----------مقام سادات----------
تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی
-----------قسط چہارم------------
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:کیا سید پر دوزخ کی آنچ قطع حرام ہے،اور وہ کسی بداعمالی کی پاداش میں دوزخ میں جاہی نہ سکے گا؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ساداتِ کرام جو واقعی علمِ الٰہی میں سادات ہوں ان کے بارے میں رب عزوجل سےامید واثق یہی ہے کہ آخرت میں اُن کو کسی گناہ پر عذاب نہ دیا جائے گا"
پھر یہ دو حدیث نقل کرتے ہیں"
«إنما سميت فاطمة، لأن الله قد فطمها وذريتها عن النار يوم القيامة»
(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج ١ ،المقصد الثانی،ص ٤٨٢،الفصل الثانى فى ذكر أولاده الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام،الناشر المکتبۃ التوفيقیۃ القاہرۃ)
ان کا فاطمہ نام اس لیے ہوا کہ اللہ نے ان کو اور ان کی تمام ذریت کو نار پر حرام فرمادیا۔
«إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ غَيْرَ مُعَذِّبِكِ، وَلَا وَلَدِكِ»
(المعجم الکبیر للطبراني،حدیث نمبر ١١٦٨٥،باب العین،عِكْرِمَةُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نےحضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ !اللہ نہ تجھے عذاب کرے گا نہ تیری اولاد میں کسی کو۔
پھر لکھتے ہیں:
"مگر حکم قطعی بے نص قطعی ناممکن ہے"
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"آل فاطمہ کا مخصوص اعزاز و امتیاز کیا حضرت فاطمہ خاتونِ جنت کے ذریعہ سے ہے کیوں کہ جناب سیدہ موصوفہ سید کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں یاحضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کی ذات خاص کی بدولت یہ رُتبہ سادات ہے؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کی اولاد امجاد اور بھی ہیں قریشی ہاشمی علوی ہونے سے ان کا دامان فضائل مالا مال ہے مگر یہ شرفِ اعظم حضرت سادات کرام کو ہے،اُن کے لیے نہیں یہ شرفِ حضرت بتول زہرا کی طرف سے ہے کہ:(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:)"«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي،فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔
(بخاری شریف،حدیث نمبر ٣٧١٤،كتاب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم،بابُ مَنَاقِبِ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،)
(اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے)"كُلُّ بَنِي آدَمَ يَنْتَمُونَ إِلَى عَصَبَةِ أَبِيهِمْ إِلَّا وَلَدَ فَاطِمَةَ فَإِنِّي أَنَا أَبُوهُمْ(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى،ص ٢٦٨،فصل، المؤلف علي بن (سلطان) محمد أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ)،الناشر: دار الأمانة / مؤسسة الرسالة بيروت)
سب کی اولادیں اپنے باپ کی طرف نسبت کی جاتی ہیں سوائے اولادِ فاطمہ کے کہ میں ان کا باپ ہوں،
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٢٩،ص ٦٣٩،تا ٦٤٠مسئلہ نمبر ۱۹۹و۲۰۰،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ:سادات کرام(سیدوں)کا مقام اتنا عظمت والا ہے کہ جو صحیح النسب سید ہیں ان کو اللہ تعالیٰ آخرت میں کسی گناہ پر عذاب نہ دے گا،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک سے بھی ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور ان کی تمام اولادوں پر جہنم حرام ہے،اور یہ مقام و رتبہ اور فضیلت سادات کرام کو اس وجہ ملی ہے کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اولاد ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا ہے،اسی وجہ سے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ کا موقف ہے کہ جو صحیح النسب سادات کرام ہیں ان سے کفر واقع نہیں ہوگا لیکن پھر بتاتا چلوں کہ یہ عقیدہ و نظریہ قطعی یقین نہیں بلکہ ظنی ہے چناں چہ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز نے یہ لکھا"مگر حکم قطعی بے نص قطعی ناممکن ہے" بہرحال!سادات کرام کو یہ بھی عظمت و خصوصیت حاصل ہے کہ ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چلتا ہے۔
پھر اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"ہاں سلامت ایمان(سادات کرام)کے اعمال کیسے ہی ہوں اللہ عزوجل کے کرم سے امید واثق یہ ہی ہے کہ جو اس کے علم میں سیّد ہیں اُن سے اصلًا کسی گناہ پر کچھ مواخذہ نہ فرمائے"
پھر اس کے بعد یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
«إِنَّ فَاطِمَةَ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَحَرَّمَ اللَّهُ ذُرِّيَتَهَا عَلَى النَّارِ»
[الحاكم، أبو عبد الله ,المستدرك على الصحيحين للحاكم ,حديث ٤٧٢٦،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم،وَمنْ مَنَاقِبِ أَهْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،الناشر دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان]
یعنی:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"بے شک فاطمہ نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو اللہ تعالٰی نے اس پر اور اس کی اولاد پر دوزخ کی آگ حرام فرمادی"
پھر لکھتے ہیں:
"اسی باب میں اور احادیث بھی وارد ہیں کہ ذریت بتول زہرا عذاب سے محفوظ ہے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٩،ص ٦٤١،مسئلہ ۲۰۱:،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے بھی واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ اور عقیدہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کو یہ عظمت و بزرگی حاصل ہے کہ جو بھی صحیح النسب سادات کرام ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کسی گناہ پر مواخذہ نہیں فرمائے بلکہ معاف فرما دے گا بلکہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ سادات کرام پر یعنی تمام اولاد فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"اقول:(احمد رضا بریلوی قادری کہتا ہو کہ)بڑے مال والے اگر اپنے خالص مالوں سے بطور ہدیہ ان حضراتِ عُلیہ(سادات کرام)کی خدمت نہ کریں تو ان کی بے سعادتی ہے،وُہ(قیامت کا)وقت یاد(کرو کہ) جب ان حضرات(سادات کرام)کے جدِّ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم(کے)سوا ظاہری آنکھوں کو بھی کوئی ملجا و ماوی نہ ملے گا، کیا پسند نہیں آتا کہ وُہ مال جو اُنھیں کے صدقے میں انھیں کی سرکار سے عطا ہُوا،جسے عنقریب چھوڑ کر پھر ویسے ہی خالی ہاتھ زیرِ زمین جانے والے ہیں،اُن کی خوشنودی کے لیے ان کے پاک مبارک بیٹوں(سادات کرام)پر اُس کا ایک حصّہ صرف کیا کریں کہ اُس سخت حاجت کے دن اُس جواد کریم رؤف و رحیم علیہ افضل الصلٰوۃوا لتسلیم کے بھاری انعاموں، عظیم اکرامو ں سے مشرف ہوں"
پھر یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"عن علي-----من صنع إلى أحد من أهل بيتي يدا كافأته عليها يوم القيامة"
(کنز العمال،ج ١٢،ص ٩٥،حدیث نمبر ٣٤١٥٢،حرف الفاء،تابع لکتاب الفضائل من قسم الأفعال،الباب الخامس في فضل أهل البيت، الفصل الأول في فضلهم مجملا،الناشر موسسۃ الرسالۃ لبنان)
یعنی:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میَں روزِ قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا"
پھر یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ صَنَعَ صَنِيعَةً إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلَفِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي الدُّنْيَا....فَعَلَيَّ مُكَافَأَتُهُ إِذَا لَقِيَنِي"
(تاريخ بغداد،ج ١١،ص ٣١١،باب العین،ذکر من اسمہ عبد اللہ و ابتداء اسم ابیہ حرف الألف،حرف المیم،عبد اللہ بن محمد،عبد الله بن محمد بن أبي كامل أبو محمد الفزاري،الناشر دار الغرب الإسلامی بیروت)
یعنی:حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جو شخص اولادِ عبدالمطلب میں(سے)کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی کرے اس کا صلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وُہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا"
پھر لکھتے ہیں:
"اللہ اکبر!اللہ اکبر!قیامت کا دن، وُہ قیامت کا دن ، وہ سخت ضرورت سخت حاجت کا دن،اور ہم جیسے محتاج،اور صلہ عطا فرمانے کو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سا صاحب التاج،خدا جانے کیا کچھ دیں اور کیسا کُچھ نہال فرمادیں، ایک نگاہِ لُطف اُن کی جملہ مہمات دو جہاں کو بس ہے،بلکہ خود یہی صلہ کروڑوں صلے سے اعلیٰ وانفس ہے،جس کی طرف کلمہ کریمہ اذا لقینی(جب روز قیامت مجھ سے ملےگا۔)اشارہ فرماتا ہے، بلفظِ اذا تعبیر فرمانا بحمد اللہ بروزِ قیامت وعدہ وصال ودیدارِ محبوبِ ذی الجلال کا مژدہ سُناتا ہے۔مسلمانو!اور کیا درکار ہے دوڑو اور اس دولت و سعادت کو لو و باﷲالتوفیق اور متوسط حال والے اگر مصارف مستحبہ کی وسعت نہیں دیکھتے تو بحمد اللہ وُہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوٰۃ کی زکوٰۃ ادا ہو اور خدمتِ سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرفِ زکوٰۃ معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے، مالِ زکوٰۃ سے کچھ روپے بہ نیتِ زکوٰۃ دے کر مالک کردے،پھر اس سے کہے تم اپنے طرف سے فلاں سیّد کی نذر کر دو اس میں دونو ں مقصود حاصل ہو جائیں گے کہ زکوٰۃ تو اس فقیر کو گئی اور یہ جو سیّد نے پایا نذرانہ تھا،اس کا فرض ادا ہوگیا اور خدمتِ سیّد کا کامل ثواب اسے اور فقیر دونوں کو ملا"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ١٠،ص ١٠٥،و ١٠٦،مسئلہ نمبر ١٢تا۱۸،تجلّی المشکوٰۃ لانارۃ اسئلۃ الزّکوٰۃ ۱۳۰۷ھ،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز تمام مسلمانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ اے مسلمانو!اگر چاہتے ہو کہ قیامت کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ملے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر عنایت تم پر ہو سادات کرام کی خدمت کرو ان کی غلامی اختیار کرو!ان کی خدمت نہ کرنا بڑی بے سعادتی ہے،سنو!دنیا میں جو مسلمان بھی سادات کرام کے ساتھ نیکی کا کام کرے گا قیامت کے دن اس کا صلہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائیں گے۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام کا ادنٰی غلام وخاکپاہے۔ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات شفاعت جانتا ہے،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگر بدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے،ہاں بعدِ کفر سیادت ہی نہیں رہتی،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔اور یہ بھی فقیر بارہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سیدجاننا ضروری نہیں،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے،ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں،نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔اور خواہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں۔" الناس امنأ علی انسابھم(لوگ اپنے نسب پرامین ہیں)،ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کردیاجائے۔میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سےالجھا،انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا۔کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی۔رات کو زیارتِ اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا،اعراض فرمایا:اس نے عرض کی:میں بھی حضور کا امتی ہوں۔فرمایا:کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج ٢٩،ص ٥٨٨ و ٥٨٩،مسئلہ نمبر ١٦٧،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم اہل سنت کا طریقہ اور مسلک یہ ہے کہ جو سادات کہلاتے ہیں انہیں سید مانے اور کسی مشہور و معروف سید کی سیادت کی تحقیقات ہمیں اپنے علم سے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،نہ ان سے سیادت کی سند مانگنے کی ضرورت ہے،اگر وہ سیادت کے دعویٰ میں جھوٹا ہے قیامت میں ان کو جواب دینا ہوگا۔ہاں اگر کوئی ایسا ہے جو آپ کے سامنے سید بنا ہے اور آپ بالکل یقین اور تحقیق سے معلوم ہے کہ وہ سید نہیں تو پھر قوم کے سامنے ان کے مکر و فریب سے لوگوں کو بچاؤ،نیز یہ بھی پیغام بھی دیا کہ:سادات کرام سے محبت شفاعت و نجات کا ذریعہ ہے۔
......جاری........
ضروری اپیل!اہل علم سے گزارش ہے کہ راقم سے کوئی عبارت سمجھنے میں یا نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی خطا ہوئی تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کرلی جائے۔
تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی
-----------قسط چہارم------------
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:کیا سید پر دوزخ کی آنچ قطع حرام ہے،اور وہ کسی بداعمالی کی پاداش میں دوزخ میں جاہی نہ سکے گا؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ساداتِ کرام جو واقعی علمِ الٰہی میں سادات ہوں ان کے بارے میں رب عزوجل سےامید واثق یہی ہے کہ آخرت میں اُن کو کسی گناہ پر عذاب نہ دیا جائے گا"
پھر یہ دو حدیث نقل کرتے ہیں"
«إنما سميت فاطمة، لأن الله قد فطمها وذريتها عن النار يوم القيامة»
(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج ١ ،المقصد الثانی،ص ٤٨٢،الفصل الثانى فى ذكر أولاده الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام،الناشر المکتبۃ التوفيقیۃ القاہرۃ)
ان کا فاطمہ نام اس لیے ہوا کہ اللہ نے ان کو اور ان کی تمام ذریت کو نار پر حرام فرمادیا۔
«إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ غَيْرَ مُعَذِّبِكِ، وَلَا وَلَدِكِ»
(المعجم الکبیر للطبراني،حدیث نمبر ١١٦٨٥،باب العین،عِكْرِمَةُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نےحضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ !اللہ نہ تجھے عذاب کرے گا نہ تیری اولاد میں کسی کو۔
پھر لکھتے ہیں:
"مگر حکم قطعی بے نص قطعی ناممکن ہے"
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز سے سوال ہوا کہ:"آل فاطمہ کا مخصوص اعزاز و امتیاز کیا حضرت فاطمہ خاتونِ جنت کے ذریعہ سے ہے کیوں کہ جناب سیدہ موصوفہ سید کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں یاحضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کی ذات خاص کی بدولت یہ رُتبہ سادات ہے؟"
تو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کی اولاد امجاد اور بھی ہیں قریشی ہاشمی علوی ہونے سے ان کا دامان فضائل مالا مال ہے مگر یہ شرفِ اعظم حضرت سادات کرام کو ہے،اُن کے لیے نہیں یہ شرفِ حضرت بتول زہرا کی طرف سے ہے کہ:(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:)"«فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي،فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔
(بخاری شریف،حدیث نمبر ٣٧١٤،كتاب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم،بابُ مَنَاقِبِ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،)
(اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے)"كُلُّ بَنِي آدَمَ يَنْتَمُونَ إِلَى عَصَبَةِ أَبِيهِمْ إِلَّا وَلَدَ فَاطِمَةَ فَإِنِّي أَنَا أَبُوهُمْ(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى،ص ٢٦٨،فصل، المؤلف علي بن (سلطان) محمد أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (المتوفى: 1014هـ)،الناشر: دار الأمانة / مؤسسة الرسالة بيروت)
سب کی اولادیں اپنے باپ کی طرف نسبت کی جاتی ہیں سوائے اولادِ فاطمہ کے کہ میں ان کا باپ ہوں،
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٢٩،ص ٦٣٩،تا ٦٤٠مسئلہ نمبر ۱۹۹و۲۰۰،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ:سادات کرام(سیدوں)کا مقام اتنا عظمت والا ہے کہ جو صحیح النسب سید ہیں ان کو اللہ تعالیٰ آخرت میں کسی گناہ پر عذاب نہ دے گا،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک سے بھی ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور ان کی تمام اولادوں پر جہنم حرام ہے،اور یہ مقام و رتبہ اور فضیلت سادات کرام کو اس وجہ ملی ہے کہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اولاد ہیں اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا ہے،اسی وجہ سے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ کا موقف ہے کہ جو صحیح النسب سادات کرام ہیں ان سے کفر واقع نہیں ہوگا لیکن پھر بتاتا چلوں کہ یہ عقیدہ و نظریہ قطعی یقین نہیں بلکہ ظنی ہے چناں چہ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز نے یہ لکھا"مگر حکم قطعی بے نص قطعی ناممکن ہے" بہرحال!سادات کرام کو یہ بھی عظمت و خصوصیت حاصل ہے کہ ان کا نسب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چلتا ہے۔
پھر اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"ہاں سلامت ایمان(سادات کرام)کے اعمال کیسے ہی ہوں اللہ عزوجل کے کرم سے امید واثق یہ ہی ہے کہ جو اس کے علم میں سیّد ہیں اُن سے اصلًا کسی گناہ پر کچھ مواخذہ نہ فرمائے"
پھر اس کے بعد یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
«إِنَّ فَاطِمَةَ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَحَرَّمَ اللَّهُ ذُرِّيَتَهَا عَلَى النَّارِ»
[الحاكم، أبو عبد الله ,المستدرك على الصحيحين للحاكم ,حديث ٤٧٢٦،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم،وَمنْ مَنَاقِبِ أَهْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،الناشر دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان]
یعنی:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"بے شک فاطمہ نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو اللہ تعالٰی نے اس پر اور اس کی اولاد پر دوزخ کی آگ حرام فرمادی"
پھر لکھتے ہیں:
"اسی باب میں اور احادیث بھی وارد ہیں کہ ذریت بتول زہرا عذاب سے محفوظ ہے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٩،ص ٦٤١،مسئلہ ۲۰۱:،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے بھی واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ اور عقیدہ دے رہے ہیں کہ سادات کرام کو یہ عظمت و بزرگی حاصل ہے کہ جو بھی صحیح النسب سادات کرام ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کسی گناہ پر مواخذہ نہیں فرمائے بلکہ معاف فرما دے گا بلکہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ سادات کرام پر یعنی تمام اولاد فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر دوزخ کی آگ حرام ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"اقول:(احمد رضا بریلوی قادری کہتا ہو کہ)بڑے مال والے اگر اپنے خالص مالوں سے بطور ہدیہ ان حضراتِ عُلیہ(سادات کرام)کی خدمت نہ کریں تو ان کی بے سعادتی ہے،وُہ(قیامت کا)وقت یاد(کرو کہ) جب ان حضرات(سادات کرام)کے جدِّ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم(کے)سوا ظاہری آنکھوں کو بھی کوئی ملجا و ماوی نہ ملے گا، کیا پسند نہیں آتا کہ وُہ مال جو اُنھیں کے صدقے میں انھیں کی سرکار سے عطا ہُوا،جسے عنقریب چھوڑ کر پھر ویسے ہی خالی ہاتھ زیرِ زمین جانے والے ہیں،اُن کی خوشنودی کے لیے ان کے پاک مبارک بیٹوں(سادات کرام)پر اُس کا ایک حصّہ صرف کیا کریں کہ اُس سخت حاجت کے دن اُس جواد کریم رؤف و رحیم علیہ افضل الصلٰوۃوا لتسلیم کے بھاری انعاموں، عظیم اکرامو ں سے مشرف ہوں"
پھر یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"عن علي-----من صنع إلى أحد من أهل بيتي يدا كافأته عليها يوم القيامة"
(کنز العمال،ج ١٢،ص ٩٥،حدیث نمبر ٣٤١٥٢،حرف الفاء،تابع لکتاب الفضائل من قسم الأفعال،الباب الخامس في فضل أهل البيت، الفصل الأول في فضلهم مجملا،الناشر موسسۃ الرسالۃ لبنان)
یعنی:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میَں روزِ قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا"
پھر یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ صَنَعَ صَنِيعَةً إِلَى أَحَدٍ مِنْ خَلَفِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي الدُّنْيَا....فَعَلَيَّ مُكَافَأَتُهُ إِذَا لَقِيَنِي"
(تاريخ بغداد،ج ١١،ص ٣١١،باب العین،ذکر من اسمہ عبد اللہ و ابتداء اسم ابیہ حرف الألف،حرف المیم،عبد اللہ بن محمد،عبد الله بن محمد بن أبي كامل أبو محمد الفزاري،الناشر دار الغرب الإسلامی بیروت)
یعنی:حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جو شخص اولادِ عبدالمطلب میں(سے)کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی کرے اس کا صلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وُہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا"
پھر لکھتے ہیں:
"اللہ اکبر!اللہ اکبر!قیامت کا دن، وُہ قیامت کا دن ، وہ سخت ضرورت سخت حاجت کا دن،اور ہم جیسے محتاج،اور صلہ عطا فرمانے کو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سا صاحب التاج،خدا جانے کیا کچھ دیں اور کیسا کُچھ نہال فرمادیں، ایک نگاہِ لُطف اُن کی جملہ مہمات دو جہاں کو بس ہے،بلکہ خود یہی صلہ کروڑوں صلے سے اعلیٰ وانفس ہے،جس کی طرف کلمہ کریمہ اذا لقینی(جب روز قیامت مجھ سے ملےگا۔)اشارہ فرماتا ہے، بلفظِ اذا تعبیر فرمانا بحمد اللہ بروزِ قیامت وعدہ وصال ودیدارِ محبوبِ ذی الجلال کا مژدہ سُناتا ہے۔مسلمانو!اور کیا درکار ہے دوڑو اور اس دولت و سعادت کو لو و باﷲالتوفیق اور متوسط حال والے اگر مصارف مستحبہ کی وسعت نہیں دیکھتے تو بحمد اللہ وُہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوٰۃ کی زکوٰۃ ادا ہو اور خدمتِ سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرفِ زکوٰۃ معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے، مالِ زکوٰۃ سے کچھ روپے بہ نیتِ زکوٰۃ دے کر مالک کردے،پھر اس سے کہے تم اپنے طرف سے فلاں سیّد کی نذر کر دو اس میں دونو ں مقصود حاصل ہو جائیں گے کہ زکوٰۃ تو اس فقیر کو گئی اور یہ جو سیّد نے پایا نذرانہ تھا،اس کا فرض ادا ہوگیا اور خدمتِ سیّد کا کامل ثواب اسے اور فقیر دونوں کو ملا"
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ١٠،ص ١٠٥،و ١٠٦،مسئلہ نمبر ١٢تا۱۸،تجلّی المشکوٰۃ لانارۃ اسئلۃ الزّکوٰۃ ۱۳۰۷ھ،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز تمام مسلمانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ اے مسلمانو!اگر چاہتے ہو کہ قیامت کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ملے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر عنایت تم پر ہو سادات کرام کی خدمت کرو ان کی غلامی اختیار کرو!ان کی خدمت نہ کرنا بڑی بے سعادتی ہے،سنو!دنیا میں جو مسلمان بھی سادات کرام کے ساتھ نیکی کا کام کرے گا قیامت کے دن اس کا صلہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائیں گے۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام کا ادنٰی غلام وخاکپاہے۔ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات شفاعت جانتا ہے،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگر بدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے،ہاں بعدِ کفر سیادت ہی نہیں رہتی،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔اور یہ بھی فقیر بارہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سیدجاننا ضروری نہیں،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے،ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں،نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔اور خواہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں۔" الناس امنأ علی انسابھم(لوگ اپنے نسب پرامین ہیں)،ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کردیاجائے۔میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سےالجھا،انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا۔کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی۔رات کو زیارتِ اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا،اعراض فرمایا:اس نے عرض کی:میں بھی حضور کا امتی ہوں۔فرمایا:کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج ٢٩،ص ٥٨٨ و ٥٨٩،مسئلہ نمبر ١٦٧،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم اہل سنت کا طریقہ اور مسلک یہ ہے کہ جو سادات کہلاتے ہیں انہیں سید مانے اور کسی مشہور و معروف سید کی سیادت کی تحقیقات ہمیں اپنے علم سے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،نہ ان سے سیادت کی سند مانگنے کی ضرورت ہے،اگر وہ سیادت کے دعویٰ میں جھوٹا ہے قیامت میں ان کو جواب دینا ہوگا۔ہاں اگر کوئی ایسا ہے جو آپ کے سامنے سید بنا ہے اور آپ بالکل یقین اور تحقیق سے معلوم ہے کہ وہ سید نہیں تو پھر قوم کے سامنے ان کے مکر و فریب سے لوگوں کو بچاؤ،نیز یہ بھی پیغام بھی دیا کہ:سادات کرام سے محبت شفاعت و نجات کا ذریعہ ہے۔
......جاری........
ضروری اپیل!اہل علم سے گزارش ہے کہ راقم سے کوئی عبارت سمجھنے میں یا نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی خطا ہوئی تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کرلی جائے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طالب دعا:شبیر احمد راج محلی۔
جنرل سیکریٹری:- تنظیم علمائے اہل سنت راج محل(رجسٹرڈ)و خادم التدريس دارالعلوم گلشن کلیمی راج محل۔
٢٤/اگست ٢٠٢٤ء بروز سنیچر
طالب دعا:شبیر احمد راج محلی۔
جنرل سیکریٹری:- تنظیم علمائے اہل سنت راج محل(رجسٹرڈ)و خادم التدريس دارالعلوم گلشن کلیمی راج محل۔
٢٤/اگست ٢٠٢٤ء بروز سنیچر