شاگرد حضور حافظ ملت مولانامحمدشمیم اشرفی ایک مختصر تعارف و خدمات
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
اس دار فانی میں ہر انسان ایک عمر لے کر آتا ہے پھر وہ عمر جب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو وہ راہ ابدی کا مسافر بن جاتا ہے، جہاں اسے حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے یہ خدا کا اٹل قانون ہے،جہاں سب کو سرِ تسلیم خم کرنا ہی ہے چاہے وہ وقت کے رستم و حاطم ہی کیوں نہ ہوں۔ اُس قانونِ محکم کے پیش نظر خلیفہ سرکار کلاں ، شاگرد حضور حافظ ملت، خطیب بے مثال، حضرت مولانا محمد شمیم اشرفی خیرآبادی بھی اس دارفانی میں اپنی حیات مستعارگزارکر دار باقی کی جانب کوچ کرگئے۔
بقول شاعر:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
گرچہ یہ سانحہ خیرآباد و قرب و جوار کے باشیوں کے لیے روح فرسا و المناک ہے مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس نے بھی زندگی کا مزہ چکھا ؛ اسے موت کا بھی مزہ چکھنا ہے۔کیا انسان!کیا حیوان!کوئی بھی اس اصول سے مستثنی نہیں ہے اسی اصول کے تحت ہر روز لاکھوں افراد لقمہ اجل ہوتے ہیں،اوران کا تذکرہ صفحہ ہستی سےایسا مٹ جاتاہے،گویا کبھی وہ تھے ہی نہیں دنیا کیا بلکہ ان کی پشت و صلب سے جنے بھی دھیمے دھیمے ان کی یادوں کے چراغ گل کر دیتے ہیں
لیکن وہ افراد اور وہ ہستیاں جنھوں نے علم و فضل اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں کردار ادا کیا ہو وہ لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات پر نیر تاباں بن کر چمکتے رہتے ہیں، دعوت و تبلیغ، تعلیم و تدریس اور دین کی خدمت ان کی چمک کو لازوال کردیتی ہے،تعلیم و تدریس، تقریر و تحریر اور قیادت و نظامت اور دیگر خدمات کی بدولت مولانا محمد شمیم اشرفی علیہ الرحمہ کا بھی شمار مذکورہ لوگوں میں ہوگا۔ آپ خدمات دینیہ کی بدولت لوگوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ رہیں گے۔
آپ کا تعلق خیرآباد،مئو کی علمی سرزمین سے ہے،آپ کی ابتدائی تعلیم دارالعلوم اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد میں حضرت علامہ و مولانا محمد عمر خیرآبادی علیہ الرحمہ و حضرت مولانا محمد حنیف صاحب کٹروی کے پاس ہوئی، اعلی تعلیم کے لیے آپ ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لے گئے اور وہاں پر وقت کے عظیم مفکر ومحدث استاذ العلماء ، جلالت العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان کی بارگاہ میں شرف تلمذ حاصل کیا اور وقت کے اکابر علماے کرام ومشائخ عظام کے نورانی ہاتھوں سے دستار فضیلت حاصل کی۔
بعد فراغت مبارک کے مشہور ادارہ "الجامعۃ الاسلامیہ" سکھٹی تدریس کے لیے تشریف لے گئے وہاں پر کافی زمانے تک آپ نے تشنگان علوم نبویہ کو اپنی علمی و معلوماتی جام سے سیراب کیا،سیکڑوں طلبہ آپ کی درس گاہ سے فیضیاب ہوئے جو اس وقت ملک کے مختلف اطراف میں درس و تدریس ،تصنیف و تالیف میں مشغول ہیں۔
آپ کو سلسلہ اشرفیہ کے مشہور و معروف بزرگ،پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضورسرکار کلاں ابو المسعود سید مختار اشرف علیہ الرحمہ( جانشین مخدوم سمناں کچھوچھہ شریف ) کے دست کرم پر بیعت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے سونے پہ سہاگہ یہ کہ اپنے شیخ ہی سے سلاسل اشرفیہ و چشتیہ کی اجازت و خلافت بھی حاصل کی۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
جسے چاہا اپنا بنا لیا جسے چاہا در پہ بلالیا
اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو کئی ایک خوبیوں سے نوازا تھا ؛ وہیں آپ کو فن خطابت کی نعمت سے بھی نوازا تھا، خصوصیت کے ساتھ آپ اسی میدان کے شہسوار تھے،زمانۂ طالب علمی سے ہی خطابت کے جوہر آپ کے اندر پنہاں تھے بڑے شوق و ذوق اور لگن کے ساتھ خطاب کیا کرتے یہی شوق آپ کو ملک کے کونے کونے تک لے گیا،بنارس کے "بنیاباغ" میں منعقد ہونے والے جلسے میں آپ اپنے استاذ کے ساتھ خطاب کے لیے کئی سالوں تک لگاتار جاتے رہے، حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے ساتھ بھی آپ نے کئی ایک تقریری و تبلیغی سفر کیا،قرب و جوار میں بھی آپ کی تقریر مسلسل ہوتی رہی آپ کی تقریر نکات سے پر،اور معلومات سے لبریز ہواکرتی تھی خصوصیت کے ساتھ آپ یوم عاشورا اور کربلا کے موضوع پر بہترین خطاب کیا کرتے تھے ، آپ کی آواز میں کشش اور جاذبیت تھی انداز بیاں شاندار اور دلچسپ تھا آپ کی ان خوبیوں کے چلتے باشندگان کرہاں نے آپ کومسلسل اندرا گاندھی کے دور میں جب ایمرجنسی لاگو ہوئی تھی (۱۹۷۵)اس وقت سے لے کر وصال کے سال تک بلاتے رہے آپ نے ایک طویل زمانے تک یوم عاشورا کے روز کربلا اور شان اہل بیت کے موضوع پر خطاب کرکے ایک تاریخ رقم کی جو آپ کی خصوصیات میں چار چاند لگا رہی ہے امسال آخری خطاب 2024ء میں طبیعت ناساز ہونے کے باوجود بھی آپ نے کیا یہ کرہاں اور آپ کی کرہاں والوں سے محبت کی عظیم نشانی ہےاور آپ کے کامیاب خطیب ہونے کی دلیل بھی ہے۔
آپ کو تحریر و تصنیف کا بھی کافی ذوق تھا، آپ ایک کہنہ مشق محرر بھی تھے ،آپ کا قلم مضبوط اور پختہ تھا،آپ کی تحریر میں سلاست و روانی ہوتی تھی ، بلاغت کے عنصر شامل ہوتے ، مخلتف ماہ ناموں میں آپ کے مضامین شائع ہواکرتے تھے۔ وطن عزیز جامعہ اشرفیہ سے مسلک اعلی حضرت کی ترجمانی میں شائع ہونے والا مشہور و مقبول زمانہ "ماہنامہ اشرفیہ" میں بھی آپ کے کئی ایک مضامین شائع ہوئے وہاں سے حضرت کی تحریروں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
آپ نے تقریباً پانچ سالوں تک دارالعلوم ضیاء العلوم میں بطور ناظم اعلیٰ رہ کر ادارے کی خدمت بھی انجام دی، آپ نے اپنے دور نظامت میں تعلیمی میعار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی،طلبہ کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے، ان کو علم و ادب کے میدان میں آگے بڑھتا دیکھ کر خوش ہوتے ،انھیں اپنی جامع نصیحتوں سے نوازتے تھے اس کے لیے آپ خود بھی اس دور میں طلبہ کو کچھ کتابوں کا درس دیا کرتے تھے۔
بلآخر یہ علمی چراغ بروز جمعہ بعد نمازمغرب ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا،آپ کی نمازجنازہ مفسر قرآن حضرت مولانا نذیر احمد منانی رئیس المدرسین دارالعلوم اشرفیہ ضیاء العلوم نے پڑھائی،آپ کی تدفین ملک شاہ عبد اللہ بابا کے احاطے میں ہوئی۔
اللہ تعالی آپ کو جنت نعیم میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آپ کی جملہ سیئات کو حسنات میں تبدیل فرمائے،آپ کی قبر پر رحمت وغفران کی موسلادھار بارش برسائے، آپ کے جملہ لواحقین و متوسلین کو صبر عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
ابرِ رحمت ان کے مرقد پر گہرباری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے
از قلم _______________ الخیرآبادی
اس دار فانی میں ہر انسان ایک عمر لے کر آتا ہے پھر وہ عمر جب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو وہ راہ ابدی کا مسافر بن جاتا ہے، جہاں اسے حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے یہ خدا کا اٹل قانون ہے،جہاں سب کو سرِ تسلیم خم کرنا ہی ہے چاہے وہ وقت کے رستم و حاطم ہی کیوں نہ ہوں۔ اُس قانونِ محکم کے پیش نظر خلیفہ سرکار کلاں ، شاگرد حضور حافظ ملت، خطیب بے مثال، حضرت مولانا محمد شمیم اشرفی خیرآبادی بھی اس دارفانی میں اپنی حیات مستعارگزارکر دار باقی کی جانب کوچ کرگئے۔
بقول شاعر:
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
گرچہ یہ سانحہ خیرآباد و قرب و جوار کے باشیوں کے لیے روح فرسا و المناک ہے مگر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جس نے بھی زندگی کا مزہ چکھا ؛ اسے موت کا بھی مزہ چکھنا ہے۔کیا انسان!کیا حیوان!کوئی بھی اس اصول سے مستثنی نہیں ہے اسی اصول کے تحت ہر روز لاکھوں افراد لقمہ اجل ہوتے ہیں،اوران کا تذکرہ صفحہ ہستی سےایسا مٹ جاتاہے،گویا کبھی وہ تھے ہی نہیں دنیا کیا بلکہ ان کی پشت و صلب سے جنے بھی دھیمے دھیمے ان کی یادوں کے چراغ گل کر دیتے ہیں
لیکن وہ افراد اور وہ ہستیاں جنھوں نے علم و فضل اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں کردار ادا کیا ہو وہ لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات پر نیر تاباں بن کر چمکتے رہتے ہیں، دعوت و تبلیغ، تعلیم و تدریس اور دین کی خدمت ان کی چمک کو لازوال کردیتی ہے،تعلیم و تدریس، تقریر و تحریر اور قیادت و نظامت اور دیگر خدمات کی بدولت مولانا محمد شمیم اشرفی علیہ الرحمہ کا بھی شمار مذکورہ لوگوں میں ہوگا۔ آپ خدمات دینیہ کی بدولت لوگوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ رہیں گے۔
آپ کا تعلق خیرآباد،مئو کی علمی سرزمین سے ہے،آپ کی ابتدائی تعلیم دارالعلوم اشرفیہ ضیاء العلوم خیرآباد میں حضرت علامہ و مولانا محمد عمر خیرآبادی علیہ الرحمہ و حضرت مولانا محمد حنیف صاحب کٹروی کے پاس ہوئی، اعلی تعلیم کے لیے آپ ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور تشریف لے گئے اور وہاں پر وقت کے عظیم مفکر ومحدث استاذ العلماء ، جلالت العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمۃ و الرضوان کی بارگاہ میں شرف تلمذ حاصل کیا اور وقت کے اکابر علماے کرام ومشائخ عظام کے نورانی ہاتھوں سے دستار فضیلت حاصل کی۔
بعد فراغت مبارک کے مشہور ادارہ "الجامعۃ الاسلامیہ" سکھٹی تدریس کے لیے تشریف لے گئے وہاں پر کافی زمانے تک آپ نے تشنگان علوم نبویہ کو اپنی علمی و معلوماتی جام سے سیراب کیا،سیکڑوں طلبہ آپ کی درس گاہ سے فیضیاب ہوئے جو اس وقت ملک کے مختلف اطراف میں درس و تدریس ،تصنیف و تالیف میں مشغول ہیں۔
آپ کو سلسلہ اشرفیہ کے مشہور و معروف بزرگ،پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضورسرکار کلاں ابو المسعود سید مختار اشرف علیہ الرحمہ( جانشین مخدوم سمناں کچھوچھہ شریف ) کے دست کرم پر بیعت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے سونے پہ سہاگہ یہ کہ اپنے شیخ ہی سے سلاسل اشرفیہ و چشتیہ کی اجازت و خلافت بھی حاصل کی۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
جسے چاہا اپنا بنا لیا جسے چاہا در پہ بلالیا
اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کو کئی ایک خوبیوں سے نوازا تھا ؛ وہیں آپ کو فن خطابت کی نعمت سے بھی نوازا تھا، خصوصیت کے ساتھ آپ اسی میدان کے شہسوار تھے،زمانۂ طالب علمی سے ہی خطابت کے جوہر آپ کے اندر پنہاں تھے بڑے شوق و ذوق اور لگن کے ساتھ خطاب کیا کرتے یہی شوق آپ کو ملک کے کونے کونے تک لے گیا،بنارس کے "بنیاباغ" میں منعقد ہونے والے جلسے میں آپ اپنے استاذ کے ساتھ خطاب کے لیے کئی سالوں تک لگاتار جاتے رہے، حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے ساتھ بھی آپ نے کئی ایک تقریری و تبلیغی سفر کیا،قرب و جوار میں بھی آپ کی تقریر مسلسل ہوتی رہی آپ کی تقریر نکات سے پر،اور معلومات سے لبریز ہواکرتی تھی خصوصیت کے ساتھ آپ یوم عاشورا اور کربلا کے موضوع پر بہترین خطاب کیا کرتے تھے ، آپ کی آواز میں کشش اور جاذبیت تھی انداز بیاں شاندار اور دلچسپ تھا آپ کی ان خوبیوں کے چلتے باشندگان کرہاں نے آپ کومسلسل اندرا گاندھی کے دور میں جب ایمرجنسی لاگو ہوئی تھی (۱۹۷۵)اس وقت سے لے کر وصال کے سال تک بلاتے رہے آپ نے ایک طویل زمانے تک یوم عاشورا کے روز کربلا اور شان اہل بیت کے موضوع پر خطاب کرکے ایک تاریخ رقم کی جو آپ کی خصوصیات میں چار چاند لگا رہی ہے امسال آخری خطاب 2024ء میں طبیعت ناساز ہونے کے باوجود بھی آپ نے کیا یہ کرہاں اور آپ کی کرہاں والوں سے محبت کی عظیم نشانی ہےاور آپ کے کامیاب خطیب ہونے کی دلیل بھی ہے۔
آپ کو تحریر و تصنیف کا بھی کافی ذوق تھا، آپ ایک کہنہ مشق محرر بھی تھے ،آپ کا قلم مضبوط اور پختہ تھا،آپ کی تحریر میں سلاست و روانی ہوتی تھی ، بلاغت کے عنصر شامل ہوتے ، مخلتف ماہ ناموں میں آپ کے مضامین شائع ہواکرتے تھے۔ وطن عزیز جامعہ اشرفیہ سے مسلک اعلی حضرت کی ترجمانی میں شائع ہونے والا مشہور و مقبول زمانہ "ماہنامہ اشرفیہ" میں بھی آپ کے کئی ایک مضامین شائع ہوئے وہاں سے حضرت کی تحریروں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
آپ نے تقریباً پانچ سالوں تک دارالعلوم ضیاء العلوم میں بطور ناظم اعلیٰ رہ کر ادارے کی خدمت بھی انجام دی، آپ نے اپنے دور نظامت میں تعلیمی میعار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی،طلبہ کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے، ان کو علم و ادب کے میدان میں آگے بڑھتا دیکھ کر خوش ہوتے ،انھیں اپنی جامع نصیحتوں سے نوازتے تھے اس کے لیے آپ خود بھی اس دور میں طلبہ کو کچھ کتابوں کا درس دیا کرتے تھے۔
بلآخر یہ علمی چراغ بروز جمعہ بعد نمازمغرب ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا،آپ کی نمازجنازہ مفسر قرآن حضرت مولانا نذیر احمد منانی رئیس المدرسین دارالعلوم اشرفیہ ضیاء العلوم نے پڑھائی،آپ کی تدفین ملک شاہ عبد اللہ بابا کے احاطے میں ہوئی۔
اللہ تعالی آپ کو جنت نعیم میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آپ کی جملہ سیئات کو حسنات میں تبدیل فرمائے،آپ کی قبر پر رحمت وغفران کی موسلادھار بارش برسائے، آپ کے جملہ لواحقین و متوسلین کو صبر عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
ابرِ رحمت ان کے مرقد پر گہرباری کرے
حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے
از قلم _______________ الخیرآبادی