Type Here to Get Search Results !

بلگرام کا آفتاب ولایت مارہرہ کی دھرتی پر


بلگرام کا آفتاب ولایت مارہرہ کی دھرتی پر
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
🔷 بر صغیر ہند و پاک کی ایک عظیم و قدیم خانقاہ یعنی مسکن بزرگاں مرکز عقیدت خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مقدّسہ (ضلع ایٹہ یوپی الہند) جو بالخصوص فیوض و برکات رسائے سرکار غوث اعظم ہے جہاں سے جہاں کے اکابر نے اکتساب فیض کیا اور انسلاک نسبت کو اپنے لئے طرۂ افتخار سمجھا خواہ مرکز عقیدت کچھوچھہ شریف کے سادات عظام ہوں یا مدینۃ الاولیاء بدایوں شریف کے شیوخ وقت یا امام اہل سنت سیّدی اعلیٰ حضرت سبھی نے مشائخ مارہرہ سے خوب فیضان حاصل کیا اور اس سلسلۂ عالیہ کی برکتوں کو اہل عشق میں تقسیم کیا_ (رضی اللہ عنہم أجمعين)
انہی مشائخ مارہرہ میں ایک نام پاک قطب الاقطاب عارف باللہ تاجدار روحانیت حضور میر سیّد عبد الجلیل چشتی واحدی زیدئ الحسینی بلگرامی ثم مارہرہوی علیہ الرحمہ کا ہے جو خانوادۂ بلگرام شریف سے أرض مارہرہ مطہرہ پر سب سے پہلے جلوہ فگن ہوئے آپ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے، اور واضح کر دیں کہ سلطان العاشقین حضور سیّد شاہ برکت اللہ عشقی پریمؔی مارہروی علیہ الرحمہ آپ کے نبیرۂ عظیم ہیں خانقاہ برکاتیہ، سلسلۂ برکاتیہ اور برکاتی نسبت آپ ہی سے منسوب ہے_
🔶 ولادت مبارکہ :-
عارف باللہ حضرت سیّد میر عبد الجليل چشتی ابن سیّدنا میر عبد الواحد بلگرامی (مصنف سبع سنابل شریف) علیہما الرحمہ 20 رجب المرجب 972ھ مطابق 1565ء بروز جمعرات بوقت ظہر بلگرام شریف میں پیدا ہوئے_
🔶 تعلیم و تربیت :-
عہد طفلی سے شبابی تک اپنے والد کریم سیّدنا میر عبد الواحد کے زیر سایۂ کرم رہے اور انہی سے اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کی مزید علم ظاہر و باطن میں کمال حاصل کیا_
🔶 بیعت و خلافت :-
اپنے والد کریم حضرت سیّدنا میر عبد الواحد بلگرامی سے ہی بیعت ہوئے ساتھ ہی خلافت و اجازت سے بھی نوازے گئے_
🔶 گوشہ نشینی پھر مارہرہ میں جلوہ گری :-
آپ پر جزبۂ عشق کی عجیب کیفیت طاری ہوئی اسی وقت گھر سے روانہ ہو گئے اور بارہ سال تک مختلف علاقوں کے صحرا و بیابان میں گشت کرتے رہے اور انہیں ویران فضاؤں میں مصروف ریاضت و عبادت رہ کر خدا کو راضی کرتے رہے اور اپنی حیات طیبہ کا تقریباً نصف حصہ اسی عالم میں صرف کر دیا سیر کرتے کرتے "اترنجی کھیڑا" پہنچے یہ مارہرہ مطہرہ سے تقریباً چھہ میل پر جانب مشرق واقع ہے، 582ھ میں سلاطین ہند کے زمانہ میں وہ علاقہ بشکل قلعہ آباد تھا وہاں اس وقت راجہ بین کا پائے تخت تھا اور وہ دور بادشاہ شہاب الدین محمد غوری کا تھا سلطان غوری نے راجہ پرتھوی راج کو شکست فاش دینے کے بعد راجہ بین کو پیغام بھیجا کہ وہ اطاعت قبول کر لے اس نے انکار کیا اور سر کشی کی سلطان شہاب الدین نے سرنگ کے راستے سے داخل ہوکر زبردست حملہ کیا راجہ بین کو شکست دی اور اس کے مضبوط قلعہ کو مسمار کر دیا تھا اب وہ مقام صرف ایک کھیڑا (چھوٹی بستی) ہے اور وہاں عظیم المرتبت بزرگ حضرت سیّدنا محمد حسین کا مزار ہے جنہوں نے اسی جنگ میں جام شہادت نوش فرمایا تھا، حضرت میر عبد الجليل نے اولا انہی بزرگ کے آستانۂ کرم کے قریب میں قیام کیا اسی جگہ پر حضرت سیّدنا خضر علیہ السلام تشریف لائے اور آپ کو بشارت دی کہ "سیّد صاحب آپ قطب مارہرہ مقرر ہو گئے ہیں" اس زمانے میں محمد وزیر نامی شخص مارہرہ شریف کے چودھری اور قانون داں تھے اسی شب ان کے بخت کی معراج ہوئی کہ خواب میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا "اترنجی کھیڑا جاؤ ہمارے شہزادے اور اپنے قطب کو مارہرہ لے آؤ" چودھری محمد وزیر بعد فجر اترنجی کھیڑا کے لئے روانہ ہو گئے وہاں پہنچ کر حضرت بابرکت کی خدمت میں خواب بیان کیا اور عرض کی حضور اپنے قدوم میمنت لزوم سے ارض مارہرہ کو عزت و شرف بخشیں حضرت نے درخواست منظور کی اور 1017ھ میں مارہرہ شریف تشریف لے گئے اور وہ عہد جہانگیری تھا چنانچہ چودھری وزیر اور تمام لوگوں نے شاندار استقبال کیا عمدہ ضیافت کی اور چودھری وزیر و دیگر حضرات نے شرف بیعت بھی حاصل کیا اور آپ کے لئے مسجد اور خانقاہ تعمیر کی آپ نے وہیں مستقل قیام کیا اور خدمت دین و خلق میں مشغول ہو گئے_
🔶 جنات کے لشکر سے بڑا مقابلہ :-
حضرت سیّدنا میر عبد الجليل سے منسوب ایک مشہور واقعہ جو اسی اثنا میں پیش آیا اس کے تعلق سے شمس مارہرہ حضرت اچھے میاں مارہروی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف "آئینۂ احمدی" میں تحریر فرماتے ہیں : "ایک مرتبہ حضرت میر عبد الجليل کے ایک مرید نے کسی آسیب زدہ کا علاج کرتے ہوئے اس آسیب کو جلا دیا، اس کا تعلق جنوں کے ایک معزز گروہ سے تھا جس کے سبب جنوں نے اس مرید پر لشکر کشی کی مرید نے اپنے مرشد حضرت میر صاحب کی پناہ اختیار کی جنوں نے کہا ہم اپنے بھائی کے قاتل کا بدلہ چاہتے ہیں لہٰذا آپ اسے ہمارے سپرد کر دیں آپ نے فرمایا اس کا کوئی کام قابل تعزیر نہیں لہٰذا اس ارادے سے پھر جاؤ جنوں نے بار-بار کہا ہم تو ضرور بدلہ لیں گے آپ نے فرمایا جب تم ناحق بدلہ لینے پر تلے ہو تو فقیر اپنے بے قصور مرید و متوسل کی حمایت کیوں نہ کرے؟ چلے جاؤ فقیروں سے الجھنا ٹھیک نہیں چنانچہ بحث طویل ہو گئی اور مقابلہ کی نوبت آ پڑی، حضرت میر عبد الجليل نے پورے قصبہ میں اعلان کروایا کہ کل فقیر اور جنوں کا مقابلہ ہے تمام باشندگان صبح سے نصف شب تک اپنے اپنے گھروں میں رہیں اپنے مویشی کو بھی دروازے میں بند رکھیں جو بھی شخص یا جانور وقت مقرر میں مکان سے باہر آئے گا وہ نقصان اٹھائے گا سب نے حکم کی تعمیل کی بعد فجر مقابلہ شروع ہوا حضرت میر صاحب نے اپنی جانب سے سیف دعائے حرز یمانی اور مؤکلات حرز یمانی کو گروہ جن کے لئے مامور کیا شدید طویل مقابلہ کے بعد حضرت میر صاحب نے جنوں کے شرقی شہزادہ جلنبوش کو اس کے سولہ ساتھیوں کے ساتھ قید کر لیا جنوں نے رہائی کی مختلف تدابیر استعمال کیں مگر ناکام رہے جب کچھ نہ کام آیا تو جنوں کے چند معزز سردار پشیماں ہوکر حضرت میر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے معذرت طلب کی اور اپنے قیدیوں کی رہائی کے لئے نہایت منت و سماجت کی تو میر صاحب نے یہ معاہدہ کر لیا کہ آج سے ہم اور ہمارے متوسلین آپ کو اور آپ کے چاہنے والوں کو اور اسی طرح آپ اور آپ کے متوسلین ہمیں اور ہمارے چاہنے والوں کو کبھی پریشان نہیں کریں گے جس جگہ پر جس کا دخل پہلے سے ہو اور فریق ثانی کا کوئی شخص وہاں پہنچے تو اسے معاہدہ یاد دلایا جائے اگر تاہم نہ مانے تو تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ قوم کے افراد بلا وجہ پریشان نہ کئے جائیں غرضیکہ اسی مصالحت پر معاملہ طئے پایا اور میر صاحب نے قیدیوں کو آزاد کر دیا" آج بھی یہ دستور قائم ہے کہ خاندان برکات کے اشخاص جب کسی آسیب زدہ کا علاج کرتے ہیں تو پہلے اسے وہ معاہدہ یاد دلاتے ہیں اکثر تو معاہدہ یاد کرتے ہی فوراً اپنا دخل ختم کر دیتے ہیں اور بعض کو اس کی کچھ پروا نہیں ہوتی پھر عملیات، احضار اور حبس وغیرہ کے ذریعہ ان کو سخت سزا دے کر مریضوں کو شفایاب کیا جاتا ہے_
🔶 مزار سے متصل درخت کی حقیقت :-
سیّدنا میر عبد الجليل کے مزار کے سرہانے پیلو کا ایک درخت ہے اس کے متعلق حضرت حمزہ عینی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف "کاشف الاستار" میں تحریر فرماتے ہیں "خواجہ میر عبد الجليل چشتی نے اپنی مسواک کو بعد استعمال جب وہ بہت چھوٹی ہو گئی تھی گاڑ دیا تھا اور حضرت میر صاحب اس میں روزانہ آب وضو ڈالا کرتے تھے حیات ظاہری تک وہ مسواک خشک ہی رہی لیکن بعد وصال اس میں شگوفہ پھوٹا اور کچھ ہی دنوں میں بشکل درخت ہو گیا آج بھی زائرین درگاہ اس کی پتیوں کو تبرگاً لے جاتے ہیں اس کی پتیاں خاص کر استقرار حمل اور دفعیۂ آسیب کے لئے مؤثر ثابت ہوتی ہیں بشرطیکہ عقیدت بختہ ہو اور نیت اچھی ہو اسی کاشف الاستار میں تحریر ہے اس درخت کی پتیاں حضرت میر صاحب کی اولاد کے دست پاک سے حاصل کی جائیں لیکن حضرت اچھے میاں کے ایک مرید مولوی محمد افضل صاحب بدایونی اپنی کتاب "ہدایت المخلوق" میں لکھتے ہیں کہ جب میں نے اپنے مرشد سے اس کے فوائد اور طریقۂ استعمال کے بارے میں دریافت کیا تو مرشدی اچھے میاں نے فرمایا کہ پتی خادم درگاہ کی اجازت سے لی جائے اور فرمایا کہ چند پتی مَل کر آسیب زدہ کو یہ کہتے ہوئے "اے آسیب! سیّد عبد الجلیل ترا دعا گفتہ و فرمودہ کہ اگر دانی دانی و گر ندانی بسزائے خود خواہی رسی" سنگھا دے ان شاء اللہ الرحمٰن فوراً آسیب کا خلل ختم ہو جائے گا"_
🔶 عقد نکاح :-
سیّدنا میر عبد الجليل نے بھی اپنے والد کی طرح دو شادیاں کیں پہلی زوجہ بلگرام شریف کی تھیں جن کے بطن اقدس سے چھہ پھول کھلے چار شہزادگان عالی مرتبت
(1) حضرت سیّد ابو الفتح
(2) حضرت سیّد اویس
(3) حضرت سیّد محمد
(4) حضرت سیّد احمد ابو الخیر اور دو شہزادیاں_
(علیہم الرحمة والرضوان)
مارہرہ شریف میں مستقل سکونت کے بعد آپ اپنی پہلی شریک حیات کو بلگرام شریف سے مارہرہ شریف لے آئے تھے اور دوسری زوجہ کے بطن پاک سے دو فرزند ارجمند تولد ہوئے دونوں جوان ہوکر طلب حق میں گوشہ نشین ہو گئے_
🔶 سفر آخرت :-
میر صاحب کا وصال 8 صفر المظفر 1057ھ بروز دو شنبہ مطابق 1647ء کو مارہرہ میں ہوا اپنی خانقاہ کے صحن مبارک میں دفن ہوئے آپ کا آستانہ "بڑی درگاہ" اور "بڑے سرکار" سے مشہور اور مرجع خلائق ہے_
🤲🏻 اللہ کریم سرکاران مارہرہ مقدّسہ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے وافر حصہ عطاء فرمائے_ (آمین)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ااز  قلم:- سیّد عبد الحمید قادری امجدی (جاجمؤ شریف کانپور)
9935802496

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area