لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا حکم قسط چہارم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مسلمانوں! نماز دین کا ستون ہے
مسلمانوں! نماز دین کا ستون ہے
اس کو لاؤڈ اسپیکر سے فاسد نہ کرو
_____________________
ہر اعتراض کا جواب صرف کام ہے
______________________
(کام وہ کیجئے جس میں اختلاف نہ ہو)
____________________
میں محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار اپنے اخی الکریم حضرت علامہ مولانا مفتی محمد محمود عالم نوری کماوی مدظلہ العالی اور حضرت ناشر مسلک اعلی حضرت مولانا مفتی محمد رفیق احمد صاحب برہم پوری نیپال اور حضرت مولانا مفتی محمد شاہد صاحب کرناٹک کا احساں مند ہوں اور شکر گزار ہوں کہ ان بزرگوں نے میری مدد اور حوصلہ افزائی فرمائی خدا تعالیٰ ان کو اور ہم کو اور ہم سب قارئین کو بہتر جزا خیر عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ
(1) سوال : محقق مسائل جدیدہ حضرت مولانا مفتی محمد نظام الدین صاحب مدظلہ العالی مبارک پور اشرفیہ نے نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کے جواز کا فتویٰ دیا اور ایک کتاب بنام لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم تصنیف فرمائی اس رسالہ میں آپ نے جواز پر کافی دلائل پیش فرما چکے ہیں تو پھر عدم جواز کا مضمون کیوں لکھا جارہا ؟
الجواب :
' اس وقت اس عنوان پر علمائے کرام بہت بحث فرماریے تھے اور جب مفتی نظام الدین صاحب اشرفیہ کا رسالہ لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم۔شائع ہوا تو اس رسالہ کے مکمل رد میں حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مطیع الرحمان پورنوی صاحب نے ایک رسالہ بنام قول فیصل تحریر فرماکر تمام دلائل کا رد کامل فرمادیا اور اس کتاب قول فیصل کے رد میں مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ العالی کی طرف سے کوئی کتاب نہ آئی اور نہ کوئی جواب آیا اس لئے اب لاؤڈ اسپیکر سے نماز کے جواز کے لئے یہ کتاب پختہ دلیل کے لئے کافی نہیں ہے تو اس صورت میں علمائے اہل سنت کے موقف عدم جواز کا حکم برقرار رہ گیا
سب سے پہلے لاؤڈ اسپیکر کے جواز کا فتویٰ کس مفتی نے دیا؟
محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب مبارک پور اشرفیہ اپنے ایک رسالہ بنام لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم میں تحریر فرماتے ہیں
غالبا 1383ھ یا 1384,ھ میں ایک دفعہ عرس رضوی کے موقع پر یہ مسئلہ پیش ہوا حضور مفتی اعظم ہند ۔حضور حافظ ملت ۔حضرت سید العلماء مولانا آل مصطفے رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین اور انہی درجہ کے اکابر علماء موجود تھے ۔حضور مفتی اعظم ہند اور دیگر علماء کا موقف ممانعت تھا جبکہ حضرت مولانا مفتی افضل حسین صاحب مرحوم جو بریلی ہی میں مدتوں شعبہ دار الافتاء کے صدر رہے ۔اور ذی علم و ثقہ علماء میں شمار ہوتے تھے ۔ان علماء کے رائے سے متفق نہ ہوسکے (لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم ص 11 ۔تصنیف محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین صاحب مبارک پور اشرفیہ یوپی)
اس عبارت کو نقل فرماکر مفتی محمد نظام الدین صاحب مدظلہ العالی اسی عبارت سے استدلال فرماتے ہیں کہ
مذکورہ بالا تفصیل سے ظاہر ہے کہ اس پر کسی وقت میں پورے ہندوستان کے علمائے اہل سنت کا اجماع نہ ہوسکا اس طرح یہ اجمالی مسئلہ نہیں
_____________________
ہر اعتراض کا جواب صرف کام ہے
______________________
(کام وہ کیجئے جس میں اختلاف نہ ہو)
____________________
میں محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار اپنے اخی الکریم حضرت علامہ مولانا مفتی محمد محمود عالم نوری کماوی مدظلہ العالی اور حضرت ناشر مسلک اعلی حضرت مولانا مفتی محمد رفیق احمد صاحب برہم پوری نیپال اور حضرت مولانا مفتی محمد شاہد صاحب کرناٹک کا احساں مند ہوں اور شکر گزار ہوں کہ ان بزرگوں نے میری مدد اور حوصلہ افزائی فرمائی خدا تعالیٰ ان کو اور ہم کو اور ہم سب قارئین کو بہتر جزا خیر عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ
(1) سوال : محقق مسائل جدیدہ حضرت مولانا مفتی محمد نظام الدین صاحب مدظلہ العالی مبارک پور اشرفیہ نے نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کے جواز کا فتویٰ دیا اور ایک کتاب بنام لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم تصنیف فرمائی اس رسالہ میں آپ نے جواز پر کافی دلائل پیش فرما چکے ہیں تو پھر عدم جواز کا مضمون کیوں لکھا جارہا ؟
الجواب :
' اس وقت اس عنوان پر علمائے کرام بہت بحث فرماریے تھے اور جب مفتی نظام الدین صاحب اشرفیہ کا رسالہ لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم۔شائع ہوا تو اس رسالہ کے مکمل رد میں حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مطیع الرحمان پورنوی صاحب نے ایک رسالہ بنام قول فیصل تحریر فرماکر تمام دلائل کا رد کامل فرمادیا اور اس کتاب قول فیصل کے رد میں مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ العالی کی طرف سے کوئی کتاب نہ آئی اور نہ کوئی جواب آیا اس لئے اب لاؤڈ اسپیکر سے نماز کے جواز کے لئے یہ کتاب پختہ دلیل کے لئے کافی نہیں ہے تو اس صورت میں علمائے اہل سنت کے موقف عدم جواز کا حکم برقرار رہ گیا
سب سے پہلے لاؤڈ اسپیکر کے جواز کا فتویٰ کس مفتی نے دیا؟
محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب مبارک پور اشرفیہ اپنے ایک رسالہ بنام لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم میں تحریر فرماتے ہیں
غالبا 1383ھ یا 1384,ھ میں ایک دفعہ عرس رضوی کے موقع پر یہ مسئلہ پیش ہوا حضور مفتی اعظم ہند ۔حضور حافظ ملت ۔حضرت سید العلماء مولانا آل مصطفے رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین اور انہی درجہ کے اکابر علماء موجود تھے ۔حضور مفتی اعظم ہند اور دیگر علماء کا موقف ممانعت تھا جبکہ حضرت مولانا مفتی افضل حسین صاحب مرحوم جو بریلی ہی میں مدتوں شعبہ دار الافتاء کے صدر رہے ۔اور ذی علم و ثقہ علماء میں شمار ہوتے تھے ۔ان علماء کے رائے سے متفق نہ ہوسکے (لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم ص 11 ۔تصنیف محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین صاحب مبارک پور اشرفیہ یوپی)
اس عبارت کو نقل فرماکر مفتی محمد نظام الدین صاحب مدظلہ العالی اسی عبارت سے استدلال فرماتے ہیں کہ
مذکورہ بالا تفصیل سے ظاہر ہے کہ اس پر کسی وقت میں پورے ہندوستان کے علمائے اہل سنت کا اجماع نہ ہوسکا اس طرح یہ اجمالی مسئلہ نہیں
(لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم مصنف مفتی نظام الدین صاحب اشرفیہ)
اس سے ظاہر ہوا کہ سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ ۔حضور حافظ ملت قدس سرہ اور حضرت سید العلماء آل مصطفے قدس سرہ اور انہی درجہ کے دیگر اکابرین سب کا ایک موقف ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز فاسد ہوتی ہے یہ عبارت اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت کے تمام اکابرین علمائے اہل سنت کا ایک ہی موقف تھا اور آج بھی ہے مگر ان تمام اکابرین کرام کے موقف کے خلاف سب سے پہلے ا
مفتی محمد افضل حسین صاحب مونگیری رحمتہ اللہ علیہ جواز کا فتوی دیا اسی لئے اس بنیاد پر مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ العالی حکم فرماتے ہیں کہ اب یہ مسئلہ اجماعی نہیں رہا چلئے مان لیا جائے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے
اور حضرت مفتی اعظم ہند قدس سرہ اور حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ اور حضور مجاہد ملت قدس سرہ اور دیگر اکابرین علمائے اہل سنت کے موقف کے خلاف کسی ایک قول پر جواز کا فتویٰ کیونکر دیا جاسکتا ہے؟ بلکہ
حضرت مفتی محمد افضل حسین صاحب مونگیری رحمتہ اللہ علیہ کے فتوی پر عمل جائز ہی نہیں ہے کیونکہ آپ اس کے بعد اپنے جواز کے قول و فتوی سے رجوع فرما چکے ہیں جیسا کہ بطور دلیل یہ عبارت پیش خدمت ہے
مفتی افضل حسین مونگیری رحمتہ اللہ علیہ کا رجوع نامہ
قاضی مفتی محمد اشرف رضا صدیقی قادری رضوی باتھوی ثم ممبئی مدظلہ العالی اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ
*سب سے پہلے مفتی افضل حسین صاحب مونگیری علیہ الرحمہ نے علم و تحقیق کی روشنی میں اسپیکر پر جواز صلاۃ کا قول نقل کیا مگر سعادت ازلی نے دست گیری کی اپنے اس قول سے رجوع فرماکر اپنے مرشد و مربی اور استاذ افقہ الفقہاء اعلم علماء بلد ۔عالم مطاع واجب الاتباع کے قول و فتویٰ کی پرزور تصدیق و تصویب کی ۔اب تک جو ان کی تحقیق کو سہارا بنائے ہوئے تھے ان کے اعتماد کا محل زمیں بوس ہوگیا ۔اب ان پر لاؤڈ اسپیکر سے اجتناب و احترام لازم و واجب ہے۔
اس سے ظاہر ہوا کہ سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ ۔حضور حافظ ملت قدس سرہ اور حضرت سید العلماء آل مصطفے قدس سرہ اور انہی درجہ کے دیگر اکابرین سب کا ایک موقف ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز فاسد ہوتی ہے یہ عبارت اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت کے تمام اکابرین علمائے اہل سنت کا ایک ہی موقف تھا اور آج بھی ہے مگر ان تمام اکابرین کرام کے موقف کے خلاف سب سے پہلے ا
مفتی محمد افضل حسین صاحب مونگیری رحمتہ اللہ علیہ جواز کا فتوی دیا اسی لئے اس بنیاد پر مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ العالی حکم فرماتے ہیں کہ اب یہ مسئلہ اجماعی نہیں رہا چلئے مان لیا جائے کہ یہ مسئلہ اجماعی نہیں ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز میں کوئی کراہت نہیں ہے
اور حضرت مفتی اعظم ہند قدس سرہ اور حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ اور حضور مجاہد ملت قدس سرہ اور دیگر اکابرین علمائے اہل سنت کے موقف کے خلاف کسی ایک قول پر جواز کا فتویٰ کیونکر دیا جاسکتا ہے؟ بلکہ
حضرت مفتی محمد افضل حسین صاحب مونگیری رحمتہ اللہ علیہ کے فتوی پر عمل جائز ہی نہیں ہے کیونکہ آپ اس کے بعد اپنے جواز کے قول و فتوی سے رجوع فرما چکے ہیں جیسا کہ بطور دلیل یہ عبارت پیش خدمت ہے
مفتی افضل حسین مونگیری رحمتہ اللہ علیہ کا رجوع نامہ
قاضی مفتی محمد اشرف رضا صدیقی قادری رضوی باتھوی ثم ممبئی مدظلہ العالی اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ
*سب سے پہلے مفتی افضل حسین صاحب مونگیری علیہ الرحمہ نے علم و تحقیق کی روشنی میں اسپیکر پر جواز صلاۃ کا قول نقل کیا مگر سعادت ازلی نے دست گیری کی اپنے اس قول سے رجوع فرماکر اپنے مرشد و مربی اور استاذ افقہ الفقہاء اعلم علماء بلد ۔عالم مطاع واجب الاتباع کے قول و فتویٰ کی پرزور تصدیق و تصویب کی ۔اب تک جو ان کی تحقیق کو سہارا بنائے ہوئے تھے ان کے اعتماد کا محل زمیں بوس ہوگیا ۔اب ان پر لاؤڈ اسپیکر سے اجتناب و احترام لازم و واجب ہے۔
(فتاویٰ برکات مصطفے ۔مرتب مفتی محمد اشرف رضا مہاراشٹر ممبئ ص 5)
اس سے ظاہر ہوا ک سب سے پہلے لاؤڈ اسپیکر سے نماز کا عدم جواز سرکار سیدی مرشدی افقہ الفقہاء سراج الفقہاء حضرت علامہ الشاہ سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی کا حکم صادر ہوا اور اس وقت کے تمام اکابرین علمائے اہل سنت نے اس موقف کی تصدیق فرما چکے تھے اور اب جب قائلین جواز کے اصلی رہبر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد افضل حسین صاحب مونگیری رحمتہ اللہ علیہ اپنے موقف کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز جائز ہے اس سے رجوع فرما چکے تو اب ان کے تمام پیروی کار پر لازم ہے کہ وہ بھی اپنے اس موقف سے رجوع فرماکر عدم جواز کا فتویٰ تحریر فرما کر لوگوں کے نمازوں کو فاسد ہونے سے بچائیں کیونکہ آج بھی محتاط علماء کرام اور محتاط سنی عوام اور اہل تقویٰ خواص و عوام بغیر لاؤڈ اسپیکر کے بخوشی نماز پڑھتے ہے اور اپنی نمازوں کو اس فتنہ عظیم سے بچاتے رہے اس لئے عدم جواز کا فتویٰ ہی صحیح ہے اگرچہ کچھ دیناوی شہرت کے خواہاں اپنے اسلاف و مشائخ کی تحقیق و احتیاط سے ہٹ کر جواز کا فتویٰ دیتے رہے لیکن اب ان کی کتاب پر کوئی عمل نہیں کرے گا کیونکہ جو سب سے پہلے جائز کہنے والے مفتی صاحب تھے وہ اپنے اس جواز کے قول و فتوی سے رجوع فرما سکتے ہیں اس لئے اگر کسی شہر میں یا ممبئی یا گجرات یا ہند ونیپال اور حرمین شریفین میں کچھ لوگ لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھتے ہیں وہ ہمارے لئے دلیل نہیں ہے اور ہماری دلیل ہمارے اکابرین کے قول و فتوی ہے
ایک اور مفتی صاحب کا توبہ نامہ
شعبان علی نعیمی خطیب و امام جامع مسجد سانتا کروز ممبئ کا لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء اپنے فتویٰ سے رجوع
میں شعبان نعیمی خطیب و امام جامع مسجد سانتا کروز ممبئی 14 رمضان المبارک 1425ھ 29 اکتوبر 2004 کے اپنے محرر و فتوی سے رجوع کرتا ہوں اور اس میں تحریر کردہ اپنی اس تحریر میں نادم ہوں اس سے بزرگوں کی توہین واضح ہوتی ہے یہ مجھ سے تسامح ہوا اس سے رجوع کرتے ہوئے توبہ کرتا ہوں
نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو ناجائز سمجھتا ہوں لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء جائز نہیں نماز فاسد ہوتی ہے ۔حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ اور حضور محدث اعظم ہند اور حضور مجاہد ملت وغیرہم اکابرین اہل سنت و جماعت اس سلسلہ میں یعنی لاؤڈ اسپیکر کی آواز عدم جواز کا فتوی حق و صحیح اور درست ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں کوئی شخص اس سلسلہ میں میری کسی تحریر اور قول کو بطور دلیل پیش نہ کرے میرے اس جوازی کے فتوے سے جن لوگوں نے نمازوں میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کیا ان کی نماز فاسد و خراب ہوئی ان لوگوں پر لازم ہے کہ ان نمازوں کو دوبارہ پڑھیں اور توبہ کریں
شعبان علی نعیمی نزیل ہانڈی والی مسجد ممبئی
20 شوال 1425,,,4 دسمبر 2004
محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار کا تمام علمائے اہل سنت سے گزارش
آپ تمام علمائے اہل سنت وجماعت اپنے ذہن میں کچھ باتیں رکھ کر مسئلہ مبحوثہ میں غور کیجئے اور خود حق فیصلہ فرمائیں
(1) اول : جو جواز کے قائلین ہیں اور جو ناجائز کے قائلین ہیں دونوں کے نزدیک بغیر لاؤڈ اسپیکر سے نماز ادا کرنا جائز ہے اس میں دونوں فریقین راضی ہے
(2) جو لوگ لاؤڈ اسپیکر نماز میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کے نزدیک استعمال کرنا فرض یا واجب یا سنت نہیں ہے تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے لئے استعمال کرنا نہ کرنا دونوں برابر ہے اور استعمال کرنا ثواب کا کام بھی نہیں اور استعمال نہ کرنا گناہ کا کام بھی نہیں
(3) اور جو سب سے پہلے غالبا 1383 ھ میں حضرت علامہ مولانا مفتی محمد افضل حسین صاحب مرحوم مونگیری رحمتہ اللہ علیہ نے جواز کا فتویٰ دیا اور ان ہی کی اتباع میں ان کے ماننے والے نے بھی جواز کا فتویٰ دیا تو وہی مفتی محمد افضل حسین صاحب مرحوم 30 صفر 1416 کو حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خان بریلوی قدس سرہ کے نزدیک اپنے اس قول سے رجوع فرما چکے ہیں اور رجوع نامہ میں لکھتے ہیں کہ میں مفتی اعظم ہند قدس سرہ وغیرہ جماہیر مفتیان اہل سنت کے قول سے اتفاق کرتا ہوں اور اب تک کو میرا جواز کا فتویٰ تھا اس سے رجوع کرتا ہوں ۔اور میں اعلان کرتا ہوں کہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے (رجوع نامہ )
علمائے کرام ؛ اب خود فیصلہ کریں کہ جواز کے سب سے پہلے قائل مفتی افضل حسین صاحب مرحوم حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ اور جمہور علمائے اہل سنت کے قول و فتوی کی پرزور تصدیق و تصویب کی تو واضح ہوا کہ اب تک جو مفتی موصوف کی تحقیق کو سہارا بنائے ہوئے تھے یا بنائے ہوئے ہیں ان کے اعتماد کا محل زمیں بوس ہوگیا ۔اب ان پر لاؤڈ اسپیکر سے اجتناب و احتراز لازم و واجب ہے
(4) اس کے بر خلات جو لوگ استعمال نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کے نزدیک استعمال کرنا مفسد نماز اور حرام ہے
جیسے
یہ ہمارے وہ اکابرین ہیں جو اپنی حیات میں مرجع خلائق تھے اور آج بھی مومنوں کے دلوں کے نور ہیں اور ان کی حیات میں ان کے فتاوے پر عمل کیا جاتا تھا اور آج بھی عمل کیا جاتا ہے یہ تمام اکابرین علمائے اہل سنت اپنی علمی تحقیق سے تحقیق فرماکر لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء کو ناجائز اور مفسد نماز فرمایا اور کتاب تصنیف فرماکر ہم سنیوں پر احسان عظیم فرمایا خدا تعالیٰ ان تمام اکابرین علمائے اہل سنت کے فیض و برکات سے مالا فرمائے کہ محتاط محققین نے شرعی دلائل و براہین سے بھر پور کتب و رسائل تصنیف و تالیف فرمائی ان کتابوں ورسائل کے اسمائے کرام مع مصنفین کے اسمائے مبارکہ ایک نظر میں ملاحظہ فرمائیں
(1) رسالہ صیانۃ الصلوات علی حیل البد عات مصنف حضور برہان ملت علیہ الرحمہ
(2) رسالہ القول الازھر فی عدم اقتداء لاؤڈ اسپیکر ؛ مصنف حضور شیر بیشہ اہلسنت علیہ الرحمہ
(3) قصد السبیل :مصنف حضرت مفتی مظہر اللہ دہلوی علیہ الرحمہ
(4) القول الانور لعدم جواز الصلواۃ باقتداء لاؤڈ اسپیکر: مصنف حضور محبوب ملت علیہ الرحمہ
(5) التفصیل الانور فی حکم لاؤڈ اسپیکر: مصنف حضرت حافظ محمد عمران مصطفوی علیہ الرحمہ
(6) حکم مکبر الصوت : مصنف عمدۃ المحققین مفتی حبیب اللہ خان نعیمی علیہ الرحمہ
(7) افادات بدر ملت :مصنف حضور بدر ملت علیہ الرحمہ
(8) صیانہ الصلاۃ عند فساد آلات مکبرۃ الاصوات : مصنف مفتی غلام محمد خان ناگپوری علیہ الرحمہ
(9) قرآنی نماز بمقابلہ مائیکروفونی نماز : مصنف علامہ سید حسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ
(10) لاؤڈ اسپیکر پر نماز ؟ مصنف حضرت علامہ محمد حسن علی میلسی مدظلہ العالی
ان تمام علمائے اہل سنت فرماتے کہ لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء میں نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس سے نماز پڑھنا ناجائز ہے
ہم لوگ ان اکابرین کے ماننے والے ہیں اس لئے کہ ان کا علم و عمل اور تحقیق قابل اتباع ہے ان کے خلاف فتوی دینا اپنی شہرت چاہنا ہے جو پسندیدہ نہیں
(11) القول الشرف : مصنف مفتی محمد اشرف رضا قادری باتھوی ثم ممبئی
(12) قول فیصل: مصنف مفتی محمد مطیع الرحمان صاحب پورنوی
یعنی قائلین عدم جواز کے نزدیک نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے سے دو نقصانات
(1) ایک یہ کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنا مفسد نماز ہے
(2) دوسرا یہ کہ یہ کام حرام ہے
اب تو میرے حساب سے ان چاروں باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال قطعا نہ ہونے پائے کیونکہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کرنے سے دونوں فریقین کے درمیان میں جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اگر استعمال کیا جائے تو یہ کام نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ سنت اور نہ ثواب ہے بلکہ سب سے پہلے جواز کا فتویٰ دینے والے مفتی مرحوم نے خود اپنے جواز کے قول سے رجوع فرما لیا تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اب جواز کا حکم دینا ہی خلاف اصول ہے خیر اور اگر استعمال کیا جائے تو مفسد نماز ہے اور حرام ہے تو ہم وہ کام کریں جس سے میری نماز جو دین کا ستون ہے جو اہم عبادت ہے وہ مفسد نہ ہو اور گناہ بھی نہ ہو
اب قارئین کرام ہمارے تمام دلائل کو پڑھ کر فیصلہ فرمائیں کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا جائز ہوگا یا ناجائز ہوگا ثواب ہوگا یا گناہ ہوگا اپنے اکابرین علمائے اہل سنت وجماعت کے اقوال کے خلاف ہوگا یا موافق ہوگا لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے میں بھلائی حاصل ہوگا یا بغیر استعمال کئے ہوئے پڑھنے میں بھلائی حاصل ہوگا؟
الحاصل : فقیر نے ان چاروں قسموں میں دلائل قاطعہ سے ثابت کردیا کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ناجائز اور اس کی آواز پر تکبیر تحریمہ سے اقتداء درست نہیں بلکہ محض اس کی آواز پر تکبیرات انتقالات سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور سن کر رکوع وسجود کرنا بھی جائز نہیں ہے اگرچہ حرمین شریفین میں یا ہندوستان و نیپال کے لاؤڈ اسپیکر سے لوگ نماز ادا کرتے ہوں ہمارے علمائے کرام کی علمی تحقیق اور اقوال کے سامنے لوگوں کا یہ عمل دلیل نہیں ہے کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ کسی کے فعل سے جواز یا عدم جواز کا حکم نہیں دیا جاسکتا ہے جیسے کہ اگر حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل میں تعارض ہو تو حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قول پر عمل کرنا ہے اور فعل پر نہیں کیونکہ فعل میں کتنے احتمالات ہوسکتے ہیں جیسے کوئی عذر وغیرہ
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
اس سے ظاہر ہوا ک سب سے پہلے لاؤڈ اسپیکر سے نماز کا عدم جواز سرکار سیدی مرشدی افقہ الفقہاء سراج الفقہاء حضرت علامہ الشاہ سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی کا حکم صادر ہوا اور اس وقت کے تمام اکابرین علمائے اہل سنت نے اس موقف کی تصدیق فرما چکے تھے اور اب جب قائلین جواز کے اصلی رہبر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد افضل حسین صاحب مونگیری رحمتہ اللہ علیہ اپنے موقف کہ لاؤڈ اسپیکر سے نماز جائز ہے اس سے رجوع فرما چکے تو اب ان کے تمام پیروی کار پر لازم ہے کہ وہ بھی اپنے اس موقف سے رجوع فرماکر عدم جواز کا فتویٰ تحریر فرما کر لوگوں کے نمازوں کو فاسد ہونے سے بچائیں کیونکہ آج بھی محتاط علماء کرام اور محتاط سنی عوام اور اہل تقویٰ خواص و عوام بغیر لاؤڈ اسپیکر کے بخوشی نماز پڑھتے ہے اور اپنی نمازوں کو اس فتنہ عظیم سے بچاتے رہے اس لئے عدم جواز کا فتویٰ ہی صحیح ہے اگرچہ کچھ دیناوی شہرت کے خواہاں اپنے اسلاف و مشائخ کی تحقیق و احتیاط سے ہٹ کر جواز کا فتویٰ دیتے رہے لیکن اب ان کی کتاب پر کوئی عمل نہیں کرے گا کیونکہ جو سب سے پہلے جائز کہنے والے مفتی صاحب تھے وہ اپنے اس جواز کے قول و فتوی سے رجوع فرما سکتے ہیں اس لئے اگر کسی شہر میں یا ممبئی یا گجرات یا ہند ونیپال اور حرمین شریفین میں کچھ لوگ لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھتے ہیں وہ ہمارے لئے دلیل نہیں ہے اور ہماری دلیل ہمارے اکابرین کے قول و فتوی ہے
ایک اور مفتی صاحب کا توبہ نامہ
شعبان علی نعیمی خطیب و امام جامع مسجد سانتا کروز ممبئ کا لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء اپنے فتویٰ سے رجوع
میں شعبان نعیمی خطیب و امام جامع مسجد سانتا کروز ممبئی 14 رمضان المبارک 1425ھ 29 اکتوبر 2004 کے اپنے محرر و فتوی سے رجوع کرتا ہوں اور اس میں تحریر کردہ اپنی اس تحریر میں نادم ہوں اس سے بزرگوں کی توہین واضح ہوتی ہے یہ مجھ سے تسامح ہوا اس سے رجوع کرتے ہوئے توبہ کرتا ہوں
نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو ناجائز سمجھتا ہوں لاؤڈ اسپیکر کی آواز پر اقتداء جائز نہیں نماز فاسد ہوتی ہے ۔حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ اور حضور محدث اعظم ہند اور حضور مجاہد ملت وغیرہم اکابرین اہل سنت و جماعت اس سلسلہ میں یعنی لاؤڈ اسپیکر کی آواز عدم جواز کا فتوی حق و صحیح اور درست ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں کوئی شخص اس سلسلہ میں میری کسی تحریر اور قول کو بطور دلیل پیش نہ کرے میرے اس جوازی کے فتوے سے جن لوگوں نے نمازوں میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کیا ان کی نماز فاسد و خراب ہوئی ان لوگوں پر لازم ہے کہ ان نمازوں کو دوبارہ پڑھیں اور توبہ کریں
شعبان علی نعیمی نزیل ہانڈی والی مسجد ممبئی
20 شوال 1425,,,4 دسمبر 2004
محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار کا تمام علمائے اہل سنت سے گزارش
آپ تمام علمائے اہل سنت وجماعت اپنے ذہن میں کچھ باتیں رکھ کر مسئلہ مبحوثہ میں غور کیجئے اور خود حق فیصلہ فرمائیں
(1) اول : جو جواز کے قائلین ہیں اور جو ناجائز کے قائلین ہیں دونوں کے نزدیک بغیر لاؤڈ اسپیکر سے نماز ادا کرنا جائز ہے اس میں دونوں فریقین راضی ہے
(2) جو لوگ لاؤڈ اسپیکر نماز میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کے نزدیک استعمال کرنا فرض یا واجب یا سنت نہیں ہے تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے لئے استعمال کرنا نہ کرنا دونوں برابر ہے اور استعمال کرنا ثواب کا کام بھی نہیں اور استعمال نہ کرنا گناہ کا کام بھی نہیں
(3) اور جو سب سے پہلے غالبا 1383 ھ میں حضرت علامہ مولانا مفتی محمد افضل حسین صاحب مرحوم مونگیری رحمتہ اللہ علیہ نے جواز کا فتویٰ دیا اور ان ہی کی اتباع میں ان کے ماننے والے نے بھی جواز کا فتویٰ دیا تو وہی مفتی محمد افضل حسین صاحب مرحوم 30 صفر 1416 کو حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خان بریلوی قدس سرہ کے نزدیک اپنے اس قول سے رجوع فرما چکے ہیں اور رجوع نامہ میں لکھتے ہیں کہ میں مفتی اعظم ہند قدس سرہ وغیرہ جماہیر مفتیان اہل سنت کے قول سے اتفاق کرتا ہوں اور اب تک کو میرا جواز کا فتویٰ تھا اس سے رجوع کرتا ہوں ۔اور میں اعلان کرتا ہوں کہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے (رجوع نامہ )
علمائے کرام ؛ اب خود فیصلہ کریں کہ جواز کے سب سے پہلے قائل مفتی افضل حسین صاحب مرحوم حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ اور جمہور علمائے اہل سنت کے قول و فتوی کی پرزور تصدیق و تصویب کی تو واضح ہوا کہ اب تک جو مفتی موصوف کی تحقیق کو سہارا بنائے ہوئے تھے یا بنائے ہوئے ہیں ان کے اعتماد کا محل زمیں بوس ہوگیا ۔اب ان پر لاؤڈ اسپیکر سے اجتناب و احتراز لازم و واجب ہے
(4) اس کے بر خلات جو لوگ استعمال نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کے نزدیک استعمال کرنا مفسد نماز اور حرام ہے
جیسے
یہ ہمارے وہ اکابرین ہیں جو اپنی حیات میں مرجع خلائق تھے اور آج بھی مومنوں کے دلوں کے نور ہیں اور ان کی حیات میں ان کے فتاوے پر عمل کیا جاتا تھا اور آج بھی عمل کیا جاتا ہے یہ تمام اکابرین علمائے اہل سنت اپنی علمی تحقیق سے تحقیق فرماکر لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء کو ناجائز اور مفسد نماز فرمایا اور کتاب تصنیف فرماکر ہم سنیوں پر احسان عظیم فرمایا خدا تعالیٰ ان تمام اکابرین علمائے اہل سنت کے فیض و برکات سے مالا فرمائے کہ محتاط محققین نے شرعی دلائل و براہین سے بھر پور کتب و رسائل تصنیف و تالیف فرمائی ان کتابوں ورسائل کے اسمائے کرام مع مصنفین کے اسمائے مبارکہ ایک نظر میں ملاحظہ فرمائیں
(1) رسالہ صیانۃ الصلوات علی حیل البد عات مصنف حضور برہان ملت علیہ الرحمہ
(2) رسالہ القول الازھر فی عدم اقتداء لاؤڈ اسپیکر ؛ مصنف حضور شیر بیشہ اہلسنت علیہ الرحمہ
(3) قصد السبیل :مصنف حضرت مفتی مظہر اللہ دہلوی علیہ الرحمہ
(4) القول الانور لعدم جواز الصلواۃ باقتداء لاؤڈ اسپیکر: مصنف حضور محبوب ملت علیہ الرحمہ
(5) التفصیل الانور فی حکم لاؤڈ اسپیکر: مصنف حضرت حافظ محمد عمران مصطفوی علیہ الرحمہ
(6) حکم مکبر الصوت : مصنف عمدۃ المحققین مفتی حبیب اللہ خان نعیمی علیہ الرحمہ
(7) افادات بدر ملت :مصنف حضور بدر ملت علیہ الرحمہ
(8) صیانہ الصلاۃ عند فساد آلات مکبرۃ الاصوات : مصنف مفتی غلام محمد خان ناگپوری علیہ الرحمہ
(9) قرآنی نماز بمقابلہ مائیکروفونی نماز : مصنف علامہ سید حسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ
(10) لاؤڈ اسپیکر پر نماز ؟ مصنف حضرت علامہ محمد حسن علی میلسی مدظلہ العالی
ان تمام علمائے اہل سنت فرماتے کہ لاؤڈ اسپیکر کی اقتداء میں نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس سے نماز پڑھنا ناجائز ہے
ہم لوگ ان اکابرین کے ماننے والے ہیں اس لئے کہ ان کا علم و عمل اور تحقیق قابل اتباع ہے ان کے خلاف فتوی دینا اپنی شہرت چاہنا ہے جو پسندیدہ نہیں
(11) القول الشرف : مصنف مفتی محمد اشرف رضا قادری باتھوی ثم ممبئی
(12) قول فیصل: مصنف مفتی محمد مطیع الرحمان صاحب پورنوی
یعنی قائلین عدم جواز کے نزدیک نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے سے دو نقصانات
(1) ایک یہ کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنا مفسد نماز ہے
(2) دوسرا یہ کہ یہ کام حرام ہے
اب تو میرے حساب سے ان چاروں باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال قطعا نہ ہونے پائے کیونکہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کرنے سے دونوں فریقین کے درمیان میں جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اگر استعمال کیا جائے تو یہ کام نہ فرض ہے نہ واجب اور نہ سنت اور نہ ثواب ہے بلکہ سب سے پہلے جواز کا فتویٰ دینے والے مفتی مرحوم نے خود اپنے جواز کے قول سے رجوع فرما لیا تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اب جواز کا حکم دینا ہی خلاف اصول ہے خیر اور اگر استعمال کیا جائے تو مفسد نماز ہے اور حرام ہے تو ہم وہ کام کریں جس سے میری نماز جو دین کا ستون ہے جو اہم عبادت ہے وہ مفسد نہ ہو اور گناہ بھی نہ ہو
اب قارئین کرام ہمارے تمام دلائل کو پڑھ کر فیصلہ فرمائیں کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا جائز ہوگا یا ناجائز ہوگا ثواب ہوگا یا گناہ ہوگا اپنے اکابرین علمائے اہل سنت وجماعت کے اقوال کے خلاف ہوگا یا موافق ہوگا لاؤڈ اسپیکر سے نماز پڑھنے میں بھلائی حاصل ہوگا یا بغیر استعمال کئے ہوئے پڑھنے میں بھلائی حاصل ہوگا؟
الحاصل : فقیر نے ان چاروں قسموں میں دلائل قاطعہ سے ثابت کردیا کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ناجائز اور اس کی آواز پر تکبیر تحریمہ سے اقتداء درست نہیں بلکہ محض اس کی آواز پر تکبیرات انتقالات سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور سن کر رکوع وسجود کرنا بھی جائز نہیں ہے اگرچہ حرمین شریفین میں یا ہندوستان و نیپال کے لاؤڈ اسپیکر سے لوگ نماز ادا کرتے ہوں ہمارے علمائے کرام کی علمی تحقیق اور اقوال کے سامنے لوگوں کا یہ عمل دلیل نہیں ہے کہ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ کسی کے فعل سے جواز یا عدم جواز کا حکم نہیں دیا جاسکتا ہے جیسے کہ اگر حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل میں تعارض ہو تو حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قول پر عمل کرنا ہے اور فعل پر نہیں کیونکہ فعل میں کتنے احتمالات ہوسکتے ہیں جیسے کوئی عذر وغیرہ
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
16 رمضان المبارک 1446
17 مارچ 2025
16 رمضان المبارک 1446
17 مارچ 2025