الذکر المختصر فی القطب المزدھر / حضور شاہ بدیع الدین قطب المدار علیہ الرحمہ کے احوال و آثار کا گراں قدر دستاویزی مجموعہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
سوانح نگاری کا شمار " غیر افسانوی ادب " میں ہوتا ہے ۔
سوانح نگاری کا شمار " غیر افسانوی ادب " میں ہوتا ہے ۔
سوانحؔ ٬ سانحہؔ کی جمع ہے ۔ ظاہر ہونے والی چیز اور پیش آنے والے واقعہ و حادثہ کو " سانحہ " کہتے ہیں ۔ لیکن جب " سوانح " کے ساتھ " عمری " کا لاحقہ ہو تو اس وقت یہ ترکیب کسی بھی عظیم شخصیت کی حیات و خدمات اور اس کی حالاتِ زندگی کے مفہوم پر دلالت کرتی ہے ۔ داستان ، افسانہ ، ڈرامہ ، اور ناول جیسی تمام اصناف کو " افسانوی ادب " کا درجہ حاصل ہے ۔ جب کہ مضمون ، مقالہ ٬ سوانح ، سیرت و تذکرہ ٬ خاکہ ، سفر نامہ ، خود نوشت سوانح ، طنز و مزاح ، مکتوب ، انشائیہ اور رپور تاژ جیسی اصناف " غیر افسانوی ادب " کے زمرے میں آتی ہیں ۔ فورٹ ولیم کالج ٬ کلکتہ اور فورٹ سینٹ چارج کالج مدراس کے توسط سے " افسانوی ادب " کا فروغ ہوا اور اردو ادب پر داستانوں کی حکمرانی رہی ۔ لیکن 1824 ء میں دہلی کالج کے قیام کے بعد " غیر افسانوی ادب " کی طرف توجہ دی گئی ٬ جس سے مضمون نویسی اور سوانح نگاری کے فن کا آغاز ہوا ۔ علی گڑھ تحریک سے غیر افسانوی ادب کو کافی فروغ ملا ٬ جس میں تذکرہ نویسی و سوانح نگاری خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہے ۔ سوانح نگاری کو " تذکرہ نویسی " بھی کہتے ہیں ۔ راقم الحروف کی محدود معلومات کے مطابق تذکرہؔ میں ایجاز و اختصار ہوتا ہے ٬ جب کہ سوانحؔ میں تفصیل ہوتی ہے ۔ ولادت سے لے کر وفات تک کے احوالِ زندگی کو مدلل و مفصل انداز میں بیان کرنے کو " سوانح نگاری " کہتے ہیں ۔
ڈاکٹر نسیم الدین فریس کے بقول :
سوانح عمری سے مراد ہے عمر ( عہد ) نسل اور ماحول پر اثر ڈالنے والے عوامل کے حوالے سے کسی شخص کی داخلی اور خارجی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایسا جامع ، مفصل اور معروضی مطالعہ جو اس کی زندگی کے ارتقا اور اس کے ظاہر و باطن کو روشنی میں لا کر اس کی ایک قد آدم اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرے ۔ سوانح ایک ایسی دستاویز ہے جس میں کسی انسان کی ولادت سے لے کر وفات تک کے تمام حالات و واقعات ، افکار و افعال زمان و مکان کی صراحت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں ۔ سوانح کے کینوس پر زمان ومکان کے تناظر میں کسی انسان کی چلتی پھرتی متحرک تصویر اس طرح سرگرم فکر اور مصروفِ عمل نظر آتی ہے کہ اس کی سیرت و شخصیت اور سرگزشت کے تمام پہلو ہمارے سامنے آ جاتے ہیں ۔
اپنے دعوتی مشن اور تبلیغی مساعی سے ارضِ ہند کو لالہ زار بنانے والی عظیم المرتبت شخصیات میں شیخ المشائخ ٬ قطب الاقطاب ٬ قدوۃ الاولیاء حضور سید شاہ بدیع الدین قطب المدار علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۸۳۸ ھ ) کا نام بھی سرِ فہرست ہے ٬ جو عرفِ عام میں " زندہ شاہ مدار " کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ آپ کا شمار برِّ صغیر پاک و ہند کے جلیل القدر اولیا ٬ عظیم المرتبت صوفیا اور مایۂ ناز مشائخ میں ہوتا ہے ۔ آپ عبادت و ریاضت ٬ مجاہدہ و مکاشفہ اور کشف و کرامات میں بے مثال اور یگانۂ روزگار تھے ۔ آپ کی ذات سے دینِ اسلام کا بے پناہ فروغ اور صوفیانہ مسلک و مشرب کی توسیع و اشاعت ہوئی ۔ آپ نہایت عابد و زاہد ٬ صابر و شاکر ٬ متواضع اور قانع بزرگ تھے ۔ اپنی نگاہِ کیمیا اثر سے ہزاروں اشخاص کے قلوب کو منور و مجلیٰ فرمایا ۔ انگنت افراد کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور بیشمار بھٹکے ہوئے بندگانِ خدا کو صراطِ مستقیم پر گامزن فرمایا ۔ آپ کی پوری زندگی دعوت و تبلیغ ٬ رشد و ہدایت ٬ وعظ و ارشاد اور خدمتِ خلق میں بسر ہوئی ۔ اگر چہ آپ کو شہرت " قطب المدار " سے ملی ( جو کہ ولایت کا ایک اعلیٰ مقام ہے ) ، لیکن آپ کا مقام و مرتبہ اس سے بھی کہیں اعلیٰ و ارفع ہے ۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بلند مقامات اور اعلیٰ مدارج سے سرفراز فرمایا تھا ۔ آپ صاحبِ مقاماتِ کبریٰ تھے ۔ غوث العالم ، محبوبِ یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کے علاوہ سینکڑوں صوفیا و مشائخ اور علما و مصنفین نے آپ کے علمی تبحر ، مقاماتِ عالیہ اور آپ کی بلند و بالا روحانی و عرفانی شخصیت کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے ۔ مرزا لعل بیگ بدخشی نے اپنی مایۂ ناز تصنیف " ثمرات القدس من شجرات الاُنس " میں آپ کا تعارف ان الفاظ میں پیش کیا ہے ٬ جس سے آپ کی شانِ ولایت اور مرتبۂ روحانیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے :
سید بدیع الدین قطب الادوار لقب بہ " شاہ مدار " قدس سرہ ، از کبرائے مشائخ ہند و عظمائے عرفائے آں دیار ست ، بسیار عالی قدر و صاحبِ کراماتِ ظاہرہ و عاداتِ فاخرہ بود و مقامات علیّہ و کمالات جلیّہ و مواہبِ جزیلہ و احوالِ سنیّہ داشت ۔
( ثمرات القدس من شجرات الانس ، ص : ۴۱ ، مطبوعہ : پزوہشگاہ علوم انسانی و مطالعاتِ فرنگی ، تہران )
علمی و تحقیقی سفر ایک مسلسل جد و جہد کا نام ہے ٬ جس میں تغافل و تکاسل کی کوئی جگہ نہیں ۔ بیدار مغزی ٬ علوئے ہمتی اور جانفشانی کے بغیر یہ سفر منزل آشنا ہو سکتا ہے اور نہ اپنے اہداف تک رسائل حاصل کر سکتا ہے ۔ ایک محقق اپنے خونِ جگر سے علم و تحقیق کا چراغ روشن کرتا ہے ٬ جس سے زمانہ صدیوں تک روشنی حاصل کرتا ہے ۔ محققِ عصر ٬ فاضلِ گرامی حضرت علامہ مفتی ہاشم علی بدیعی مصباحی دام ظلہ العالی نے " الذکر المختصر فی القطب المزدھر " کی شکل میں علم و تحقیق کا جو چراغ جلایا ہے ٬ اس کی روشنی بزمِ علم و تحقیق کو منور اور نئی نسل کو فیضیاب کرتی رہے گی ۔ تذکرہ و سوانح کی کتابیں آئے دن منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں ٬ لیکن زیرِ نظر کتاب میں جو علم و تحقیق کا رنگ ہے ٬ وہ قابلِ قدر اور لائقِ ستائش ہے ۔ موصوف نے درجنوں کِرم خوردہ مخطوطات اور نادر و نایاب کتب و رسائل کی مدد سے عربی زبان میں ایک ایسا بلند پایہ مجموعہ تیار کیا ہے جسے ہم " کرامتِ زندہ شاہ مدار " ہی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے سطر سطر سے مصنف کی دقتِ نظری ٬ تحقیقی شعور اور تصنیفی ہنر مندی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مولانا موصوف سے راقم الحروف کا علمی رابطہ گذشتہ چند سالوں سے ہے ۔ تحقیق و تفحّص ان کی فطرت میں شامل ہے ۔ تذکرہ و سوانح اور تصوف و صوفیا ان کا خاص میدان ہے ۔ " سلسلہ عالیہ مداریہ اور اس کے متعلقات و مخطوطات " پر ایسی گہری نظر رکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ جب بھی کسی علمی موضوع پر ان سے گفتگو ہوتی ہے ٬ معلومات میں اضافہ کیے بغیر نہیں رہتے ۔ غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ پر جس وقت راقم الحروف کام کر رہا تھا ٬ آپ نے درجنوں ماخذ کی نشان دہی کر کے میری علمی مدد اور علمی رہنمائی فرمائی تھی ۔ 264 / صفحات پر مشتمل اس کتاب ( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ) میں موضوع سے متعلق وہ ساری قیمتی مواد موجود ہے جو علم و تحقیق کے متوالوں کو درکار ہوتی ہے ۔ اس سے قبل آپ اردو زبان میں " تذکرہ مشائخِ مداریہ " لکھ کر اہلِ علم سے خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں ۔ حضور شاہ بدیع الدین قطب المدار علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات اور احوال و آثار پر عربی زبان میں آپ کی یہ دوسری بلند پایہ کتاب ہے جو صوری و معنوی لحاظ سے قابلِ قدر ہے ۔
60 / صفحات کو محیط ابتدائی کلمات کے علاوہ کتاب دو باب پر مشتمل ہے ۔ بابِ اول میں تین فصلیں ہیں ۔ فصلِ اول میں حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کی ولادت ٬ نام و نسب ٬ اسماء و القاب ٬ تحصیلِ علوم ٬ بیعت و خلافت ٬ سفرِ ہند اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضور زندہ شاہ مدار کے ظہور کی خبر سے متعلق ہے ۔ اس فصل کی آخری بحث بڑی دلچسپ ہے ۔ بابِ اول کی فصلِ ثانی میں حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کی منازلِ عالیہ ٬ مقاماتِ کبریٰ اور آپ کی شخصیتِ عظمیٰ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ کو " نسبتِ اویسیہ " حاصل تھی اور آپ مقامِ محبوبیت و مرتبۂ صمدیت پر فائز تھے ۔ نیز اس فصل میں سلسلہ عالیہ مداریہ کے امتیازات و خصوصیات پر دلائل و شواہد کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے ۔ نیز اس میں سلسلہ مداریہ بصریہ ٬ سلسلہ مداریہ شامیہ ٬ سلسلہ مداریہ جعفریہ اور سلسلہ مداریہ طیفوریہ کی سندات و شجرات کا بھی بیان ہے ۔ بابِ اول کی دوسری فصل میں " مقامِ صمدیت " کے حوالے سے مصنف نے بڑی طویل علمی بحث کی ہے اور دلائل و شواہد کے تناظر میں بڑے محققانہ انداز سے حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کے مقامِ صمدیت کو ثابت کیا ہے ۔ " مقامِ صمدیت " ولایت کا ایک اعلیٰ مقام اور بلند ترین درجہ ہے ٬ جس پر متمکن ہونے کے بعد سالک کی بھوک پیاس ختم ہو جاتی ہے اور اس حالت میں اس کے لباس خستہ و بوسیدہ نہیں ہوتے ۔ شیخ عبد الباسط قنوجی اپنے رسالے میں لکھتے ہیں کہ حضور سیدنا قطب المدار علیہ الرحمہ " مقامِ صمدیت " پر متمکن تھے ۔ آپ کو قربتِ الہٰی سے لذت آشنا ہونے کے سبب کھانے پینے کی حاجت باقی نہیں تھی ۔ آپ پر نیند کا غلبہ نہیں ہوتا تھا ۔ آپ کا لباس خستہ اور پرانا نہیں ہوتا تھا اور نہ آپ کے جسم پر مکھی بیٹھتی تھی ۔ آپ کے رخِ انور پر انوارِ جھلملاتے تھے ۔ ناظرین آپ کے رخِ روشن پر جمالِ خداوندی کا مشاہدہ کیا کرتے تھے ۔ فاضل مصنف " مقامِ صمدیت " کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
المكانة الصمدية : هذه عبارة عن الجوع و الصوم من الأكل و الشرب ؛ كما قال الشيخ الخواجه محمد پارسا - رحمه الله تعالى - في كتابه " تحفة السالكين " : مقام جوع را مقام صمدیت گويند ، و هو مقام عال له أسرار و تجليات .
یعنی صمدیتؔ بھوکا رہنے اور روزے کی طرح کھانے پینے سے باز رہنے کا نام ہے ۔ جیسا کہ خواجہ محمد پارسا قدس سرہ اپنی کتاب " تحفۃ السالکین " میں تحریر فرماتے ہیں کہ " مقامِ جوع ( بھوکا پیاسا رہنے کو ) کو صمدیتؔ کہتے ہیں ۔ یہ ولایت کا ایک اعلیٰ درجہ ہے جس میں سالک اسرارِ الہٰی و تجلیاتِ ربانی سے سرفراز ہوتے ہیں ۔
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 87 )
علاوہ ازیں شیخ وجیہ اشرف لکھنوی کی " بحرِ زخّار " کے حوالے سے مصنف رقم طراز ہیں :
حضرت قطب المدار را مقامِ صمدیت میسر شدہ بود و آں مقام را چند علامت است ( ۱ ) ہرگاہ صوفی آں مقام می رسید باکل و شرب دنیا احتجاج نہ باشد ( ۲ ) و ضعف و پیری نمی نماید ( ۳ ) و لباس او کہنہ و گریستن نمی شود ٬ ہر کہ جمال با کمال او می بیند ٬ بے اختیار سجدہ می کند ٬ ایں ہمہ علامت در آں حضرت موجود بود .
ترجمہ : حضرت قطب المدار علیہ الرحمہ کو مقامِ صمدیتؔ حاصل تھا ۔ مقامِ صمدیت کی چند علامتیں ہیں : ( ۱ ) جس وقت صوفی و سالک اس مقام پر پہنچتا ہے ٬ اس کو بھوک اور پیاس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ( ۲ ) بھوکے پیاسے رہنے کے سبب اس کو ضعف اور کمزوری محسوس نہیں ہوتی ۔ ( ۳ ) اس کا لباس خستہ اور پرانا نہیں ہوتا ۔ نیز جو شخص اس کے جمالِ با کمال کو دیکھتا ہے ٬ بے اختیار سجدے میں گر پڑتا ہے اور مقامِ صمدیت کی یہ ساری علامتیں حضرت شیخ قطب المدار علیہ الرحمہ میں پائی جاتی تھیں ۔
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 90 )
تیسری فصل میں ارضِ ہند میں آپ کے قدومِ میمنت لزوم کے ذکرِ جمیل ٬ مکن پور شریف میں قیام ٬ رحلت و تدفین ٬ علمی آثار اور اقوال و ملفوظات کے علاوہ آپ کی بے پناہ دعوتی خدمات اور آپ کی تبلیغی مساعی سے رونما ہونے والے خوش گوار اثرات و ثمرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ چنانچہ فاضل مصنف لکھتے ہیں :
يثير عاطفة الإعجاب فى المرء أن مآثر تبليغه قد انبسطت في ضواحي الهند المتحدة من باكستان ، و بنجلاديش ، و سريلانكا و ميانمار و الهند الموجودة الآن ، حتى أصبحت الجبال والبلاد و القصبات و البراري تحمل اسم السيد أحمد بديع الدین مدار - قدس سره - مثلا : الجبل المداري ، القرية المدارية ٬ المنطقة المدارية ، التكايا المدارية ٬ الأودية المدارية ، المحطة المدارية ٬ و إلى غيرها ، إن هؤلاء الأسماء كلها تدل على إسهاماته الهائلة و حياته القيمة بمناسبة الإسلام ، و لذا اتفق المؤرخون قديما و حديثا على أنه من أقطاب الزمان و أكابره ، لا يتمكن من غض البصر عن خدماته الجليلة في الهند قاطبة .
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 97 )
کہا جاتا ہے کہ " کثرۃ الاسماء تدل علیٰ شرف المسمیٰ " یعنی نام کی کثرت مسمّیٰ کی فضیلت و بزرگی پر دلالت کرتی ہے ۔ حضور زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ ان مایۂ ناز بزرگوں میں سے ایک ہیں ٬ جن کے اسما و القاب کثیر ہیں ۔ قطب المدار ٬ شاہ مدار ٬ زندہ شاہ مدار ٬ مدار العالمين ٬ زندہ ولی ٬ مدار الوریٰ اور مدارِ اعظم آپ کے القاب میں سے ہیں ۔ سید احمد حلبی ٬ بدیع الدین ٬ شاہ بدیع الدین مدار آپ کے مختلف نام ہیں ٬ جن میں سب سے مشہور نام بدیع الدین مدار ہے اور اہلِ ہند و سندھ آپ کو اسی نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے فاضل مصنف لکھتے ہیں :
و قد ذاع صيته - قدس سره - بأسماء و ألقاب عديدة ، أطلقها عليه محبوه و خلفاءه لما رأوا فيه من مجامع الخير و مكارم الخصال ٬ فمن أبرز ألقابها : قطب المدار ، شاه مدار ، زنده مدار ، زنده شاه مدار ، زنده ولی ، زندان الصوف ، داتا مدار ، بديع الدين ، مدار العالمين ، مدار عالم ، مدار الورىٰ ، مدار أعظم و غيرها ٬ و أما الأسماء التي اشتهر بها فمنها : السيد أحمد الحلبي ، بديع الدين ، شاه بدیع الدین مدار و المشهور من هذه الأسماء اسم " بديع الدين مدار " في شبه القارة الهندية ، حتى أن أهل الهند لا يذكرونه إلا بهذا الاسم .
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 67 )
بابِ دوم ان اعلام و مشاہیر کے تذکارِ جمیل پر مشتمل ہے ٬ جنہوں نے " سلسلۂ مداریہ " سے اکتسابِ فیض کیا ٬ سرکار سیدنا قطب المدار علیہ الرحمہ کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ کے خلیفہ و ماذون بنے ۔ اس میں کُل تین فصلیں ہیں اور ہر فصل گراں قدر ابحاث اور مفید معلومات پر مشتمل ہے ٬ جو عوام و خواص اور اساتذہ و طلبہ سب کے لیے یکساں مفید ہے ۔ علمِ تصوف کے شائقین کو اس کتاب کا ایک بار ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ بابِ دوم کی پہلی فصل میں آپ کے خلفا اور روحانی تلامذہ کا تذکرہ ہے ۔ اہلِ علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ حضور سیدنا قطب المدار علیہ الرحمہ نے طویل عمر پائی اور دنیا کے چپے چپے کی سیر فرمائی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے خلفا و تلامذہ اور مریدین و مسترشدین کی تعداد بیشمار ہے ۔ حضرت سید سالار مسعود غازی ٬ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اور حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہم جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کو آپ سے سلسلہ مداریہ میں خلافت حاصل ہے ۔ آپ کے خلفا کی تفصیل رقم کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے ۔ چنانچہ فاضل مصنف لکھتے ہیں :
لا ينازع فيه كبشان أن خلفاء السيد أحمد بديع الدين قطب المدار - رضي الله عنه - أكثر من أن يحصره كاتب ، لابد لذكرهم التام من موسوعة ضخمة ، فنقتصر على الترجمة بهؤلاء النابهين منهم ، فإن الإحاطة منهم و الكشف عن مناجى حياتهم ، لا يتسع لها صدر هذا المختصر و إذا أردت استقصاء هذا الموضوع ، فارجع إلى تذكرة المتقين ، و أخبار الأصفياء و ثمرات القدس و ظهير الأبرار و تحفة الأبرار و البحر الزخار وغيرهم من دفاتر الكتب ؛ فقد ألم مؤلفوها بحصرهم إلماما ينفع الغلة و يغني عن المزيد و هنا نكتفى بسرد بعض أسمائهم .
زیرِ تبصرہ کتاب میں آپ کے جن نامور خلفائے عظام کے اسمائے گرامی مرقوم ہیں ٬ وہ حسبِ ذیل ہیں :
( ۱ ) السيد محمد أرغون ( ۲ ) السيد أبو تراب فنصور ( ۳ ) السيد أبو الحسن طيفور ( ۴ ) الشيخ السيد أجمل البهرائچی ( ۵ ) الشيخ أحمد بن مسروق الخراسانی ( ۶ ) الشيخ ظهير الدين الدمشقی ( ۷ ) الشيخ زاهد السجستانی الرومی ( ۸ ) الشيخ يوسف أوتاد البخاری ( ۹ ) السيد المخدوم أشرف جہانگیر السمنانی ( ۱۰ ) الشيخ مسعود سالار الغازی ( ۱۱ ) الشيخ جلال الدين الملقب بـ " شاه دانا " البريلوی ( ۱۲ ) الشيخ حسين بن معز البلخي الفردوسي ( ۱۳ ) الشيخ بدهن السنديلوی ( ۱۳ ) الشيخ دانيال السامرائی ( ۱۴ ) الشيخ أكرم مرتاض المصری ( ۱۵ ) السيد محمد باسط المكی ( ۱۶ ) الشاه فضل الله البدخشی ( ۱۷ ) الشيخ عبد النعيم السالك النيسافوری ( ۱۸ ) الشيخ عباس المصری ( ۱۹ ) الشيخ محمود التستری ( الشيخ ذون النون البيهقی ( ۲۰ ) الشيخ جهانیاں جھاں کشت البخاری ( ۲۱ ) السید جمال الدين البغدادی البھاری ( ۲۲ ) السيد أحمد باديه پا ( Badyapa ) البغدادی الهندی ( ۲۳ ) السيد جمال الدين الحسينی ( ۲۴ ) الشيخ حسام الدين الإصفهانی الهندی ( ۲۵ ) الشيخ القاضی محمود الكنتوری ( ۲۶ ) الشيخ المطهر قله شير الكانفوری ( ۲۷ ) العالم الكبير شهاب الدين الدولت آبادي الجونفوری ۔
مصنف نے بابِ دوم کی فصلِ ثانی کو " الفصل الثانی فی بیان من حصل علیٰ طریقتہ " کے عنوان سے معنون کیا ہے اور اس ضمن میں ان اکابر علما و مشائخ کا تذکرہ کیا ہے جو سلسلۂ مداریہ سے منسلک تھے اور ان کو اس مبارک سلسلے کی خلافت حاصل تھی ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مصنف نے سلسلہ مداریہ سے وابستہ ان بزرگوں کے محض نام ذکر کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے ٬ بلکہ ان کا مختصر تعارف بھی لکھا ہے ۔ اس وقت اگر کوئی سلسلہ سب سے زیادہ مظلوم ہے تو وہ " سلسلہ مداریہ " ہے ۔ حالاں کہ ماضی میں یہ سلسلہ بڑا مقبول اور ہمہ گیر رہا ہے اور اکابر علما و مشائخ اس کے دامنِ کرم سے وابستہ رہے ہیں ۔ حضرت شیخ وجیہ الدین اشرف علوی گجراتی ٬ حضرت مجدد الف ثانی ٬ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور علامہ سید مرتضیٰ زبیدی بلگرامی جیسی عبقری شخصیتوں نے سلسلہ مداریہ سے اکتسابِ فیض کیا ہے ۔ پوری کتاب میں یہ فصل سب سے زیادہ مفید اور معلومات افزا ہے اور مصنف کی تحقیقی ذوق کا غماز ہے ۔ مصنف نے اس بحث کے ضمن میں ۲۶ / اکابر علما و مشائخ کا تعارف پیش کیا ہے ۔ تفصیل کے لیے کتاب کی جانب رجوع کریں ۔
بابِ دوم کی تیسری فصل میں حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کے معاصر صوفیا و مشائخ کا ذکر ہے ٬ جس میں خصوصیت کے ساتھ غوث الاعظم ٬ سلطان الاولیاء سرکار سیدنا محیی الدین عبد القادر جیلانی ٬ خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ٬ غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ٬ بانیِ سلسلہ شطاریہ حضرت شیخ عبد اللہ شطّار اور موسسِ بلگرام حضرت عماد الدین بلگرامی علیہم الرحمہ کے اسمائے گرامی مندرج ہیں ۔ یہ بحث بھی بڑی دلچسپ اور لائقِ مطالعہ ہے ۔ مصنف نے قوی دلائل کی روشنی میں حضور غوث پاک اور حضور قطب المدار قدس سرہما کے درمیان ملاقات ثابت کی ہے اور اس سلسلے میں شیخ محمد بن احمد القانی کی " الکواکب الدرارية فی تنویر المناقب المداریۃ " کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضور قطب المدار علیہ الرحمہ نے پانچویں صدی ہجری میں بغداد شریف کا سفر کیا اور حضور سیدنا غوث پاک رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات اور دینی و ملی خدمات کو ملاحظہ فرمایا ۔ جب دوسری بار آپ نے سرکار غوث پاک سے ملاقات کی تو حضور غوث پاک نے اپنے دو بھانجے محمد ( سید جمال الدین ) اور احمد ( سید احمد الدین ) آپ کے سپرد کیے ٬ تاکہ وہ ہندوستان میں دینِ متین کی خدمت انجام دے سکیں ۔ جیسا کہ مصنف کی مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہے :
سافر إلى بغداد في القرن الخامس الهجری متنقلا من البادية إلى الحاضرة في طريقه إليه لاقى الشيخ السيد عبد القادر الجيلاني قدس سره ، كما ذكر الشيخ الجاني محمد بن أحمد القاني الإمام العروس القادري - رحمه الله تعالى - في كتابه " الكواكب الدرارية في تنوير المناقب المدارية " عما وقع بينهما :
و قد بلغنا أن سيدنا و مولانا قطب الاقطاب و غوث الأحباب السيد عبد القادر الجيلي - رضي الله عنه وأرضاه عنا ـ لاقاه القطب زندا شاه المدار - رضي الله عنه - و صاحبه وخالّه أياما ٬ فرآه كأنه صار على الناس إماما ، و بالخلافة المحمدية قواما ، و في إحياء دينه مقداما و هماما ، إلا أنه مغلوب عليه بأسماء الله الجلالية و المطلوب غلبة أسمائه الجمالية . فضلا عن ذلك كان عرج في منصرفه على بغداد" مرة ثانيۃ و لاقاه في هذه المرة أيضا ، قد وقع جمع من الأسرار بينهما و سلم السيد الجيلاني ابني أخته محمد و أحمد إلى السيد الحلبي خلال هذا اللقاء ليتسانداه في تبيلغ الإسلام في الهند ، حتى صب عليهما كل ما كان لديه من علم و عرفان ، قد أسلفنا الذكر عنهما .
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 199 ٬ 200 )
حضور قطب المدار اور حضور خواجہ غریب نواز علیہما الرحمہ کے درمیان ملاقات اور ان دونوں بزرگوں کے مابین تعظیم و توقیر کا حال مصنف نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
لما ألقى السيد زنده شاه مدار الحلبي عصا الرحيل بـ أجمير الشريفة في أواخر القرن السادس الهجري و ارتاض و جاهد في الجبل الذي يقوله الناس " الجبل المداري " في العصر الراهن جرى اللقاء و الحوار بينهما بالتبجيل و التعظيم في غضون هذه الأيام ، كما يتناول المحقق السيد أمير حسن الفنصوري :
در اجمیر رسیدند و بر کوکلا پہاڑی فرمودند ، حضرت خواجه معین الدین چشتی رحمة الله علیه برای ملاقات والا تشریف آوردند و در ہر دو بزرگواران باهم کمال اتحاد راه یافت .
( مرجعِ سابق ٬ ص : 201 ٬ 202 )
غوث العالم ٬ تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو حضور قطب المدار علیہ الرحمہ سے نہ صرف خلافت حاصل تھی ٬ بلکہ ایک طویل سفر میں آپ کو ان کی رفاقت بھی حاصل رہی ہے ٬ جس کا تذکرہ اکثر مصنفین نے کیا ہے ۔ مصنف نے ان دونوں بزرگوں کے باہمی تعلقات و مراسم بیان کرنے کے علاوہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی تہہ علمی و روحانی شخصیت کا تعارف بڑے حسین پیرائے میں پیش کیا ہے جو کچھ اس طرح ہے :
السيد مخدوم أشرف جهانكير السمناني قدس سرہ كان علما من أعلام هذه الأمة مع توقير شعائر الله و الخلق الرفيع والأدب الجم و كثرة التعبد و الذكر ، فهو البدر الساطع في سماء العلوم إذا اشتدت دياجيرها ، و هو الكنز الثمين إذا عزت الكنوز و جهلت مقاديرها ، و هو العلم الخفاق إذا طويت العلوم و خفيت تباشيرها ، و هو العلم الحبر المتضلع من علوم الشريعة و الطريقة على نمط الأقدمين ، والإمام التقي الورع السالك إلى الله تعالى على قدم التمكين و لم يبرح يرتحل بالشيخ قطب المدار الحلبي نحوا من اثنتي عشرة سنة على رواية " منتخب العجائب في إظهار أسرار الغرائب " و استفاد منه المواهب الفذة و الفضائل الكثيرة من أن يعدها كاتب حتى فارقا على ميناء روماء .
( مرجعِ سابق ٬ ص : 205 )
بابِ دوم کی چوتھی فصل میں " اذکارِ مداریہ و صلواتِ مداریہ " پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اوراد و وظائف سے دلچسپی رکھنے والوں کے کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہیں ۔ اس فصل کے مضامین یہ ہیں : حصارِ مداریہ بشمخ ٬ دعائے بشمخ ٬ اختتامِ دعا بشمخ ٬ دعائے خضری ٬ دعائے محمودی ٬ دعائے سیفی ٬ ذکرِ مداری ٬ صلوٰۃِ مداری صغیر ٬ صلوٰۃ مداری کبیر ٬ قصیدہ مداریہ ٬ موالید مبارکہ ٬ مدیح الامام الحلبی قطب المدار قدس سرہ ٬ القطعۃ التاریخیۃ ٬ مدیح الشیخ الکامل بدیع الدین مدار ۔ کتاب کے آخر میں ان نادر و نایاب مخطوطات کے عکس دیے گئے ہیں جو سرکار سیدنا قطب المدار علیہ کے احوال و آثار کے حوالے سے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دو درجن کے قریب ان نادر مخطوطات کے عکوس سے فاضل مصنف کی محنتِ شاقہ اور ان کی تحقیقی کارگذاریوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ حضرت علامہ مفتی محمد ہاشم علی بدیعی مصباحی دام ظلہ العالی دورِ حاضر کے ایک ممتاز عالمِ دین ٬ با صلاحیت مفتی ٬ جفا کش محقق ٬ اسلامی اسکالر ٬ ادیبِ لبیب اور سلسلہ مداریہ پر گہری نظر رکھنے والے مایۂ ناز فاضل ہے ۔ " تذکرہ مشائخِ مداریہ " کے بعد زیرِ نظر کتاب " الذکر المختصر فی القطب المزدھر " عربی زبان میں لکھ کر آپ نے ایک عظیم الشان تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے ٬ جس کے لیے موصوف بجا طور پر تعریف و تحسین اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں ۔ کتاب کی سب سے بڑی ادبی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے عجمیت کی بو نہیں آتی ۔ حسنِ زبان ٬ لطفِ بیان اور تراکیب و تعبیرات کی عمدگی کتاب کی سطر سطر سے نمایاں ہے ٬ جو مصنف کی عربی دانی پر دال ہے ۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کی تصحیح و تنقیح اور نوکِ پلک درست کرنے میں محققِ نیپال ٬ مخزنِ علم و روحانیت حضرت علامہ مفتی محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی دام ظلہ العالی ( استاذ جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور ) نے عظیم خدمت انجام دی ہے ۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ فارسی ٬ اردو اور انگریزی کے علاوہ عربی زبان و ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مادری زبان کی طرح عربی بولتے ہیں ۔ اللہ رب العزت مصنف اور مصحّح دونوں کو جزائے خیر سے نوازے اور زیادہ سے زیادہ دینی و علمی و تحقیقی خدمات انجام دینے کی توفیق ارزاں فرمائے آمین !
سوانح عمری سے مراد ہے عمر ( عہد ) نسل اور ماحول پر اثر ڈالنے والے عوامل کے حوالے سے کسی شخص کی داخلی اور خارجی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایسا جامع ، مفصل اور معروضی مطالعہ جو اس کی زندگی کے ارتقا اور اس کے ظاہر و باطن کو روشنی میں لا کر اس کی ایک قد آدم اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرے ۔ سوانح ایک ایسی دستاویز ہے جس میں کسی انسان کی ولادت سے لے کر وفات تک کے تمام حالات و واقعات ، افکار و افعال زمان و مکان کی صراحت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں ۔ سوانح کے کینوس پر زمان ومکان کے تناظر میں کسی انسان کی چلتی پھرتی متحرک تصویر اس طرح سرگرم فکر اور مصروفِ عمل نظر آتی ہے کہ اس کی سیرت و شخصیت اور سرگزشت کے تمام پہلو ہمارے سامنے آ جاتے ہیں ۔
اپنے دعوتی مشن اور تبلیغی مساعی سے ارضِ ہند کو لالہ زار بنانے والی عظیم المرتبت شخصیات میں شیخ المشائخ ٬ قطب الاقطاب ٬ قدوۃ الاولیاء حضور سید شاہ بدیع الدین قطب المدار علیہ الرحمہ ( متوفیٰ : ۸۳۸ ھ ) کا نام بھی سرِ فہرست ہے ٬ جو عرفِ عام میں " زندہ شاہ مدار " کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ آپ کا شمار برِّ صغیر پاک و ہند کے جلیل القدر اولیا ٬ عظیم المرتبت صوفیا اور مایۂ ناز مشائخ میں ہوتا ہے ۔ آپ عبادت و ریاضت ٬ مجاہدہ و مکاشفہ اور کشف و کرامات میں بے مثال اور یگانۂ روزگار تھے ۔ آپ کی ذات سے دینِ اسلام کا بے پناہ فروغ اور صوفیانہ مسلک و مشرب کی توسیع و اشاعت ہوئی ۔ آپ نہایت عابد و زاہد ٬ صابر و شاکر ٬ متواضع اور قانع بزرگ تھے ۔ اپنی نگاہِ کیمیا اثر سے ہزاروں اشخاص کے قلوب کو منور و مجلیٰ فرمایا ۔ انگنت افراد کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور بیشمار بھٹکے ہوئے بندگانِ خدا کو صراطِ مستقیم پر گامزن فرمایا ۔ آپ کی پوری زندگی دعوت و تبلیغ ٬ رشد و ہدایت ٬ وعظ و ارشاد اور خدمتِ خلق میں بسر ہوئی ۔ اگر چہ آپ کو شہرت " قطب المدار " سے ملی ( جو کہ ولایت کا ایک اعلیٰ مقام ہے ) ، لیکن آپ کا مقام و مرتبہ اس سے بھی کہیں اعلیٰ و ارفع ہے ۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بلند مقامات اور اعلیٰ مدارج سے سرفراز فرمایا تھا ۔ آپ صاحبِ مقاماتِ کبریٰ تھے ۔ غوث العالم ، محبوبِ یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کے علاوہ سینکڑوں صوفیا و مشائخ اور علما و مصنفین نے آپ کے علمی تبحر ، مقاماتِ عالیہ اور آپ کی بلند و بالا روحانی و عرفانی شخصیت کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے ۔ مرزا لعل بیگ بدخشی نے اپنی مایۂ ناز تصنیف " ثمرات القدس من شجرات الاُنس " میں آپ کا تعارف ان الفاظ میں پیش کیا ہے ٬ جس سے آپ کی شانِ ولایت اور مرتبۂ روحانیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے :
سید بدیع الدین قطب الادوار لقب بہ " شاہ مدار " قدس سرہ ، از کبرائے مشائخ ہند و عظمائے عرفائے آں دیار ست ، بسیار عالی قدر و صاحبِ کراماتِ ظاہرہ و عاداتِ فاخرہ بود و مقامات علیّہ و کمالات جلیّہ و مواہبِ جزیلہ و احوالِ سنیّہ داشت ۔
( ثمرات القدس من شجرات الانس ، ص : ۴۱ ، مطبوعہ : پزوہشگاہ علوم انسانی و مطالعاتِ فرنگی ، تہران )
علمی و تحقیقی سفر ایک مسلسل جد و جہد کا نام ہے ٬ جس میں تغافل و تکاسل کی کوئی جگہ نہیں ۔ بیدار مغزی ٬ علوئے ہمتی اور جانفشانی کے بغیر یہ سفر منزل آشنا ہو سکتا ہے اور نہ اپنے اہداف تک رسائل حاصل کر سکتا ہے ۔ ایک محقق اپنے خونِ جگر سے علم و تحقیق کا چراغ روشن کرتا ہے ٬ جس سے زمانہ صدیوں تک روشنی حاصل کرتا ہے ۔ محققِ عصر ٬ فاضلِ گرامی حضرت علامہ مفتی ہاشم علی بدیعی مصباحی دام ظلہ العالی نے " الذکر المختصر فی القطب المزدھر " کی شکل میں علم و تحقیق کا جو چراغ جلایا ہے ٬ اس کی روشنی بزمِ علم و تحقیق کو منور اور نئی نسل کو فیضیاب کرتی رہے گی ۔ تذکرہ و سوانح کی کتابیں آئے دن منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں ٬ لیکن زیرِ نظر کتاب میں جو علم و تحقیق کا رنگ ہے ٬ وہ قابلِ قدر اور لائقِ ستائش ہے ۔ موصوف نے درجنوں کِرم خوردہ مخطوطات اور نادر و نایاب کتب و رسائل کی مدد سے عربی زبان میں ایک ایسا بلند پایہ مجموعہ تیار کیا ہے جسے ہم " کرامتِ زندہ شاہ مدار " ہی کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے سطر سطر سے مصنف کی دقتِ نظری ٬ تحقیقی شعور اور تصنیفی ہنر مندی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مولانا موصوف سے راقم الحروف کا علمی رابطہ گذشتہ چند سالوں سے ہے ۔ تحقیق و تفحّص ان کی فطرت میں شامل ہے ۔ تذکرہ و سوانح اور تصوف و صوفیا ان کا خاص میدان ہے ۔ " سلسلہ عالیہ مداریہ اور اس کے متعلقات و مخطوطات " پر ایسی گہری نظر رکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ جب بھی کسی علمی موضوع پر ان سے گفتگو ہوتی ہے ٬ معلومات میں اضافہ کیے بغیر نہیں رہتے ۔ غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ پر جس وقت راقم الحروف کام کر رہا تھا ٬ آپ نے درجنوں ماخذ کی نشان دہی کر کے میری علمی مدد اور علمی رہنمائی فرمائی تھی ۔ 264 / صفحات پر مشتمل اس کتاب ( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ) میں موضوع سے متعلق وہ ساری قیمتی مواد موجود ہے جو علم و تحقیق کے متوالوں کو درکار ہوتی ہے ۔ اس سے قبل آپ اردو زبان میں " تذکرہ مشائخِ مداریہ " لکھ کر اہلِ علم سے خراجِ تحسین وصول کر چکے ہیں ۔ حضور شاہ بدیع الدین قطب المدار علیہ الرحمہ کی حیات و خدمات اور احوال و آثار پر عربی زبان میں آپ کی یہ دوسری بلند پایہ کتاب ہے جو صوری و معنوی لحاظ سے قابلِ قدر ہے ۔
60 / صفحات کو محیط ابتدائی کلمات کے علاوہ کتاب دو باب پر مشتمل ہے ۔ بابِ اول میں تین فصلیں ہیں ۔ فصلِ اول میں حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کی ولادت ٬ نام و نسب ٬ اسماء و القاب ٬ تحصیلِ علوم ٬ بیعت و خلافت ٬ سفرِ ہند اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضور زندہ شاہ مدار کے ظہور کی خبر سے متعلق ہے ۔ اس فصل کی آخری بحث بڑی دلچسپ ہے ۔ بابِ اول کی فصلِ ثانی میں حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کی منازلِ عالیہ ٬ مقاماتِ کبریٰ اور آپ کی شخصیتِ عظمیٰ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ کو " نسبتِ اویسیہ " حاصل تھی اور آپ مقامِ محبوبیت و مرتبۂ صمدیت پر فائز تھے ۔ نیز اس فصل میں سلسلہ عالیہ مداریہ کے امتیازات و خصوصیات پر دلائل و شواہد کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے ۔ نیز اس میں سلسلہ مداریہ بصریہ ٬ سلسلہ مداریہ شامیہ ٬ سلسلہ مداریہ جعفریہ اور سلسلہ مداریہ طیفوریہ کی سندات و شجرات کا بھی بیان ہے ۔ بابِ اول کی دوسری فصل میں " مقامِ صمدیت " کے حوالے سے مصنف نے بڑی طویل علمی بحث کی ہے اور دلائل و شواہد کے تناظر میں بڑے محققانہ انداز سے حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کے مقامِ صمدیت کو ثابت کیا ہے ۔ " مقامِ صمدیت " ولایت کا ایک اعلیٰ مقام اور بلند ترین درجہ ہے ٬ جس پر متمکن ہونے کے بعد سالک کی بھوک پیاس ختم ہو جاتی ہے اور اس حالت میں اس کے لباس خستہ و بوسیدہ نہیں ہوتے ۔ شیخ عبد الباسط قنوجی اپنے رسالے میں لکھتے ہیں کہ حضور سیدنا قطب المدار علیہ الرحمہ " مقامِ صمدیت " پر متمکن تھے ۔ آپ کو قربتِ الہٰی سے لذت آشنا ہونے کے سبب کھانے پینے کی حاجت باقی نہیں تھی ۔ آپ پر نیند کا غلبہ نہیں ہوتا تھا ۔ آپ کا لباس خستہ اور پرانا نہیں ہوتا تھا اور نہ آپ کے جسم پر مکھی بیٹھتی تھی ۔ آپ کے رخِ انور پر انوارِ جھلملاتے تھے ۔ ناظرین آپ کے رخِ روشن پر جمالِ خداوندی کا مشاہدہ کیا کرتے تھے ۔ فاضل مصنف " مقامِ صمدیت " کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
المكانة الصمدية : هذه عبارة عن الجوع و الصوم من الأكل و الشرب ؛ كما قال الشيخ الخواجه محمد پارسا - رحمه الله تعالى - في كتابه " تحفة السالكين " : مقام جوع را مقام صمدیت گويند ، و هو مقام عال له أسرار و تجليات .
یعنی صمدیتؔ بھوکا رہنے اور روزے کی طرح کھانے پینے سے باز رہنے کا نام ہے ۔ جیسا کہ خواجہ محمد پارسا قدس سرہ اپنی کتاب " تحفۃ السالکین " میں تحریر فرماتے ہیں کہ " مقامِ جوع ( بھوکا پیاسا رہنے کو ) کو صمدیتؔ کہتے ہیں ۔ یہ ولایت کا ایک اعلیٰ درجہ ہے جس میں سالک اسرارِ الہٰی و تجلیاتِ ربانی سے سرفراز ہوتے ہیں ۔
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 87 )
علاوہ ازیں شیخ وجیہ اشرف لکھنوی کی " بحرِ زخّار " کے حوالے سے مصنف رقم طراز ہیں :
حضرت قطب المدار را مقامِ صمدیت میسر شدہ بود و آں مقام را چند علامت است ( ۱ ) ہرگاہ صوفی آں مقام می رسید باکل و شرب دنیا احتجاج نہ باشد ( ۲ ) و ضعف و پیری نمی نماید ( ۳ ) و لباس او کہنہ و گریستن نمی شود ٬ ہر کہ جمال با کمال او می بیند ٬ بے اختیار سجدہ می کند ٬ ایں ہمہ علامت در آں حضرت موجود بود .
ترجمہ : حضرت قطب المدار علیہ الرحمہ کو مقامِ صمدیتؔ حاصل تھا ۔ مقامِ صمدیت کی چند علامتیں ہیں : ( ۱ ) جس وقت صوفی و سالک اس مقام پر پہنچتا ہے ٬ اس کو بھوک اور پیاس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ( ۲ ) بھوکے پیاسے رہنے کے سبب اس کو ضعف اور کمزوری محسوس نہیں ہوتی ۔ ( ۳ ) اس کا لباس خستہ اور پرانا نہیں ہوتا ۔ نیز جو شخص اس کے جمالِ با کمال کو دیکھتا ہے ٬ بے اختیار سجدے میں گر پڑتا ہے اور مقامِ صمدیت کی یہ ساری علامتیں حضرت شیخ قطب المدار علیہ الرحمہ میں پائی جاتی تھیں ۔
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 90 )
تیسری فصل میں ارضِ ہند میں آپ کے قدومِ میمنت لزوم کے ذکرِ جمیل ٬ مکن پور شریف میں قیام ٬ رحلت و تدفین ٬ علمی آثار اور اقوال و ملفوظات کے علاوہ آپ کی بے پناہ دعوتی خدمات اور آپ کی تبلیغی مساعی سے رونما ہونے والے خوش گوار اثرات و ثمرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ چنانچہ فاضل مصنف لکھتے ہیں :
يثير عاطفة الإعجاب فى المرء أن مآثر تبليغه قد انبسطت في ضواحي الهند المتحدة من باكستان ، و بنجلاديش ، و سريلانكا و ميانمار و الهند الموجودة الآن ، حتى أصبحت الجبال والبلاد و القصبات و البراري تحمل اسم السيد أحمد بديع الدین مدار - قدس سره - مثلا : الجبل المداري ، القرية المدارية ٬ المنطقة المدارية ، التكايا المدارية ٬ الأودية المدارية ، المحطة المدارية ٬ و إلى غيرها ، إن هؤلاء الأسماء كلها تدل على إسهاماته الهائلة و حياته القيمة بمناسبة الإسلام ، و لذا اتفق المؤرخون قديما و حديثا على أنه من أقطاب الزمان و أكابره ، لا يتمكن من غض البصر عن خدماته الجليلة في الهند قاطبة .
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 97 )
کہا جاتا ہے کہ " کثرۃ الاسماء تدل علیٰ شرف المسمیٰ " یعنی نام کی کثرت مسمّیٰ کی فضیلت و بزرگی پر دلالت کرتی ہے ۔ حضور زندہ شاہ مدار علیہ الرحمہ ان مایۂ ناز بزرگوں میں سے ایک ہیں ٬ جن کے اسما و القاب کثیر ہیں ۔ قطب المدار ٬ شاہ مدار ٬ زندہ شاہ مدار ٬ مدار العالمين ٬ زندہ ولی ٬ مدار الوریٰ اور مدارِ اعظم آپ کے القاب میں سے ہیں ۔ سید احمد حلبی ٬ بدیع الدین ٬ شاہ بدیع الدین مدار آپ کے مختلف نام ہیں ٬ جن میں سب سے مشہور نام بدیع الدین مدار ہے اور اہلِ ہند و سندھ آپ کو اسی نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے فاضل مصنف لکھتے ہیں :
و قد ذاع صيته - قدس سره - بأسماء و ألقاب عديدة ، أطلقها عليه محبوه و خلفاءه لما رأوا فيه من مجامع الخير و مكارم الخصال ٬ فمن أبرز ألقابها : قطب المدار ، شاه مدار ، زنده مدار ، زنده شاه مدار ، زنده ولی ، زندان الصوف ، داتا مدار ، بديع الدين ، مدار العالمين ، مدار عالم ، مدار الورىٰ ، مدار أعظم و غيرها ٬ و أما الأسماء التي اشتهر بها فمنها : السيد أحمد الحلبي ، بديع الدين ، شاه بدیع الدین مدار و المشهور من هذه الأسماء اسم " بديع الدين مدار " في شبه القارة الهندية ، حتى أن أهل الهند لا يذكرونه إلا بهذا الاسم .
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 67 )
بابِ دوم ان اعلام و مشاہیر کے تذکارِ جمیل پر مشتمل ہے ٬ جنہوں نے " سلسلۂ مداریہ " سے اکتسابِ فیض کیا ٬ سرکار سیدنا قطب المدار علیہ الرحمہ کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ کے خلیفہ و ماذون بنے ۔ اس میں کُل تین فصلیں ہیں اور ہر فصل گراں قدر ابحاث اور مفید معلومات پر مشتمل ہے ٬ جو عوام و خواص اور اساتذہ و طلبہ سب کے لیے یکساں مفید ہے ۔ علمِ تصوف کے شائقین کو اس کتاب کا ایک بار ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ بابِ دوم کی پہلی فصل میں آپ کے خلفا اور روحانی تلامذہ کا تذکرہ ہے ۔ اہلِ علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ حضور سیدنا قطب المدار علیہ الرحمہ نے طویل عمر پائی اور دنیا کے چپے چپے کی سیر فرمائی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے خلفا و تلامذہ اور مریدین و مسترشدین کی تعداد بیشمار ہے ۔ حضرت سید سالار مسعود غازی ٬ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اور حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہم جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کو آپ سے سلسلہ مداریہ میں خلافت حاصل ہے ۔ آپ کے خلفا کی تفصیل رقم کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے ۔ چنانچہ فاضل مصنف لکھتے ہیں :
لا ينازع فيه كبشان أن خلفاء السيد أحمد بديع الدين قطب المدار - رضي الله عنه - أكثر من أن يحصره كاتب ، لابد لذكرهم التام من موسوعة ضخمة ، فنقتصر على الترجمة بهؤلاء النابهين منهم ، فإن الإحاطة منهم و الكشف عن مناجى حياتهم ، لا يتسع لها صدر هذا المختصر و إذا أردت استقصاء هذا الموضوع ، فارجع إلى تذكرة المتقين ، و أخبار الأصفياء و ثمرات القدس و ظهير الأبرار و تحفة الأبرار و البحر الزخار وغيرهم من دفاتر الكتب ؛ فقد ألم مؤلفوها بحصرهم إلماما ينفع الغلة و يغني عن المزيد و هنا نكتفى بسرد بعض أسمائهم .
زیرِ تبصرہ کتاب میں آپ کے جن نامور خلفائے عظام کے اسمائے گرامی مرقوم ہیں ٬ وہ حسبِ ذیل ہیں :
( ۱ ) السيد محمد أرغون ( ۲ ) السيد أبو تراب فنصور ( ۳ ) السيد أبو الحسن طيفور ( ۴ ) الشيخ السيد أجمل البهرائچی ( ۵ ) الشيخ أحمد بن مسروق الخراسانی ( ۶ ) الشيخ ظهير الدين الدمشقی ( ۷ ) الشيخ زاهد السجستانی الرومی ( ۸ ) الشيخ يوسف أوتاد البخاری ( ۹ ) السيد المخدوم أشرف جہانگیر السمنانی ( ۱۰ ) الشيخ مسعود سالار الغازی ( ۱۱ ) الشيخ جلال الدين الملقب بـ " شاه دانا " البريلوی ( ۱۲ ) الشيخ حسين بن معز البلخي الفردوسي ( ۱۳ ) الشيخ بدهن السنديلوی ( ۱۳ ) الشيخ دانيال السامرائی ( ۱۴ ) الشيخ أكرم مرتاض المصری ( ۱۵ ) السيد محمد باسط المكی ( ۱۶ ) الشاه فضل الله البدخشی ( ۱۷ ) الشيخ عبد النعيم السالك النيسافوری ( ۱۸ ) الشيخ عباس المصری ( ۱۹ ) الشيخ محمود التستری ( الشيخ ذون النون البيهقی ( ۲۰ ) الشيخ جهانیاں جھاں کشت البخاری ( ۲۱ ) السید جمال الدين البغدادی البھاری ( ۲۲ ) السيد أحمد باديه پا ( Badyapa ) البغدادی الهندی ( ۲۳ ) السيد جمال الدين الحسينی ( ۲۴ ) الشيخ حسام الدين الإصفهانی الهندی ( ۲۵ ) الشيخ القاضی محمود الكنتوری ( ۲۶ ) الشيخ المطهر قله شير الكانفوری ( ۲۷ ) العالم الكبير شهاب الدين الدولت آبادي الجونفوری ۔
مصنف نے بابِ دوم کی فصلِ ثانی کو " الفصل الثانی فی بیان من حصل علیٰ طریقتہ " کے عنوان سے معنون کیا ہے اور اس ضمن میں ان اکابر علما و مشائخ کا تذکرہ کیا ہے جو سلسلۂ مداریہ سے منسلک تھے اور ان کو اس مبارک سلسلے کی خلافت حاصل تھی ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مصنف نے سلسلہ مداریہ سے وابستہ ان بزرگوں کے محض نام ذکر کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے ٬ بلکہ ان کا مختصر تعارف بھی لکھا ہے ۔ اس وقت اگر کوئی سلسلہ سب سے زیادہ مظلوم ہے تو وہ " سلسلہ مداریہ " ہے ۔ حالاں کہ ماضی میں یہ سلسلہ بڑا مقبول اور ہمہ گیر رہا ہے اور اکابر علما و مشائخ اس کے دامنِ کرم سے وابستہ رہے ہیں ۔ حضرت شیخ وجیہ الدین اشرف علوی گجراتی ٬ حضرت مجدد الف ثانی ٬ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور علامہ سید مرتضیٰ زبیدی بلگرامی جیسی عبقری شخصیتوں نے سلسلہ مداریہ سے اکتسابِ فیض کیا ہے ۔ پوری کتاب میں یہ فصل سب سے زیادہ مفید اور معلومات افزا ہے اور مصنف کی تحقیقی ذوق کا غماز ہے ۔ مصنف نے اس بحث کے ضمن میں ۲۶ / اکابر علما و مشائخ کا تعارف پیش کیا ہے ۔ تفصیل کے لیے کتاب کی جانب رجوع کریں ۔
بابِ دوم کی تیسری فصل میں حضور قطب المدار علیہ الرحمہ کے معاصر صوفیا و مشائخ کا ذکر ہے ٬ جس میں خصوصیت کے ساتھ غوث الاعظم ٬ سلطان الاولیاء سرکار سیدنا محیی الدین عبد القادر جیلانی ٬ خواجۂ خواجگاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ٬ غوث العالم حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی ٬ بانیِ سلسلہ شطاریہ حضرت شیخ عبد اللہ شطّار اور موسسِ بلگرام حضرت عماد الدین بلگرامی علیہم الرحمہ کے اسمائے گرامی مندرج ہیں ۔ یہ بحث بھی بڑی دلچسپ اور لائقِ مطالعہ ہے ۔ مصنف نے قوی دلائل کی روشنی میں حضور غوث پاک اور حضور قطب المدار قدس سرہما کے درمیان ملاقات ثابت کی ہے اور اس سلسلے میں شیخ محمد بن احمد القانی کی " الکواکب الدرارية فی تنویر المناقب المداریۃ " کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضور قطب المدار علیہ الرحمہ نے پانچویں صدی ہجری میں بغداد شریف کا سفر کیا اور حضور سیدنا غوث پاک رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات اور دینی و ملی خدمات کو ملاحظہ فرمایا ۔ جب دوسری بار آپ نے سرکار غوث پاک سے ملاقات کی تو حضور غوث پاک نے اپنے دو بھانجے محمد ( سید جمال الدین ) اور احمد ( سید احمد الدین ) آپ کے سپرد کیے ٬ تاکہ وہ ہندوستان میں دینِ متین کی خدمت انجام دے سکیں ۔ جیسا کہ مصنف کی مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہے :
سافر إلى بغداد في القرن الخامس الهجری متنقلا من البادية إلى الحاضرة في طريقه إليه لاقى الشيخ السيد عبد القادر الجيلاني قدس سره ، كما ذكر الشيخ الجاني محمد بن أحمد القاني الإمام العروس القادري - رحمه الله تعالى - في كتابه " الكواكب الدرارية في تنوير المناقب المدارية " عما وقع بينهما :
و قد بلغنا أن سيدنا و مولانا قطب الاقطاب و غوث الأحباب السيد عبد القادر الجيلي - رضي الله عنه وأرضاه عنا ـ لاقاه القطب زندا شاه المدار - رضي الله عنه - و صاحبه وخالّه أياما ٬ فرآه كأنه صار على الناس إماما ، و بالخلافة المحمدية قواما ، و في إحياء دينه مقداما و هماما ، إلا أنه مغلوب عليه بأسماء الله الجلالية و المطلوب غلبة أسمائه الجمالية . فضلا عن ذلك كان عرج في منصرفه على بغداد" مرة ثانيۃ و لاقاه في هذه المرة أيضا ، قد وقع جمع من الأسرار بينهما و سلم السيد الجيلاني ابني أخته محمد و أحمد إلى السيد الحلبي خلال هذا اللقاء ليتسانداه في تبيلغ الإسلام في الهند ، حتى صب عليهما كل ما كان لديه من علم و عرفان ، قد أسلفنا الذكر عنهما .
( الذکر المختصر فی القطب المزدھر ٬ ص : 199 ٬ 200 )
حضور قطب المدار اور حضور خواجہ غریب نواز علیہما الرحمہ کے درمیان ملاقات اور ان دونوں بزرگوں کے مابین تعظیم و توقیر کا حال مصنف نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
لما ألقى السيد زنده شاه مدار الحلبي عصا الرحيل بـ أجمير الشريفة في أواخر القرن السادس الهجري و ارتاض و جاهد في الجبل الذي يقوله الناس " الجبل المداري " في العصر الراهن جرى اللقاء و الحوار بينهما بالتبجيل و التعظيم في غضون هذه الأيام ، كما يتناول المحقق السيد أمير حسن الفنصوري :
در اجمیر رسیدند و بر کوکلا پہاڑی فرمودند ، حضرت خواجه معین الدین چشتی رحمة الله علیه برای ملاقات والا تشریف آوردند و در ہر دو بزرگواران باهم کمال اتحاد راه یافت .
( مرجعِ سابق ٬ ص : 201 ٬ 202 )
غوث العالم ٬ تارک السلطنت حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو حضور قطب المدار علیہ الرحمہ سے نہ صرف خلافت حاصل تھی ٬ بلکہ ایک طویل سفر میں آپ کو ان کی رفاقت بھی حاصل رہی ہے ٬ جس کا تذکرہ اکثر مصنفین نے کیا ہے ۔ مصنف نے ان دونوں بزرگوں کے باہمی تعلقات و مراسم بیان کرنے کے علاوہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی تہہ علمی و روحانی شخصیت کا تعارف بڑے حسین پیرائے میں پیش کیا ہے جو کچھ اس طرح ہے :
السيد مخدوم أشرف جهانكير السمناني قدس سرہ كان علما من أعلام هذه الأمة مع توقير شعائر الله و الخلق الرفيع والأدب الجم و كثرة التعبد و الذكر ، فهو البدر الساطع في سماء العلوم إذا اشتدت دياجيرها ، و هو الكنز الثمين إذا عزت الكنوز و جهلت مقاديرها ، و هو العلم الخفاق إذا طويت العلوم و خفيت تباشيرها ، و هو العلم الحبر المتضلع من علوم الشريعة و الطريقة على نمط الأقدمين ، والإمام التقي الورع السالك إلى الله تعالى على قدم التمكين و لم يبرح يرتحل بالشيخ قطب المدار الحلبي نحوا من اثنتي عشرة سنة على رواية " منتخب العجائب في إظهار أسرار الغرائب " و استفاد منه المواهب الفذة و الفضائل الكثيرة من أن يعدها كاتب حتى فارقا على ميناء روماء .
( مرجعِ سابق ٬ ص : 205 )
بابِ دوم کی چوتھی فصل میں " اذکارِ مداریہ و صلواتِ مداریہ " پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اوراد و وظائف سے دلچسپی رکھنے والوں کے کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہیں ۔ اس فصل کے مضامین یہ ہیں : حصارِ مداریہ بشمخ ٬ دعائے بشمخ ٬ اختتامِ دعا بشمخ ٬ دعائے خضری ٬ دعائے محمودی ٬ دعائے سیفی ٬ ذکرِ مداری ٬ صلوٰۃِ مداری صغیر ٬ صلوٰۃ مداری کبیر ٬ قصیدہ مداریہ ٬ موالید مبارکہ ٬ مدیح الامام الحلبی قطب المدار قدس سرہ ٬ القطعۃ التاریخیۃ ٬ مدیح الشیخ الکامل بدیع الدین مدار ۔ کتاب کے آخر میں ان نادر و نایاب مخطوطات کے عکس دیے گئے ہیں جو سرکار سیدنا قطب المدار علیہ کے احوال و آثار کے حوالے سے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دو درجن کے قریب ان نادر مخطوطات کے عکوس سے فاضل مصنف کی محنتِ شاقہ اور ان کی تحقیقی کارگذاریوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ حضرت علامہ مفتی محمد ہاشم علی بدیعی مصباحی دام ظلہ العالی دورِ حاضر کے ایک ممتاز عالمِ دین ٬ با صلاحیت مفتی ٬ جفا کش محقق ٬ اسلامی اسکالر ٬ ادیبِ لبیب اور سلسلہ مداریہ پر گہری نظر رکھنے والے مایۂ ناز فاضل ہے ۔ " تذکرہ مشائخِ مداریہ " کے بعد زیرِ نظر کتاب " الذکر المختصر فی القطب المزدھر " عربی زبان میں لکھ کر آپ نے ایک عظیم الشان تحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے ٬ جس کے لیے موصوف بجا طور پر تعریف و تحسین اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں ۔ کتاب کی سب سے بڑی ادبی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے عجمیت کی بو نہیں آتی ۔ حسنِ زبان ٬ لطفِ بیان اور تراکیب و تعبیرات کی عمدگی کتاب کی سطر سطر سے نمایاں ہے ٬ جو مصنف کی عربی دانی پر دال ہے ۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کی تصحیح و تنقیح اور نوکِ پلک درست کرنے میں محققِ نیپال ٬ مخزنِ علم و روحانیت حضرت علامہ مفتی محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی دام ظلہ العالی ( استاذ جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور ) نے عظیم خدمت انجام دی ہے ۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ فارسی ٬ اردو اور انگریزی کے علاوہ عربی زبان و ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مادری زبان کی طرح عربی بولتے ہیں ۔ اللہ رب العزت مصنف اور مصحّح دونوں کو جزائے خیر سے نوازے اور زیادہ سے زیادہ دینی و علمی و تحقیقی خدمات انجام دینے کی توفیق ارزاں فرمائے آمین !
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍️از قلم :- طفیل احمد مصباحی
علامہ مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ کا تبصرہ شوشل میڈیا کے توسط سے زینت چشم بنا باراول میں ہی مکمل پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی اللہ رب العزت خوب جانتا ہے کہ مولانا موصوف نے کئی دن اور رات لگاکر اتنا قیمتی دستاویزی تبصرہ پیش اور معلومات افزا
ReplyDelete