Type Here to Get Search Results !

مدرسہ کی طالبات کی تصویر نکال کر شوشل میڈیا پر ڈالنا شرعا کیا حکم ہے؟

 (سوال نمبر 5288)
مدرسہ کی طالبات کی تصویر نکال کر شوشل میڈیا پر ڈالنا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفیان شرع متین ھندہ ایک عالمہ ھے اور وہ مدرسے میں بچیوں کو پڑھاتی ہے بچیاں نقاب پہن کے کلاس میں بیٹھتی ہیں پڑھتی ہیں
ہندہ ان بچیوں کی تصویر کھینچ کر کے زید کو دیتی ہے یا زید خود کھینچتا ہے جاکر اور سوشل میڈیا پہ ڈالتا ہے اور زید ایک مسجد کا امام ہے امامت کر رہا ہے نماز پڑھا رہا ہے لوگوں کو اور زید ہندہ ان دونوں کا کہنا کہ اس طریقے سے نقاب پہن کر تصویر کھینچنا یہ تصویر کے حکم میں نہیں ہے بلکہ یہ جائز ہے۔ 
ہندہ اور زید کا اس طریقے سے کہنا کہاں تک درست ہے اور زید جو امامت کر رہا ہے اور اس چیز کو بیان کر رہا ہے ان کے اوپر کیا حکم لگے گا کیا ان کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی نماز ہو جاتی ہے جو کہ حرام کام کو جائز کہہ رہا ہے۔ 
اور ہندہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے
المستفتیہ:- سائرہ رضویہ صاحبہ مھاراشٹرہ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
تصویر کے حوالے سے سب سے پہلے تو یہ یاد رہے کہ ڈیجیٹل تصویر بنانا جائز ہے کیونکہ وہ تصویر نہیں ہےعکس ہےلیکن جب وہ چَھپ جائے یعنی پرنٹ ہوجائے تو اب اس پر تصویر کا اطلاق ہوگا (فتاوی اہل سنت)
مذکورہ صورت میں اگر زیدہ اور ہندہ کا مقصود باحجاب تصویر کھیچ کر شوسل میڈیا پر ڈالنے سے خواتین میں ترغیب تعلیم ہو تو اس میں حرج نہیں ہے اور کوئی مقصود نہ ہو بلکہ یونہی تفریح و لہو لعب کے لیے ہو اگرچہ مع حجاب ہو پھر جائز نہیں ہے۔
چونکہ تصویر کشی کے بابت علماء فقہ کا اختلاف ہے اس لئے زید با مقصد تصویر کشی کرنے والے کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جاٸز ہے جبکہ دیگر شرائط امامت ہوجود ہوں۔
یاد رہے کہ اس میں سے پہلی بات یعنی نفس تصویر کا حکم یعنی ڈیجیٹل کیمرے سے لی گئی تصویر میں علماء کے درمیان اختلاف ہے بعض علماء کرام ناجائز اور بعض علماء کرام جائز قرار دیتے ہیں۔
جو علماء کرام جائز کہتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ڈیجیٹل کیمرے سے لی گئی تصویر کا جب تک پرنٹ نہ لیا گیا ہو یا اسے پائیدار طریقے سے کسی چیز پر نقش نہ کیا گیا ہو اس وقت تک وہ تصویر محرم میں داخل نہیں، بشرطیکہ اس تصویر یا ویڈیو میں نامحرم افراد بدوں حجاب بلا مقصد یا فحش مناظر نہ ہوں ڈیجیٹل کیمرہ کی جس تصویر کی گنجائش دی گئی ہے، اس سے مراد اس چیز کی تصویر ہے، جس کو خارج میں بغیر تصویر کے دیکھنا بھی جائز ہے۔ اور جس چیز کو خارج میں بغیر تصویر کے دیکھنا جائز نہیں، اس کی تصویر یا ویڈیو بنانا بھی جائز نہیں، لہذا ڈیجیٹل تصویر کے جواز کے فتویٰ کا تعلق اس چیز کی ڈیجیٹل تصویر سے ہے، جس کو خارج میں دیکھنا جائز ہو، اور جس چیز کو خارج میں دیکھنا جائز نہیں، اس کی تصویر کو ان حضرات نے فتویٰ میں ہر گز جائز قرار نہیں دیا ہے،
ڈیجیٹل یا نان ڈیجیٹل کیمرہ سے نامحرم افراد کی تصویر لینا یا فحش اور ناجائز مناظر کی تصاویر محفوظ کرنا یا موسیقی کے ساتھ مناظر کو محفوظ کرنا اور دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ڈیجیٹل کیمرہ سے بنائی گئی ایسی ویڈیو جس میں جائز حدود میں تفریحی مواد ہو اسے دیکھنا شرعاً جائز ہے، لیکن جس ویڈیو کے اندر نامحرم خواتین کی تصویر ہو یا موسیقی ہو یا فحش مناظر ہو، ایسی تفریحی ویڈیو دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ڈیجیٹل کیمرہ سے متعلق جن علماء نے جواز کا فتویٰ دیا ہے، وہ حاجت شرعیہ ضرورت کے مواقع پر استعمال کے لیے دیا گیا ہے، لہذا بلا ضرورت شرعیہ محض تفریح کے لیے استعمال کرنے سے احتیاط کرنا بہتر ہے۔۔
مزید تفصیل میرا مضمون (تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے) کا مطالعہ کریں۔
 واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
 29/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area