Type Here to Get Search Results !

ناموسِ رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند (علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں)قسط-5


 ناموسِ رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند
(علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں)قسط-5
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- غلام مصطفیٰ رضوی نوری مشن، مالیگاؤں
تھانوی صاحب کی گستاخانہ عبارت پر نقشبندی گرفت:
 راقم نے کچھ مدت قبل مشائخ نقشبندیہ کے عقائد و افکار اور تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے ان کی خدمات کے ضمن میں ایک مقالہ لکھا تھا؛اس میں سے چند نکات عنوان کی مناسبت سے یہاں درج کیے دیتا ہوں-
  مجدد الف ثانی کی نسل پاک سے سلسلۂ نقشبندیہ کے عظیم شیخ طریقت اور اکابر ہند میں نمایاں شخصیت یکے از قائدِ انقلاب ١٨٥٧ء حضرت شاہ احمد سعید مجددی دہلوی ہیں- اسماعیل دہلوی کی کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کی تردید میں جن کی نمایاں خدمات ہے۔ ان کے پوتےحضرت شاہ ابوالخیر مجددی دہلوی(م ۱۳۴۱ھ)ہیں۔ آپ کے ذریعہ سلسلۂ نقشبندیہ کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہوئی۔ شاہ ابوالخیر مجددی کی مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی سے میرٹھ میں ملاقات ہوئی، اس بابت شاہ ابوالخیر مجددی کے فرزند شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی لکھتے ہیں:
  ’’اس سلسلے میں دارالعلوم دیوبند کا ذکر آیا۔ اتفاق سے ان دنوں اخبارات و رسائل میں دارالعلوم (دیوبند) کی بد انتظامی وغیرہ کا چرچا ہو رہا تھا اور آپ سے بھی کسی نے اس کا ذکر کیا تھا۔ لہٰذا آپ (شاہ ابوالخیر مجددی) نے فرمایا: ہم نے سُنا ہے کہ مدرسہ پہلے کی طرح دین کی خدمت اب نہیں کررہا ہے۔ یہ سُن کر دونوں صاحبان (مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی و حافظ احمد دیوبندی) نے کہا: حضرت مدرسہ پہلے کی طرح دین کی خدمت کر رہا ہے۔ البتہ بعض مخالفوں نے ذاتی عناد اور فاسد اغراض کی وجہ سے مدرسہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں بعض اخبار غلط خبریں شائع کر رہے ہیں۔ 
  یہاں تک گفتگو محبت کے پیرایہ میں ہو رہی تھی اور حاضرین لُطف اُٹھا رہے تھے۔ پیر سید گلاب شاہ تحصیل دار ریواڑی یہ مکالمہ سُن رہے تھے۔ وہ مولانا غلام دستگیر قصوری (ہاشمی نقشبندی) کی جماعت (حلقۂ ارادت) سے تعلق رکھتے تھے۔ جنھوں نے ایک مختصر رسالہ طبع کروایا تھا، جس میں مولوی اسماعیل (دہلوی) اور اُن کے ہم خیال علما کے ناشائستہ اقوال کو جمع کیا گیا تھا۔ یہ رسالہ پیر سید گلاب شاہ کی جیب میں تھا۔ انھوں نے اپنی جیب سے اس رسالہ کو نکال کر حضرت سیدی الوالد (شاہ ابوالخیر مجددی) سے کہا: حضور! دین کی خدمت اس طرح پر کی جا رہی ہے۔ مولوی خلیل احمد (انبیٹھوی دیوبندی) نے ’’براہین قاطعہ‘‘کے صفحہ۲۲۸؍پر لکھا ہے:
  ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مولود شریف کرنا اور قیامِ تعظیمی کے لیے کھڑا ہونا بدعت و شرک ہے اور مثل کنہیّا کے جنم کے ہے۔‘‘ 
 اس قبیح تشبیہ کو سُن کر آپ (شاہ ابوالخیر) کو نہایت ملال ہوا اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ کہاں حضرت محبوب ذوالجلال (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذکرِ مبارک کی محفل اور کہاں ہندوستان کے مشرکوں کا تہوار- چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک- آپ نے فرمایا: افسوس ہے مولوی خلیل احمد آپ (ﷺ) کے ذکر کی محفل کو ایسی بُری تشبیہ دیتے ہیں اور آپ کے ذکر شریف کی محفل منعقد کرنے سے منع کرتے ہیں۔ 
 پھر آپ نے فرمایا: جہاں بھی کوئی جلسہ ہوتا ہے حسبِ ضرورت اور حسبِ احوال اس جگہ کو پاک و صاف کیا جاتا ہے اور زیب و زینت کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ میلاد شریف کی مبارک محفل کے لیے اس سے بھی روکتے ہیں۔ ہم نے سُنا ہے کہ مولوی خلیل احمد (انبیٹھوی) ایسے شخص کو بیعت بھی نہیں کرتے جو میلاد شریف کرتا ہو یا اس کا حامی ہو۔ اس موقع پر مولانا اشرف علی نے کہا: مولوی خلیل احمد صاحب جس مولود کو منع کرتے ہیں اس کو آپ بھی منع کریں گے۔ اور بیعت نہ کرنے کی بات دُرست نہیں ہے۔ آپ سے کسی نے غلط بات کہہ دی ہے۔ چوں کہ آپ سے یہ بات مولوی شمس الدین نے کہی تھی جو کہ صدر بازار میرٹھ میں رہتے تھے۔ اور نماز میں شریک ہونے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ آپ نے ان کی طرف منھ کر کے فرمایا: ارے بھائی جواب دو۔ یہ سُن کر مولوی شمس الدین نے اس شخص کا نام بتایا جس کو مولوی خلیل احمد صاحب نے مرید کرنے سے انکار کیا تھا۔ وہ شخص میرٹھ کا رہنے والا تھا اور اس وقت زندہ تھا۔ 
 مولوی شمس الدین کا بیان ختم ہوتے ہی پیر سید گلاب شاہ نے مختصر رسالہ میں سے مولوی اشرف علی (تھانوی) صاحب کے رسالہ ’’حفظ الایمان‘‘ کے صفحہ۷؍ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ عبارت سُنائی:
  ’’دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کُل غیب اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی ہی کیا تخصیص ہے، ایسا علم غیب تو زید و عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔‘‘
* (حفظ الایمان، مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی، دارالکتاب دیوبند،ص١٥) 
 یہ سُن کر آپ (شاہ ابوالخیر) نے مولوی(اشرف علی تھانوی) صاحب سے فرمایا: ’’کیا یہی دین کی خدمت ہے؟ تمہارے بڑے (حاجی امداد اللہ وغیرہ) تو ہمارے طریقہ پر تھے تم نے اس کے خلاف کیوں کیا۔‘‘ مولوی صاحب نے کہا: ’’میں نے اس عبارت کی توضیح اپنے دوسرے رسالہ میں کردی ہے۔‘‘ آپ نے ان سے کہا: 
 ’’تمہارے اس رسالہ (حفظ الایمان) کو پڑھ کر کتنے لوگ گمراہ ہوئے۔ ہم تمہارے دوسرے رسالہ کو لے کر کیا کریں۔‘‘
* (مقاماتِ خیر۱۳۹۲ھ، شاہ ابوالحسن زید فاروقی، شاہ ابوالخیر اکاڈمی دہلی۱۹۸۹ء، ص۲۳۵۔۲۳۷ )
  اس واقعہ کے بارے میں مریدِ تھانوی وصل بلگرامی نے ’’بزم جمشید‘‘ (میں مطبوعہ ۱۳۵۸ھ در سہارن پور) نے خیانت سے کام لیا۔ اس کے جواب میں شاہ ابوالحسن زید فاروقی نے ’’بزم خیر از زید‘‘ تحریر کی؛ جس کی وجہِ تصنیف موصوف ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں:
 ’’وصل نے اپنے بیان میں نہ ’’کنہیّا جنم‘‘ کا ذکر کیا ہے اور نہ ’’حفظ الایمان‘‘ (از اشرف علی تھانوی) کی رُسوائے زمانہ عبارت کا۔‘‘……’’وصل کے کارنامہ کی اطلاع اس عاجز کو شعبان ۱۳۷۳ھ میں ہوئی۔ یہ عاجز مجبور ہوا کہ حقیقت کا اظہار کرے۔‘‘……’’اس عاجز نے سہارن پور سے ’’بزم جمشید‘‘، گھوسی سے ’’تغییرالعنوان‘‘، بازار سے ’’حفظ الایمان، بسط البنان‘‘ اور ’’المہند‘‘ مہیا کی اور ۹۶؍صفحے کا رسالہ ’’بزم خیر از زید در جواب جمشید‘‘ لکھا اور چھپوایا، جس میں بہ تفصیل حقیقتِ واقعہ بیان کی گئی ہے۔‘‘
* ( مرجع سابق،ص۲۳۷۔۲۳۸ )
 شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی نے متعدد صفحات میں دیوبندی عقائد کا علمی انداز میں تعاقب فرمایا ہے ۔ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
  ’’جمادی الآخرہ ۱۳۱۷ھ میں حضرت حاجی (امداداللہ مہاجر مکی) صاحب رحلت فرمائے خلد بریں ہوئے۔ اب مولوی (اشرف علی تھانوی) صاحب کے واسطے راستہ صاف ہوا۔ ان پر نئی تحقیق کی راہیں کھل گئیں۔ سب سے پہلے انھوں نے علم غیب کے مسئلہ کو چھیڑا اور رسالہ ’’حفظ الایمان‘‘ لکھ کر بے حساب غلامانِ بارگاہِ رسالت کو ایذا پہنچائی۔ یہ واقعہ ۱۳۱۹ھ کے اوائل کا ہے۔‘‘
* (مرجع سابق،ص۲۴۳)
  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی نے دیابنہ و دیگر فرقوں کی توہینِ رسالت پر مبنی عبارتیں علماے حرمین کے سامنے پیش کیں؛ اور ان سے حکم شرعی پر تصدیقات لیں۔ ۳۳؍علما نے تصدیقات قلم بند کیں۔’’حسام الحرمین‘‘ کے نام سے ان کی اشاعت ہوئی۔ جس پر علماے دیوبند کی طرف سے کفریہ عبارتوں کی تاویل کی کوشش میں ’’المہند‘‘ (ازمولوی خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی) شائع ہوئی۔ اس کے حقائق کا پردہ چاک کرتے ہوئے شاہ ابوالحسن زید فاروقی مجددی لکھتے ہیں:
  ’’المہند نے حفظ الایمان کی عبارت کو ان الفاظ میں پیش کیا ہے’’اس غیب سے مراد کیا ہے۔ یعنی غیب کا ہرہر فرد یا بعض غیب، کوئی کیوں نہ ہو، پس اگر بعض غیب مراد ہے تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تخصیص نہ رہی۔ کیوں کہ بعض غیب کا علم اگرچہ تھوڑا سا ہو، زید و عمرو بلکہ ہر بچہ اور دیوانہ بلکہ جملہ حیوانات اور چوپاؤں کوبھی حاصل ہے۔‘‘ اور اسی عبارت کو عربی جامہ پہنایا ہے۔ رسالہ حفظ الایمان میں جو عبارت ہے، یہ عاجز نقل کر چکا ہے۔ دونوں عبارتوں کے الفاظ میں بڑا فرق ہے۔ اور خرابی کی جڑ ’’کلمۂ ایسا‘‘ ہے کو معرب و مترجم صاحب نے حذف کردیا ہے۔ عبارت کو ان ہی الفاظ سے جو حفظ الایمان میں ہیں، نہ لکھنا اور خرابی کی جڑ کو حذف کرنا، ظاہر کررہا ہے کہ خود معرب و مترجم کو پورا کھٹکا تھا کہ اگر وہی الفاظ بیان کیے گئے اور انھیں کو عربی کا لباس پہنایا گیا تو یقیناً علماے کرام کی آرا موافقت میں نہیں آئیں گی۔‘‘
(مرجع سابق،ص۲۴۵)
 (جاری....)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area