(سوال نمبر 9320)
کیا حمل ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام مسلہ ذیل کے بارےمیں کہ اگر عورت کا حمل ساقط ہوجائے (miscarriage) تو اسکے بعد آنے والے خون کا کیا حکم ہے کیا وہ نفاس کا خون کہلا ۓ گا کیا اس کو نماز وغیرہ پڑھنا ہے کہ نہیں۔ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائلہ:- ریشمہ بیگم کرناٹک انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔
بچے کے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا ہوگا۔
اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر کم از کم تین دن تک خون آیا اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (یعنی کم از کم پندرہ دن) بھی گزر چکا ہو تو یہ خون حیض شمار ہوگا، لیکن اگر حمل ضائع ہونے کے بعد تین دن سے کم خون آیا یا اس سے پہلے کم از کم پندرہ دن پاکی کے نہیں گزرے تو یہ خون حیض شمار نہیں ہوگا، بلکہ استحاضہ ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جو حمل ضائع ہوا ہے اور اس کے بعد جو خون آیا ہے اگر یہ تین دن یا اس سے زیادہ تھا تو (دس دن کے اندر اندر آنے والا خون) حیض شمار ہوگا، ورنہ استحاضہ شمار ہوگا جبکہ 4 ماہ سے پہلے حمل ضائع ہوا ہو۔
فتاوی شامی میں ہے
(ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة".(فتاوی شامی (1/ 302)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا حمل ساقط ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام مسلہ ذیل کے بارےمیں کہ اگر عورت کا حمل ساقط ہوجائے (miscarriage) تو اسکے بعد آنے والے خون کا کیا حکم ہے کیا وہ نفاس کا خون کہلا ۓ گا کیا اس کو نماز وغیرہ پڑھنا ہے کہ نہیں۔ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائلہ:- ریشمہ بیگم کرناٹک انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔
بچے کے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا ہوگا۔
اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر کم از کم تین دن تک خون آیا اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (یعنی کم از کم پندرہ دن) بھی گزر چکا ہو تو یہ خون حیض شمار ہوگا، لیکن اگر حمل ضائع ہونے کے بعد تین دن سے کم خون آیا یا اس سے پہلے کم از کم پندرہ دن پاکی کے نہیں گزرے تو یہ خون حیض شمار نہیں ہوگا، بلکہ استحاضہ ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جو حمل ضائع ہوا ہے اور اس کے بعد جو خون آیا ہے اگر یہ تین دن یا اس سے زیادہ تھا تو (دس دن کے اندر اندر آنے والا خون) حیض شمار ہوگا، ورنہ استحاضہ شمار ہوگا جبکہ 4 ماہ سے پہلے حمل ضائع ہوا ہو۔
فتاوی شامی میں ہے
(ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة".(فتاوی شامی (1/ 302)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/01/2024
17/01/2024