دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراویوں کی دوغلی پالیسی
سراویوں کی دوغلی پالیسی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍️شاداب امجدی [ گھوسی ، مئو ]
ہندوستان میں ایک پیر کے دو مریدین ہیں جن کو لگتا ہے کہ صرف انہی کا دل اور دماغ اصابت رائے کا مسکن ہے، باقی دینا تو بے وقوف ہے، ہم دو جو کہہ رہے ہیں وہی سب مان لیں، باقی سب غلط ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں اس زمانے کے سب سے بڑے اور مشہور دوغلے اور شأۃ عائرہ بین الغنمین ہیں ۔
ان تمہیدی کلمات سے آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں کن دو لوگوں کی بات کر رہا ہوں، پھر بھی صراحت کردیتا ہوں کہ ایک تو ناصر رامپوری ہے اور دوسرا ذیشان سراوی ۔
ان کو اتحاد امت کی یاد مخصوص اوقات میں آتی ہے، جیسے کسی وہابی /دیوبندی / رافضی / تفضیلی وغیرہ کے خلاف کوئی بڑی کاروائی ہوجائے اور یہ فرقے زیر ہوجائیں تو بڑی شدت سے ان کو اتحاد کا پریشر بنتا ہے اور دوغلہ پنتی کا لوٹا لے کر فیس بک پہ آجاتے ہیں ۔
ان کے دوہرے میعار کو بارہا طشت ازبام کیا جاچکا ہے مگر آج پھر چند تازہ ترین دوغلے پن کے اجاگر کرنے کا وقت ہے ۔
(۱) — 💠 بنگلور میں مناظرہ ہوا اور نام نہاد مولائیوں کو تاریخی ذلت کا سامنا کرنا پڑا، جماعت اہل سنت میں ہر طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں مگر ناصر کو برا لگ گیا، لکھتا ہے کہ :
> ” آج ہماری یہ حالت ہوگئی ہے، ملک کے کیا حالات ہیں، ملک کی سیاست کدھر جارہی ہے اور ملک میں مسلمانوں کی کتنی ابتر حالت ہے، آئے دن مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھڑکائے جارہے ہیں اور سیاسی سماجی معاشی اعتبار سے ان کا عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے، لیکن مسلمان آج آپس ہی میں دست گریباں ہیں“۔
ناصر کی اس تحریر کے نیچے چلے جائیے تو پچھلے پندرہ دنوں تک صرف احمد الشریف مصری کے متعلق ایک ہی موضوع کی پوسٹیں ملیں گی ۔
کیا پچھلے پندرہ دن سے یہ حالات نہیں یاد آرہے تھے؟ یا ملک میں امن و سکون کی فضا قائم تھی؟ یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ۔
سچی بات صرف اتنی ہے کہ تم کو حق کی حمایت منظور نہیں، اہل حق کا غالب آنا پسند نہیں ۔
(۲) — 💠 بارہا ان دونوں نے مناظروں کی مذمت کی ہے، اور مناظروں کے بے ثمر ہونے پہ دلائلِ لا طائل پیش کیے ہیں، مناظرانہ کلچر کے نقصانات گنائے ہیں ۔
ابھی چند سال پیشتر جب ناصر کو علمائے اہل سنت نے مناظرے کی دعوت دی تو سامنے آنے کی ہمت نہ کر سکا اور نہ کبھی ذیشان نے اس جانب پہل کی لیکن جب احمد الشریف نے فیصل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ہر دو فریق کو دعوت مناظرہ پیش کی تو یہ دھڑا دھڑ ان کی عربی تحریروں کے ترجمے نشر کرنے لگے ۔ اتنی تیزی سے ترجمہ کیا جارہا تھا کہ دیکھ کر حیرت ہورہی تھی ۔
کیا اب مناظرہ قبول ہوگیا؟ خود تو کبھی علمائے اہل سنت کے ساتھ بیٹھنے کی ہمت نہ ہوئی بلکہ مناظروں کی ہی برائی کرتے رہے اور آج اس مناظرے کی حمایت کس منہ سے کرنے لگے؟
سچ تو یہ ہے کہ مصری مناظرے میں تم نے دیکھ لیا تھا کہ حکم بننے والا شخص کس طرح جانب دار ہے، اس لیے تم نے حمایت کی تھی کیوں کہ احمد الشريف کی تحریروں سے ہر ایک کو اندازہ لگ گیا تھا کہ جانبدارانہ فیصلہ آئے گا اور دیوبندیوں کے چاروں گروگھنٹالوں کو زبردستی مسلمانوں کی صف میں رکھا جائے گا اور یہی تمہارا مقصد تھا ۔ کیوں کہ کفر و اسلام کی سرحد سے دور ایک نئی دنیا بسانا ہی تو تمہارا خواب ہے ۔
➖ اور اگر اب تکفیر کے مسئلے پر مناظرہ کو ضروری سمجھ ہی لیے ہو تو مصر کیوں جانا، ناصر و ذیشان ایک اعلان جاری کریں، علمائے اہل سنت مناظرہ کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔
(۳) — 💠 ناصر کے کمینٹ باکس میں کسی قاسمی نے طاہر القادری کو جھوٹا کہہ دیا ۔ پھر کیا تھا ناصر کی رگِ محبت پھڑک اٹھی، جواباً وہ بات کہہ دی جس کا برسوں سے خود شدت کے ساتھ انکار کر رہا تھا، یعنی تسلیم کرلیا کہ اکابر دیوبند کی عبارات کفری ہیں اور ان کی وکالت میں جو بھی تاویلات ہیں وہ فاسد ہیں ۔
اسی کو کہتے ہیں : نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم ۔
ایسی ہی دوغلی پالیسی اختیار کرنے پر دیوبندی ساجد نقشبندی نے بھی اسے لکھا کہ:
> ناصر رامپوری” راضی رہے رحمن بھی، خوش رہے شیطان بھی کے نظریے پہ کاربند ہے“۔
(۴) — 💠 یہیں رک کر غور کریں کہ جس وقت طاہر القادری کی گستاخی [ جو ہماری نظر میں سچی بات تھی ] سامنے آئی اور ناصر رامپوری اپنا غصہ و غضب ظاہر کر رہا تھا، اسی وقت پورے ملک میں مسلمان، مہاراشٹر کے ایک جہنمی کی طرف سے شان رسالت میں کی گئی گستاخی پرغم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔
مگر سراواں کے ان متحرک قلم کاروں میں سے کسی نے بھی اس پر دو جملہ لکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔
کیا واقعی دیوبندی گستاخان رسول کی حمایت کرتے کرتے ناموس رسالت کے معاملے میں ان کے زبان و قلم گنگ ہوگئے ہیں؟ کیا واقعی یہ حمایت کی نحوست ہے؟
📍سراواں کے جعلی پیر اور کینیڈی طاہر القادری پر بات آئے تو یہ سب پاجامے سے باہر آجاتے ہیں اور پھر بڑے سے بڑے عالم کے لیے بھی بازاروں زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ لیکن شان رسالت میں گستاخی پر ہمیشہ ایسی چپی سادھ لیتے ہیں گویا نہ ان کے منہ میں زبان ہے اور نہ ہی قلم میں سیاہی ۔
➖ اور ان سب کے بعد بھی کمالِ بے شرمی یہ کہ یہ ٹولہ ہمیں شخصیت پرستی کا طعنہ دیتا ہے ۔
مزید برآں یہ کہ اگر کہیں گستاخ رسول کا قتل ہوجائے تو صفحات کے صفحات صرف یہ ثابت کرنے میں کالے کردیتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے۔
ابے بے شرمو! گستاخیِ رسول بھی تو امن عالم کے لیے عظیم خطرہ ہے اس پہ تمہارے قلم کی روشنائی کیوں سوکھ جاتی ہے؟
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ان کے پیر کے جعلی ہونے کے ثبوت میں ان کے یہی دو مرید کافی ہیں ۔
(۵) — 💠 طاہر القادری کے خلاف بولنے پہ فوراً ایکشن لینے والا ناصر، جب کمینٹ باکس میں ایک مردود انظر ہاشمی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سوالیہ انداز میں منافق ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے تو وہی ناصر، انظر ہاشمی کا رد کرنے کی بجائے اس کو ” رد عمل اور رد الرد “ کہہ کر تعبیر کر رہا ہے ۔
کیا یہ تعبیر اور سکوت، ہاشمی کے کمینٹ کی حمایت نہیں ہے؟ کیا یہ در پردہ صحابی رسول، کاتب وحی، خال المؤمنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ منافق مان لینے پر رضا مندی نہیں ہے؟ (معاذ اللہ) ۔
مختصر یہ کہ اگر ان کی فیس بک ایکٹیوٹی کا کوئی غائرانہ تجزیہ کرے تو اس طرح کے کثیر شواہد سامنے آئیں گے، اور سب کا اگر خلاصہ کیا جائے تو بس اتنی سی بات ہے کہ یہ لوگ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ اور ان کے نام لیوا علما کے علاوہ سب کی حمایت کریں گے ۔
اور ان کا اتحاد در حقیقت ” علمائے بریلی سے اختلاف “ اور ہر گستاخ فرقے کو گلے لگانے سے عبارت ہے ۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسر موم ہو یا سنگ ہوجا
اللہ ان کے شر سے اہل سنت کو محفوظ فرمائے ۔آمین
شاداب امجدی
گھوسی، مئو
18 / صفر المظفر
23/ اگست 2024
✍️شاداب امجدی [ گھوسی ، مئو ]
ہندوستان میں ایک پیر کے دو مریدین ہیں جن کو لگتا ہے کہ صرف انہی کا دل اور دماغ اصابت رائے کا مسکن ہے، باقی دینا تو بے وقوف ہے، ہم دو جو کہہ رہے ہیں وہی سب مان لیں، باقی سب غلط ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں اس زمانے کے سب سے بڑے اور مشہور دوغلے اور شأۃ عائرہ بین الغنمین ہیں ۔
ان تمہیدی کلمات سے آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں کن دو لوگوں کی بات کر رہا ہوں، پھر بھی صراحت کردیتا ہوں کہ ایک تو ناصر رامپوری ہے اور دوسرا ذیشان سراوی ۔
ان کو اتحاد امت کی یاد مخصوص اوقات میں آتی ہے، جیسے کسی وہابی /دیوبندی / رافضی / تفضیلی وغیرہ کے خلاف کوئی بڑی کاروائی ہوجائے اور یہ فرقے زیر ہوجائیں تو بڑی شدت سے ان کو اتحاد کا پریشر بنتا ہے اور دوغلہ پنتی کا لوٹا لے کر فیس بک پہ آجاتے ہیں ۔
ان کے دوہرے میعار کو بارہا طشت ازبام کیا جاچکا ہے مگر آج پھر چند تازہ ترین دوغلے پن کے اجاگر کرنے کا وقت ہے ۔
(۱) — 💠 بنگلور میں مناظرہ ہوا اور نام نہاد مولائیوں کو تاریخی ذلت کا سامنا کرنا پڑا، جماعت اہل سنت میں ہر طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں مگر ناصر کو برا لگ گیا، لکھتا ہے کہ :
> ” آج ہماری یہ حالت ہوگئی ہے، ملک کے کیا حالات ہیں، ملک کی سیاست کدھر جارہی ہے اور ملک میں مسلمانوں کی کتنی ابتر حالت ہے، آئے دن مسلمانوں کے مذہبی جذبات بھڑکائے جارہے ہیں اور سیاسی سماجی معاشی اعتبار سے ان کا عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے، لیکن مسلمان آج آپس ہی میں دست گریباں ہیں“۔
ناصر کی اس تحریر کے نیچے چلے جائیے تو پچھلے پندرہ دنوں تک صرف احمد الشریف مصری کے متعلق ایک ہی موضوع کی پوسٹیں ملیں گی ۔
کیا پچھلے پندرہ دن سے یہ حالات نہیں یاد آرہے تھے؟ یا ملک میں امن و سکون کی فضا قائم تھی؟ یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں ۔
سچی بات صرف اتنی ہے کہ تم کو حق کی حمایت منظور نہیں، اہل حق کا غالب آنا پسند نہیں ۔
(۲) — 💠 بارہا ان دونوں نے مناظروں کی مذمت کی ہے، اور مناظروں کے بے ثمر ہونے پہ دلائلِ لا طائل پیش کیے ہیں، مناظرانہ کلچر کے نقصانات گنائے ہیں ۔
ابھی چند سال پیشتر جب ناصر کو علمائے اہل سنت نے مناظرے کی دعوت دی تو سامنے آنے کی ہمت نہ کر سکا اور نہ کبھی ذیشان نے اس جانب پہل کی لیکن جب احمد الشریف نے فیصل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ہر دو فریق کو دعوت مناظرہ پیش کی تو یہ دھڑا دھڑ ان کی عربی تحریروں کے ترجمے نشر کرنے لگے ۔ اتنی تیزی سے ترجمہ کیا جارہا تھا کہ دیکھ کر حیرت ہورہی تھی ۔
کیا اب مناظرہ قبول ہوگیا؟ خود تو کبھی علمائے اہل سنت کے ساتھ بیٹھنے کی ہمت نہ ہوئی بلکہ مناظروں کی ہی برائی کرتے رہے اور آج اس مناظرے کی حمایت کس منہ سے کرنے لگے؟
سچ تو یہ ہے کہ مصری مناظرے میں تم نے دیکھ لیا تھا کہ حکم بننے والا شخص کس طرح جانب دار ہے، اس لیے تم نے حمایت کی تھی کیوں کہ احمد الشريف کی تحریروں سے ہر ایک کو اندازہ لگ گیا تھا کہ جانبدارانہ فیصلہ آئے گا اور دیوبندیوں کے چاروں گروگھنٹالوں کو زبردستی مسلمانوں کی صف میں رکھا جائے گا اور یہی تمہارا مقصد تھا ۔ کیوں کہ کفر و اسلام کی سرحد سے دور ایک نئی دنیا بسانا ہی تو تمہارا خواب ہے ۔
➖ اور اگر اب تکفیر کے مسئلے پر مناظرہ کو ضروری سمجھ ہی لیے ہو تو مصر کیوں جانا، ناصر و ذیشان ایک اعلان جاری کریں، علمائے اہل سنت مناظرہ کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔
(۳) — 💠 ناصر کے کمینٹ باکس میں کسی قاسمی نے طاہر القادری کو جھوٹا کہہ دیا ۔ پھر کیا تھا ناصر کی رگِ محبت پھڑک اٹھی، جواباً وہ بات کہہ دی جس کا برسوں سے خود شدت کے ساتھ انکار کر رہا تھا، یعنی تسلیم کرلیا کہ اکابر دیوبند کی عبارات کفری ہیں اور ان کی وکالت میں جو بھی تاویلات ہیں وہ فاسد ہیں ۔
اسی کو کہتے ہیں : نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم ۔
ایسی ہی دوغلی پالیسی اختیار کرنے پر دیوبندی ساجد نقشبندی نے بھی اسے لکھا کہ:
> ناصر رامپوری” راضی رہے رحمن بھی، خوش رہے شیطان بھی کے نظریے پہ کاربند ہے“۔
(۴) — 💠 یہیں رک کر غور کریں کہ جس وقت طاہر القادری کی گستاخی [ جو ہماری نظر میں سچی بات تھی ] سامنے آئی اور ناصر رامپوری اپنا غصہ و غضب ظاہر کر رہا تھا، اسی وقت پورے ملک میں مسلمان، مہاراشٹر کے ایک جہنمی کی طرف سے شان رسالت میں کی گئی گستاخی پرغم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔
مگر سراواں کے ان متحرک قلم کاروں میں سے کسی نے بھی اس پر دو جملہ لکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔
کیا واقعی دیوبندی گستاخان رسول کی حمایت کرتے کرتے ناموس رسالت کے معاملے میں ان کے زبان و قلم گنگ ہوگئے ہیں؟ کیا واقعی یہ حمایت کی نحوست ہے؟
📍سراواں کے جعلی پیر اور کینیڈی طاہر القادری پر بات آئے تو یہ سب پاجامے سے باہر آجاتے ہیں اور پھر بڑے سے بڑے عالم کے لیے بھی بازاروں زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ لیکن شان رسالت میں گستاخی پر ہمیشہ ایسی چپی سادھ لیتے ہیں گویا نہ ان کے منہ میں زبان ہے اور نہ ہی قلم میں سیاہی ۔
➖ اور ان سب کے بعد بھی کمالِ بے شرمی یہ کہ یہ ٹولہ ہمیں شخصیت پرستی کا طعنہ دیتا ہے ۔
مزید برآں یہ کہ اگر کہیں گستاخ رسول کا قتل ہوجائے تو صفحات کے صفحات صرف یہ ثابت کرنے میں کالے کردیتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے۔
ابے بے شرمو! گستاخیِ رسول بھی تو امن عالم کے لیے عظیم خطرہ ہے اس پہ تمہارے قلم کی روشنائی کیوں سوکھ جاتی ہے؟
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ان کے پیر کے جعلی ہونے کے ثبوت میں ان کے یہی دو مرید کافی ہیں ۔
(۵) — 💠 طاہر القادری کے خلاف بولنے پہ فوراً ایکشن لینے والا ناصر، جب کمینٹ باکس میں ایک مردود انظر ہاشمی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سوالیہ انداز میں منافق ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتا ہے تو وہی ناصر، انظر ہاشمی کا رد کرنے کی بجائے اس کو ” رد عمل اور رد الرد “ کہہ کر تعبیر کر رہا ہے ۔
کیا یہ تعبیر اور سکوت، ہاشمی کے کمینٹ کی حمایت نہیں ہے؟ کیا یہ در پردہ صحابی رسول، کاتب وحی، خال المؤمنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ منافق مان لینے پر رضا مندی نہیں ہے؟ (معاذ اللہ) ۔
مختصر یہ کہ اگر ان کی فیس بک ایکٹیوٹی کا کوئی غائرانہ تجزیہ کرے تو اس طرح کے کثیر شواہد سامنے آئیں گے، اور سب کا اگر خلاصہ کیا جائے تو بس اتنی سی بات ہے کہ یہ لوگ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ اور ان کے نام لیوا علما کے علاوہ سب کی حمایت کریں گے ۔
اور ان کا اتحاد در حقیقت ” علمائے بریلی سے اختلاف “ اور ہر گستاخ فرقے کو گلے لگانے سے عبارت ہے ۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
سراسر موم ہو یا سنگ ہوجا
اللہ ان کے شر سے اہل سنت کو محفوظ فرمائے ۔آمین
شاداب امجدی
گھوسی، مئو
18 / صفر المظفر
23/ اگست 2024