیا جائے
خیر اس کے جائز و ناجائز ہونے پر اتفاق رائے نہیں ہے جیسا کہ بعض مفتیان کرام اسے بیع باطل کہتے ہیں اور بعض بیع تعاطی کہتے ہیں مثلا
محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب مبارک پور اشرفیہ فرماتے ہیں یہاں ملکیت بطور ہبہ ہے ۔اور اس میں بیع تعاطی پائی جاتی ہیں ۔جیسے ہی جانور کھول کر لے گئے کہ فلاں کی طرف سے ذبح کرنا ہے ۔تو فلاں کے لئے جانور متعین ہوتے ہی اس کے حق میں اس کی خریداری نافذ و لازم ہوجاتی ہے۔ اس لئے جائز ہے کیونکہ بیع تعاطی میں قبض من احد الجانبین کافی ہے ۔یعنی یا تو دام پر قبضہ ہوجائے یا سامان پر قبضہ ہوجایے
اور مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار صاحب فرماتے ہیں کہ اعلان کرنے والے قیمت متعین کرکے حصے فروخت کرتے ہیں تو یہ حرام ہے اور بیع باطل ہے ۔کیونکہ جو چیز ابھی بیچنے والوں کی ملکیت میں نہیں اس کو بیچ رہے ہیں اس لئے بیع باطل ہے اور بیع باطل کا حکم ہے یہ ہوتا ہے کہ قبضہ کرنے کے بعد بھی خریدار اس کا مالک نہیں ہوتا اور بیچنے والے ہر عمر بھر یہ واجب ہے کہ یہ قیمت واپس کرے
۔ اس طریقہ کار میں کئی وجوہات کی بناء پر قربانی کا حصہ لینا مناسب نہیں ہے
(1) کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ اسے نہیں معلوم ہوتا اور یہ جہالت ہے
(2) ذابح کون ہیں سنی صحیح العقیدہ مسلمان یا گمراہ مرتد یا گمراہ بدمذہب اس کی بھی خبر نہیں ہوتی ہے؛ یہ بھی جہالت ہے ہاں کچھ لوگ اس پر دھیان دیتے ہیں لیکن ہمیں خبر نہیں صرف قیاس ہے کہ سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہوگا یا صرف صحیح العقیدہ مسلمان ہی ذبح کرتے ہوں گے لیکن ہمیں اس کی خبر نہیں ہے ہاں اعلان کرنے والے پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سنی صحیح العقیدہ مسلمان ذابح ہے
(3) تیسری بات کہ یہ اعلان واٹس ایپ پر کیا جاتا ہے جو اکثر اڑیسہ، مالیگاؤں، مہاراشٹر، یوپی وغیرہ جگہوں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ بغیر حصہ لئے یہ رقم اور حصہ کا گوشت لینے پر یہ رقم جمع کریں اگر اس اعلان پر عمل کرکے کوئی شخص سیتامڑھی سے حصہ لیا تو وہ گوشت لینے اڑیسہ یا مہاراشٹر یا یوپی کیسے جائے گا ؟ٹرین سے یا ہوائی جہاز سے ، تو پتہ چلا کہ کوئی اتنی دور سے گوشت لینے نہیں جائے گا اور اس کے بدلے اسے زیادہ روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے یہ بھی شرعی غلطی ہے
(4) اسی طرح کے اعلان پر کلک رضا گروپ کے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے علاقہ گوالپوکھر اتر دیناج پور سے سستا شاید کہیں پر ہو لیکن وہاں پر بھی 2 ہزار سے زائد کا حصہ ہوتا ہے لیکن یہاں 14 سو میں ۔ تو پھر یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔
اس لحاظ سے اس میں بھی دھوکا اور جہالت ہے
(5) 1400 سو کے حساب سے سات حصے پر کل رقم 9800 ہوتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اگر سو جانور لیا گیا تو سب کو خریدنے پر اتنی ہی رقم آئے گا مثلا ایک سو جانور یا اس سے زائد جانور خریدا ہر ایک جانور 9800 ہی سو کا مل جائے گا یہ بات بھی ہضم نہیں ہوتی کہ کسی جانور پر دس ہزار بھی آسکتا ہے کوئی 8000 پر بھی مل سکتا کوئی 9000 کا بھی مل سکتا لیکن تعجب ہے سو جانور بھی خریدا جائے تو سو جانور پر 9800 سو روپیہ آرہا ہے یہ بات ہضم ہونے کے لائق نہیں ہے اسی لئے 1400 فی حصہ قیمت متعین کرکے بیچا جارہا ہے جبکہ کم و بیش بھی آسکتا ہے ہم لوگوں کے یہاں کوئی جانور 26000 کوئی 30000 کوئی 35000 کوئی 37000 یا اس سے زیادہ کے اعتبار سے ہر ایک حصے کی قیمت طے کی جاتی ہے
اس لئے اس اعلان پر کوئی شخص عمل نہ کریں
یہ ہوسکتا ہے کہ بعض علاقے میں سستے جانور ملتے ہوں گے لیکن تعجب ہے کہ ایک حصے پر 1400 ہے کرکے اعلان کیا جاتا ہے تو کیا ہر جانور پر اسی اعتبار سے رقم آئے گا کیا تمام جانور 9800 سو روپے میں مل جائیں گے یا مل گیا ہوگا یہ سمجھ سے باہر کی بات ہے۔
صورت مسئولہ کی دو صورتیں ہیں ایک صورت سے ناجائز اور دوسری صورت سے جائز ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار صاحب اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ صورت مسئولہ میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے قیمت متعین کرکے حصے فروخت کریں یہ تو حرام ہے اور بیع باطل ہے ۔ (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے)اس لئے کہ جو چیز ابھی بیچنے والوں کی ملکیت میں نہیں ہے اور اس کو بیچ رہے ہیں ۔اور بیع باطل کا حکم یہ ہوتا ہے کہ قبضہ کرنے کے بعد خریدار اس کا مالک نہیں ہوتا اور بیچنے والے پر عمر بھر یہ واجب ہے کہ یہ قیمت واپس کریں
دوسری صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم جمع کرادیں گائے (یعنی قربانی کا جانور ) خریدنے کے بعد جو فی حصہ کی قیمت ہوگی وہ لی جائے گی اور کم زیادہ کا حساب کرلیا جائے گا یہ صورت جائز تو ہے مگر اعلان کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خریدتے وقت ہر( جانور) کی قیمت علیحدہ علیحدہ طے کریں ۔پھر ایک ایک( جانور ) میں سات معین اشخاص کو شریک کریں پھر قیمت اور مصارف ملاکر ان پر تقسیم کریں اور ہر شریک سے اس کے حصہ کی قیمت وصول کریں اور ہر گائے(قربانی کا ہر وہ جانور جن میں سات حصے رکھے جاتے ہیں) کا گوشت وزن کرکے اس کے شرکاء میں تقسیم کریں ۔
یہ نہیں کرسکتے کہ جتنی گائے (قربانی کا جانور ) خریدی ہیں ان کی قیمت اور مصارف جوڑ کر سب شرکاء پر تقسیم کردیں ۔اس لئے کہ گایوں کی قیمت میں فرق ہوگا اس کو سب شرکاء کیوں برداشت کریں گے ( فتاوی مفتی اعظم بہار جلد اول ص 144 بحوالہ وقار الفتاویٰ ۔جلد دوم ۔ص 470 + 471)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلی صورت میں بغیر جانور خریدے قیمت طے کر لی گئی یہ حرام ہے کہ قربانی کا جانور بیچنے والے کی ملکیت میں ابھی تک نہیں آیا اور ایسا ہی ہوتا ہے ۔اور دوسری صورت میں جانور خرید کر قیمت طے کی گئی یہ صورت جائز ہے۔
اجتماعی قربانی ترمیم کے ساتھ
اجتماعی قربانی یا شرکت کی قربانی گوشت والی و بغیر گوشت والی کے متعلق تحقیق
عنوان:- آج کل اجتمائی قربانی کا بہت زور شور سے رواج پکڑ رہا ہے اور مختلف طریقوں سے اعلان کیا جارہا ہے اجتماعی قربانی کا ایک اعلان اس طرح اعلان کیا جاتا ہے کہ" اجتماعی حصہ والی قربانی فی حصہ 1500 روپے اور گوشت تقسیم کردیا جائے گا یا پھر 3500 فی حصہ اس حصہ میں گوشت حصے والے کو دیا جائے گا"
سوال طلب امر یہ ہے کہ اس اعلان پر قربانی کے لئے روپیہ بھیجنا اور قربانی کروانا صحیح ہے ؟کیا قربانی ہو جائے گی؟
المستفتی:- سلیم الدین کوئلی۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
الجواب بعون الملک الوہاب
آج کل اس کا رواج شروع ہوگیا ہے کچھ سال پہلے ایک دو جگہ سے اعلان ہوتا تھا اور آج کئی لوگ اس کاروبار میں مشغول ہورہے ہیں اس کو روکا جائے ورنہ کل آپ کو خود ایک دوسری صورت دیکھنی پڑی گی کہ آپ اپنے گھر پر قربانی کرنے سے محروم ہوتے چلے جائیں گے آج کبھی لاؤڈ اسپیکر سے نماز جائز کبھی موبائل سے نکاح جائز کہی تصویر جائز کا فتوی دیا جاتا ہے اب اجتماعی قربانی کو بھی ہمارے بعض حضرات بیع تطاطی کی وجہ سے جائز قرار دے رہے ہیں لیکن آنے والے نقصانات پر دھیان نہیں دے رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی اعلان کیا جائے کہ اب سب لوگ فی حصہ اتنے روپیہ ایک ہی جگہ بھیج دیں تاکہ وہاں قربانی ہوجایے ہر گھر میں کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ بعض صوبہ میں کم قیمت پر جانور مل بھی جاتا ہے تو اکثر لوگ کم قیمت فی حصہ ہونے کی وجہ سے اس میں حصہ لے سکتے ہیں اس لئے اب کہاں جائے گا ک اجتماعی قربانی میں کوئی نقص نہیں تو ہر گھر ہر گاوں ہر شہر میں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور زیادہ قیمت پر حصہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے اجتماعی قربانی میں حصہ لیں اور کچھ سالوں کے بعد یہ بھی اعلان ممکن ہے کہ کیا جائے
خیر اس کے جائز و ناجائز ہونے پر اتفاق رائے نہیں ہے جیسا کہ بعض مفتیان کرام اسے بیع باطل کہتے ہیں اور بعض بیع تعاطی کہتے ہیں مثلا
محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب مبارک پور اشرفیہ فرماتے ہیں یہاں ملکیت بطور ہبہ ہے ۔اور اس میں بیع تعاطی پائی جاتی ہیں ۔جیسے ہی جانور کھول کر لے گئے کہ فلاں کی طرف سے ذبح کرنا ہے ۔تو فلاں کے لئے جانور متعین ہوتے ہی اس کے حق میں اس کی خریداری نافذ و لازم ہوجاتی ہے۔ اس لئے جائز ہے کیونکہ بیع تعاطی میں قبض من احد الجانبین کافی ہے ۔یعنی یا تو دام پر قبضہ ہوجائے یا سامان پر قبضہ ہوجایے
اور مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار صاحب فرماتے ہیں کہ اعلان کرنے والے قیمت متعین کرکے حصے فروخت کرتے ہیں تو یہ حرام ہے اور بیع باطل ہے ۔کیونکہ جو چیز ابھی بیچنے والوں کی ملکیت میں نہیں اس کو بیچ رہے ہیں اس لئے بیع باطل ہے اور بیع باطل کا حکم ہے یہ ہوتا ہے کہ قبضہ کرنے کے بعد بھی خریدار اس کا مالک نہیں ہوتا اور بیچنے والے ہر عمر بھر یہ واجب ہے کہ یہ قیمت واپس کرے
۔ اس طریقہ کار میں کئی وجوہات کی بناء پر قربانی کا حصہ لینا مناسب نہیں ہے
(1) کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ اسے نہیں معلوم ہوتا اور یہ جہالت ہے
(2) ذابح کون ہیں سنی صحیح العقیدہ مسلمان یا گمراہ مرتد یا گمراہ بدمذہب اس کی بھی خبر نہیں ہوتی ہے؛ یہ بھی جہالت ہے ہاں کچھ لوگ اس پر دھیان دیتے ہیں لیکن ہمیں خبر نہیں صرف قیاس ہے کہ سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہوگا یا صرف صحیح العقیدہ مسلمان ہی ذبح کرتے ہوں گے لیکن ہمیں اس کی خبر نہیں ہے ہاں اعلان کرنے والے پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سنی صحیح العقیدہ مسلمان ذابح ہے
(3) تیسری بات کہ یہ اعلان واٹس ایپ پر کیا جاتا ہے جو اکثر اڑیسہ، مالیگاؤں، مہاراشٹر، یوپی وغیرہ جگہوں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ بغیر حصہ لئے یہ رقم اور حصہ کا گوشت لینے پر یہ رقم جمع کریں اگر اس اعلان پر عمل کرکے کوئی شخص سیتامڑھی سے حصہ لیا تو وہ گوشت لینے اڑیسہ یا مہاراشٹر یا یوپی کیسے جائے گا ؟ٹرین سے یا ہوائی جہاز سے ، تو پتہ چلا کہ کوئی اتنی دور سے گوشت لینے نہیں جائے گا اور اس کے بدلے اسے زیادہ روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے یہ بھی شرعی غلطی ہے
(4) اسی طرح کے اعلان پر کلک رضا گروپ کے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے علاقہ گوالپوکھر اتر دیناج پور سے سستا شاید کہیں پر ہو لیکن وہاں پر بھی 2 ہزار سے زائد کا حصہ ہوتا ہے لیکن یہاں 14 سو میں ۔ تو پھر یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔
اس لحاظ سے اس میں بھی دھوکا اور جہالت ہے
(5) 1400 سو کے حساب سے سات حصے پر کل رقم 9800 ہوتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اگر سو جانور لیا گیا تو سب کو خریدنے پر اتنی ہی رقم آئے گا مثلا ایک سو جانور یا اس سے زائد جانور خریدا ہر ایک جانور 9800 ہی سو کا مل جائے گا یہ بات بھی ہضم نہیں ہوتی کہ کسی جانور پر دس ہزار بھی آسکتا ہے کوئی 8000 پر بھی مل سکتا کوئی 9000 کا بھی مل سکتا لیکن تعجب ہے سو جانور بھی خریدا جائے تو سو جانور پر 9800 سو روپیہ آرہا ہے یہ بات ہضم ہونے کے لائق نہیں ہے اسی لئے 1400 فی حصہ قیمت متعین کرکے بیچا جارہا ہے جبکہ کم و بیش بھی آسکتا ہے ہم لوگوں کے یہاں کوئی جانور 26000 کوئی 30000 کوئی 35000 کوئی 37000 یا اس سے زیادہ کے اعتبار سے ہر ایک حصے کی قیمت طے کی جاتی ہے
اس لئے اس اعلان پر کوئی شخص عمل نہ کریں
یہ ہوسکتا ہے کہ بعض علاقے میں سستے جانور ملتے ہوں گے لیکن تعجب ہے کہ ایک حصے پر 1400 ہے کرکے اعلان کیا جاتا ہے تو کیا ہر جانور پر اسی اعتبار سے رقم آئے گا کیا تمام جانور 9800 سو روپے میں مل جائیں گے یا مل گیا ہوگا یہ سمجھ سے باہر کی بات ہے۔
صورت مسئولہ کی دو صورتیں ہیں ایک صورت سے ناجائز اور دوسری صورت سے جائز ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار صاحب اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ صورت مسئولہ میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے قیمت متعین کرکے حصے فروخت کریں یہ تو حرام ہے اور بیع باطل ہے ۔ (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے)اس لئے کہ جو چیز ابھی بیچنے والوں کی ملکیت میں نہیں ہے اور اس کو بیچ رہے ہیں ۔اور بیع باطل کا حکم یہ ہوتا ہے کہ قبضہ کرنے کے بعد خریدار اس کا مالک نہیں ہوتا اور بیچنے والے پر عمر بھر یہ واجب ہے کہ یہ قیمت واپس کریں
دوسری صورت یہ ہے کہ اعلان کرنے والے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم جمع کرادیں گائے (یعنی قربانی کا جانور ) خریدنے کے بعد جو فی حصہ کی قیمت ہوگی وہ لی جائے گی اور کم زیادہ کا حساب کرلیا جائے گا یہ صورت جائز تو ہے مگر اعلان کرنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ خریدتے وقت ہر( جانور) کی قیمت علیحدہ علیحدہ طے کریں ۔پھر ایک ایک( جانور ) میں سات معین اشخاص کو شریک کریں پھر قیمت اور مصارف ملاکر ان پر تقسیم کریں اور ہر شریک سے اس کے حصہ کی قیمت وصول کریں اور ہر گائے(قربانی کا ہر وہ جانور جن میں سات حصے رکھے جاتے ہیں) کا گوشت وزن کرکے اس کے شرکاء میں تقسیم کریں ۔
یہ نہیں کرسکتے کہ جتنی گائے (قربانی کا جانور ) خریدی ہیں ان کی قیمت اور مصارف جوڑ کر سب شرکاء پر تقسیم کردیں ۔اس لئے کہ گایوں کی قیمت میں فرق ہوگا اس کو سب شرکاء کیوں برداشت کریں گے ( فتاوی مفتی اعظم بہار جلد اول ص 144 بحوالہ وقار الفتاویٰ ۔جلد دوم ۔ص 470 + 471)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلی صورت میں بغیر جانور خریدے قیمت طے کر لی گئی یہ حرام ہے کہ قربانی کا جانور بیچنے والے کی ملکیت میں ابھی تک نہیں آیا اور ایسا ہی ہوتا ہے ۔اور دوسری صورت میں جانور خرید کر قیمت طے کی گئی یہ صورت جائز ہے۔
(فتاوی مفتی اعظم بہار جلد اول ص 145)
یا پھر جانور خریدنے کے پہلے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم یعنی مثلا 4000 فی حصہ جمع کرادیں قربانی کرنے والے نے جمع کردیا اب جو جانور خرید کر لایا گیا اس کی قیمت فی حصہ 3500 آیا تو باقی 500روپیہ اسے واپس کردیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے اس لئے یہ 500روپیہ اس پر قرض باقی رہ جائے گا واپس کرنا واجب ہوگا اگر اس دنیا میں نہیں دیا تو آخرت میں اس کی نیکیاں اس کو دی جائے گی لہذا اس طرح کا اعلان نہ کریں تو بہتر ہے ۔
پھر یہ بھی اشکال رہتا ہے کہ کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ بھی متعین نہ ہوپاتا ہے ہاں اگر شرعی اعتبار سے کام کریں تو جائز ہے ورنہ نہیں لہذا صورت مسئولہ میں طریقہء اعلان غلط ہے کیونکہ اس میں ایک مقرر قیمت متعین کرکے حصے فروخت کیا جارہا ہے جبکہ ہر جانور کا ایک ہی دام نہیں ہوسکتا ہے کوئی 9000 کا کوئی 12000 کا کوئی 20000 کا تو کوئی 30000 کا یا اس سے کم یا زیادہ بھی آسکتا ہے تو پھر ایک مقرر دام کیسے متعین کرسکتے ہیں لہذا یہ دھوکہ ہے اس سے بچنا ہی بہتر ہے
اجتماعی قربانی افضل طریقہ کے خلاف ہے
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اور بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو حکم دے وہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی حاضر ہو۔
یا پھر جانور خریدنے کے پہلے یہ اعلان کریں کہ قربانی کرنے والے اتنی رقم یعنی مثلا 4000 فی حصہ جمع کرادیں قربانی کرنے والے نے جمع کردیا اب جو جانور خرید کر لایا گیا اس کی قیمت فی حصہ 3500 آیا تو باقی 500روپیہ اسے واپس کردیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے اس لئے یہ 500روپیہ اس پر قرض باقی رہ جائے گا واپس کرنا واجب ہوگا اگر اس دنیا میں نہیں دیا تو آخرت میں اس کی نیکیاں اس کو دی جائے گی لہذا اس طرح کا اعلان نہ کریں تو بہتر ہے ۔
پھر یہ بھی اشکال رہتا ہے کہ کس جانور میں کس کا حصہ ہے یہ بھی متعین نہ ہوپاتا ہے ہاں اگر شرعی اعتبار سے کام کریں تو جائز ہے ورنہ نہیں لہذا صورت مسئولہ میں طریقہء اعلان غلط ہے کیونکہ اس میں ایک مقرر قیمت متعین کرکے حصے فروخت کیا جارہا ہے جبکہ ہر جانور کا ایک ہی دام نہیں ہوسکتا ہے کوئی 9000 کا کوئی 12000 کا کوئی 20000 کا تو کوئی 30000 کا یا اس سے کم یا زیادہ بھی آسکتا ہے تو پھر ایک مقرر دام کیسے متعین کرسکتے ہیں لہذا یہ دھوکہ ہے اس سے بچنا ہی بہتر ہے
اجتماعی قربانی افضل طریقہ کے خلاف ہے
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اور بہتر یہ ہے کہ اپنی قربانی اپنے ہاتھ سے کرے اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور اگر اچھی طرح نہ جانتا ہو تو دوسرے کو حکم دے وہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی حاضر ہو۔
(شرح بہار شریعت قربانی کے بعض مستحبات جلد پانزدہم ص 221)
اس عبارت سے واضح ہوا کہ قربانی خود کرے کہ یہ بہتر ہے اور اگر اچھی طرح قربانی کرنا نہیں جانتا تو دوسرے کو حکم دے کہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی حاضر ہو۔ اور اس کی دلیل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا :
اس عبارت سے واضح ہوا کہ قربانی خود کرے کہ یہ بہتر ہے اور اگر اچھی طرح قربانی کرنا نہیں جانتا تو دوسرے کو حکم دے کہ ذبح کرے مگر اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ وقت قربانی حاضر ہو۔ اور اس کی دلیل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا :
کھڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ کہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو کچھ گناہ کئے ہیں سب کی مغفرت ہوجایے گی اس پر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا نبی اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا) یہ آپ کی آل کے لئے خاص ہے یا آپ کی آل کے بھی لئے ہے اور عامہ مسلمین کے لئے بھی فرمایا کہ میری ال کے لئے خاص بھی ہے اور تمام مسلمین کے لئے عام بھی ہے۔
(شرح بہار شریعت جلد پانزدہم قربانے کے بعض مستحبات ص 221)
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ آج کل کے اعلان کے مطابق اگر سیتامڑھی کے لوگ مظفر پور یا پٹنہ یا یوپی یا ممبئی یا اڑیسہ وغیرہ جگہوں پر اجتماعی قربانی میں حصہ لیا تو نہ وہ خود جاکر ذبح کرسکتا ہے اور نہ ذبح کے وقت جانور کے سامنے حاضر رہ سکتا ہے گویا کہ یہ دونوں کام بہتر کے خلاف ہے یہ اجتماعی قربانی مستحب کے خلاف بھی ہے
اجتماعی قربانی میں کئی خرابیاں ہیں
(1) میرا حصہ کس جانور میں ہے
(2) اس کا رنگ کیا ہے
(3) وہ جانور فربہ ہے یا دبلا
(4) وہ جانور تندرست ہے یا بیمار
(5) وہ جانور عیوب سے خالی ہے یا نہیں
(6) اگر ایک حصہ کی قیمت 2500 روپے ہیں اس لحاظ سے ایک جانور کا دام 17500 ہوتا تو کیا سو جانوروں کا ایک ہی قیمت یعنی 17500 ہے اور آپ کہیں گے کہ ہر ایک جانور کی قیمت 17500 ہی ہے تو یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ بازار میں قیمت ہر جانور کا الگ الگ ہوتا ہے اگر کمزور و عیب والا ہے تو کم قیمت اور اگر کافی فربہ و خوبصورت ہے تو قیمت میں سب سے زائد اور درمیانہ فربہ ہے تو درمیانہ قیمت اور اگر سب جانور کی قیمت الگ الگ ہے تو ہر حصہ کا روپیہ الگ الگ ہی ہوگا نہ کہ ہر جانور میں ہر ایک حصہ 2500 روپیہ ہی کا ہوگا اور یہ چیز ماننے کے لائق نہیں ہے
(7) جب ان سب باتوں میں جہالت ہے تو اس سے بچنا ضروری ہے
(8) سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے باعث ثواب و مغفرت ہے اور اپنے گھر میں کرنے سے سب لوگوں کو خوشی ہوتی ہے کہ میری قربانی ذبح ہورہی ہے بچے خوش ہوتے ہیں عورتیں پکانے میں مشغول ہوجاتی ہیں اس سب سے بھی آپ محروم ہو جائیں گے
(8) پھر گوشت کو تین حصہ کرنا مستحب ہے اور ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے ایک اپنے لئے ایک تقسیم کے لئے اس سے بھی آپ محروم ہوں جائیں گے اور قربانی کی جو خوشی ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہوگی
(9) پھر اگر اس کا رواج دیں گے تو کل آپ سے کہا جائے گا کہ جب آپ کی شریعث میں اجتماعی قربانی جائز ہے اور قربانی ہوجاتی ہے تو پھر آپ لوگ ہر گھر میں ہر محلہ میں ہر گاوں و شہر میں نہ کریں بلکہ ہر ضلع کے لوگ ضلع میں سنٹر بنواکر قربانی کا روپیہ بھیج دیں وہیں ذبح کردیا جائے گا یہ صورت بھی ممکن ہے کہ آپ کو دیکھنا پڑے
ان تمام باتوں کے مدنظر اجتماعی قربانی کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے
(10) جب آپ اپنی قربانی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو پھر آپ کے دل میں ذوق پیدا ہوتا ہے خوشی ملتی ہے پھر آپ کے اس ذوق و خوشی پر ثواب ملتا ہے پھر آپ جانور خریدنے کی نیت کرتے ہیں اس نیت پر ثواب ملتا ہے پھر آپ جانور خریدنے کے لئے گاؤں گاؤں بازار و بازار جاتے ہیں اس دوڑ دھوپ کا آپ کو ثواب ملتا ہے پھر جانور خرید کر اپنے گھر لاتے ہیں تو گھر کے بچے بچیاں عورتیں خوشی مناتی ہیں اور اس پر دھیان کے ساتھ کھلاتی پلاتی ہیں اس سب پر بھی ان سب کو ثواب ملتا ہے اور اگر آپ اجتماعی قربانی میں حصہ لیتے ہیں تو یقینا ان تمام خوشیوں سے آپ اور آپ کے بچے اور گھر کے بزرگ مرد و عورت محروم رہتے ہیں اور ساتھ میں ان تمام ثواب سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور آپ اور آپ کے بچے اہل وعیال خویش و اقارب کوئی بھی اپنی قربانی کا بابرکت گوشت نہیں کھا سکتے ہیں یہ کس قدر افسوس کی بات ہے اس لئے اس سے بچتے رہیں
(11) ذبح کے وقت جن کے نام سے قربانی ہے اس کا جانور کے سامنے رہنا مستحب ہے اور مستحب پر ثواب حاصل ہوتا ہے ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مستحب کام سے خوش ہوکر آپ کی مغفرت فرمادے لیکن اجتماعی قربانی میں آپ اس مستحب ثواب سے محروم رہیں گے۔ اور
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا
کھڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ کہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو کچھ گناہ کئے ہیں سب کی مغفرت ہوجایے گی(حدیث شریف)
اب کوئی دور دراز اپنے نام سے قربانی کرنے کا حصہ لیا تو وقت قربانی وہ اپنی قربانی کے پاس کھڑے ہوکر خون کا پہلا قطرہ نہیں دیکھ سکے گا اور اس دیکھنے والی نعمت عظمی سے بھی محروم ہو جائیں گے اس لئے اجتماعی قربانی کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور اس میں بالکل حصہ نہیں لیں کہ مستحب ثواب سے محروم ہو جائیں گے اگرچہ خلاف مستحب گناہ نہیں ہے مگر مستحب پر عمل ثواب ہے اور ثواب کے لئے نیک کام کیا جاتا ہے
(12) اجتماعی قربانی جو دور دراز کرواتے ہیں اس میں ایک یہ بھی خرابی ہے کہ گوشت کا طرح تقسیم کرتے ہیں چونکہ جس کی قربانی ہے وہ وہاں پر موجود نہیں ہے اور ایک دو قربانی نہیں کہ تقسیم گوشت پر دھیان ہو وہاں تو سیکڑوں کے ناموں سے قربانیاں ہوتی ہے اگر تقسیم برابر برابر وزن سے نہیں کرتے وہ بھی ایک گناہ ہے اس لحاظ سے بھی بچنا مناسب ہے جیسا کہ بہار شریعت میں ہے کہ
شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضرور ہے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ ہو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی زائد یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک اس کو دوسرے کے لئے جائز کردے گا کہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچ گیا تو معاف کیا کہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے اور ان کو معاف کرنے کا حق نہیں۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ آج کل کے اعلان کے مطابق اگر سیتامڑھی کے لوگ مظفر پور یا پٹنہ یا یوپی یا ممبئی یا اڑیسہ وغیرہ جگہوں پر اجتماعی قربانی میں حصہ لیا تو نہ وہ خود جاکر ذبح کرسکتا ہے اور نہ ذبح کے وقت جانور کے سامنے حاضر رہ سکتا ہے گویا کہ یہ دونوں کام بہتر کے خلاف ہے یہ اجتماعی قربانی مستحب کے خلاف بھی ہے
اجتماعی قربانی میں کئی خرابیاں ہیں
(1) میرا حصہ کس جانور میں ہے
(2) اس کا رنگ کیا ہے
(3) وہ جانور فربہ ہے یا دبلا
(4) وہ جانور تندرست ہے یا بیمار
(5) وہ جانور عیوب سے خالی ہے یا نہیں
(6) اگر ایک حصہ کی قیمت 2500 روپے ہیں اس لحاظ سے ایک جانور کا دام 17500 ہوتا تو کیا سو جانوروں کا ایک ہی قیمت یعنی 17500 ہے اور آپ کہیں گے کہ ہر ایک جانور کی قیمت 17500 ہی ہے تو یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ بازار میں قیمت ہر جانور کا الگ الگ ہوتا ہے اگر کمزور و عیب والا ہے تو کم قیمت اور اگر کافی فربہ و خوبصورت ہے تو قیمت میں سب سے زائد اور درمیانہ فربہ ہے تو درمیانہ قیمت اور اگر سب جانور کی قیمت الگ الگ ہے تو ہر حصہ کا روپیہ الگ الگ ہی ہوگا نہ کہ ہر جانور میں ہر ایک حصہ 2500 روپیہ ہی کا ہوگا اور یہ چیز ماننے کے لائق نہیں ہے
(7) جب ان سب باتوں میں جہالت ہے تو اس سے بچنا ضروری ہے
(8) سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے باعث ثواب و مغفرت ہے اور اپنے گھر میں کرنے سے سب لوگوں کو خوشی ہوتی ہے کہ میری قربانی ذبح ہورہی ہے بچے خوش ہوتے ہیں عورتیں پکانے میں مشغول ہوجاتی ہیں اس سب سے بھی آپ محروم ہو جائیں گے
(8) پھر گوشت کو تین حصہ کرنا مستحب ہے اور ایک حصہ رشتہ داروں کے لئے ایک اپنے لئے ایک تقسیم کے لئے اس سے بھی آپ محروم ہوں جائیں گے اور قربانی کی جو خوشی ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہوگی
(9) پھر اگر اس کا رواج دیں گے تو کل آپ سے کہا جائے گا کہ جب آپ کی شریعث میں اجتماعی قربانی جائز ہے اور قربانی ہوجاتی ہے تو پھر آپ لوگ ہر گھر میں ہر محلہ میں ہر گاوں و شہر میں نہ کریں بلکہ ہر ضلع کے لوگ ضلع میں سنٹر بنواکر قربانی کا روپیہ بھیج دیں وہیں ذبح کردیا جائے گا یہ صورت بھی ممکن ہے کہ آپ کو دیکھنا پڑے
ان تمام باتوں کے مدنظر اجتماعی قربانی کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے
(10) جب آپ اپنی قربانی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو پھر آپ کے دل میں ذوق پیدا ہوتا ہے خوشی ملتی ہے پھر آپ کے اس ذوق و خوشی پر ثواب ملتا ہے پھر آپ جانور خریدنے کی نیت کرتے ہیں اس نیت پر ثواب ملتا ہے پھر آپ جانور خریدنے کے لئے گاؤں گاؤں بازار و بازار جاتے ہیں اس دوڑ دھوپ کا آپ کو ثواب ملتا ہے پھر جانور خرید کر اپنے گھر لاتے ہیں تو گھر کے بچے بچیاں عورتیں خوشی مناتی ہیں اور اس پر دھیان کے ساتھ کھلاتی پلاتی ہیں اس سب پر بھی ان سب کو ثواب ملتا ہے اور اگر آپ اجتماعی قربانی میں حصہ لیتے ہیں تو یقینا ان تمام خوشیوں سے آپ اور آپ کے بچے اور گھر کے بزرگ مرد و عورت محروم رہتے ہیں اور ساتھ میں ان تمام ثواب سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور آپ اور آپ کے بچے اہل وعیال خویش و اقارب کوئی بھی اپنی قربانی کا بابرکت گوشت نہیں کھا سکتے ہیں یہ کس قدر افسوس کی بات ہے اس لئے اس سے بچتے رہیں
(11) ذبح کے وقت جن کے نام سے قربانی ہے اس کا جانور کے سامنے رہنا مستحب ہے اور مستحب پر ثواب حاصل ہوتا ہے ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مستحب کام سے خوش ہوکر آپ کی مغفرت فرمادے لیکن اجتماعی قربانی میں آپ اس مستحب ثواب سے محروم رہیں گے۔ اور
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا
کھڑی ہوجاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجاؤ کہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو کچھ گناہ کئے ہیں سب کی مغفرت ہوجایے گی(حدیث شریف)
اب کوئی دور دراز اپنے نام سے قربانی کرنے کا حصہ لیا تو وقت قربانی وہ اپنی قربانی کے پاس کھڑے ہوکر خون کا پہلا قطرہ نہیں دیکھ سکے گا اور اس دیکھنے والی نعمت عظمی سے بھی محروم ہو جائیں گے اس لئے اجتماعی قربانی کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور اس میں بالکل حصہ نہیں لیں کہ مستحب ثواب سے محروم ہو جائیں گے اگرچہ خلاف مستحب گناہ نہیں ہے مگر مستحب پر عمل ثواب ہے اور ثواب کے لئے نیک کام کیا جاتا ہے
(12) اجتماعی قربانی جو دور دراز کرواتے ہیں اس میں ایک یہ بھی خرابی ہے کہ گوشت کا طرح تقسیم کرتے ہیں چونکہ جس کی قربانی ہے وہ وہاں پر موجود نہیں ہے اور ایک دو قربانی نہیں کہ تقسیم گوشت پر دھیان ہو وہاں تو سیکڑوں کے ناموں سے قربانیاں ہوتی ہے اگر تقسیم برابر برابر وزن سے نہیں کرتے وہ بھی ایک گناہ ہے اس لحاظ سے بھی بچنا مناسب ہے جیسا کہ بہار شریعت میں ہے کہ
شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضرور ہے کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ ہو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کسی زائد یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک اس کو دوسرے کے لئے جائز کردے گا کہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچ گیا تو معاف کیا کہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے اور ان کو معاف کرنے کا حق نہیں۔
(شرح بہار شریعت جلد پانزدہم ص 210 بحوالہ الدرمختار ۔کتاب الاضحیۃ جلد 9 ص 537)
اس سے معلوم ہوا کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے ۔اندازہ سے نہ کیا جائے اور اجتماعی قربانی میں کسی کو زیادہ یا کسی کو کم ملنے کا احتمال ہے ۔اور یہ ناجائز ہے
(13) اس اجتماع قربانی میں یہ بھی ایک احتمال ہے کہ رقم جمع کرنے والے کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کی قرآنی ہوئی یا نہیں یا قربانی متعین وقت پر ہوئی یا نہیں ؟ یا سرے سے قربانی ہی نہیں ہوئی یا تقسیم گوشت اندازہ سے کیا گیا یا وزن سے ان تمام باتوں پر دھیان دیتے ہوئے
اس سے بچنا ہی مناسب ہے
اسی طرح حج کے موقع پر حکومت کمپنی کے ذریعہ قربانی کے لئے جانور کا روپیہ جمع کراتی ہے اس کے متعلق شرعی کونسل آف بریلی شریف کا یہ فیصلہ ہے کہ رقم جمع کرنے والے کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کی قربانی متعین وقت پر ہوئی یا نہیں؟ یا یہ کہ سرے سے قربانی ہی نہیں ہوئی ۔اسی طرح یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ رمی ۔قربانی سے پہلے کرلی ۔نہ ہی معلوم ہوپاتا کہ حلق یا قصر سے پہلے قربانی ہوچکی ہے ۔خصوصا سعودی قربانی بینکوں میں ہر گز قربانی کی رقم نہ دی جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے ۔اندازہ سے نہ کیا جائے اور اجتماعی قربانی میں کسی کو زیادہ یا کسی کو کم ملنے کا احتمال ہے ۔اور یہ ناجائز ہے
(13) اس اجتماع قربانی میں یہ بھی ایک احتمال ہے کہ رقم جمع کرنے والے کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کی قرآنی ہوئی یا نہیں یا قربانی متعین وقت پر ہوئی یا نہیں ؟ یا سرے سے قربانی ہی نہیں ہوئی یا تقسیم گوشت اندازہ سے کیا گیا یا وزن سے ان تمام باتوں پر دھیان دیتے ہوئے
اس سے بچنا ہی مناسب ہے
اسی طرح حج کے موقع پر حکومت کمپنی کے ذریعہ قربانی کے لئے جانور کا روپیہ جمع کراتی ہے اس کے متعلق شرعی کونسل آف بریلی شریف کا یہ فیصلہ ہے کہ رقم جمع کرنے والے کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کی قربانی متعین وقت پر ہوئی یا نہیں؟ یا یہ کہ سرے سے قربانی ہی نہیں ہوئی ۔اسی طرح یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ رمی ۔قربانی سے پہلے کرلی ۔نہ ہی معلوم ہوپاتا کہ حلق یا قصر سے پہلے قربانی ہوچکی ہے ۔خصوصا سعودی قربانی بینکوں میں ہر گز قربانی کی رقم نہ دی جائے۔
(فیصلہ جات شرعی کونسل ص 296 ۔297.)
(14)
قربانی میں ملکیت پایا جانا ضروری ہے اور اجتماعی قربانی میں دونوں احتمال ہے کہ ملکیت پائی گئی اور نہ بھی پائی گئی اس لئے اس سے بچنا مناسب ہے
(14) جب شروع وقت سے لوگ اپنے گاؤں یا شہر یا گھر میں قربانی کرتے آرہے ہیں تو پھر اس نئے روزگار میں شامل ہونے کی کیا ضرورت جب کہ اس میں جائز و ناجائز دونوں صورت موجود ہے جیسے حلال کام میں تیس روپیہ مہینہ پاتا ہے اور نصرانی ناقوس بجانے پر ڈیڑھ سو روپے ماہوار دیں گے ۔اس منفعت کے لئے یہ نوکری جائز نہیں۔
(14)
قربانی میں ملکیت پایا جانا ضروری ہے اور اجتماعی قربانی میں دونوں احتمال ہے کہ ملکیت پائی گئی اور نہ بھی پائی گئی اس لئے اس سے بچنا مناسب ہے
(14) جب شروع وقت سے لوگ اپنے گاؤں یا شہر یا گھر میں قربانی کرتے آرہے ہیں تو پھر اس نئے روزگار میں شامل ہونے کی کیا ضرورت جب کہ اس میں جائز و ناجائز دونوں صورت موجود ہے جیسے حلال کام میں تیس روپیہ مہینہ پاتا ہے اور نصرانی ناقوس بجانے پر ڈیڑھ سو روپے ماہوار دیں گے ۔اس منفعت کے لئے یہ نوکری جائز نہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 21 ص 209)
یعنی جائز نوکری دس ہزار روپیہ کی ملتی ہے اور ناجائز بیس ہزار روپیہ کی ملتی ہے تو نفع کے لئے ناجائز کو اختیار کرنا حرام ہے
شریعت میں تو جس چیز میں شبہ ہو اس سے بچنا کا حکم ہے اس لئے اس سے بچا جائے اگرچہ بعض نے جائز قرار دیا اور بعض نے ناجائز قرار دیا اور بعض نے بعض طریقہ سے جائز اور بعض طریقہ سے ناجائز سب حکم ہے تو احوط بچنا ہی ہے
(15) ذبح کرنے والے کو قربانی کرنے والے سے اجازت لینا ضروری ہے اور اس اجتماعی قربانی میں اعلان کوئی اور کرتے ہیں اس کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن ذابح کون ہیں اس کا علم نہیں ہوتا اور نہ ذابح قربانی کروانے والے سے اجازت لیتے ہیں یہ بھی ایک شرعی خرابی ہے۔
یعنی جائز نوکری دس ہزار روپیہ کی ملتی ہے اور ناجائز بیس ہزار روپیہ کی ملتی ہے تو نفع کے لئے ناجائز کو اختیار کرنا حرام ہے
شریعت میں تو جس چیز میں شبہ ہو اس سے بچنا کا حکم ہے اس لئے اس سے بچا جائے اگرچہ بعض نے جائز قرار دیا اور بعض نے ناجائز قرار دیا اور بعض نے بعض طریقہ سے جائز اور بعض طریقہ سے ناجائز سب حکم ہے تو احوط بچنا ہی ہے
(15) ذبح کرنے والے کو قربانی کرنے والے سے اجازت لینا ضروری ہے اور اس اجتماعی قربانی میں اعلان کوئی اور کرتے ہیں اس کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن ذابح کون ہیں اس کا علم نہیں ہوتا اور نہ ذابح قربانی کروانے والے سے اجازت لیتے ہیں یہ بھی ایک شرعی خرابی ہے۔
حضور شارح ںخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
یہ ضروری ہے کہ جو شخص قربانی کا جانور ذبح کرے وہ تمام قربانی کرنے والوں سے اجازت لے لے۔
یہ ضروری ہے کہ جو شخص قربانی کا جانور ذبح کرے وہ تمام قربانی کرنے والوں سے اجازت لے لے۔
(فتاوی جامعہ اشرفیہ جلد 10 ص 688 قربانی کے احکام )
اس تحریر میں لفظ ضروری پر غور کریں
(16) اونٹ بھینس وغیرہ کے تمام شرکا قربانی کی جگہ موجود رہنا ضروری نہیں ۔لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کے علم میں ہوکہ فلاں جانور میں میرا حصہ ہے اور اس کی نیت قربانی کی ہوگی ہو اگر وہ نیت نہیں کرے گا تو اس کی طرف سے قربانی نہیں ہوگی ۔جب اس کی طرف سے نہیں ہوگی تو کسی کی طرف سے نہیں ہوگی۔
اس تحریر میں لفظ ضروری پر غور کریں
(16) اونٹ بھینس وغیرہ کے تمام شرکا قربانی کی جگہ موجود رہنا ضروری نہیں ۔لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کے علم میں ہوکہ فلاں جانور میں میرا حصہ ہے اور اس کی نیت قربانی کی ہوگی ہو اگر وہ نیت نہیں کرے گا تو اس کی طرف سے قربانی نہیں ہوگی ۔جب اس کی طرف سے نہیں ہوگی تو کسی کی طرف سے نہیں ہوگی۔
(فتاویٰ جامعہ اشرفیہ جلد دہم ص 731)
اور اجتماعی قربانی میں یہ معلوم نہیں کہ میرا حصہ کس جانور میں ہے کیونکہ اعلان کرنے والا ممبئی میں ہے اور حصہ لینے والا سیتامڑھی میں ہے یہ بھی ایک خرابی ہے
(17) قصاب کون ہیں اور کیا جانور کی عمر صحیح ہے ؟ اس کا بھی علم نہیں ہوتا ہے اور حضور شارح ںخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ قصاب لائق اعتماد نہیں اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے ۔ان کا حال یہ ہے کہ قربانی کے لئے جو جانور بیچنے کو لاتے ہیں ان کے عیوب کو طرح طرح سے چھپاتے ہیں ۔عمر ک یہم ہوتی ہے اور قسم کھاکر زیادہ بتاتے ہیں ۔ایسی صورت میں ان کو قربانی کا سو فیصد مالک بنا دینا کسی طرح مناسب نہیں (فتاویٰ جامعہ اشرفیہ جلد دہم ص 732)
اور یہاں قصاب نظروں سے غائب ہے اس لئے اس کو کلی اختیار دینا بھی مناسب نہیں ہے
(18)
حضور شارح ںخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
اسی طرح اگر گوشت کم وبیش تقسیم کیا تو بھی قربانی صحیح ہوگئی ۔اگرچہ ایسا کرنا ممنوع ہے ۔ضروری ہے کہ تمام شرکا کا گوشت تول کر برابر کرلیں۔
اور اجتماعی قربانی میں یہ معلوم نہیں کہ میرا حصہ کس جانور میں ہے کیونکہ اعلان کرنے والا ممبئی میں ہے اور حصہ لینے والا سیتامڑھی میں ہے یہ بھی ایک خرابی ہے
(17) قصاب کون ہیں اور کیا جانور کی عمر صحیح ہے ؟ اس کا بھی علم نہیں ہوتا ہے اور حضور شارح ںخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ قصاب لائق اعتماد نہیں اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے ۔ان کا حال یہ ہے کہ قربانی کے لئے جو جانور بیچنے کو لاتے ہیں ان کے عیوب کو طرح طرح سے چھپاتے ہیں ۔عمر ک یہم ہوتی ہے اور قسم کھاکر زیادہ بتاتے ہیں ۔ایسی صورت میں ان کو قربانی کا سو فیصد مالک بنا دینا کسی طرح مناسب نہیں (فتاویٰ جامعہ اشرفیہ جلد دہم ص 732)
اور یہاں قصاب نظروں سے غائب ہے اس لئے اس کو کلی اختیار دینا بھی مناسب نہیں ہے
(18)
حضور شارح ںخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
اسی طرح اگر گوشت کم وبیش تقسیم کیا تو بھی قربانی صحیح ہوگئی ۔اگرچہ ایسا کرنا ممنوع ہے ۔ضروری ہے کہ تمام شرکا کا گوشت تول کر برابر کرلیں۔
(فتاویٰ جامعہ اشرفیہ جلد دہم ص 732)
اس سے واضح ہوا کہ اگر گوشت کم و بیش کیا تو بھی قربانی صحیح ہوگئی ۔مگر ایسا کرنا ممنوع ہے ۔ضروری ہے کہ تمام شرکا کا گوشت تول کر برابر کرلیں اب اس سے واضح ہوا کہ
(1) گوشت تول کر برابر کرلیں اب کیا اجتماعی قربانی جہاں کافی تعداد میں جانور ذبح کئے جاتے ہیں اس میں یہ ممکن ہے
اور اس اجتماعی قربانی میں ایک نہیں سیکڑوں جانور ذبح کئے جاتے ہیں اس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ ہر ایک جانور کے گوشت کو سب شرکا کے لئے برابر برابر تقسیم کرنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ہر سال کا تجربہ ہے کہ ایک جانور میں نام لکھنے اور جانور لٹانے اور پکڑنے اور ذبح کرنے چمڑا نکالنے اور گوشت کاٹنے اور پھر سب شرکا کو برابر برابر تول کر دینے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں اور جہاں کافی تعداد میں قربانی کی جائے گی وہاں یہ کام ہر گز ہر گز ممکن ہی نہیں ہے اس میں احتمال ہے کہ گوشت بغیر تقسیم کے بانٹ دیا جاتا ہوگا اگر کسی کے یہاں اجتماعی قربانی میں یہ کام ممکن ہے تو وہ اس گناہ سے بچ جائیں گے ورنہ نہیں اب یہاں پر کوئی اس دلیل کو نہیں لے سکتا ہے کہ حج کے دوران قربانی کا گوشت برابر برابر تقسیم نہیں کیا جاتا ہے پھر وہاں کیا حکم ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں گورنمنٹ کی طرف سے مجبوری ہے اور عذر ہے اور کسی سے معلوم ہوا کہ وہاں کی گورمنٹ اس گوشت کو کسی کمپنی کے ہاتھ فروخت کردتی ہے اس لئے وہاں عذر شرعی ہے اور یہاں اجتماعی قربانی میں کوئی عذر شرعی اور ضرورت شرعی لاحق نہیں ہے کیونکہ اس کے بغیر بھی شروع اسلام سے لوگ قربانی اپنے اپنے گھروں میں کرتے آرہے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں یہ تو اجتماعی قربانی کا دھندھا کاروبار اب شروع کیا جارہا ہے اور عنقریب اپنے عروج پر جائے گا کیونکہ بنگال وغیرہ میں کم قیمت میں جانور مل جاتے ہیں اور خریداری میں یہ بھی احتمال ہے کہ صحیح عمر کا صحیح علم نہ ہوپائے اور خاص عیب کا بھی علم نہ ہو یہ بھی خرابی ہے اگر دور دراز خریدنے سے عمر کے متعلق صحیح علم نہ ہوا تو اس جانوروں کی قربانی جائز بھی نہیں ہوگی کیونکہ وہاں تو سیکڑوں میں خریداری ہوتی ہے کتنا چھان بین کی جائے گی اس لیے اسے بچنا ہی احوط ہے
(2) اگر تقسیم برابر نہیں کیا تو بھی قربانی صحیح ہوگئی مگر ایسا کرنا ممنوع ہے اور جو کام ممنوع ہو اسے چھوڑنا ضروری ہے اگر نہیں چھوڑا تو سخت گنہگار ہوگا کیونکہ ممنوع کا اطلاق مکروہ تحریمی پر ہوتا ہے اب ایک طرف قربانی بیع طعاطی کی وجہ سے جائز کر دی جائے تو اس ثواب کے ساتھ گناہ بھی ہوگا اور ایسا کام کیوں کرے جن میں گناہ ہونا ہو اس لئے بچنا احوط ہے کیونکہ یہ ممنوع ہے اور ممنوع مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی قریب حرام ہے اس لئے اس سے بچیں
جیسا کہ اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منع مکروہ تحریمی ہے
لقولہ یمنع منہ و انما المنع عن المکرو تحریما واما کراھۃ التنزیہۃ فتجامع الاباحۃ۔
اس سے واضح ہوا کہ اگر گوشت کم و بیش کیا تو بھی قربانی صحیح ہوگئی ۔مگر ایسا کرنا ممنوع ہے ۔ضروری ہے کہ تمام شرکا کا گوشت تول کر برابر کرلیں اب اس سے واضح ہوا کہ
(1) گوشت تول کر برابر کرلیں اب کیا اجتماعی قربانی جہاں کافی تعداد میں جانور ذبح کئے جاتے ہیں اس میں یہ ممکن ہے
اور اس اجتماعی قربانی میں ایک نہیں سیکڑوں جانور ذبح کئے جاتے ہیں اس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ ہر ایک جانور کے گوشت کو سب شرکا کے لئے برابر برابر تقسیم کرنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ہر سال کا تجربہ ہے کہ ایک جانور میں نام لکھنے اور جانور لٹانے اور پکڑنے اور ذبح کرنے چمڑا نکالنے اور گوشت کاٹنے اور پھر سب شرکا کو برابر برابر تول کر دینے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں اور جہاں کافی تعداد میں قربانی کی جائے گی وہاں یہ کام ہر گز ہر گز ممکن ہی نہیں ہے اس میں احتمال ہے کہ گوشت بغیر تقسیم کے بانٹ دیا جاتا ہوگا اگر کسی کے یہاں اجتماعی قربانی میں یہ کام ممکن ہے تو وہ اس گناہ سے بچ جائیں گے ورنہ نہیں اب یہاں پر کوئی اس دلیل کو نہیں لے سکتا ہے کہ حج کے دوران قربانی کا گوشت برابر برابر تقسیم نہیں کیا جاتا ہے پھر وہاں کیا حکم ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں گورنمنٹ کی طرف سے مجبوری ہے اور عذر ہے اور کسی سے معلوم ہوا کہ وہاں کی گورمنٹ اس گوشت کو کسی کمپنی کے ہاتھ فروخت کردتی ہے اس لئے وہاں عذر شرعی ہے اور یہاں اجتماعی قربانی میں کوئی عذر شرعی اور ضرورت شرعی لاحق نہیں ہے کیونکہ اس کے بغیر بھی شروع اسلام سے لوگ قربانی اپنے اپنے گھروں میں کرتے آرہے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں یہ تو اجتماعی قربانی کا دھندھا کاروبار اب شروع کیا جارہا ہے اور عنقریب اپنے عروج پر جائے گا کیونکہ بنگال وغیرہ میں کم قیمت میں جانور مل جاتے ہیں اور خریداری میں یہ بھی احتمال ہے کہ صحیح عمر کا صحیح علم نہ ہوپائے اور خاص عیب کا بھی علم نہ ہو یہ بھی خرابی ہے اگر دور دراز خریدنے سے عمر کے متعلق صحیح علم نہ ہوا تو اس جانوروں کی قربانی جائز بھی نہیں ہوگی کیونکہ وہاں تو سیکڑوں میں خریداری ہوتی ہے کتنا چھان بین کی جائے گی اس لیے اسے بچنا ہی احوط ہے
(2) اگر تقسیم برابر نہیں کیا تو بھی قربانی صحیح ہوگئی مگر ایسا کرنا ممنوع ہے اور جو کام ممنوع ہو اسے چھوڑنا ضروری ہے اگر نہیں چھوڑا تو سخت گنہگار ہوگا کیونکہ ممنوع کا اطلاق مکروہ تحریمی پر ہوتا ہے اب ایک طرف قربانی بیع طعاطی کی وجہ سے جائز کر دی جائے تو اس ثواب کے ساتھ گناہ بھی ہوگا اور ایسا کام کیوں کرے جن میں گناہ ہونا ہو اس لئے بچنا احوط ہے کیونکہ یہ ممنوع ہے اور ممنوع مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی قریب حرام ہے اس لئے اس سے بچیں
جیسا کہ اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منع مکروہ تحریمی ہے
لقولہ یمنع منہ و انما المنع عن المکرو تحریما واما کراھۃ التنزیہۃ فتجامع الاباحۃ۔
یعنی کیونکہ اس کا قول ہے اس سے منع کیا گیا ہے اور منع مکروہ تحریمی سے ہوتا ہے کراہت تنزیہی تو اباحت کے ساتھ جمع ہوتا ہے ( فتاوی رضویہ جلد جدید ہشتم ص 93)
ممنوع کس کے مقابل بولا جاتا ہے
فتاویٰ بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیتا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔
ممنوع کس کے مقابل بولا جاتا ہے
فتاویٰ بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیتا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔
( فتاویٰ بریلی شریف جلد دوم ص 384)
اگرچہ بعض کے نزدیک اجتماعی قربانی جائز ہے مگر وہ بھی کچھ شرائط کے ساتھ مگر اس میں بہت زیادہ خرابیاں ہیں اس لئے اس سے بچنا ہی مناسب ہے
اور طریقہ نو ایجاد ہے اس لئے اس کی دلیل صحابہ کرام کے اقوال سے طلب کرنے والا احمق ہے
اس سے ممانعت کی دلیل طلب کرنے والا احمق ہے۔
ایک کتاب عقائد و کلام ہے جس میں ایک باب بنام
نو پید مسائل میں کوئی صحابی یا حدیث سے۔ صریح دلیل طلب کرے ۔وہ احمق ہے۔
اگرچہ بعض کے نزدیک اجتماعی قربانی جائز ہے مگر وہ بھی کچھ شرائط کے ساتھ مگر اس میں بہت زیادہ خرابیاں ہیں اس لئے اس سے بچنا ہی مناسب ہے
اور طریقہ نو ایجاد ہے اس لئے اس کی دلیل صحابہ کرام کے اقوال سے طلب کرنے والا احمق ہے
اس سے ممانعت کی دلیل طلب کرنے والا احمق ہے۔
ایک کتاب عقائد و کلام ہے جس میں ایک باب بنام
نو پید مسائل میں کوئی صحابی یا حدیث سے۔ صریح دلیل طلب کرے ۔وہ احمق ہے۔
(عقائد و کلام ص 327)
جو مسئلہ جس زمانہ میں پیدا ہو ۔اسی زمانہ کے علماء سے تصریح مانگی جائے۔
جو مسئلہ جس زمانہ میں پیدا ہو ۔اسی زمانہ کے علماء سے تصریح مانگی جائے۔
(فتاویٰ رضویہ کامل سے ماخوذ مسائل کلامیہ کا مجموعہ بنامعقائد و کلام ص 326)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی