تراجمِ قران میں کنز الایمان کی امتیازی خصوصیات
( طفیل احمد مصباحی )
ترجمہ نگاری ایک مستقل فن ہے جو تصنیف و تالیف سے زیادہ دشوار اور دقت طلب فن ہے ۔ کسی بھی زبان کا ادیب ٬ مصنف اور نثر نگار اپنی زبان میں بڑی آسانی کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر لیتا ہے ٬ لیکن دوسری زبان کے علمی و ادبی سرمایے کو اپنی زبان میں منتقل کرتے وقت اس کو بہت ساری مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ٬ جس کا اندازہ ایک مترجم ہی لگا سکتا ہے ۔ لغت کی مدد سے ایک زبان سے دوسری زبان میں لفظ بہ لفظ ترجمہ کر دینا یا اصل کے مفہوم کی ترجمانی کر دینا ٬ حقیقتاً ترجمہ نگاری نہیں ۔ ترجمہ کا کمال یہ ہے کہ اس میں اصل کی روح سرایت کر جائے اور ترجمہ پر اصل کا گمان گذرے ۔ ترجمہ کی اہمیت و افادیت اور اس کی علمی ٬ ادبی ٬ سماجی اور تمدنی ضرورتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے ترجمے کا سہارا لینا انسان کی بنیادی ضروریات میں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ عالمی سرگرمیوں میں سے ایک عظیم سرگرمی ترجمہ نگاری بھی ہے ۔ دو اجنبی ملک ترجمہ نگاری کی بدولت ہی ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور اپنے تجارتی تعلقات استوار کرتے ہیں ۔ ترجمہ نگاری عہدِ قدیم سے رائج ہے ۔ اردو میں مختلف زبانوں سے تراجم کا آغاز عہدِ مغلیہ سے ہو چکا تھا اور سولہویں صدی عیسوی بلکہ اس سے قبل ہی اردو ترجمہ کا کام شروع ہو چکا تھا ۔ ترجمہ نگاری کے اسباب و محرکات یہ ہیں : مذہبی ضرورت اور دعوتی و تبلیغی تقاضے ٬ ترقی یافتہ اقوام کی تہذیب ٬ علوم و فنون اور ادبیاتِ عالم سے آگاہی کی فطری خواہش ٬ زبان وادب کی ترقی و توسیع ٬ اقتصادی ، معاشی ، سیاسی اور صحافتی ضروریات ۔ ترجمہ کے مختلف طریقے ہیں : لفظی ترجمہ ، آزاد ترجمہ ٬ تخلیقی ترجمہ وغیرہ ۔ سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں اردو نثر و نظم میں درجنوں تراجم وجود میں آئے ۔ انیسویں صدی میں فورٹ ولیم کالج اور دلی کالج سے تراجم نگاری کے فن کو مزید فروغ حاصل ہوا ۔ 1903 ء میں انجمن ترقی اردو ٬ دہلی کا قیام عمل میں آیا ٬ جس کے تحت مغربی زبانوں ، عربی ٬ فارسی اور سنسکرت سے اردو میں متعدد کتابوں کے ترجمے ہوئے ۔ اسی طرح دار الترجمہ عثمانیہ ، حیدر آباد کے زیرِ اہتمام مختلف موضوعات پر تقریباً ساڑھے چار سو کتابیں اردو میں ترجمہ کی گئیں ۔ حضرت شاہ عبد القادر دہلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی نے پہلی بار قرآن شریف کا اردو میں ترجمہ کیا ۔ غرض کہ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کی رفتار دن بدن سے تیز سے تیز تر ہوتی گئی ٬ جس سے ترجمہ نگاری کی اہمیت و ضرورت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ترجمہ نگاری کے آغاز و ارتقا کو سمجھنے کے لیے یہ اقتباس ملاحظہ کریں
اردو ادب کے ابتدائی عہد میں بہت بڑی تعداد میں فارسی ، عربی اور سنسکرت سے اردو نثر میں ترجمے کیے گئے ۔ یہ ترجمے مذہب ، تصوف ، شاعری ، داستانیں ، ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے تھے ۔ ان کتابوں کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہو گی ۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اردو میں پہلا ترجمہ کون سا ہے ۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ شاہ میراں جی خدا نما نے ابو الفضائل عبد الله بن محمد عین القضاۃ ہمدانی کی تصنیف " تمہیداتِ ہمدانی " کا عربی سے اردو میں جو اردو ترجمہ کیا تھا ، وہ اردو کا پہلا ترجمہ ہے ۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ ملا وجہی نے پہلی بار شاہ جی نیشا پوری کی فارسی تصنیف " دستورِ عشاق " کا اردو میں " سب رس" کے نام سے ترجمہ کیا ۔ ۱۷۰۴ ء میں شاہ ولی اللہ قادری نے شیخ محمود کی فارسی تصنیف " معرفت السلوک " کا اردو میں ترجمہ کیا ۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں سید محمد قادری کی فارسی تصنیف " طوطی نامہ" کا ترجمہ ہوا ۔ تقریباً اسی زمانے میں فضل علی فضلی نے ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب " روضة الشہداء " کا اردو میں " کربل کتھا " کے نام سے ترجمہ کیا ۔ ان ترجموں کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ترجمہ باقاعدہ ترجمہ نہیں بلکہ کتابوں کی تلخیص یا آزاد ترجمہ ہوتے تھے ۔ ان میں ترجمہ نگاری کے ان سائنٹفک اصولوں کی پابندی نہیں کی جاتی جو اچھے ترجموں کے لیے ضروری ہیں ۔ عیسائیوں نے جب ہندوستان میں تاجروں کی حیثیت سے قدم رکھا تو ان کے مبلغین نے اپنی مذہبی کتابیں ترجمہ اور تالیف کر کے شائع کیں ۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں انھوں نے توریت اور انجیل کے اردو ترجمے شائع کیے ٬ جس کا ترجمہ بنجمن شولٹز ( Benjamain Schultze ) نے کیا تھا ۔ اس کے بعد شولٹز نے کتاب دانیال کا اردو ترجمہ شائع کیا ۔ ان تمام کتابوں کی فہرست سی ، اے گیر یرسن نے اپنی کتاب " ہندوستان کا لسانی جائزہ " جلد نہم میں دی ہے ۔ اردو میں قرآن شریف کا پہلا ترجمہ مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی نے کیا ۔ یہ ترجمہ لفظی تھا ۔ یعنی قرآن شریف کے ہر لفظ کا اس طرح ترجمہ کیا گیا کہ اردو فقروں کی ساخت بالکل بدل گئی ۔ اس ترجمے میں سلاست اور روانی نہ ہونے کی وجہ سے اصل مفہوم سمجھنا مشکل تھا ۔ شاہ رفیع الدین نے یہ ترجمہ ۱۷۷۶ ء میں کیا تھا ۔ تقریبا انیس سال بعد یعنی ۱۷۹۵ ء میں شاہ رفیع الدین کے چھوٹے بھائی شاہ عبد القادر دہلوی نے بھی قرآن شریف کا اردو میں ترجمہ کیا ۔ یہ ترجمہ پہلے ترجمے کے مقابلے میں سلیس ، شگفتہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا تھا ۔ اب تک اردو میں دیگر زبانوں سے جتنے تراجم ہوئے تھے ، وہ انفرادی کوششوں کا نتیجہ تھے ۔ فورٹ ولیم کالج پہلا ادارہ تھا ، جس نے منظم اور باقاعدہ طریقے پر عربی ، فارسی اور سنسکرت سے اردو میں ترجمے کیے ۔
( فن ترجمہ نگاری ٬ ص : ۱۱ ٬ ۱۲ ٬ مطبوعہ : انجمن ترقی اردو ٬ نئی دہلی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ اور کنز الایمان:-
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ اپنے وقت کے مجدد ٬ پچاس سے زائد علوم و فنون کے متبحر عالمِ دین ٬ تقریباً ایک ہزار کتب و رسائل کے مایۂ ناز مصنف ٬ متکلم ٬ فقیہِ اسلام ٬ محدث ٬ مفسر ٬ قادر الکلام شاعر اور عربی ٬ فارسی و اردو زبان کے ممتاز ادیب تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری و نثر نگاری کی طرح ان کے ترجمۂ قرآن " کنز الایمان " میں زبان و بیان اور ترجمہ و تفسیر کا حسن علیٰ وجہ الکمال پایا جاتا ہے ۔ ایک مترجمِ قرآن اور مفسرِ قرآن کے لیے جن اساسی علوم کی ضرورت ہوا کرتی ہے ٬ وہ امامِ موصوف میں بدرجۂ اتم موجود تھے ۔ ترجمۂ قرآن و تفسیرِ قرآن پاک کے حوالے سے علمائے علم تفسیر نے چار اصول کی نشان دہی فرمائی ہے :
( ۱ ) تفسیر القرآن بالقرآن ( ۲ ) تفسیر القرآن بالحدیث (۳ ) تفسیر القرآن بآثار الصحابۃ و التابعین ( ۴ ) تفسیر القرآن باللغۃ العربیۃ و القواعد الاسلامیۃ . کنز الایمان کا تجزیاتی مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں کہ اعلیٰ حضرت کا یہ ترجمۂ قرآن علمائے مفسرین کے بیان کردہ اصول و ضوابط کے عین مطابق ہے ۔ علامہ غلام رسول سعیدی کے بقول : اس ترجمہ میں اردو ٬ عربی کے اسلوب میں رنگی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ اگر قرآن مجید اردو میں اترا ہوتا تو یہ عبارت اس کے قریب تر ہوتی اور جو فصاحتِ زبان سے آشنا ہو ٬ اسے کہنا پڑے گا کہ اس ترجمہ میں زبان و بیان کی بلاغت اعجاز کی سرحدوں کو چھوتی معلوم ہوتی ہے اور مولانا کوثر نیازی تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ " امام احمد رضا نے عشق افروز اور ادب آموز ترجمہ کیا ہے ...... کنز الایمان روح پرور ترجمہ ٬ عشقِ رسول کا خزینہ اور معارف اسلامی کا گنجینہ ہے " ۔ اردو تراجمِ قرآن میں کنز الایمان بہت ساری امتیازات و خصوصیات کی حامل ہے ٬ جن میں چند یہ ہیں
لفظی و با محاورہ ترجمہ کا حسنِ امتزاج:-
" کنز الایمان " ایک اسم با مسمّیٰ ترجمہ ہے ۔ یہ کنز الایمان بھی ہے اور کنز الادب و الترجمۃ بھی ۔ یہ ترجمہ نہ محض لفظی ہے اور نہ صرف با محاورہ ٬ بلکہ لفظی اور با محاورہ ترجمے کا حسنِ امتزاج اس کی سطر سطر سے نمایاں ہے ۔ کنز الایمان کے لفظی و معنوی محاسن کا اندازہ مندرجہ ذیل مثالوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :
( ۱ ) ذالک الکتاب لا ريب فيه .
مولوی محمود الحسن دیوبندی اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ " اس کتاب میں کوئی شک نہیں ۔ " اور مولوی اشرف علی تھانوی اس کا ترجمہ یوں لکھتے ہیں : یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں " ۔ اس آیت میں جو کلمۂ نفی " لا " ہے ٬ وہ لائے نفی جنس ہے ٬ جو اپنے مدخول سے حکم کی نفی کرتا ہے ۔ عربی محاورہ کے مطابق یہاں جنسِ ریب ( شک ) کی نفی ہے اور لفظ " فی " کا مدخول ظرفی ہوتا ہے کبھی زمان کے لیے اور کبھی مکان کے لیے تو اب آیت کا معنیٰ یہ ہو گا کہ " قرآن مجید جنسِ ریب کا محل نہیں بنا " ۔ جس کا مفہوم اور خلاصہ یہ ہوا کہ قرآنِ مقدس میں کسی نے شک نہیں کیا ۔ حالاں کہ قرآن کریم کی دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ قرآن محلِ ریب بنا ہے اور کفار و مشرکین نے اس کی آیتوں میں شک کیا ہے ۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
و ان کنتم فی ریب مما نزلناہ علیٰ عبدنا . یہی وہ اشکال تھے جسے دور کرنے کے لیے علامہ تفتا زانی نے " مطول " اور علامہ بیضاوی نے تفسیرِ بیضاوی میں لمبی چوڑی عبارتیں تحریر کی ہیں ۔ لیکن امام احمد رضا قدس سرہ نے اتنی مہارت و نفاست کے ساتھ زیرِ نظر آیت کا ترجمہ کیا ہے کہ مذکورہ اشکال رفع ہو گیا ہے ۔ آپ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : وہ بلند مرتبہ کتاب ( قرآن ) کوئی شک کی جگہ نہیں ۔ " ذالک " جو اشارۂ بعید کے لیے آتا ہے اور اشارۂ بعید " وہ " کا معنیٰ رکھتا ہے ۔ یہاں امام موصوف نے " ذالک الکتاب " کا ترجمہ " وہ بلند رتبہ کتاب " کر کے عبارت کا حسن بڑھا دیا ہے اور کتاب اللہ کی عظمت و حقانیت میں چار چاند لگا دیا ہے ۔
قرآنِ مقدس سراپا معجزہ ہے اور اس کے وجوہِ اعجاز میں سے ایک نمایاں وجہ اس کا منفرد اور جداگانہ اسلوبِ بیان ہے ۔ چنانچہ احمد حسن الزیات رقم طراز ہیں :
من قائل أنہ الفصاحة الرائعة المذہب الواضح و الأسلوب الموثق ونحن الی ہذا الرأی أمیل ٬ فان القوم الذین تحدوا بہ لم یکونوا فلاسفة و لا فقہاء حتی یکون عجزہم عن الاتیان بمثلہ معجزة ، انما کانوا بلغاء مصادع و خطباء مصاقع و شعراء فحولاً ، وفی القرآن من دقة التشبیہ والتمثیل و بلاغة الاجمال والتفصیل و روعة الأسلوب و قوة الحجاج ما یعجز طوق البشر ویرمی المعارضین بالسُّکات والحَصَر ۔
( تاریخ الادب العربی ٬ ص : ۸۹ )
یعنی بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن میں شاندار فصاحت ، واضح فکر و نظریہ اور مستحکم اسلوب پائے جاتے ہیں ۔ میری بھی یہی رائے ہے ۔ کیوں کہ قرآن کے ذریعے جس قوم کو للکارا گیا اور چیلنج کیا گیا ٬ وہ نہ تو منطقیانہ موشگافیوں سے واقف تھے ٬ نہ ہی فہم و فراست کے حامل کہ ان کا اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز رہنا معجزہ ہوتا ، ہاں ! وہ میدانِ بلاغت کے ہیرو ، بلند پایہ مقرر اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ نیز قرآن میں دقیق تشبیہ و تمثیل ، ایجاز و اطناب ، حسین اسلوب اور قوت استدلال نے انسانی قوت کو درماندہ کر دیا اور مخالفین پر سکتہ طاری کر دیا ۔
اس صداقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جملہ آسمانی و الہامی کتابوں میں قرآنِ مقدس وہ واحد کتاب ہے ٬ جو ہر جہت سے بے مثل اور لا جواب ہے ۔ اس کے معانی ٬ مفاہیم ٬ طریقۂ تبشیر و انذار ٬ اسالیبِ بیان ٬ اندازِ تخاطب ٬ تمثیلات ٬ غرض کہ جس زاویے سے دیکھا جائے ٬ اس کی انفرادیت نمایاں ہے ۔ قرآن مقدس کا اسلوب نہایت دلکش ٬ دلنشیں ٬ منفرد اور جدا گانہ حیثیت کا حامل ہے ۔ حسنِ کلام ٬ شکوہِ بیان ٬ انتخابِ الفاظ اور مضامین میں ربط و تسلسل ٬ قرآنی اسلوب کی چند ایسی خصوصیات ہیں ٬ جنہیں نہ تو لفظی ترجمہ اپنے اندر سمو سکتا ہے اور نہ ہی با محاورہ ترجمہ ۔ قرآن کے منفرد اور جدا گانہ اسلوبِ بیان کے لیے ایسے ہی منفرد اور جدا گانہ ترجمے کی ضرورت ہے ٬ جس میں لفظی اور با محاورہ ترجمہ کی بیک وقت دونوں خصوصیات موجود ہوں ۔ اردو تراجمِ قرآن میں کنز الایمان وہ واحد ترجمہ ہے ٬ جس میں قرآن کے منفرد اور مخصوص اسلوب کی ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ پروفیسر طاہر القادری کے بقول :
اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز وہ واحد شخصیت ہیں ٬ جنہوں نے " کنز الایمان " کے نام سے قرآنِ حکیم کا ایسا ترجمہ کیا ہے جو لفظی ترجمہ کے نقائص سے بھی مبرّا ہے اور با محاورہ ترجمہ کی کمزوریوں سے بھی پاک ہے ۔ آپ نے قرآنی عبارات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ قاری اسے پڑھ کر حتی الوسع ہر لفظ کا معنیٰ بھی سمجھ سکتا ہے اور قرآن کے حقیقی مراد اور مفہوم تک بھی بآسانی رسائی پا لیتا ہے ۔ کنز الایمان نہ تو قدیم اسلوب کے اعتبار سے محض لفظی ترجمہ ہے اور نہ ہی جدید اسلوب کے لحاظ سے فقط با محاورہ ۔ کنز الایمان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے لفظی ترجمے کے محاسن کے حوالے سے قرآن کے ہر ہر لفظ کا مفہوم اس طرح واضح کر دیا ہے کہ اسے پڑھ لینے کے بعد کسی لغت کی طرف رجوع کرنے کی حاجت نہیں رہتی اور با محاورہ ترجمہ کے محاسن کو بھی اس خوبی و کمال کے ساتھ اپنے اندر سمو لیا ہے کہ عبارت میں کسی قسم کا بوجھ یا ثقل محسوس نہیں ہوتا ۔
( کنز الایمان کی فنی حیثیت ٬ ص : ۱۰ / ۱۱ ٬ ناشر : منہاج القرآن پبلیکیشنز ٬ لاہور )
( ۲ ) و یعلمک من تاویل الاحادیث .
اس کا با محاورہ ترجمہ بالعموم یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تجھے خوابوں کی تعبیر سکھا دے گا ۔ اسی طرح لفظی ترجمہ کرنے والوں نے بھی " تاویل الاحادیث " کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا ہے کہ بات واضح نہیں ہوتی ۔ اس طرح دونوں طرح کے تراجم ( لفظی و با محاورہ ) سے لفظ " تاویل " کا معنیٰ واضح نہ ہو سکا اور یہ پتہ نہیں چل سکا کہ " تاویل " کسے کہتے ہیں ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی اس کا ترجمہ کچھ اس طرح کرتے ہیں : " اور ( تیرا رب ) تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا " ۔ آپ نے " احادیث " کا ترجمہ " باتوں " سے کیا ہے ۔ کیوں کہ حدیثؔ " بات " کو کہتے ہیں ۔ اسی طرح آپ نے تاویلؔ کا معنیٰ : " انجام نکالنا " کیا ہے ۔ قرآن پاک کے ترجمہ کی پوری تاریخ میں یہ ایسا منفرد ترجمہ کہیں نظر نہیں آتا ۔ ایک مجدد کا قلمِ اعجاز رقم ہی ایسا منفرد ٬ معنیٰ خیز اور بلیغ ترجمہ کر سکتا ہے ۔
اب رہا یہ دعویٰ کہ تاویلؔ کا وہی معنیٰ راجح ہے ٬ جو امام موصوف نے کیا ہے ٬ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ لغت کی رو سے تاویلؔ مشتق ہے " اول " سے اور " اول " کا معنیٰ ہے : " رد الشیٔ إلى الغایة المرادة منه " یعنی کسی چیز کا غایتِ مقصودہ یعنی انجام کی طرف لوٹ آنا ۔ اسی کو " تاویل " کہتے ہیں ۔ لہٰذا تاویلؔ کا مطلب انجام نکالنا ٬ انجام سے باخبر ہونا ٬ مقصودِ اصلی سے مطلع ہونا ہے اور امام موصوف نے " من تاویل الاحادیث " کا جو ترجمہ " باتوں کا انجام نکالنا " کیا ہے ٬ وہ عربی قواعد و لغت کے عین مطابق ہے ۔ اربابِ تفسیر اور علمائے لغت نے اس کا یہی معنی متعین کیا ہے ۔ نیز مذکورہ ترجمہ لفظی بھی ہے اور بامحاورہ بھی ۔ با محاورہ اس طرح کہ اس میں لفظی ترجمے کا کوئی جھول نہیں پایا جاتا ۔ اس ترجمہ سے نہ عبارت کی روانی متاثر ہوئی ہے اور نہ تسلسل ٹوٹا ہے ۔ نہ کہیں عبارت میں سقم پیدا ہوا ہے اور نہ مضمون کا نظم مضمحل ہوا ہے ۔ یوں اس ترجمے میں لفظی اور با محاورہ ترجموں کا حسن کمال خوبی کے ساتھ یکجا کر دیا گیا ہے ۔
*قرآن کے تفسیری اور معنوی پہلوؤں کا التزام* :
ترجمۂ قرآن یا پھر کسی بھی فن کی کتاب کے ترجمے کا مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ اس کے مفہوم اور معنیٔ مراد تک رسائی حاصل کی جائے اور مطلوب و مقصود کو اچھی طرح سمجھا جائے ۔ " کنز الایمان " کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس میں بعض مقامات پر قرآن کے معنوی پہلو یا مرادی تفسیر کا التزام کیا گیا ہے ٬ تاکہ قرآن کا معنوی پہلو اولِ نظر میں واضح ہو جائے اور قاری کو ترجمہ کے بعد دیگر کتبِ تفاسیر کی جانب رجوع نہ کرنا پڑے ۔ قرآن مقدس کے معنوی پہلوؤں کی تفہیم کے لیے سورۂ رحمٰن شریف کی ابتدائی چار آیتوں کا یہ ترجمہ ملاحظہ کریں ٬ جو امام احمد رضا کے قلم سے معرضِ وجود میں آیا ہے :
اَلرَّحْمٰنُ ۙ﴿ ۱ ﴾ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ؕ﴿ ۲ ﴾ خَلَقَ الْاِنْسَانَ ۙ﴿ ۳ ﴾ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ .
ترجمہ : رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا ۔ انسانیت کی جان محمد ( ﷺ ) کو پیدا کیا ۔ ما کان و ما یکون کا بیان انہیں سکھایا ۔
اس کے بر عکس دیگر مترجمین نے مذکورہ آیات کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا ہے :
( ۱ ) رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی ۔ اس نے انسان کو پیدا کیا ، پھر اس کو گویائی سکھائی ۔
( ۲ ) رحمٰن نے قرآن پڑھایا ، اس نے انسان کو پیدا کیا ۔ پھر اس کو بولنا سکھایا ۔
( ۳ ) بڑے رحم والے خدا نے قرآن محمد کو سکھایا ۔ اسی نے آدم کو پیدا کیا ، اس کو بولنا سکھایا ۔
( ۴ ) نہایت مہربان خدا نے اس قرآن کی تعلیم دی ۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے سورۂ رحمٰن کی ان آیات کے مرادی ترجمے میں جس تفسیری مہارت کا ثبوت دیا ہے ٬ اسے لغت و تفاسیر کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے ۔ متعدد مفسرین نے " خلق الانسان " سے انسانیت کی جان اور انسان کا فردِ کامل حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی مراد لیا ہے ۔ چنانچہ تفسیرِ قرطبی میں ہے :
و عن أبن عباس أيضاً و أبن كيسان : الإنسان هاهنا يراد به محمد ﷺ ، والبيان بيان الحلال من الحرام ، والهدى من الضلال ، و قيل : ما كان و ما يكون ؛ لأنه یبين عن الأولين و الآخرين و يوم الدين ۔
( تفسیر قرطبی ٬ جلد : ۱۷ ٬ ص : ۱۵۲ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )
تفسیرِ خازن میں ہے :
وقيل أراد بالإنسان محمداً ﷺ ٬ علمه البيان يعنی بيان ما يكون و ما كان ٬ لأنه صلى الله عليه و آلہ و سلم ينبیٔ عن خبر الأولين و الآخرين و عن يوم الدين ، و قيل : علمه بيان الأحكام من الحلال و الحرام والحدود والأحكام .
( تفسیرِ خازن ٬ الجزء الرابع ٬ ص : ۲۲۵ ٬ مطبوعہ : دار الکتب العلمیہ ٬ بیروت )
صوتی حسن :
اعجازِ قرآنی پر نظر رکھنے والے علمائے کرام اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ قرآن مقدس کے اسلوبِ بیان میں ایک منفرد صوتی حسن ، پُر کیف نغمگی ٬ سلاست و روانی اور وجد آفریں صوتی جمال پایا جاتا ہے ۔ صوتی حسن اور حلاوتِ کلام سے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ " الفوز الکبیر " میں تحریر فرماتے ہیں :
آیات و ابیات کے درمیان فرق کے سلسلے میں واضح اور فیصلہ کن بات جو کہی جاسکتی ہے ، وہ یہ ہے کہ دونوں ایسے نغمے ہیں جو پڑھنے اور سننے والوں کے لیے لذت و اہتزاز کا باعث بنتے ہیں ..... کلمہ کے آخر میں الف کا آنا بھی وسیع قافیہ ہے ٬ جس کا اعادہ لذت بخش ہے ، اگر چہ حرفِ روی مختلف ہو ۔ اس لیے کہیں " کریما " ٬ کہیں " حدیثا " اور کہیں " بصیراً " آتا ہے اور اگر حرفِ روی کی موافقت کا اس صورت میں التزام کیا جائے تو وہ از قبیلِ التزامِ ما لایلزم ہوگا ۔ جیسا کہ سورۂ مریم و سورۂ فرقان کے اوائل میں واقع ہے ۔ اسی طرح آیات کے اندر کسی ایک حرف کی موافقت مثلاً : سورۂ قتال میں مؔ ، اور سورۂ رحمٰن میں نؔ کا بار بار آنا باعثِ فرحت ولذت ہوتا ہے ۔ اسی طرح کچھ کلام کے بعد کسی ایک جملہ کا اعادہ لذت بخش ہوتا ہے ۔ جیسا کہ سورۂ شعراء و سورۂ قمر و سورۂ مرسلات میں ۔ کبھی ذہنِ سامع میں شگفتگی پیدا کرنے اور کلام کی لطافت اجاگر کرنے کے لیے سورت کے آخری حصے کے فواصل ، اس کے اوائل سے مختلف ہوتے ہیں ۔ مثلاً : سورۂ مریم کے آخر میں اِدًّا - لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا اِدًّا - اور هَدًّا - وَتَخِرُ الجِبَالُ هَدًّا - اور سورۂ فرقان کے آخر میں سلاما اور کراما ۔
( الفوز الکبیر فی اصول التفسیر مترجم ٬ ص : ۸۲ ٬ ۸۵ ٬ مطبوعہ : مجلس برکات ٬ جامعہ اشرفیہ ٬ مبارک پور )
اسی طرح آیتِ کریمہ : خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُ ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْهُ ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْهُ ۔ بھی صوتی حسن اور حلاوتِ کلام کی ایک پُر کیف اور بہترین مثال ہے ۔ صوتی حسن کی مثال گرتی آبشار سے دی گئی ہے کہ جس کے گرنے سے فضاؤں میں ترنم اور نغمگی بکھر جاتی ہے ۔ قرآن کے اس صوتی حسن اور دل پذیر اسلوبِ بیان کو اپنے ترجمے میں سمونے کا کام بھی وہی شخص کر سکتا ہے ٬ جو اپنے وقت کا مجددِ اعظم ٬ ادیبِ اعظم اور مترجمِ اعظم ہو اور جس کو تبحرِ علمی کے باعث " اعلیٰ حضرت " جیسے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہو ۔ اس سلسلے میں سورۂ تکویر کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں اور پھر اعلیٰ حضرت کا ترجمہ دیکھیں ٬ آپ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آیاتِ قرآنی میں جو صوتی حسن اور نغمگی و ترنم ہے ٬ اس کی جھلک اعلیٰ حضرت کے ترجمے میں بدرجۂ اتم موجود ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ وَ اِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ وَ اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ وَ اِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُئلَتْ بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ وَ اِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ وَ اِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ وَ اِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ .
*ترجمہ* : جب دھوپ لپٹی جائے اور جب تارے جھڑ پڑیں اور جب پہاڑ چلائے جائیں اور جب تھکی اونٹنیاں چھٹی پھریں اور جب وحشی جانور جمع کیے جائیں اور جب سمندر سلگائے جائیں اور جب جانوں کے جوڑ بنیں اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے کس خطا پر ماری گئی اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں اور جب آسمان جگہ سے کھینچ لیا جائے اور جب جہنم بھڑکایا جائے اور جب جنت پاس لائی جائے ۔
ایجاز و اختصار :
تراجمِ قرآن میں کنز الایمان کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایجاز و اختصار پایا جاتا ہے ۔ ایجاز و اختصار کلام کی ایک بڑی خوبی ہے ٬ جس سے کلام کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
( ۱ ) واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب .
اور خدا جسے چاہے بے گنتی دے ۔ ( کنزالایمان )
اور رزق اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں بے اندازہ دیتے ہیں ۔( ترجمۂ تھانوی )
( ۲ ) و اللہ یھدی من یشاء إلیٰ صراط مستقیم .
اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے ۔ ( کنز الایمان )
اور اللہ جس کو چاہتے ہیں راہ راست بتاتے ہیں ۔ ( ترجمۂ تھانوی )
( ۳ ) واللہ لا یھدی القوم الظلمین .
اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا ہے ۔ ( کنز الایمان )
اور جو لوگ بے انصاف ہیں ٬ اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ نہیں دیتے ۔ ( ترجمۂ تھانوی )
( ۴ ) ولا تعثوا فی الارض مفسدین .
اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرو ۔ ( کنز الایمان )
اور زمین میں فساد کرتے ہوئے حد سے مت نکلو ۔ (ترجمۂ تھانوی )
مذکورہ بالا ترجموں پر غور کریں کہ مولوی اشرف علی تھانوی کے ترجموں کے مقابل امام احمد رضا محدث بریلوی کے ترجموں میں ایجاز و اختصار کے علاوہ جامعیت ٬ لسانی چاشنی اور معنوی حسن بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے ۔
اطنابِ افادی :
علمِ معانی کی اصطلاح میں مخصوص فائدے کے لیے مطلب سے زیادہ الفاظ لانے کو " اطناب " کہا جاتا ہے ، اس کا مقابل ایجاز ہے ۔ ایجاؔز اور اطناؔب کا اثر مختلف ہوتا ہے ۔ اس لیے موقع کی مناسبت سے بعض اوقات ترجمہ وغیرہ میں ان دونوں کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیکن اس طور پر کہ ایجاز " دائرۂ مخل " اور اطناب " سرحدِ ممل " میں داخل نہ ہونے پائے ۔ اگر اطناؔب سے مقصود کسی امرِ ضروری کی وضاحت ہو اور یہ قاری و سامع کو ملولِ خاطر کرنے کا سبب نہ بنے تو اطناؔب ایک امرِ محمود ہے ۔ " کنزالایمان " میں ایجاز و اختصار کے علاوہ تفہیمِ مطالب کی غرض سے " اطناب " کی چاندنی بھی صفحۂ قرطاس پر جگمگاتی نظر آتی ہے ۔ مثلاً :
( ۱ ) زیّن للذین کفروا الحیاۃ الدنیا .
ترجمہ : کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی آراستہ کی گئی ۔
( ۲ ) إن المنٰفقین یخٰدعون اللہ وھو خادعھم .
ترجمہ : بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کر کے مارے گا ۔
( ۳ ) قل إن کان للرحمٰن ولد فأنا اول العابدین .
ترجمہ : تم فرماؤ ! بفرضِ محال رحمٰن کے کوئی بچہ ہوتا تو میں سب سے پہلے پوجتا ۔
( ۴ ) إن ربی علیٰ صراط مستقیم .
ترجمہ : بیشک میرا رب سیدھے راستے پر ملتا ہے ۔
( ۵ ) و عصیٰ آدم ربہ فغویٰ .
ترجمہ : اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی ۔
پہلی آیت میں " نگاہ میں " / دوسری آیت میں " اپنے گمان میں " اور " غافل کر کے مارے گا " / تیسری آیت میں " بفرضِ محال " / چوتھی آیت میں " ملتا ہے " اور پانچویں آیت میں " تو جو مطلب چاہا تھا " کا اضافہ من قبیلۂ اطناب ہے اور اس سے مقصود مقامِ الوہیت و منصبِ رسالت کی پاس داری کے علاوہ ازالۂ شبہات ہے ٬ جو متعلقہ آیات سے وارد ہوتے ہیں ۔
*سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی* :
فصاحت و بلاغت ٬ سلاست و روانی ٬ سادگی اور صفائی و برجستگی بھی " کنز الایمان " کی ایک اہم ترین خصوصیت ہے ۔ از اول تا آخر مکمل کنز الایمان کا مطالعہ کر جائیں ٬ کہیں بھی آپ کو عبارت میں کسی قسم کا ثقل ٬ جھول ٬ تعقید اور سلاست و روانی کے خلاف بات نظر نہیں آئے گی ۔ تفصیل سے قطعِ نظر صرف ایک مثال کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں :
یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَ اْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ اصْبِرْ عَلیٰ مَاۤ اَصَابَكَؕ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ . وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ . وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ .
*ترجمہ* : اے میرے بیٹے ! نماز برپا رکھ اور اچھی بات کا حکم دے اور بری بات سے منع کر اور جو افتاد تجھ پر پڑے ٬ اس پر صبر کر ۔ بے شک یہ ہمت کے کام ہیں اور کسی سے بات کرنے میں اپنا رخسار کج نہ کر اور زمین پر اتراتا نہ چل ٬ بے شک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اتراتا ، فخر کرتا ٬ اور میانہ چال چل اور اپنی آواز پست کر ٬ بیشک سب آوازوں میں بری آواز گدھے کی ہے ۔
شانِ الوہیت و مقامِ نبوت و رسالت کا پاس و لحاظ :-
اردو تراجمِ قرآن میں " کنز الایمان " وہ واحد ترجمہ ہے جس میں شانِ الوہیت کا احترام بھی ملحوظ رکھا گیا اور عظمتِ نبوت و رسالت کا تقدس بھی پیش نظر ہے ۔ شانِ الوہیت و مقامِ نبوت و رسالت کا پاس و لحاظ ٬ ایک ایسی خوبی ہے جو کنز الایمان کو دیگر تراجمِ قرآن سے منفرد و ممتاز کرتا ہے ۔ امام احمد رضا قدس سرہ کے ترجمۂ قرآن کے بارے میں استاد سعید بن عزیز یوسف زئی ( امیر جمعیت برادرانِ اہلِ حدیث ٬ پاکستا ن ) تحریر کرتے ہیں :
جہاں تک علمائے دیوبند کا تعلق ہے ٬ وہ تو نہایت شد و مد سے اس کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ تکفیر کرتے ہیں ۔ مگر میں نہایت وضاحت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ الٓمٓ سے لے کر والناس تک ہم نے " کنز الایمان " میں نہ تو کوئی تحریف پائی ہے اور نہ ہی ترجمہ میں کسی قسم کی غلط بیانی کو پایا ہے ۔ نہ ہی کسی بدعت اور شرک کرنے کا جواز پایا ہے ٬ بلکہ یہ ایک ایسا ترجمۂ قرآن مجید ہے کہ جس میں پہلی بار اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جب ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے بیان کی جانے والی آیتوں کا ترجمہ کیا گیا ہے تو بوقتِ ترجمہ اس کی جلالت ، علوت ، تقدس و عظمت و کبریائی کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے ۔ دیگر تراجم خواہ وہ اہل حدیث سمیت کسی بھی مکتبِ فکر کے علما کے ہوں ٬ ان میں یہ بات نظر نہیں آتی ہے ۔ اسی طرح وہ آیتیں جن کا تعلق محبوبِ خدا ٬ شفیعِ روزِ جزا ٬ سید الاولین و الآخرین ، امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے یا جن میں آپ سے خطاب کیا گیا ہے تو بوقتِ ترجمہ جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب نے یہاں پر بھی اوروں کی طرح صرف لفظی اور نحوی ترجمہ سے کام نہیں چلایا ہے ٬ بلکہ صاحبِ و ما ينطق عن الھوی اور ورفعنالک ذکرک کے مقامِ عالی شان کو ہر جگہ ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو کہ دیگر تراجم میں بالکل ناپید ہے ۔
( مولانا احمد رضا خان اور ان کے معاصر علمائے اہلِ سنت کی علمی و ادبی خدمات ٬ ص : ۱۴ ٬ ناشر : تحقیقاتِ امام احمد رضا ٬ کراچی ٬ پاکستان
ذیل میں چند آیاتِ کریمہ پیش کی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ دیگر مترجمین کے تراجم بھی لکھے جاتے ہیں ٬ تاکہ شانِ الوہیت و مقامِ نبوت و رسالت سے متعلق امام موصوف کے محتاط فکر و قلم کا اندازہ لگایا جا سکے :
( ١ ) وَ مَكَروا وَ مَكَرَ اللہ وَ اللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ .
مولانا محمود الحسن دیوبندی نے لکھا ہے :
اور مکر کیا ان کافروں نے اور مکر کیا اللہ نے اور اللہ کا مکر سب سے بڑھ کر ہے ۔
مولانا وحید الزماں نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے :
اور وہ اپنا داؤں کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤں کر رہا تھا اور اللہ سب داؤں کرنے والوں میں بہت داؤں کرنے والا ہے ۔
اللہ رب العزت کی شانِ رفیع میں مکر اور داؤ جیسے بھونڈے اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہیں ۔ اب اعلیٰ حضرت کے محتاط قلم کا جلوہ دیکھیں :
ان کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کی ہلاکت کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے ۔
( ٢ ) اَللہ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ .
مولانا محمود الحسن دیوبندی نے اس کا ترجمہ کیا ہے :
اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے ۔
مولانا وحید الزماں نے لکھا ہے :
اللہ ان سے دل لگی کرتا ہے ۔
فتح محمد خاں جالندھری نے لکھا ہے :
ان منافقوں سے اللہ ہنسی کرتا ہے ۔
مگر اعلیٰ حضرت کی ترجمہ نگاری کا یہ حسین منظر ملاحظہ فرمائیں :
اللہ ان سے استہزا فرماتا ہےجیسا اس کی شان کے لائق ہے ۔
( ٣ ) مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ۔
مولانا محمود الحسن دیوبندی نے کہا :
اے نبی ! تو نہ جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب اور کیا ہے ایمان ۔
اشرف علی تھانوی نے اس کا ترجمہ کیا ہے :
آپ کو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا چیز ہے ۔
" نبی " کا معنیٰ ہی ہوتا ہے : غیب کی خبر دینے والا / غیب کی باتیں بتانے والا ۔ پھر امام الانبیاء حضور سید عالم ﷺ کی شان میں یہ کہنا کہ " ان کو ایمان کی خبر نہیں تھی " ۔ کس قدر توہین آمیز اور مضحکہ خیز ہے ۔ لیکن امام احمد رضا قدس سرہ نے جب اس آیت کا ترجمہ کیا تو نبوت و رسالت کے عظیم ترین مقام و منصب کا خیال رکھتے ہوئے ترجمے کا حق ادا کر دیا ۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں :
اس سے پہلے تم نہ کتاب جانتے تھے اور نہ احکام شرع کی تفصیل ۔
( ٤ ) قَالُواْ تَاللہ إِنَّكَ لَفِى ضَلَٰلِكَ ٱلْقَدِيمِ .
مولانا محمود الحسن دیوبندی لکھتے ہیں :
لوگ بولے قسم اللہ کی تو تو اسی قدیم غلطی میں ہے ۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے لکھا :
وہ کہنے لگے کہ بخدا آپ تو اپنے اسی پرانے غلط خیال میں مبتلا ہیں ۔
یہ ترجمہ بھی شانِ رسالت و مقامِ نبوت کے منافی ہے ۔ اب اعلی حضرت کا ایمانی تیور اور محتاط فکر ملاحظہ کریں ٬ آپ لکھتے ہیں :
بیٹے بولے : خدا کی قسم ! آپ اپنی اسی پرانی خود رفتگی میں ہیں ۔