مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
اہل سراوان کی فتنہ انگیزیاں
اہل سراوان کی فتنہ انگیزیاں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
(1)ایک سراوی کی جانب سے جامع ازہر (مصر)کے کسی استاد کی تحریر وائرل کی جا رہی ہے کہ کسی کی تکفیر شخصی کا حق صرف قاضی کو ہے۔
اولا یہ دعویٰ ہی غلط ہے۔
قاضی کو (قضاء)فیصلہ کرنے کا حق ہے اور مفتی کو فتویٰ دینے کا حق ہے۔ہاں،تکفیر کلامی کے مسئلہ میں یہ شرط ضرور ہے کہ مفتی کو کلامی اصول وقوانین کی معرفت حاصل ہو،تاکہ اس سے خطا سرزد نہ ہو جائے۔
جامع ازہر کے استاد مذکور کو اگر علم عقائد اور فن کلام کا وسیع علم نہیں ہے تو انہیں تکفیر کلامی کے مسئلہ میں کلام کرنے سے پرہیز لازم ہے۔
ثانیا:فرقہ دیوبندیہ کے عناصر اربعہ اور قادیانی کے کفر کلامی پر حرمین طیبین کے مذاہب اربعہ کے قاضیوں کی تصدیق ہے۔حرمین طیبین میں سلطنت عثمانیہ ترکیہ کی جانب سے مذاہب اربعہ کے قاضی مقرر کئے جاتے تھے،کیوں کہ حرمین طیبین میں ساری دنیا کے مسلمان حج وزیارت کے واسطےحاضر ہوتے ہیں۔
ثالثاً:جامع ازہر کے استاذ مذکور نے فقہ حنفی کا جزئیہ پیش کیا ہے کہ اگر کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال بھی ایمان کا ہو تو قائل کی تکفیر نہیں ہو گی۔
واضح رہے کہ دو معانی یا چند معانی کا احتمال محتمل کلام میں ہوتا ہے اور محتمل کلام پر تکفیر کلامی نہیں ہوتی ہے،بلکہ متعین کلام پر تکفیر کلامی ہوتی ہے اور اشخاص اربعہ وقادیانی کی تکفیر کلامی ہوئی ہے،نہ کہ تکفیر فقہی۔
ان پانچوں کی کفریہ عبارتیں محتمل نہیں ہیں،بلکہ کفری معانی میں متعین یعنی مفسر ہیں۔
اگر استاذ مذکور کو افراد خمسہ کے حقائق سے مکمل آشنائی حاصل نہیں تو بلا ضرورت زبان کھول کر اپنی عزت کو خاک میں ملانا کون سی عقل مندی ہے۔یا پھر یہ کہ جناب کو علم کلام کی ہی ضروری معرفت حاصل نہیں ہے۔
(2)جامع ازہر ایک سرکاری یونیورسٹی ہے۔وہاں ہر قسم کے اساتذہ و طلبہ ہیں۔شیعہ،سنی،ویابی،ودیگر طبقات کے لوگ وہاں رہتے ہیں۔
نیز عہد حاضر میں ایمان وکفر کے معاملات میں اہل عرب ناقابل اعتماد ہیں۔یہ لوگ ابن تیمیہ،ابن عبد الوہاب نجدی وغیرہ کی ضلالت وگمراہی سے واقف واشنا ہو کر بھی ایسوں کو (رحمہ اللہ)لکھتے ہیں۔
(3)اس میں کوئی شک نہیں کہ بر صغیر کی سب سے بڑی درگاہ اجمیر معلی ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اجمیر شریف کے خدام ومجاورین یا تمام سجادگان غوث وقطب اور ابدال واوتاد ہیں۔
اسی طرح جامع ازہر کے تمام اساتذہ متکلم وفقیہ ہوں،یہ بھی ضروری نہیں۔ہر شخص اپنے شعبہ سے متعلق یا اپنی دل چسپی کے مطابق علوم وفنون کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور اس میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ہر شخص ہر فن میں کامل ہو،ایسا نہیں۔استاذ مذکور کا تعلق کس شعبہ سے ہے؟
(4) اسلامی اصول وقوانین کے خلاف جس کا بھی قول ہو،اسے رد کیا جائے۔کسی سے متاثر ہو کر اپنی آخرت تباہ وبرباد کرنا عقل مندی نہیں ہے۔
(5)عرس حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان قریب ہے۔اب اپنے منظم منصوبے کے مطابق اہل سراواں دو عرس عزیزی تک فتنہ انگیزی کر سکتے ہیں،لہذا برصغیر کے مسلمانان اہل سنت وجماعت ہوشیار وبیدار وخبردار رہیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:14:اگست 2024
(1)ایک سراوی کی جانب سے جامع ازہر (مصر)کے کسی استاد کی تحریر وائرل کی جا رہی ہے کہ کسی کی تکفیر شخصی کا حق صرف قاضی کو ہے۔
اولا یہ دعویٰ ہی غلط ہے۔
قاضی کو (قضاء)فیصلہ کرنے کا حق ہے اور مفتی کو فتویٰ دینے کا حق ہے۔ہاں،تکفیر کلامی کے مسئلہ میں یہ شرط ضرور ہے کہ مفتی کو کلامی اصول وقوانین کی معرفت حاصل ہو،تاکہ اس سے خطا سرزد نہ ہو جائے۔
جامع ازہر کے استاد مذکور کو اگر علم عقائد اور فن کلام کا وسیع علم نہیں ہے تو انہیں تکفیر کلامی کے مسئلہ میں کلام کرنے سے پرہیز لازم ہے۔
ثانیا:فرقہ دیوبندیہ کے عناصر اربعہ اور قادیانی کے کفر کلامی پر حرمین طیبین کے مذاہب اربعہ کے قاضیوں کی تصدیق ہے۔حرمین طیبین میں سلطنت عثمانیہ ترکیہ کی جانب سے مذاہب اربعہ کے قاضی مقرر کئے جاتے تھے،کیوں کہ حرمین طیبین میں ساری دنیا کے مسلمان حج وزیارت کے واسطےحاضر ہوتے ہیں۔
ثالثاً:جامع ازہر کے استاذ مذکور نے فقہ حنفی کا جزئیہ پیش کیا ہے کہ اگر کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال بھی ایمان کا ہو تو قائل کی تکفیر نہیں ہو گی۔
واضح رہے کہ دو معانی یا چند معانی کا احتمال محتمل کلام میں ہوتا ہے اور محتمل کلام پر تکفیر کلامی نہیں ہوتی ہے،بلکہ متعین کلام پر تکفیر کلامی ہوتی ہے اور اشخاص اربعہ وقادیانی کی تکفیر کلامی ہوئی ہے،نہ کہ تکفیر فقہی۔
ان پانچوں کی کفریہ عبارتیں محتمل نہیں ہیں،بلکہ کفری معانی میں متعین یعنی مفسر ہیں۔
اگر استاذ مذکور کو افراد خمسہ کے حقائق سے مکمل آشنائی حاصل نہیں تو بلا ضرورت زبان کھول کر اپنی عزت کو خاک میں ملانا کون سی عقل مندی ہے۔یا پھر یہ کہ جناب کو علم کلام کی ہی ضروری معرفت حاصل نہیں ہے۔
(2)جامع ازہر ایک سرکاری یونیورسٹی ہے۔وہاں ہر قسم کے اساتذہ و طلبہ ہیں۔شیعہ،سنی،ویابی،ودیگر طبقات کے لوگ وہاں رہتے ہیں۔
نیز عہد حاضر میں ایمان وکفر کے معاملات میں اہل عرب ناقابل اعتماد ہیں۔یہ لوگ ابن تیمیہ،ابن عبد الوہاب نجدی وغیرہ کی ضلالت وگمراہی سے واقف واشنا ہو کر بھی ایسوں کو (رحمہ اللہ)لکھتے ہیں۔
(3)اس میں کوئی شک نہیں کہ بر صغیر کی سب سے بڑی درگاہ اجمیر معلی ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اجمیر شریف کے خدام ومجاورین یا تمام سجادگان غوث وقطب اور ابدال واوتاد ہیں۔
اسی طرح جامع ازہر کے تمام اساتذہ متکلم وفقیہ ہوں،یہ بھی ضروری نہیں۔ہر شخص اپنے شعبہ سے متعلق یا اپنی دل چسپی کے مطابق علوم وفنون کی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور اس میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ہر شخص ہر فن میں کامل ہو،ایسا نہیں۔استاذ مذکور کا تعلق کس شعبہ سے ہے؟
(4) اسلامی اصول وقوانین کے خلاف جس کا بھی قول ہو،اسے رد کیا جائے۔کسی سے متاثر ہو کر اپنی آخرت تباہ وبرباد کرنا عقل مندی نہیں ہے۔
(5)عرس حافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان قریب ہے۔اب اپنے منظم منصوبے کے مطابق اہل سراواں دو عرس عزیزی تک فتنہ انگیزی کر سکتے ہیں،لہذا برصغیر کے مسلمانان اہل سنت وجماعت ہوشیار وبیدار وخبردار رہیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:14:اگست 2024