Type Here to Get Search Results !

ناموسِ رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند (علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں) قسط نمبر چار


ناموسِ رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند (علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں) قسط نمبر چار
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- غلام مصطفیٰ رضوی نوری مشن، مالیگاؤں

مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب ’’تحذیرالناس‘‘ میں مندرج عبارتوں سے ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ پر حملہ صاف محسوس کیا جا سکتا ہے؛ یہ کوئی قیاس یا گمان نہیں؛ واضح طور پر توہین کا مفہوم رکھنے والی عبارتیں نقل کی گئیں- مطبع ان کا، عبارت ان کی، مصنف ان کے، ہم نے بس آئینہ دکھایا- کوئی الزام نہیں- کوئی بہتان نہیں- حقائق مانے جائیں- 
  مولوی اشرف علی تھانوی بھی قصرِ اسلامی پر شب خون مارنے میں پیچھے نہیں، ان کی عبارتوں سے بھی اسلام دُشمن قوتوں بلکہ قادیانیوں کو بھی فائدہ پہنچا، ان مولویوں کی عبارتوں سے ’’قادیانیت‘‘ کو لہو فراہم ہوتا ہے۔ ان عبارتوں نے ’’مرزائیت‘‘ کو تقویت پہنچائی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انبیاے کرام علیہم السلام کے لیے ’’گناہ‘‘ کا عقیدہ بھی مرزائیوں کے یہاں سے مشتہر ہوا تو تعجب کی بات نہیں جیسا کہ بانی قادیانیت کی کتابوں سے واضح ہے... پھر جو پہلو قادیانیوں کا قابلِ گرفت ہے وہ دیابنہ کے یہاں پایا جائے اور رسول اللہﷺ کی توہین و بے ادبی کا عنصر اکابرِ دیوبند کی کتابوں میں دکھائی دے تو کیوں کر انھیں نظر انداز کیا جائے؟ یاد رکھنے کی بات ہے کہ عقیدتوں کا قبلہ درست ہونا چاہیے- جنھوں نے توہینِ رسالت کا ارتکاب کیا اُنھیں کیوں کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ 
  جس فکر کی پرورش اکابرِ دیوبند نے کی تھی؛ جن عقائد کو پالا پوسا اور پروان چڑھایا تھا؛ آج وہی کچھ ان کے معتقدین کی تحریروں سے چھلک رہا ہے- دل و دماغ میں جن عقائد کا نقش مرتسم تھا وہ عبارتوں سے ہویدا ہے- اور یہی فکر ’’قاسمی و نانوتوی" مولوی قاسمی صاحب نے اخبار ڈسپلن (شمارہ ۹؍جولائی ۲۰۲۴ء صفحہ ٢) میں ظاہر کی۔
  قارئین! ایک طرف مدرسۂ دیوبند کے بانی مولوی نانوتوی صاحب ’’قادیانیت‘‘ کو قوت مہیا کر رہے ہیں- مولوی اشرف علی تھانوی صاحب قادیانیت کو تقویت پہنچا رہے ہیں؛ دوسری طرف امام اہل سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری ہیں؛ جن کا قلم قادیانیت و مرزائیت کے تعاقب میں سرپٹ دوڑ رہا ہے...اپنی آخری کتاب بھی ردِ قادیانیت میں قلم بند کر رہے ہیں-
ردِ قادیانیت میں تصانیفِ اعلیٰ حضرت:
  اعلیٰ حضرت نے ردِ مرزائیت میں مختلف فتاویٰ جات قلم بند کیے جب کہ پانچ مستقل کتابیں تحریر کیں:
(۱)جزاء اللہ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ(۱۳۱۷ھ): اس رسالۂ مبارکہ میں عقیدۂ ختم نبوت پرایک سو بیس حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کی تیس تصریحات پیش کیں۔ 
(۲)المبین ختم النبیین(۱۳۲۶ھ): اس رسالہ میں بیان فرمایا کہ خاتم النبیین میں الف لام استغراق کے لیے ہے، یعنی ہمارے آقا و مولا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیاے کرام کے خاتم ہیں، جو شخص اس استغراق کو نہیں مانتا اسے کافر کہنے کی ممانعت نہیں ہے، اس نے نصِ قرآنی کو جھٹلایا ہے، جس کے بارے میں اُمت کا اجماع ہے کہ اس میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص۔ 
(فتاویٰ رضویہ،امام احمد رضا، طبع مبارک پور،ج٦، ص۵) 
(۳) قھر الدیان علیٰ مرتد بقادیان(۱۳۲۳ھ): اس میں جھوٹے مسیح، مرزاے قادیانی کے شیطانی الہاموں کا رد کر کے عظمتِ اسلام کو اجاگر کیا ہے۔ 
(٤)السوء والعقاب علی المسیح الکذاب(۱۳۲۰ھ): ۱۳۲۰ھ میں امرتسر سے ایک سوال آیا کہ ایک مسلمان اگر مرزائی ہو جائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی؟ اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس رسالہ میں دس وجہ سے مرزاے قادیانی کا کفر بیان کر کے متعدد فتاویٰ کے حوالے سے یہ حکم تحریر فرمایا:
  ’’یہ لوگ دین اسلام سے خارج ہیں اور ان کے احکام بعینہٖ مرتدین کے احکام ہیں… شوہر کے کفر کرتے ہی عورت فوراً نکاح سے نکل جاتی ہے۔‘‘
(مجموعہ رسائل ردِ مرزائیت، امام احمد رضا، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور، ص۴۴)
(۵)الجرازالدیانی علی المرتد القادیانی(۱۳۴۰ھ): یہ امام احمد رضا بریلوی کی آخری تصنیف ہے؛ جو آپ نے وصال سے چند دن پہلے تحریر فرمائی۔
  آپ کے صاحبزادے حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’الصارم الربانی علی اسراف القادیانی‘‘ تحریر فرمائی، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ تفصیل سے بیان کیا اور مرزا کے مثیل مسیح ہونے کا زبردست ردّ کیا۔ یہ رسالہ سہارن پور سے آنے والے سوال کے جواب میں لکھا گیا۔
 (مجلہ یادگارِ رضا ۲۰۱۴ء، ص۳۴۔۳۵) 
  یہ تمام کتابیں مطبوع ہیں۔ جن کے عربی تراجم بھی منصۂ شہود پر ہیں۔ جب کہ ’’رسائل رضویہ‘‘(۵۰؍مجلدات) بریلی شریف میں بھی تمام تصانیف شامل ہیں۔ 
انگریز سے یاری:
  بات جب مدرسۂ دیوبند کے بانی کی آگئی ہے تو لگے ہاتھوں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ؛ انگریز جس نے ناموسِ رسالت ﷺ میں توہین و بے ادبی کے لیے ’’مرزا غلام قادیانی‘‘ کو تیار کیا؛ اس کے اکرام و عنایات کا سلسلہ دیوبند سے ملتا ہے یا نہیں! اِس ضمن میں وثائق کیا کہتے ہیں؟
    مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی اپنی ایک مجلس میں فرماتے ہیں:
    ’’میری طالب علمی کے زمانے میں ایک انگریز کلکٹر مدرسۂ دیوبند میں آنے والا تھا میں نے حضرت مولانا یعقوب صاحب سے عرض کیا کہ اگر وہ چندہ دیں تو آپ قبول کر لیں گے؟ فرمایا: ہاں۔‘‘
(مجالس حکیم الامت، مولوی محمد شفیع دیوبندی، فرید بک ڈپو دہلی ۱۴۲۳ھ،ص۱۸۸)
    ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مدرسۂ دیوبند پر انگریز مخالفت کا الزام لگایا گیا۔ انگریز حکومت کو یہ درخواست دی گئی کہ:
  ’’مولانا محمد قاسم صاحب نے دیوبند میں ایک مدرسہ گورنمنٹ کے مقابلہ میں کھولاہے…‘‘ جس پر انگریز نے تفتیش کی،انگریز حکام کی رپورٹ مولوی اشرف علی تھانوی کی زبانی سُنیے:
  ’’حکومتِ ہند کو رپورٹ کی کہ جو لوگ ایسے مقدس صورتوں پر نقضِ امن اور غدر و فساد (یعنی انگریز سے غداری) کا الزام لگاتے ہیں وہ خود مفسد ہیں اور یہ محض چند مفسدوں (فسادیوں) کی شرارت ہے۔‘‘
(ارواحِ ثلثٰہ، مولوی اشرف علی تھانوی، اریب پبلی کیشنز دہلی۲۰۱۲ء،ص ۱۸۷)
  مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی کو انگریز حکومت وظیفے سے بھی نوازتی تھی، انگریزی اکرام و یاری کی داستان ٹھنڈے دل اور سوچنے والے دماغ سے پڑھیے۔ دیوبند کی ایک میٹنگ کی روداد میں ہے:
  ’’دیکھیے۔حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے آپ کے مسلَّم بزرگ وپیشوا تھے ۔ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے سناگیا کہ: ’’ان کو چھ سو روپیہ ماہ وار حکومت کی جانب سے دیے جاتے تھے۔‘‘ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ: مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا علم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے- مگرحکومت ایسے عنوان سے دیتی تھی کہ ان کو اس کا شُبہہ بھی نہ گزرتا تھا۔‘‘ 
(مکالمۃُ الصَّدْرَین،بہ انتظام محمد ذکی دیوبندی، مطبوعہ دارالاشاعت دیوبند، ص۹)
  اسی روداد میں دیوبندی فرقہ کی’’تبلیغی جماعت‘‘ کو انگریز گورنمنٹ سے مالی مدد ملنے کا واضح ذکر ان الفاظ میں ہے:
  ’’اسی ضمن میں مولانا حفظ الرحمٰن صاحب نے کہا کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداء ً حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد صاحب کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہوگیا۔‘‘ 
 (مکالمۃُ الصَّدْرَین،بہ انتظام محمد ذکی دیوبندی، مطبوعہ دارالاشاعت دیوبند ،ص۸)
 (تبلیغی جماعت !ایک تعارف، مطبوعہ مالیگاؤں،صفحہ۱۱۔۱۳)
(جاری...) 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area