Type Here to Get Search Results !

کیا ایک مٹھی داڑھی کا ثبوت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے ثابت ہے یا نہیں ؟ قسط اول


کیا ایک مٹھی داڑھی کا ثبوت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے ثابت ہے یا نہیں ؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
سلسلہ وار قسط اول
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں حضور مفتی اعظم بہار مسئلہ ذیل میں کہ 
(1) کیا ایک مٹھی داڑھی کا ثبوت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے ثابت ہے یا نہیں ؟
(2)کیا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے کسی اکابر کا ایک مٹھی داڑھی رکھنے کے ثبوت میں کوئی قول نہیں ہے ؟
کیا علمائے احناف کے نزدیک ایک مٹھی داڑھی رکھنے میں اختلاف ہے ؟ کیا اس اختلاف کی وجہ سے کوئی ایک مٹھی داڑھی نہ رکھے تو اسے فاسق معلن نہیں کہنا چاہیے کیا اختلاف علمائے احناف کی وجہ سے حکم شدت میں کمی ہوگی اور اس بناء پر ایک مٹھی سے کم داڑھی رکھنا جائز ہوگا اور کیا حکم شدت میں کمی آجائے گی؟
حرروا و توجرا 
السائل محمد نظام الدین مرکزی برہمپوری سرلاہی نیپال
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب
اللھم لک الحمد ولک الشکر وصلی اللہ تعالیٰ علیہ سیدنا محمد و علی الہ وعلی صحبہ وبارک وسلم 
کیا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے کسی اکابر کا یہ قول نہیں ہے کہ داڑھی کی مقدار ایک مٹھی ہے*.؟
یہ قول بالکل صحیح نہیں ہے بلکہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے صحابہ کرام تابعین کرام تبع تابعین کرام کے ریش مبارک ایک مٹھی بھر تھی اور امام محمد اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بھی یہی قول ہے بلکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بھی ریش انور ایک مٹھی کی مقدار پر تھی ۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو و ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اپنی ریش مبارک مٹھی میں لے کر جس قدر زیادہ ہوتی کم فرمادیتے ۔بلکہ یہ کم فرمانا خود حضور پُرنور صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ سے ماثورامام محمد کتاب الآثار میں فرماتے ہیں 
اخبرنا ابوحنیفہ عن الھیثم عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما انہ کان یقبض علی لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضۃ یعنی ہم سے امام ابوحنیفہ نے ارشاد فرمایا ان سے ابو الہیثم نے ان سے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے کہ حضرت عبداللہ اپنی داڑھی مٹھی میں پکڑ کر زائد حصہ کو کتر ڈالتے تھے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 22 ص 584 بحوالہ کتاب الآثار باب خف الشعر من الوجہ روایۃ 900 ادارۃ القرآن کراچی ص 198) 
اس سے ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر و و ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی داڑھی مبارک ایک مٹھی تھی یعنی ایک مشت یعنی چار انگل ۔
ابو داؤد و نسائی مروان بن سالم سے راوی 
رایت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما یقبض علی لحیتہ فیقطع ما زاد علی الکف یعنی میں نے عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھا کہ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر زائد بالوں کو کاٹ ڈالا کرتے تھے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 22 ص 586 بحوالہ سنن ابی داؤد کتاب الصوم جلد ایک ص 321)
یہ قول و فعل کا ذکر ابوداؤد شریف اور نسائی شریف میں بھی ہے جو شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب اشعۃ اللمعات اور مدارج النبوت سے پہلے کی ہے 
اور مدارج میں ایک قول یہ نقل فرمایا کہ علماء و مشائخ کو ایک مشت سے زیادہ رکھنا بھی درست ہے۔
حیث قال مشہور در مذہب حنفی چہار انگشت و ظاہر آنست کہ مراد آں باشد کہ کم ازیں نمی باید یعنی جیسا کہ فرمایا مذہب حنفی میں مشہور یہ ہے کہ مقدار داڑھی چار انگشت ہو اور ظاہر یہ ہے کہ اس سے کم نہیں ہونی چاہئے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 22 ص 585 بحوالہ مدارج النبوت باب اول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر جلد یکم ص 15)
اس سے واضح ہوا کہ ایک مشت داڑھی رکھنے کے متعلق مذہب احناف میں مشہور مقدار چار انگشت ہے یعنی ایک مشت لہذا علمائے احناف میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے حکم شدت میں کمی ہو 
ردالمحتار کے حوالہ سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ 
ھو ان یقبض الرجل لحیتہ فما زاد منھا علی قبضۃ قطعہ کذا ذکر محمد فی کتاب الآثار عن الامام قال و بہ ناخذ محیط آھ ط یعنی مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے کر زائد حصہ کو کاٹ دے ۔امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ سے یہی ذکر فرمایا
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 22 ص 588 بحوالہ رد المحتار ۔کتاب الخطر والاباحتہ فصل فی البیع جلد پنجم ص 261)
اس عبارت میں صاف صاف نقل ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صراحت کے ساتھ یہ قول ہے کہ مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے کر زائد حصہ کو کاٹ دے یہ اس بات پر دلالت ہے کہ داڑھی کی مقدار علمائے احناف کے نزدیک ایک مٹھی یعنی ایک مشت ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
بلکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ریش انور مقدار قبضہ پر تھی۔
مدارج کے حوالہ سے فتاوی رضویہ میں ہے کہ درلحیہ شریف در طول قدرے معین در کتب بنظر نمی آید و در وظائف النبی گفتہ کہ لحیۃ ان حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم چہار انگشت بود طبعا یعنی ہمیں مقدار بود از روئے خلقت و دراز کم نمی شد بریں یافتہ نمی شود یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک کی کسی معین مقدار پر درازی کا ذکر مشہور کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی نظر سے نہیں گزرا البتہ وظائف النبی میں کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کی ریش مبارک چار انگشت کے بقدر تھی یعنی قدرتی طور پر ہی مٹھی بھر تھی ۔اور گھٹتی بڑھتی نہ تھی ۔پس اس کا حوالہ نہیں پایا گیا۔
(مدارج النبوت جلد یکم ص 14 ) 
اس کے تحت فتاوی رضویہ میں ہے کہ 
ہاں ظاہر کلمات مذکورہ علماء یہ ہے کہ ریش انور مقدار قبضہ پر رہتی تھی جب زیادہ ہوتی کم فرمادیتے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 22 ص 591)
فتح القدیر میں ہے کہ
الاخذ منھما وھی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربتہ و مخنثۃ الرجال
 یعنی داڑھی تراشنا یا کترنا کہ وہ مشت کی مقدار سے کم ہو جائے ناجائز ہے جیسا کہ بعض مغربیت زدہ لوگ اور ہیجڑے کرتے ہیں (فتاوی رضویہ جلد جدید 22 بحوالہ فتح القدیر جلد یکم ص 212) 
صاحب فتح القدیر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلے اکابر ہیں آپ فرماتے ہیں کہ داڑھی تراشنا یا کترنا کہ وہ مشت کی مقدار سے کم ہو جائے ناجائز ہے اور ہیجڑے کا طریقہ ہے ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
28 رجب المرجب 1446
مطابق 29جنوری 2025

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area