(سوال نمبر 5287)
جماعت کھڑی ہونے کے بعد نعت شریف پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک مسجد میں نمازِ عشاء کی جماعت کھڑی ہے اور اسی وقت بغل میں ایک شاعر صاحب نعت پڑھ رہے ہیں جس سے نماز میں خلل پیدا ہو رہی ہے اور لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ جماعت کو چھوڑ کر نعت پڑھنا دُرست نہیں اس مسئلہ پر شرعی حکم کیا ہوگا جواب ضرور عنایت فرمائیں جبکہ جماعت واجب بھی ہے فقط و سلام۔۔۔۔
سائل:-:حافظ مقصود عالم بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بصدق سوال جب عناء کی جماعت کھڑی ہو جائے تو جاہل نعت خواں کو بلند اواز سے نعت شریف پڑھنا جائز نہیں ہے اسے سختی سے منع کریں جماعت واجب ہے اور نعت شریف پڑھنا مستحب ہے وہ بھی اس وقت جب مسجد میں کسی مصلی کو ڈسٹرب نہ ہوں۔
جب جماعت کھڑی ہونے کے وقت سنت نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں( سوائے فجر کے دو رکعات سنت موکدہ کے) اگر چار رکعات شروع کردی تو دو پر سلام پھیرنا ضروری ہے۔پھر بوقت جماعت نعت کیوں کر پڑھنا جائز ہوگا ۔
حتی بعد جماعت قرآن مجید کی تلاوت یا درس اس قدر بلند آواز سے نہیں کرنا چاہیے کہ دوسروں کی عبادت میں خلل آئے۔ اگر کوئی شخص دھیمی آواز سے بھی پریشانی کا شکار ہوتا ہے تو اسے تلاوت مسجد کی بجائے گھر پر کرنی چاہیے۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے چار رکعت نماز سنت یا نفل کی نیت کرکے شروع کی ابھی دوسری رکعت کی طرف اٹھا تھا کہ نماز فرض کی جماعت کے لئے تکبیر ہوگئی نفل و سنت ادا کرنے والا چار رکعت پوری کرے یا دو پر اکتفاء کرلے باقی دو رکعات ادا کرے یا نہ؟
(تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ نفل ادا کرنے والا نمازی ثنا سے تشہد کے آخر تک جو پہلی دو رکعت میں ہے ابھی تیسری رکعت کی طرف اس نے قیام نہیں کیا تھا کہ جماعت فرض کھڑی ہو گئی تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ انھیں دو رکعات پر اکتفا کرے اور جماعت میں شریک ہوجائے-
(فی الد رالمختار، الشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین
یعنی: رمختار میں ہے،
کہ نوافل میں شروع ہونے والا انھیں مطلقًا قطع نہیں کرسکتا بلکہ دو رکعات پوری کرے– اور جو دو رکعات باقی تھیں ان کی قضا اس کے ذمہ نہیں کیونکہ نوافل کی ہر دو رکعت الگ نماز ہے جب تک دوسرے شفع کا آغاز نہیں کیا جاتا وہ لازم نہیں ہوگا-(اور غیر مؤکدہ سنن کا حکم بھی یہی ہے مثلًا عصر اور عشاء کی پہلی سنتیں، ان کا درجہ بھی نوافل کا ہے لیکن وہ چار سنن موکدہ جو مثلًا ظہر اور جمعہ سے پہلے ہیں تو ان کا حکم نوافل سے فائق ہوتا ہے اس جگہ علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے-
(فتاویٰ رضویہ ج 8،ص 129- رضا فاؤنڈیشن لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
جماعت کھڑی ہونے کے بعد نعت شریف پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک مسجد میں نمازِ عشاء کی جماعت کھڑی ہے اور اسی وقت بغل میں ایک شاعر صاحب نعت پڑھ رہے ہیں جس سے نماز میں خلل پیدا ہو رہی ہے اور لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ جماعت کو چھوڑ کر نعت پڑھنا دُرست نہیں اس مسئلہ پر شرعی حکم کیا ہوگا جواب ضرور عنایت فرمائیں جبکہ جماعت واجب بھی ہے فقط و سلام۔۔۔۔
سائل:-:حافظ مقصود عالم بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بصدق سوال جب عناء کی جماعت کھڑی ہو جائے تو جاہل نعت خواں کو بلند اواز سے نعت شریف پڑھنا جائز نہیں ہے اسے سختی سے منع کریں جماعت واجب ہے اور نعت شریف پڑھنا مستحب ہے وہ بھی اس وقت جب مسجد میں کسی مصلی کو ڈسٹرب نہ ہوں۔
جب جماعت کھڑی ہونے کے وقت سنت نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں( سوائے فجر کے دو رکعات سنت موکدہ کے) اگر چار رکعات شروع کردی تو دو پر سلام پھیرنا ضروری ہے۔پھر بوقت جماعت نعت کیوں کر پڑھنا جائز ہوگا ۔
حتی بعد جماعت قرآن مجید کی تلاوت یا درس اس قدر بلند آواز سے نہیں کرنا چاہیے کہ دوسروں کی عبادت میں خلل آئے۔ اگر کوئی شخص دھیمی آواز سے بھی پریشانی کا شکار ہوتا ہے تو اسے تلاوت مسجد کی بجائے گھر پر کرنی چاہیے۔
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے چار رکعت نماز سنت یا نفل کی نیت کرکے شروع کی ابھی دوسری رکعت کی طرف اٹھا تھا کہ نماز فرض کی جماعت کے لئے تکبیر ہوگئی نفل و سنت ادا کرنے والا چار رکعت پوری کرے یا دو پر اکتفاء کرلے باقی دو رکعات ادا کرے یا نہ؟
(تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ نفل ادا کرنے والا نمازی ثنا سے تشہد کے آخر تک جو پہلی دو رکعت میں ہے ابھی تیسری رکعت کی طرف اس نے قیام نہیں کیا تھا کہ جماعت فرض کھڑی ہو گئی تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ انھیں دو رکعات پر اکتفا کرے اور جماعت میں شریک ہوجائے-
(فی الد رالمختار، الشارع فی نفل لایقطع مطلقا ویتمہ رکعتین
یعنی: رمختار میں ہے،
کہ نوافل میں شروع ہونے والا انھیں مطلقًا قطع نہیں کرسکتا بلکہ دو رکعات پوری کرے– اور جو دو رکعات باقی تھیں ان کی قضا اس کے ذمہ نہیں کیونکہ نوافل کی ہر دو رکعت الگ نماز ہے جب تک دوسرے شفع کا آغاز نہیں کیا جاتا وہ لازم نہیں ہوگا-(اور غیر مؤکدہ سنن کا حکم بھی یہی ہے مثلًا عصر اور عشاء کی پہلی سنتیں، ان کا درجہ بھی نوافل کا ہے لیکن وہ چار سنن موکدہ جو مثلًا ظہر اور جمعہ سے پہلے ہیں تو ان کا حکم نوافل سے فائق ہوتا ہے اس جگہ علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے-
(فتاویٰ رضویہ ج 8،ص 129- رضا فاؤنڈیشن لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/11/2023
29/11/2023