کیا مومن اور مسلمان میں کوئی فرق ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-مولانا قطب الدین شمیمی ثنائی موہن پور نیپال
سائل:-مولانا قطب الدین شمیمی ثنائی موہن پور نیپال
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
مومن اور مسلمان ایک ہی ہے جیسا کہ فیروز اللغات میں ہے کہ مومن کا معنی ایمان لانے والا مسلمان۔
مسلمان ۔مسلم ۔مومن
(فیروز اللغات ص 1247)
اس میں مومن کا ایک معنی مسلمان بھی ہے اور مسلمان کا ایک معنی مومن ہے اس سے واضح ہوا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے
حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایمان کے لغوی معنی کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں اصطلاح شریعت میں تمام ضروریات دین کو دل سے سچ ماننے اور زبان سے ان کی سچائی کے اقرار کو ایمان کہتے ہیں یہ تصدیق
و اقرار تحقیقا ہو خواہ تقلیدا ۔زبان سے اقرار ایمان کا رکن ہے یا اجراء احکام کے لئے شرط ہے
اصل ایمان تصدیق قلبی ہے مگر دنیا میں مومن ہونے کا حکم لگانے کے لئے اقرار باللسان ضروری ہے
اگر کوئی اپنی زبان سے تمام ضروریات کی تصدیق کرے تو اس کو مسلمان کہیں گے
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد اول ص 236)
دیکھا اس میں لکھا ہوا ہے اپنی زبان سے تمام ضروریات کی تصدیق کرے تو اس کو مسلمان کہیں گے اور یہی تعریف مومن کے لئے ہے اس سے واضح ہوا کہ مومن اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے
عمل صالح کمال ایمان کی شرط ہے اگر ایمان کے ساتھ عمل صالح ہو تو وہ کامل ایمان والا ہوگا اور کامل مومن کہلائے گا اور ایمان ہو اور عمل نہ ہو تو وہ ناقص ایمان ہوگا ۔تاہم ایمان کا نام اس پر اطلاق ہوگا ۔ایسا شخص اگر معصیت و گناہ کو ہلکا اور حلال نہ جانتا ہو۔ چاہے گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو تو اسے مومن فاسق کہیں گے
حضور محدث دہلوی حضرت عبد الحق دہلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
لغت میں اسلام انقیاد (اطاعت گزاری ) فرمانبرداری اور خوشی و رغبت سے جھک جانے اور کسی قسم کی سرکشی اور اعراض کے بغیر کسی کا حکم تسلیم کرلینے کے معنی میں آتا ہے۔اور شرع شریف کے عرف میں اسلام فرمانبرداری ۔احکام الہی کی اطاعت اور دین اسلام کے پانچ ارکان کے بجا لانے سے عبارت ۔تو اسلام ظاہری اعمال اور ایمان باطنی اعتقاد کا نام ہے ۔اور دین مجموعہ اسلام و ایمان سے عبارت ہے ۔اور عقاید میں جو مذکور ہے کہ اسلام و ایمان ایک ہی چیز ہے ۔اس کا معنی یہ ہے کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے اور ہر مسلم مومن ۔ان دو ناموں میں سے کسی ایک نام کی مسلمان سے نفی نہیں کی جاسکتی ۔تاہم حقیقتا اسلام ایمان کا ثمر اور اس کی فرح ہے۔
مسلمان ۔مسلم ۔مومن
(فیروز اللغات ص 1247)
اس میں مومن کا ایک معنی مسلمان بھی ہے اور مسلمان کا ایک معنی مومن ہے اس سے واضح ہوا کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے
حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایمان کے لغوی معنی کسی بات کو سچ ماننے کے ہیں اصطلاح شریعت میں تمام ضروریات دین کو دل سے سچ ماننے اور زبان سے ان کی سچائی کے اقرار کو ایمان کہتے ہیں یہ تصدیق
و اقرار تحقیقا ہو خواہ تقلیدا ۔زبان سے اقرار ایمان کا رکن ہے یا اجراء احکام کے لئے شرط ہے
اصل ایمان تصدیق قلبی ہے مگر دنیا میں مومن ہونے کا حکم لگانے کے لئے اقرار باللسان ضروری ہے
اگر کوئی اپنی زبان سے تمام ضروریات کی تصدیق کرے تو اس کو مسلمان کہیں گے
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد اول ص 236)
دیکھا اس میں لکھا ہوا ہے اپنی زبان سے تمام ضروریات کی تصدیق کرے تو اس کو مسلمان کہیں گے اور یہی تعریف مومن کے لئے ہے اس سے واضح ہوا کہ مومن اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں ہے
عمل صالح کمال ایمان کی شرط ہے اگر ایمان کے ساتھ عمل صالح ہو تو وہ کامل ایمان والا ہوگا اور کامل مومن کہلائے گا اور ایمان ہو اور عمل نہ ہو تو وہ ناقص ایمان ہوگا ۔تاہم ایمان کا نام اس پر اطلاق ہوگا ۔ایسا شخص اگر معصیت و گناہ کو ہلکا اور حلال نہ جانتا ہو۔ چاہے گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو تو اسے مومن فاسق کہیں گے
حضور محدث دہلوی حضرت عبد الحق دہلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
لغت میں اسلام انقیاد (اطاعت گزاری ) فرمانبرداری اور خوشی و رغبت سے جھک جانے اور کسی قسم کی سرکشی اور اعراض کے بغیر کسی کا حکم تسلیم کرلینے کے معنی میں آتا ہے۔اور شرع شریف کے عرف میں اسلام فرمانبرداری ۔احکام الہی کی اطاعت اور دین اسلام کے پانچ ارکان کے بجا لانے سے عبارت ۔تو اسلام ظاہری اعمال اور ایمان باطنی اعتقاد کا نام ہے ۔اور دین مجموعہ اسلام و ایمان سے عبارت ہے ۔اور عقاید میں جو مذکور ہے کہ اسلام و ایمان ایک ہی چیز ہے ۔اس کا معنی یہ ہے کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے اور ہر مسلم مومن ۔ان دو ناموں میں سے کسی ایک نام کی مسلمان سے نفی نہیں کی جاسکتی ۔تاہم حقیقتا اسلام ایمان کا ثمر اور اس کی فرح ہے۔
(اشعۃ اللمعات شرحِ مشکواۃ شریف جلد اول ص 198)
اس سے واضح ہوا کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے اور ہر مسلمان مومن ہوتا ہے ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ حقیقتا اسلام ایمان کا ثمر اور اس کی فرع ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
اس سے واضح ہوا کہ ہر مومن مسلمان ہوتا ہے اور ہر مسلمان مومن ہوتا ہے ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ حقیقتا اسلام ایمان کا ثمر اور اس کی فرع ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
23 جمادی الاول شریف 1446
26 نومبر 2024
23 جمادی الاول شریف 1446
26 نومبر 2024