(سوال نمبر 5295)
فرعون دریاۓ نیل میں غرق ہوا تھا یا سمندر میں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمتہ اللّه و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فرعون دریاۓ نیل میں غرق ہوا تھا یا سمندر میں کیوں لوگوں میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے
از راہ کرم رہ نمائی فرما کر مشکور ہونے کا موقع عنایت فرمائیں
سائل:- محمدعلی عطاری قادری ٹنڈوآدم سندھ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
فرعون دریائے نیل میں غرق ہوا ۔دریائے نیل سمندر کا ہی حصہ ہے
نیل ازرق ایتھوپیا کے پہاڑوں میں واقع جھیل ٹانا سے نکلتا ہے۔ یہ 1400 کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد سوڈان کے دار الحکومت خرطوم کے قریب نیل ابیض میں مل جاتا ہے اور دریائے نیل تشکیل دیتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے تقریباً 15 سو سال قبل بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے آنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کئی معجزوں سے نوازا تھا۔
ان کا ایک معجزہ دریائے نیل کا 2 حصوں میں منقسم ہوجانا بھی تھا۔ مصر کے حکمران، فرعون وقت رعمیسس نے جب حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی حد کردی تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والوں کو مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔
حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے بہت سے افراد مصر چھوڑنے کے لیے دریائے نیل کے کنارے پہنچے۔ فرعون بھی تخت و طاقت کے نشے میں چور کسی بدمست ہاتھی کی طرح انہیں مار ڈالنے کے لیے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا ان کے سروں پر جا کھڑا ہوا۔
اس وقت شدید طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں اور دریائے نیل بپھرا ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ سخت پریشان تھے کہ فرعون سے بچنے کے لیے دوسری طرف کیسے جایا جائے۔ تب ہی خدا نے اپنی قدرت دیکھا یا اور دریائے نیل کے پانی کو دیوار کی صورت دو حصوں میں تقسیم کردیا۔
دریا کے بیچ ایک خشک راستہ ابھر آیا اور حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والے اس راستے سے باآسانی گزر کر دوسری جانب چلے گئے۔ فرعون نے بھی یہ راستہ دیکھا تو اپنی فوج کو اسی راستے پر اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا۔
جب فرعون اور اس کی فوج دریا کے بیچ میں پہنچی تو اللہ کے حکم سے پانی واپس اپنی جگہ آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچوں بیچ غرق آب ہوگیا۔ فرعون کی حنوط شدہ لاش آج تک عقل رکھنے والوں کے لیے نشان عبرت ہے۔
المرأة المناجیح میں ہے
نمرود کی آگ بظاہر آگ تھی مگر حضرت خلیل کے لیے باغ،دریا نیل کا پانی بظاہر پانی تھا مگر فرعونیوں کے لیے آگ۔
فرعون دریاۓ نیل میں غرق ہوا تھا یا سمندر میں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمتہ اللّه و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فرعون دریاۓ نیل میں غرق ہوا تھا یا سمندر میں کیوں لوگوں میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے
از راہ کرم رہ نمائی فرما کر مشکور ہونے کا موقع عنایت فرمائیں
سائل:- محمدعلی عطاری قادری ٹنڈوآدم سندھ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
فرعون دریائے نیل میں غرق ہوا ۔دریائے نیل سمندر کا ہی حصہ ہے
نیل ازرق ایتھوپیا کے پہاڑوں میں واقع جھیل ٹانا سے نکلتا ہے۔ یہ 1400 کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد سوڈان کے دار الحکومت خرطوم کے قریب نیل ابیض میں مل جاتا ہے اور دریائے نیل تشکیل دیتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے تقریباً 15 سو سال قبل بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے آنے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے کئی معجزوں سے نوازا تھا۔
ان کا ایک معجزہ دریائے نیل کا 2 حصوں میں منقسم ہوجانا بھی تھا۔ مصر کے حکمران، فرعون وقت رعمیسس نے جب حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی حد کردی تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والوں کو مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔
حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے بہت سے افراد مصر چھوڑنے کے لیے دریائے نیل کے کنارے پہنچے۔ فرعون بھی تخت و طاقت کے نشے میں چور کسی بدمست ہاتھی کی طرح انہیں مار ڈالنے کے لیے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا ان کے سروں پر جا کھڑا ہوا۔
اس وقت شدید طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں اور دریائے نیل بپھرا ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ سخت پریشان تھے کہ فرعون سے بچنے کے لیے دوسری طرف کیسے جایا جائے۔ تب ہی خدا نے اپنی قدرت دیکھا یا اور دریائے نیل کے پانی کو دیوار کی صورت دو حصوں میں تقسیم کردیا۔
دریا کے بیچ ایک خشک راستہ ابھر آیا اور حضرت موسیٰ اور ان کے ماننے والے اس راستے سے باآسانی گزر کر دوسری جانب چلے گئے۔ فرعون نے بھی یہ راستہ دیکھا تو اپنی فوج کو اسی راستے پر اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا۔
جب فرعون اور اس کی فوج دریا کے بیچ میں پہنچی تو اللہ کے حکم سے پانی واپس اپنی جگہ آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر دریا کے بیچوں بیچ غرق آب ہوگیا۔ فرعون کی حنوط شدہ لاش آج تک عقل رکھنے والوں کے لیے نشان عبرت ہے۔
المرأة المناجیح میں ہے
نمرود کی آگ بظاہر آگ تھی مگر حضرت خلیل کے لیے باغ،دریا نیل کا پانی بظاہر پانی تھا مگر فرعونیوں کے لیے آگ۔
(المرأة المناجیح ج 7 ص 308 مکتبہ المدینہ)
یاد رہے جس دریائے نیل میں فرعون ڈوبا وہ مصر میں ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
یاد رہے جس دریائے نیل میں فرعون ڈوبا وہ مصر میں ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/11/2023
30/11/2023