Type Here to Get Search Results !

اورنگزیب ظالم یا عادل؟

اورنگزیب ظالم یا عادل؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
قریب مہینہ بھر پہلے ایک پروپیگنڈہ فلم رلیز ہوئی۔جس میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو انتہائی ظالم اور سفاک شہنشاہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ڈائریکٹر نے مراٹھا سردار سنبھاجی کی موت کو نہایت اذیت ناک طریقے پر پکچرائز کیا۔پروپیگنڈہ اسکرپٹ، اذیت ناک پکچرائزیشن، مرکزی اور صوبائی حکومت کی تشہیر نے ڈائریکٹر اور حکومت دونوں کی مراد کو پورا کر دیا۔ریلیز ہوتے ہی فلم موضوع بحث بن گئی۔پروپیگنڈے کا اثر یہاں تک پہنچا کہ حضرت اورنگزیب کی قبر توڑنے، اس پر بیت الخلا بنانے کے مطالبات کیے جانے لگے ہیں۔حالات ایسے بن گیے ہیں کہ کسی بھی وقت ان کی قبر پر حملہ ہو سکتا ہے۔
سترہ مارچ کو بجرنگ دَل نے پونا، ناسک، اورنگ آباد اور ناگپور جیسے کئی شہروں میں قبر ہٹانے کو لیکر احتجاجی کال دی۔ناگپور کے احتجاج میں اورنگزیب کی مصنوعی قبر بنا کر کلمہ شریف لکھی ہوئی چادر ڈال کر نذر آتش کیا گیا۔جس کو لیکر فساد برپا ہوگیا۔نوبت آگ زنی اور گرفتاری تک پہنچی۔شدت پسندوں کے حالیہ ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں یہی تماشا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
اورنگزیب کا طرز عمل
اورنگزیب عالمگیر اصول پسند اور منصف مزاج بادشاہ تھے۔انہوں نے مخالفین کے ساتھ مہذب اور فیاضانہ برتاؤ کیا۔چھترپتی شواجی کو تمام تر دشمنی کے باوجود ایک نہیں دو دو بار امان دی، ساتھ ہی پانچ ہزاری منصب سے بھی نوازا۔
معاہدہ پورندر(1665) کے تحت شواجی نے اپنے بیٹے سنبھاجی کو بھی مغل حکومت کی تحویل میں دے دیا تھا۔اس طرح سنبھاجی نے ایک سال مغل سرپرستی میں گزارا۔تحویل میں ہونے کے باوجود اورنگزیب نے فیاض بادشاہ کی طرح سات سالہ بچے کو بھی پانچ ہزاری منصب دے کر شواجی کی سرداری کا مان رکھا۔
سنبھاجی کی عمر اکیس سال تھی جب اس کے والد نے ناراض ہوکر اسے پنہالہ قلعے میں قید کر دیا۔جیسے تیسے سنبھاجی فرار ہونے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن اسے ایک مضبوط پناہ گاہ کی تلاش تھی۔ایک بار پھر اورنگزیب ہی سنبھاجی کے کام آئے۔اسے پناہ دی، سات ہزاری منصب کے ساتھ سابقہ عزت سے نوازا۔فوج میں شامل کیا۔اسی دوران سنبھاجی نے اپنے والد شواجی کے خلاف بھوپال گڈھ جنگ(1679) میں مغل سپاہی کے طور پر حصہ لیا۔ان احسانات کے باوجود سنبھاجی کچھ ہی دنوں بعد پھر سے شواجی سے جا ملا۔شواجی کی موت کے بعد سنبھاجی نے مغل حکومت کے خلاف چھاپہ مار مہم چھیڑ دی۔تقریباً آٹھ سال تک مسلسل لوٹ پاٹ سے سلطنت کو خوب نقصان پہنچایا، مجبوراً اورنگزیب کو اس کی طرف دھیان دینا پڑا۔نتیجہ سنبھاجی کی گرفتاری اور موت پر نکلا۔
سنبھاجی کی موت کے بعد ان کے بیٹے شاہو جی کی دیکھ ریکھ مغل سلطنت ہی کی جانب سے ہوئی۔سنبھاجی کی اہلیہ یے سو بائی کو بھی نہایت احترام کے ساتھ رکھا گیا۔شاہو جی تقریباً 18 سال تک مغل تحویل میں رہ کر جوان ہوئے۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ سوال ہر انصاف پسند انسان سے جواب چاہتا ہے اگر اورنگزیب اتنے ہی سخت دل اور مذہباً متعصب تھے تو سنبھاجی کو دو دو بار منصب وعزت دینے کی کیا ضرورت تھی؟
سنبھاجی کی موت کے بعد اس کے بیٹے کی پرورش کیا ضرورت تھی؟
بھلا کون انسان اپنے دشمن کے بیٹے کو اٹھارہ سال تک پالتا ہے؟
کون اپنے دشمن کی بیوی کو بہن جیسی عزت و وقار کے ساتھ رکھتا ہے؟
یہ طرز عمل آج بھی اورنگزیب عالمگیر کے انصاف اور بلند کردار کی گواہی دیتا ہے۔جسے کوشش کے باوجود تاریخ سے نہیں مٹایا جا سکتا۔
سنبھاجی کے بیٹے کا طرز عمل
سنبھاجی کی موت کے بعد ان کی بیوی یے سو بائی اور بیٹا شاہو جی مغل تحویل میں لے لیے گیے تھے۔تحویل کے باوجود اورنگزیب نے ان کے ساتھ نہایت ہمدردی اور مہربانی کا سلوک کیا۔یہی وجہ ہے کہ شاہوجی ساری زندگی اورنگزیب عالمگیر کے تئیں مخلص رہے۔ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی قبر پر سلام کرنے حاضر ہوتے اور احترام کے ساتھ گلہاے عقیدت پیش کرتے۔انہوں نے ستارا شہر میں اورنگزیب کی شہزادی زینت النسا بیگم کے نام سے بیگم مسجد بھی تعمیر کرائی۔جو آج بھی اورنگزیب کے مخالفین کے منہ پر ایک کرارا طمانچہ ہے۔
اپنے باپ کے قاتل کی قبر پر پھول چڑھانا کوئی آسان کام ہے؟
یقیناً شاہوجی اورنگزیب کا منصفانہ کردار اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔اس لیے باپ کے قتل کے باوجود انہیں اورنگزیب سے عقیدت تھی۔
بیگم مسجد آج بھی اورنگزیب کے تئیں شاہوجی کے احترام و عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شاہوجی کا یہ طرز عمل ان تمام شر پسندوں کو بہترین جواب ہے کہ جب سنبھاجی کے سگے بیٹے نے اورنگزیب کی قبر کا سارا زندگی احترام کیا تو آج تم کس منہ سے ان کی قبر ہٹانے کی بات کرتے ہو؟
کیا ان شرپسندوں کی محبت شاہوجی مہاراج سے بڑھ کر ہے؟
یقیناً یہ سارا ہنگامہ سیاسی فائدہ اٹھانے اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا جارہا ہے تاکہ عوام ایسے ہی جذباتی ہنگاموں میں لگی رہے اور یہ بے فکری سے حکومت کرتے رہیں۔ 
موجودہ حالات میں کیا کریں؟
حالات کی سنگینی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ دو محاذ پر کام کیا جائے:
اولاً سپریم کورٹ میں مسلم مخالف ایشوز اور تحریک کو لیکر ایک رٹ داخل کی جائے اور کورٹ سے اس پر تفصیلی شنوائی اور مستقل حل کی گزارش کی جائے۔کورٹ کو بتایا جائے کہ معاملہ محض کسی قبر/مسجد/جائداد یا دکان مکان کا نہیں رہ گیا ہے۔اب تو باضابطہ قوم مسلم کا وجود نشانے پر ہے اس لیے جس طرح ملک کی پس ماندہ اور دلت اقوام کو ایس سی ایس ٹی ایکٹ کی طرح قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے ویسے ہی مسلمانوں کو بھی قانونی تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ مسلمان روز روز کی اذیت وتکلیف سے نجات حاصل کر سکیں۔
دوسرا کام یہ کیا جائے کہ کچھ نمایاں افراد براہ راست وزیر اعظم سے بات کریں۔نمایاں افراد میں سے کچھ تو وہ ہیں جو صرف مذہبی ومسلکی امور ہی سے دل چسپی رکھتے ہیں۔اس طرح کے امور کا شاید انہیں علم ہی نہیں ہوتا یا وہ ان امور سے لاتعلق رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ایسے میں وہ افراد جو عموماً سیاسی وسماجی کاموں سے دل چسپی اور وابستگی رکھتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ اپنے تعلقات بروئے کار لائیں اور مسلم مخالفت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر وزیر اعظم سے دخل دینے کی اپیل کریں۔ہم نے دیکھا ہے کہ مختلف مواقع پر بہت سارے خانقاہی/مذہبی/سماجی حضرات سے وزیر اعظم کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے افراد قومی جذبے کے ساتھ وزیر اعظم کو حالات کی سنگینیوں سے باخبر کرائیں۔اور ان سے بیان جاری کرانے نیز سنجیدہ اقدامات کرنے کی اپیل کریں۔
ہو سکتا ہے اس تجویز پر بعض لوگ یہ کہیں کہ موجودہ حالات تو انہیں کے نظریاتی ورکروں کی دین ہیں، وہ اس سلسلے میں کوئی اقدام کیوں کرنے لگے؟
یاد رکھیں!
جمہوریت میں خود ہی سوچنے اور نتیجہ نکالنے سے بہتر ہوتا ہے کہ دستیاب مواقع کا پورا استعمال کیا جائے۔ملاقات کا اپنا ایک اثر ہوتا ہے۔کئی بار نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ چہروں کا مَان رکھنا پڑتا ہے۔کیا پتا ایسی کسی ملاقات سے معاملات کو سنبھالنے میں تھوڑی بہت مدد مل جائے۔باقی قانونی طور پر اپنی محنت جاری رکھی جائے۔ایک اہم کام علمی و سماجی سطح پر محنت کرنا بھی ہے۔جس کا اثر یقینی ہے لیکن اس کے لیے زمینی محنت، صبر اور استقامت درکار ہے۔اگر قوم مسلم کو عزت و وقار کے ساتھ جینا ہے تو کوشش کرنا لازمی ہے۔کوشش کرنے والے ایک دن ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔
دل نا امید تو نہیں ، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- غلام مصطفےٰ نعیمی روشن مستقبل دہلی
19 رمضان المبارک 1446ھ
20 مارچ 2025 بروز جمعرات

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area