قہر آسمانی در جوف حسنین نعمانی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- محمد رمضان رضا ماتریدی
از قلم:- محمد رمضان رضا ماتریدی
ماتریدی ریسرچ سینٹر، مالیگاؤں
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
حالیہ تناظر میں سراج احمد قاسمی دیوبندی کی ایک تحریر گردش کر رہی تھی۔ جس میں انہوں نے "نبی پاک ﷺ کی جانب گناہ کی نسبت کی"
جس کا کسی نامعلوم شخص نے تعاقب کیا تو ایک دیوبندی، قاسمی کے دفاع میں نکلا جو کوئی حسنین نعمانی نامی شخص ہے۔
موصوف کی تحریر کیا دجل و فریب کا شاخسانہ ہے، وہ اگلے لمحات میں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دیوبندی مولوی نے کیسے الفاظ کے دھارے میں اپنی گستاخی کے پٹارے کو بند کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
موصوف کا یہ دعویٰ ہے کہ :
"انہیں ہر نفس رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت ہے"
تبصرہ:
اب یہ کون سی محبت و عقیدت ہے کہ ایک شخص کھلم کھلا نبی پاک ﷺ کو معاذ اللّٰہ گنہ گار کہہ رہا ہے، اور دعویٰ یہ ہے کہ ہر نفس رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت ہے"
اس پر عرض یہ ہے کہ جناب! جب آپ کے اکابرین نے کھلم کھلا نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں دشنام طرازی کی تب آپ کی یہ ہر نفس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کہاں تھی؟
’’دیوبندی مولوی کا کہنا ہے کہ اہلسنت عوام کو جذباتی طور پہ بلیک میل کرتے ہیں۔‘‘
اللّٰہ اللّٰہ ہمارے جذبات ہمارے احساسات سب اس بات پہ ختم ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنا ہو یا بیگانہ، رسول اللّٰہ ﷺ کی توہین کرے، یہ ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔ امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ہمیں یہی درس ملا کہ استاد ہو یا شاگرد ، پیر ہو یا مرید ، باپ ہو بیٹا ، ماں ہو یا بیٹی، دوست ہو یا کوئی اور، ان میں سے جو بھی رسول اللّٰہ ﷺ کی توہین کا ارتکاب کرے، اسے مکھن سے بال کی طرح باہر نکال دو ۔
دیوبندی وہابی نے توحید کی آڑ میں امت مسلمہ پہ جو شرک کے فتوے جڑے وہ بھلا کس سے پوشیدہ ہیں؟
توحید کے نام پہ انبیاء کی تنقیص،
توحید کے نام پہ اولیاء پہ تنقید،
توحید کے نام پہ امت مسلمہ پہ فتاویٔ شرک، یہ کس مذہب کا وطیرہ ہے؟ تو یقیناً یہ تفویۃ الایمانی دیوخانی اسماعیلی وہابی مذہب کا وطیرہ ہے۔
اب سراج قاسمی دیوبندی کے الفاظ جو حسنین دیوبندی نے نقل کئے ہیں وہ دیکھیں :
’’یہی وہ دن ہے جس میں حق تعالیٰ نے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے۔‘‘
اس پہ جس نا معلوم شخص نے نقد کی ان کے الفاظ حسنین نعمانی کے بقول یہ ہیں:
یارتم لوگ کیسے امتی ہو، یہ جملہ
ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بد مست شرابی خمارِ شراب میں بہک کر کاغذ پر اپنی ذہنی پستی کی غلاظت انڈیل رہا ہے۔تم لوگوں کو اپنے اکابرین کی غلطی، گستاخی نظر نہیں آتی انہوں نے اپنے جیتے جی کون سے گل کھلائے ہیں،
جو*سید المعصومین* ہیں،
جن پر گناہ کا ہلکا سا بھی تصور نہیں ہوسکتا جن کے واسطے اور وسیلے سے ساری امت بخشی جائے گی اس نبی رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں ایسی رکیک اور ناروا جملہ؟ الامان والحفیظ۔
اس پہ حسنین نعمانی دیوبندی کہتا ہے کہ اس نے دیانت داری سے اعتراض نقل کر دیا۔
اس پہ موصوف نے علماء دیوبند کا حاشیہ چڑھا کر ان کا موقف پیش کرنے کی کوشش کی جسے ہم بھی دیانت داری سے یہاں نقل کرتے ہیں۔
اب یہاں اس بات کا سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ بسااوقات انبیاء کے بلند ترین مقام کے اعتبار سے خلافِ اولیٰ کسی عمل کو "ذنب" یعنی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقتاً وہ عمل گناہ نہیں ہوتا، اسے صوفیاء کی اصطلاح میں "حسنات الأبرار سیئات المقربین"سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی جسے "ذنب" یعنی گناہ کہا جارہا ہے وہ عام افراد کے اعتبار سے کوئی گناہ کا عمل سرے سے نہ ہو، نہ ہی اس پر شریعت میں کوئی پکڑ ہو، البتہ انبیاء کے اعلیٰ و ارفع مرتبے کے لحاظ سے وہ عنداللہ "ذنب"شمار ہوتا ہو، اس لیے اسے "ذنب" سے تعبیر کیا گیا، جیسا کہ قرآنِ کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعےمیں "وعصیٰ آدم" کے الفاظ مذکور ہوئے ہیں۔اس لیے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے متعلق جمہور علماء کا یہی مؤقف ہے کہ وہ صغیرہ اور کبیرہ دونوں گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا صدور نہیں ہوتا۔
اس کے بارے میں حسنین نعمانی دیوبندی نے کہا کہ یہ ہے علماء دیوبند کا مسلک۔
اس کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
علماء دیوبند جب بھی ترجمہ قرآن مجید میں یا حدیث شریف میں یا جہاں کہیں مضامین میں انبیاء کے لئے ذنب کا لفظ استعمال کرتے ہیں اسی معنی میں کرتے ہیں،
یہی وجہ ہے کہ مولانا سراج صاحب کے مضمون میں کوئی قباحت ہرگز نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہم لوگ بلا لحاظ خیال خود تردید کردیتے۔
اب اگر اوپر ذکر کردہ ہمارے مسلک میں کسی کو کوئی قباحت نظر آتی ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے، کیوں کہ یہ لفظ کتاب و سنت میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، یہ کسی دیوبندی کی اپنی دماغ کی اپچ نہیں ہے، اس کے پیچھے مضبوط بنیاد ہے، بریلوی گمنام لکھاری کو اپنے بڑوں کی طرح اپنی ذہنی غلاظت اگلنے کا بڑا شوق ہے۔
اب یہاں ہم نے انصاف کے ساتھ حسنین نعمانی دیوبندی کی تحریر آپ کے سامنے رکھی ہے اب جو شخص اپنی ہی کتب سے نا آشنا ہو اس شخص سے گفتگو کا کیا مزہ؟
خیر اگر یہ نا آشنا ہیں تو ہم ان کو آشنائی دلاتے ہوئے ان کے مسلک کے معتمد و مستند اکابرین سے چند اقتباسات پیش کر دیتے ہیں
اول یہ بات موصوف کو خود تسلیم ہے کہ جو ترجمہ قاسمی نے "ذنب" کا گناہ کیا اس کے پیچھے مضبوط دیوار ہے۔
علمائے اہلسنت نے لفظی تراجم کے حوالے سے اپنا موقف واضح فرما دیا ہے چنانچہ شارح بخاری حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
ترجمے میں کلمات قرآن کا لفظی ترجمہ جائز ہے لیکن ترجمہ سے خارج اپنے بیان میں انہیں الفاظ سے ذکر کرنا ممنوع ہے۔
(فتاوی شارح بخاری ،جلد 1،ص 361)
فتاوی یورپ میں مفتی عبدالواحد قادری فرماتے ہیں:
آیات مقدسہ یا آیات کریمہ میں جہاں الفاظ مذکورہ(ذنب، عصی، ظل، ضل وغیرہا) حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والسلام کی معصوم شخصیتوں سے متعلق ہیں پس ان باتوں کو وہیں تک محدود رکھنا واجب ہے یعنی غیر تلاوت قرآن و حدیث خوانی میں کسی نبی علیہ السلام کی طرف ذنب، عصی، ظلم و ضل وغیرہا کی نسبت حرام و گناہ ہے اور قابل تعزیر و سزا ہے بلکہ علماء رحہم اللہ تعالی کی ایک جماعت نے اسے کفر بتایا۔
(فتاو ی یورپ ،ص 61)
اب یہاں کتنی ہی صراحت کے ساتھ لفظی ترجمہ کو جائز قرار دے کر غیر تلاوت کی تخصیص سے حکم واضح کیا گیا کہ یہ الفاظ فقط ترجمے تک محدود رکھنا واجب ہیں اور غیر تلاوت میں ان کا اطلاق ممنوع و حرام ہے۔
جناب حسنین نعمانی دیوبندی کی جماعت ہی کے ایک بزرگ جو ابھی حال ہی میں مر کر مٹی میں مل گئے ہیں وہ لکھتے ہیں:
"سبائیت کی یہ کارستانی اور ناپاک سازش ہے کہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی وغیرہ کے معتبر اور قابل صد اعتماد ترجموں کو گمراہ کن اور توہین آمیز قرار دیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ قرآن کے اندر اللہ جل شانہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بہت سارے ایسے الفاظ ہیں جن کا فارسی یا اردو زبان میں ترجمہ کر دینے سے خدا اور رسول کی شان میں گستاخی و توہین ہوتی ہے لہذا ان کا ترجمہ کرنا صحیح نہیں بلکہ ان الفاظ کو عربی زبان کے پردے میں ہی رکھا جائے"
(نرالا مجدد، ص 20,21)
گویا یہ ان کے بڑوں کی بھی عادت ہے کہ اہلسنت کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے عوام الناس کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش کریں حالانکہ ہم دو معتمد اکابرین کی تصریحات پیش کر چکے ہیں کہ ترجمہ کی حد تک "لفظی ترجمہ" کرنا قابل اعتراض نہیں، لیکن غیر ترجمہ میں ایسے الفاظ کا ذکر کرنا توہین کے زمرہ میں آتا ہے جبکہ دیوبندی اصول کے مطابق تو ایسا ترجمہ کرنا بھی توہین و گستاخی ہے آگے چل کے ہم تفصیلاً کلام کریں گے۔
یہاں دیوبندی وہابی مولوی کے ہفوات پہ ایرادات قاہرہ ملاحظہ فرمائیں ۔
ان کا یہ کہنا کہ ہم نے محدثین دہلوی کے تراجم کو گمراہ کن اور توہین آمیز قرار دیا اس میں کتنی صداقت ہے ملاحظہ فرمائیں۔ امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتاوی رضویہ جلد نہم صفحہ 808 میں فرماتے ہیں:
"مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ موضح القرآن میں زیر کریمہ وما انت بسمع من فی القبور فرماتے ہیں"
(فتاوی رضویہ، جلد نہم،ص 808)
یہ تو رہی بات فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی اب ہم ایک زناٹے دار تھپڑ دیوبندی مفتی کو اسی کے گھر سے رسید کرتے ہیں۔ اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:
"مولانا احمد رضا خان صاحب نے بھی شاہ صاحب کے ترجمے کو پسند کیا ہے "
(محاسن موضح القرآن ،ص 759)
صفحہ 765 پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور امام اہل سنت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"شاہ ولی اللہ کے ترجمہ سے تو یہ بچے اور ''اپنی طرف سے کے الفاظ نے ترجمہ کو تفسیر بنا دیا اور ترجمہ کا اختصار ختم ہوگیا لیکن آیت کا مفہوم پر جو اشکال وارد ہو رہا تھا خان صاحب نے اسے ضرور دور کر دیا اور اس حد تک ترجمہ میں اضافہ ناپسندیدہ نہیں"
اب یہاں جناب کے گھر کی شہادتوں سے بھی واضح ہوا کہ علمائے اہلسنت بالخصوص امام اہل سنت نے محدث دہلوی کے لفظی تراجم کی مخالفت نہ کی۔ نیز موجودہ دور کے ایک جید دیوبندی مولوی لکھتے ہیں:
"لطف کی بات یہ ہے کہ احمد رضا نے ان ترجموں پر اور مترجموں پر یعنی شاہ عبدالقادر محدث دہلوی پر کبھی کفر کا فتوی بھی اس وجہ سے نہیں لگایا کہ انہوں نے ترجمہ کیا ہے جبکہ شاہ عبدالقادر کا ترجمہ خود احمد رضا بھی استعمال کرتے رہے"
(نور سنت کنزالایمان نمبر، ص 4)
یہاں دیوبندی نجیب اللہ نے صاف تسلیم کیا کہ امام اہل سنت نے محدث دہلوی کے ترجمہ کو درست تسلیم کیا، نہ کہ توہین آمیز اور گمراہ کن۔ یہ ایسا زناٹے دار تھپڑ موصوف کو گھر ہی سے پڑا کہ اب کف افسوس ہی ملتے رہیں گے۔
گھر کے طمانچوں کے بعد چل پڑی تو ایک گھونسہ ڈاکٹر خالد محمود مانچسٹروی کا بھی رسید کرتے ہیں خالد محمود مانچسٹروی نے بھی دیگر دیابنہ کی طرح لفظی و تفسیری ترجمہ پر اپنی علمی یتیمی کا بھانڈا پھوڑا ہے، مگر ساتھ ہی لکھا کہ:
"ستم بالائے ستم یہ کہ بریلوی علماء ان تمام اردو تراجم کو صحیح بھی مان رہے ہیں"
(مطالعہ بریلویت، جلد 6 ،ص 96)
اسے کہتے ہیں دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ جب آپ کے گھر کے کبرأ کو بھی تسلیم ہے کہ ہم لفظی ترجمہ کو درست تسلیم کرتے ہیں تو اس بہتان بازی کا مقصد اپنی جاھل عوام کو چورن دینے کے سوا کیا سمجھا جائے؟
یہاں تک تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ "لفظی ترجمہ" اہلسنت کے نزدیک قابل مذمت نہیں
اب نعمانی کو اپنے بقول
"اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے"
اب ہم آپ کو مسلک دیوبند کی روشنی میں "ذنب" کا ترجمہ گناہ کرنے کی خامیاں بھی بیان کئے دیتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ جناب نے کتنا انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔
اس سے پہلے موصوف کا یہ دعویٰ قابل غور ہے:
"مولانا سراج صاحب کے مضمون میں کوئی قباحت ہرگز نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہم لوگ بلا لحاظ خیال خود تردید کر دیتے۔"
ملاں پرستی جتنی دیوبندی مذہب میں پائی جاتی ہے اتنی کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہ لوگ رسول اللّٰہ ﷺ کی توہین برداشت کر لیں گے مگر اپنے مولوی کی توہین ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ خیر! مودودی جماعت کے بانی مبانی ابو الاعلیٰ مودودی نے "ذنب" کا ترجمہ کیا جیسے جناب کے ممدوح قاسمی نے کیا تو آپ کی جماعت کے بزرگ چکوالی گروپ کے بانی قاضی مظہر حسین میدان میں اترے اور کیسے لتاڑا ان کو وہ ملاحظہ فرمائیں، اس سے پہلے کہ آپ پہ چکوالی بوجھ ڈالوں آپ کا دعویٰ کیا تھا یہ دیکھ لیں کہ:
"اب اگر اوپر ذکر کردہ ہمارے مسلک میں کسی کو کوئی قباحت نظر آتی ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے، کیوں کہ یہ لفظ کتاب و سنت میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، یہ کسی دیوبندی کی اپنی دماغ کی اپچ نہیں ہے، اس کے پیچھے مضبوط بنیاد ہے"
ایسی ہی باتیں جناب کے محرف اعظم خالد محمود مانچسٹروی نے کی ہیں لکھتے ہیں:
"خاں صاحب نے اپنے اس من گھڑت ترجمے میں کن کن بزرگوں کے ترجموں سے ٹکر لی ہے یہ ٹکر صرف حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی یا حضرت شیخ الہند سے ہی نہیں صحابہ کرام اور خود حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ترجموں کے بھی خلاف ہے"
(مطالعہ بریلویت ج 2 ،ص، 113)
اب یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ مسلک دیوبند کے نزدیک "ذنب" کا لفظی ترجمہ سے ہٹ کر ترجمہ کرنا نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ٹکر لینے کے مترادف ہے۔
اب اسی کے دفاع میں موصوف نعمانی بھی نکلے تھے۔ لفظی ترجمہ پہ اہلسنت کا موقف کیا ہے وہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ لفظی ترجمہ کرنا درست ہے لیکن موجودہ دور میں لفظی ترجمے کے نقصانات کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
لفظی ترجمہ کو علمائے اہلسنت نے جائز قرار دیا مگر لفظی ترجمے سے پیدا ہونے والی خرابیاں دیوبندیوں نے بھی تسلیم کی ہیں کہ لفظی ترجمہ کی حد تک ترجمہ کرنا بد اعتقادی کا باعث بن سکتا ہے عوام کو یہ وہم لگ سکتا ہے کہ قرآن میں انبیاء جن کو معصوم کہا گیا ان کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوسکتی۔ اس لئے ان آیات کا لفظی ترجمہ کرنے کے بجائے تفسیری ترجمہ مناسب ہے جیسا کہ فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیری ترجمہ ہی فرمایا، جیسا کہ اخلاق قاسمی نے خود تسلیم کیا ہے کہ:
"شاہ ولی اللہ کے ترجمے سے تو یہ بچے اور ’’اپنی طرف سے‘‘کے الفاظ نے ترجمہ کو تفسیر بنا دیا اور ترجمہ کا اختصار ختم ہوگیا لیکن آیت کے مفہوم پر جو اشکال وارد ہو رہا تھا خان صاحب نے اسے ضرور دور کر دیا اور اس حد تک ترجمہ میں اضافہ نا پسندیدہ نہیں"
(محاسن موضح القرآن، ص 765)
اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:
اس قسم کی آیات عام تلاوت کرنے والے کو بڑی الجھن میں ڈال دیتی ہیں ایک طرف قرآن کہتا ہے کہ نبی و رسول معصوم بے گناہ ہوتے ہیں دوسری طرف قرآن ان رسولوں کو مخاطب کرکے سرزنش کرتا ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہاری نیکیاں برباد کر دی جائیں گی
(محاسن موضوع القرآن، ص 769)
آگے چل کر لکھتے ہیں:
ایسی آیات کے ترجمہ کو صرف لفظی ترجمہ کی حد تک لکھنا عام مسلمانوں کے لئے رسولوں کی طرف بد اعتقادی کا سبب بن سکتا ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے ان آیات کے تراجم تاویلی اور تفسیری انداز پر ہونے چاہئیں۔
(محاسن موضوع القرآن، ص 776)
اب ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ:
کیا یہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی وغیرہ کے معتبر اور قابل اعتماد ترجموں کو گمراہ کن اور توہین آمیز قرار دیا گیا؟
کیا عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ ایسی بے شمار آیات ہیں جن کا لفظی ترجمہ کرنے سے بندہ الجھن میں پڑ جاتا ہے؟
اور عقیدہ معصومیت کے خلاف عقیدہ بنا لیتا ہے؟
کیا عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ایسی آیات کا لفظی ترجمہ کرنے سے توہین رسالت ہوتی ہے؟
اور بداعتقادی کا سبب بن جاتی ہیں؟
لہذا ان کا لفظی ترجمہ کرنا درست نہیں تاویلی و تفسیری ترجمہ کیا جائے؟
اب یہ ان کے گھر کے حوالہ جات ہی ان کے گلے کی ہڈی بنے ہیں۔ اب ہم قاسمی کے ترجمہ پہ بھی دیوبندی قواعد کی روشنی میں بات کر کر لیتے ہیں۔
مودودی کے ترجمہ کی بات چل رہی تھی مودودی نے ''ذنب'' کا ترجمہ گناہ کیا تو اس پر آپ ذرا قاضی مظہر چکوالی نے کیا کہا انہی سے سنیے:
یہاں شاہ عبدالقادر صاحب مفسر دہلوی قدس سرہ نے ''ذنب'' کا ترجمہ جو گناہ لکھا ہے تو وہ مجازاً اور صورتا نہ کہ حقیقتاً کیونکہ محکم آیات سے امام المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلقاً معصوم ہونا ثابت ہے اور اس دور میں چونکہ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے تعلیم یافتہ لوگ تھے اور علمی طور پر ایسے مسائل حل کیے جاتے تھے اس لیے ذنب کا ترجمہ گناہ لکھنے سے غلط فہمی کا موقع کم ملتا تھا لیکن موجودہ دور میں چونکہ اہل سنت کے بنیادی عقائد کی تعلیم کم ہے اور بجائے حق پسندی کے حجت بازی کا زور ہے اس لیے ذنب کا ترجمہ ایسے کرنا چاہیے جو اس کی حقیقی مراد ہے چنانچہ حکیم الامت حضرت تھانوی نے ذنب کا ترجمہ خطا لکھا ہے۔
(علمی محاسبہ، ص 298)
یہاں سے یہ باتیں ثابت ہوئیں کہ
شاہ عبدالقادر نے لفظی ترجمہ گناہ کیا۔
گناہ مجازاً اور صورۃ نہ حقیقتاً۔
محکم آیات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت ہے۔
شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے وقت ترجمہ لفظی سے غلط فہمی پیدا نہ ہوتی تھی، لوگ عقائد سے واقف تھے۔
یہ مسائل علمی طور پر حل ہوتے
اب عقائد کی تعلیم کم ہے
حق پسندی نہیں
حجت بازی کا زور ہے
اب ذنب کا ترجمہ ایسا کرنا چاہیے جو اس کی حقیقی مراد ہے۔
اب اولاً ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی جن کے ترجمہ کو دیوبندی الہامی ترجمہ قرار دیتے ہیں انہوں نے ذنب کا ترجمہ کیا تو قاضی مظہر کو اب یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اب ''ذنب'' کا ترجمہ ایسا کرنا چاہیے جو اس کی حقیقی مراد ہے؟ اور پھر قاضی مظہر نے ساتھ ہی لکھا کہ تھانوی نے ''ذنب'' کا ترجمہ خطاء کیا۔
تو بقول خالد محمود مانچسٹروی تھانوی نے شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمے سے کیوں ٹکر لی؟
اس کا جواب تو دیوبندی اور ان کی ذریت دے نہ دے قاضی مظہر نے اس کا بخوبی جواب دے دیا کہ اب عقائد کی تعلیم کم ہے حق پسندی کے بجائے حجت بازی کا زور ہے، اب اس سبب سے عوام میں غلط فہمی پیدا ہوگی۔
تو ہم یہ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ غلط فہمی کیا اور کیسے پیدا ہوگی؟
ہم اس سوال کا جواب بھی ان کو انہیں کے گھر سے دیتے ہیں اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:
اس قسم کی آیات عام تلاوت کرنے والے کو بڑی الجھن میں ڈال دیتی ہیں ایک طرف قرآن کہتا ہے کہ نبی و رسول معصوم بے گناہ ہوتے ہیں دوسری طرف قرآن ان رسولوں کو مخاطب کرکے سرزنش کرتا ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہاری نیکیاں برباد کر دی جائیں گی۔
(محاسن موضوع القرآن، ص 769)
آگے چل کر لکھتا ہے
ایسی آیات کے ترجمہ کو صرف لفظی ترجمہ کی حد تک لکھنا عام مسلمانوں کے لئے رسولوں کی طرف بد اعتقادی کا سبب بن سکتا ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے ان آیات کے تراجم تاویلی اور تفسیری انداز پر ہونے چاہئیں۔
(ایضاً ص 776)
لیجئے جناب! ہم نے آپ کے گھر کی تصریحات سے ہی واضح کر دیا ہے کہ "ذنب" کا ترجمہ اب ’’گناہ‘‘ کرنا باعث گمراہی ہے اس سے عوام الناس کے اعتقاد متزلزل ہونے کا خدشہ ہے۔
اس کے بعد موصوف سرکش گھوڑے کی طرح تفسیری اقوال نقل کئے جس میں لفظ "ذنب" دیکھ کے جناب اچھل کود کر رہے ہیں کہ دیکھیں جی یہ تو فلاں فلاں مفسر نے کہا۔ جبکہ یہی عبارات مودودی نے اپنے دفاع میں پیش کی تھیں تو قاضی مظہر نے جو اسکے محاسبہ میں لکھا وہی ہم یہاں پیش کر کے تحریر کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قاضی مظہر لکھتے ہیں:
علامہ آلوسی کی عربی عبارت میں ذنب کا لفظ ہے لیکن اس کا ترجمہ مودودی صاحب نے بجائے لغزش کے گناہ کیا ہے اس سے مودودی صاحب تعلیم یافتہ طبقہ کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام کا یہ فعل گناہ تھا۔
(علمی محاسبہ، ص 196)
مزید لکھا کہ
علامہ آلوسی اور امام مجاہد نے تو لفظ ذنب لکھا ہے جس کا معنی گناہ نہیں ہے تو پھر آپ نے اکابر پر یہ کیوں بہتان لگایا کہ انہوں نے انبیاء کی طرف گناہ کی نسبت کی
(علمی محاسبہ، ص 196)
مزید لکھتے ہیں
لفظ ذنب کا ترجمہ گناہ سے کرنا انتہائی تلبیس ہے۔
اور صفحہ 196 پر لکھتے ہیں:
لفظ ذنب کا ترجمہ یہاں گناہ کرنا انبیاء کرام کی عظمت کو داغدار بنانے کی ایک ناجائز کوشش ہے۔ واللہ الھادی
صفحہ 209 پر لکھا
دیوبندی مولوی نے مودودی کی تقلید میں ذنب کا ترجمہ گناہ کرکے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔
اب شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمے کو سامنے رکھیں اور موصوف نے جو جاہلانہ باتیں کی ہیں تو ہم انہی کی عبارات کی روشنی میں پوچھتے ہیں کہ کیا
محدث دہلوی نے ذنب کا ترجمہ گناہ کر کے عصمت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو داغدار کیا؟
محدث دہلوی نے کیا انبیاء کی جانب گناہ کی نسبت کی؟
کیا محدث دہلوی نے ذنب کا ترجمہ گناہ کرکے تلبیس کیا؟
کیا محدث دہلوی یہ باور کرا رہے ہیں کہ معاذاللہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ ہوا؟
محدث دہلوی نے یہ ترجمہ کرکے کیا گناہ کیا؟
اور وہ گناہ صغیرہ ہے کہ کبیرہ؟
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو گناہ گار ثابت کرنا کفر ہے کہ نہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ان پر قرضہ رہا۔ اب یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ قاضی مظہر نے تو مودودی ترجمہ کا رد کیا نہ کہ محدث دہلوی کا تو ہم اس پر بھی پوچھتے ہیں کہ
کیا وجہ ہے کہ محدث دہلوی ترجمہ کریں تو جائز مودودی کرے تو عصمت انبیاء کے منافی؟
شاہ صاحب کا یہ ترجمہ بقول تمہارے الہامی ترجمہ ہے تو اب مودودی نے الہامی ترجمہ کے مطابق ترجمہ کیا تو گستاخ جبکہ تھانوی نے الہامی ترجمہ سے انحراف کیا تو حکیم الامت؟
اسے کہتے ہیں سانپ کے منہ میں چھچھندر نہ نگلتے بنے نہ اگلتے۔
اب فیصلہ آپ لوگوں کا دیکھنا ہے کہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمے کو قاضی کے فتوؤں سے بچاتے ہو یا تھانوی کا دفاع کرتے ہو؟
اگر شاہ صاحب کا ترجمہ درست تو مودودی کا گستاخی کیوں؟
یہ وہ لاینحل کی گتھی ہے جسے ذریت نجد سلجھائے مگر
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اب اگر پہلے کسی نے ذنب کا ترجمہ گناہ کیا تو اسے شاہ عبدالقادر کے ترجمے پر محمول کیا جائے گا۔
اور اگر موجودہ دور میں ذنب کا ترجمہ گناہ کرے گا تو اسے مودودی کے ترجمہ پہ محمول کریں گے باقی فتاوی جات کیا ہیں وہ قاضی مظہر حسین سے ہم پیش کر چکے اب اگر پہلے ذنب کے ترجمہ کو یہ کھینچ تان کر دور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین تک لے جاتے ہیں تو قاضی صاحب کی فتاوی جات کو بھی وہاں منطبق کرنے کی جسارت کریں گے؟
تفسیری اقوال جو موصوف نے پیش کئے ہیں اس پہ قاضی مظہر سے ہم تفصیل پیش کر چکے ہیں لہذا یہ ان کے مفاد میں نہ ہوئے بلکہ اس دور میں یہ ترجمہ مودودی کے ترجمہ جیسا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں سمجھتے تو قاضی صاحب کے سارے فتوے کالعدم قرار دیں۔ اور مودودی کو برات کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیں۔
اللّٰہ جل شانہ قبول حق کی توفیق عطا فرمائے۔
حالیہ تناظر میں سراج احمد قاسمی دیوبندی کی ایک تحریر گردش کر رہی تھی۔ جس میں انہوں نے "نبی پاک ﷺ کی جانب گناہ کی نسبت کی"
جس کا کسی نامعلوم شخص نے تعاقب کیا تو ایک دیوبندی، قاسمی کے دفاع میں نکلا جو کوئی حسنین نعمانی نامی شخص ہے۔
موصوف کی تحریر کیا دجل و فریب کا شاخسانہ ہے، وہ اگلے لمحات میں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ دیوبندی مولوی نے کیسے الفاظ کے دھارے میں اپنی گستاخی کے پٹارے کو بند کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
موصوف کا یہ دعویٰ ہے کہ :
"انہیں ہر نفس رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت ہے"
تبصرہ:
اب یہ کون سی محبت و عقیدت ہے کہ ایک شخص کھلم کھلا نبی پاک ﷺ کو معاذ اللّٰہ گنہ گار کہہ رہا ہے، اور دعویٰ یہ ہے کہ ہر نفس رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت ہے"
اس پر عرض یہ ہے کہ جناب! جب آپ کے اکابرین نے کھلم کھلا نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں دشنام طرازی کی تب آپ کی یہ ہر نفس رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کہاں تھی؟
’’دیوبندی مولوی کا کہنا ہے کہ اہلسنت عوام کو جذباتی طور پہ بلیک میل کرتے ہیں۔‘‘
اللّٰہ اللّٰہ ہمارے جذبات ہمارے احساسات سب اس بات پہ ختم ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنا ہو یا بیگانہ، رسول اللّٰہ ﷺ کی توہین کرے، یہ ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔ امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے ہمیں یہی درس ملا کہ استاد ہو یا شاگرد ، پیر ہو یا مرید ، باپ ہو بیٹا ، ماں ہو یا بیٹی، دوست ہو یا کوئی اور، ان میں سے جو بھی رسول اللّٰہ ﷺ کی توہین کا ارتکاب کرے، اسے مکھن سے بال کی طرح باہر نکال دو ۔
دیوبندی وہابی نے توحید کی آڑ میں امت مسلمہ پہ جو شرک کے فتوے جڑے وہ بھلا کس سے پوشیدہ ہیں؟
توحید کے نام پہ انبیاء کی تنقیص،
توحید کے نام پہ اولیاء پہ تنقید،
توحید کے نام پہ امت مسلمہ پہ فتاویٔ شرک، یہ کس مذہب کا وطیرہ ہے؟ تو یقیناً یہ تفویۃ الایمانی دیوخانی اسماعیلی وہابی مذہب کا وطیرہ ہے۔
اب سراج قاسمی دیوبندی کے الفاظ جو حسنین دیوبندی نے نقل کئے ہیں وہ دیکھیں :
’’یہی وہ دن ہے جس میں حق تعالیٰ نے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے۔‘‘
اس پہ جس نا معلوم شخص نے نقد کی ان کے الفاظ حسنین نعمانی کے بقول یہ ہیں:
یارتم لوگ کیسے امتی ہو، یہ جملہ
ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بد مست شرابی خمارِ شراب میں بہک کر کاغذ پر اپنی ذہنی پستی کی غلاظت انڈیل رہا ہے۔تم لوگوں کو اپنے اکابرین کی غلطی، گستاخی نظر نہیں آتی انہوں نے اپنے جیتے جی کون سے گل کھلائے ہیں،
جو*سید المعصومین* ہیں،
جن پر گناہ کا ہلکا سا بھی تصور نہیں ہوسکتا جن کے واسطے اور وسیلے سے ساری امت بخشی جائے گی اس نبی رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں ایسی رکیک اور ناروا جملہ؟ الامان والحفیظ۔
اس پہ حسنین نعمانی دیوبندی کہتا ہے کہ اس نے دیانت داری سے اعتراض نقل کر دیا۔
اس پہ موصوف نے علماء دیوبند کا حاشیہ چڑھا کر ان کا موقف پیش کرنے کی کوشش کی جسے ہم بھی دیانت داری سے یہاں نقل کرتے ہیں۔
اب یہاں اس بات کا سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ بسااوقات انبیاء کے بلند ترین مقام کے اعتبار سے خلافِ اولیٰ کسی عمل کو "ذنب" یعنی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ حقیقتاً وہ عمل گناہ نہیں ہوتا، اسے صوفیاء کی اصطلاح میں "حسنات الأبرار سیئات المقربین"سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی جسے "ذنب" یعنی گناہ کہا جارہا ہے وہ عام افراد کے اعتبار سے کوئی گناہ کا عمل سرے سے نہ ہو، نہ ہی اس پر شریعت میں کوئی پکڑ ہو، البتہ انبیاء کے اعلیٰ و ارفع مرتبے کے لحاظ سے وہ عنداللہ "ذنب"شمار ہوتا ہو، اس لیے اسے "ذنب" سے تعبیر کیا گیا، جیسا کہ قرآنِ کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعےمیں "وعصیٰ آدم" کے الفاظ مذکور ہوئے ہیں۔اس لیے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات سے متعلق جمہور علماء کا یہی مؤقف ہے کہ وہ صغیرہ اور کبیرہ دونوں گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا صدور نہیں ہوتا۔
اس کے بارے میں حسنین نعمانی دیوبندی نے کہا کہ یہ ہے علماء دیوبند کا مسلک۔
اس کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
علماء دیوبند جب بھی ترجمہ قرآن مجید میں یا حدیث شریف میں یا جہاں کہیں مضامین میں انبیاء کے لئے ذنب کا لفظ استعمال کرتے ہیں اسی معنی میں کرتے ہیں،
یہی وجہ ہے کہ مولانا سراج صاحب کے مضمون میں کوئی قباحت ہرگز نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہم لوگ بلا لحاظ خیال خود تردید کردیتے۔
اب اگر اوپر ذکر کردہ ہمارے مسلک میں کسی کو کوئی قباحت نظر آتی ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے، کیوں کہ یہ لفظ کتاب و سنت میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، یہ کسی دیوبندی کی اپنی دماغ کی اپچ نہیں ہے، اس کے پیچھے مضبوط بنیاد ہے، بریلوی گمنام لکھاری کو اپنے بڑوں کی طرح اپنی ذہنی غلاظت اگلنے کا بڑا شوق ہے۔
اب یہاں ہم نے انصاف کے ساتھ حسنین نعمانی دیوبندی کی تحریر آپ کے سامنے رکھی ہے اب جو شخص اپنی ہی کتب سے نا آشنا ہو اس شخص سے گفتگو کا کیا مزہ؟
خیر اگر یہ نا آشنا ہیں تو ہم ان کو آشنائی دلاتے ہوئے ان کے مسلک کے معتمد و مستند اکابرین سے چند اقتباسات پیش کر دیتے ہیں
اول یہ بات موصوف کو خود تسلیم ہے کہ جو ترجمہ قاسمی نے "ذنب" کا گناہ کیا اس کے پیچھے مضبوط دیوار ہے۔
علمائے اہلسنت نے لفظی تراجم کے حوالے سے اپنا موقف واضح فرما دیا ہے چنانچہ شارح بخاری حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:
ترجمے میں کلمات قرآن کا لفظی ترجمہ جائز ہے لیکن ترجمہ سے خارج اپنے بیان میں انہیں الفاظ سے ذکر کرنا ممنوع ہے۔
(فتاوی شارح بخاری ،جلد 1،ص 361)
فتاوی یورپ میں مفتی عبدالواحد قادری فرماتے ہیں:
آیات مقدسہ یا آیات کریمہ میں جہاں الفاظ مذکورہ(ذنب، عصی، ظل، ضل وغیرہا) حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والسلام کی معصوم شخصیتوں سے متعلق ہیں پس ان باتوں کو وہیں تک محدود رکھنا واجب ہے یعنی غیر تلاوت قرآن و حدیث خوانی میں کسی نبی علیہ السلام کی طرف ذنب، عصی، ظلم و ضل وغیرہا کی نسبت حرام و گناہ ہے اور قابل تعزیر و سزا ہے بلکہ علماء رحہم اللہ تعالی کی ایک جماعت نے اسے کفر بتایا۔
(فتاو ی یورپ ،ص 61)
اب یہاں کتنی ہی صراحت کے ساتھ لفظی ترجمہ کو جائز قرار دے کر غیر تلاوت کی تخصیص سے حکم واضح کیا گیا کہ یہ الفاظ فقط ترجمے تک محدود رکھنا واجب ہیں اور غیر تلاوت میں ان کا اطلاق ممنوع و حرام ہے۔
جناب حسنین نعمانی دیوبندی کی جماعت ہی کے ایک بزرگ جو ابھی حال ہی میں مر کر مٹی میں مل گئے ہیں وہ لکھتے ہیں:
"سبائیت کی یہ کارستانی اور ناپاک سازش ہے کہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی وغیرہ کے معتبر اور قابل صد اعتماد ترجموں کو گمراہ کن اور توہین آمیز قرار دیا جا رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ قرآن کے اندر اللہ جل شانہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بہت سارے ایسے الفاظ ہیں جن کا فارسی یا اردو زبان میں ترجمہ کر دینے سے خدا اور رسول کی شان میں گستاخی و توہین ہوتی ہے لہذا ان کا ترجمہ کرنا صحیح نہیں بلکہ ان الفاظ کو عربی زبان کے پردے میں ہی رکھا جائے"
(نرالا مجدد، ص 20,21)
گویا یہ ان کے بڑوں کی بھی عادت ہے کہ اہلسنت کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے عوام الناس کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش کریں حالانکہ ہم دو معتمد اکابرین کی تصریحات پیش کر چکے ہیں کہ ترجمہ کی حد تک "لفظی ترجمہ" کرنا قابل اعتراض نہیں، لیکن غیر ترجمہ میں ایسے الفاظ کا ذکر کرنا توہین کے زمرہ میں آتا ہے جبکہ دیوبندی اصول کے مطابق تو ایسا ترجمہ کرنا بھی توہین و گستاخی ہے آگے چل کے ہم تفصیلاً کلام کریں گے۔
یہاں دیوبندی وہابی مولوی کے ہفوات پہ ایرادات قاہرہ ملاحظہ فرمائیں ۔
ان کا یہ کہنا کہ ہم نے محدثین دہلوی کے تراجم کو گمراہ کن اور توہین آمیز قرار دیا اس میں کتنی صداقت ہے ملاحظہ فرمائیں۔ امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتاوی رضویہ جلد نہم صفحہ 808 میں فرماتے ہیں:
"مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ موضح القرآن میں زیر کریمہ وما انت بسمع من فی القبور فرماتے ہیں"
(فتاوی رضویہ، جلد نہم،ص 808)
یہ تو رہی بات فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی اب ہم ایک زناٹے دار تھپڑ دیوبندی مفتی کو اسی کے گھر سے رسید کرتے ہیں۔ اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:
"مولانا احمد رضا خان صاحب نے بھی شاہ صاحب کے ترجمے کو پسند کیا ہے "
(محاسن موضح القرآن ،ص 759)
صفحہ 765 پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور امام اہل سنت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"شاہ ولی اللہ کے ترجمہ سے تو یہ بچے اور ''اپنی طرف سے کے الفاظ نے ترجمہ کو تفسیر بنا دیا اور ترجمہ کا اختصار ختم ہوگیا لیکن آیت کا مفہوم پر جو اشکال وارد ہو رہا تھا خان صاحب نے اسے ضرور دور کر دیا اور اس حد تک ترجمہ میں اضافہ ناپسندیدہ نہیں"
اب یہاں جناب کے گھر کی شہادتوں سے بھی واضح ہوا کہ علمائے اہلسنت بالخصوص امام اہل سنت نے محدث دہلوی کے لفظی تراجم کی مخالفت نہ کی۔ نیز موجودہ دور کے ایک جید دیوبندی مولوی لکھتے ہیں:
"لطف کی بات یہ ہے کہ احمد رضا نے ان ترجموں پر اور مترجموں پر یعنی شاہ عبدالقادر محدث دہلوی پر کبھی کفر کا فتوی بھی اس وجہ سے نہیں لگایا کہ انہوں نے ترجمہ کیا ہے جبکہ شاہ عبدالقادر کا ترجمہ خود احمد رضا بھی استعمال کرتے رہے"
(نور سنت کنزالایمان نمبر، ص 4)
یہاں دیوبندی نجیب اللہ نے صاف تسلیم کیا کہ امام اہل سنت نے محدث دہلوی کے ترجمہ کو درست تسلیم کیا، نہ کہ توہین آمیز اور گمراہ کن۔ یہ ایسا زناٹے دار تھپڑ موصوف کو گھر ہی سے پڑا کہ اب کف افسوس ہی ملتے رہیں گے۔
گھر کے طمانچوں کے بعد چل پڑی تو ایک گھونسہ ڈاکٹر خالد محمود مانچسٹروی کا بھی رسید کرتے ہیں خالد محمود مانچسٹروی نے بھی دیگر دیابنہ کی طرح لفظی و تفسیری ترجمہ پر اپنی علمی یتیمی کا بھانڈا پھوڑا ہے، مگر ساتھ ہی لکھا کہ:
"ستم بالائے ستم یہ کہ بریلوی علماء ان تمام اردو تراجم کو صحیح بھی مان رہے ہیں"
(مطالعہ بریلویت، جلد 6 ،ص 96)
اسے کہتے ہیں دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ جب آپ کے گھر کے کبرأ کو بھی تسلیم ہے کہ ہم لفظی ترجمہ کو درست تسلیم کرتے ہیں تو اس بہتان بازی کا مقصد اپنی جاھل عوام کو چورن دینے کے سوا کیا سمجھا جائے؟
یہاں تک تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ "لفظی ترجمہ" اہلسنت کے نزدیک قابل مذمت نہیں
اب نعمانی کو اپنے بقول
"اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے"
اب ہم آپ کو مسلک دیوبند کی روشنی میں "ذنب" کا ترجمہ گناہ کرنے کی خامیاں بھی بیان کئے دیتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ جناب نے کتنا انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔
اس سے پہلے موصوف کا یہ دعویٰ قابل غور ہے:
"مولانا سراج صاحب کے مضمون میں کوئی قباحت ہرگز نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہم لوگ بلا لحاظ خیال خود تردید کر دیتے۔"
ملاں پرستی جتنی دیوبندی مذہب میں پائی جاتی ہے اتنی کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہ لوگ رسول اللّٰہ ﷺ کی توہین برداشت کر لیں گے مگر اپنے مولوی کی توہین ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ خیر! مودودی جماعت کے بانی مبانی ابو الاعلیٰ مودودی نے "ذنب" کا ترجمہ کیا جیسے جناب کے ممدوح قاسمی نے کیا تو آپ کی جماعت کے بزرگ چکوالی گروپ کے بانی قاضی مظہر حسین میدان میں اترے اور کیسے لتاڑا ان کو وہ ملاحظہ فرمائیں، اس سے پہلے کہ آپ پہ چکوالی بوجھ ڈالوں آپ کا دعویٰ کیا تھا یہ دیکھ لیں کہ:
"اب اگر اوپر ذکر کردہ ہمارے مسلک میں کسی کو کوئی قباحت نظر آتی ہے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہئے، کیوں کہ یہ لفظ کتاب و سنت میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، یہ کسی دیوبندی کی اپنی دماغ کی اپچ نہیں ہے، اس کے پیچھے مضبوط بنیاد ہے"
ایسی ہی باتیں جناب کے محرف اعظم خالد محمود مانچسٹروی نے کی ہیں لکھتے ہیں:
"خاں صاحب نے اپنے اس من گھڑت ترجمے میں کن کن بزرگوں کے ترجموں سے ٹکر لی ہے یہ ٹکر صرف حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی یا حضرت شیخ الہند سے ہی نہیں صحابہ کرام اور خود حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ترجموں کے بھی خلاف ہے"
(مطالعہ بریلویت ج 2 ،ص، 113)
اب یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ مسلک دیوبند کے نزدیک "ذنب" کا لفظی ترجمہ سے ہٹ کر ترجمہ کرنا نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ٹکر لینے کے مترادف ہے۔
اب اسی کے دفاع میں موصوف نعمانی بھی نکلے تھے۔ لفظی ترجمہ پہ اہلسنت کا موقف کیا ہے وہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ لفظی ترجمہ کرنا درست ہے لیکن موجودہ دور میں لفظی ترجمے کے نقصانات کیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
لفظی ترجمہ کو علمائے اہلسنت نے جائز قرار دیا مگر لفظی ترجمے سے پیدا ہونے والی خرابیاں دیوبندیوں نے بھی تسلیم کی ہیں کہ لفظی ترجمہ کی حد تک ترجمہ کرنا بد اعتقادی کا باعث بن سکتا ہے عوام کو یہ وہم لگ سکتا ہے کہ قرآن میں انبیاء جن کو معصوم کہا گیا ان کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوسکتی۔ اس لئے ان آیات کا لفظی ترجمہ کرنے کے بجائے تفسیری ترجمہ مناسب ہے جیسا کہ فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیری ترجمہ ہی فرمایا، جیسا کہ اخلاق قاسمی نے خود تسلیم کیا ہے کہ:
"شاہ ولی اللہ کے ترجمے سے تو یہ بچے اور ’’اپنی طرف سے‘‘کے الفاظ نے ترجمہ کو تفسیر بنا دیا اور ترجمہ کا اختصار ختم ہوگیا لیکن آیت کے مفہوم پر جو اشکال وارد ہو رہا تھا خان صاحب نے اسے ضرور دور کر دیا اور اس حد تک ترجمہ میں اضافہ نا پسندیدہ نہیں"
(محاسن موضح القرآن، ص 765)
اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:
اس قسم کی آیات عام تلاوت کرنے والے کو بڑی الجھن میں ڈال دیتی ہیں ایک طرف قرآن کہتا ہے کہ نبی و رسول معصوم بے گناہ ہوتے ہیں دوسری طرف قرآن ان رسولوں کو مخاطب کرکے سرزنش کرتا ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہاری نیکیاں برباد کر دی جائیں گی
(محاسن موضوع القرآن، ص 769)
آگے چل کر لکھتے ہیں:
ایسی آیات کے ترجمہ کو صرف لفظی ترجمہ کی حد تک لکھنا عام مسلمانوں کے لئے رسولوں کی طرف بد اعتقادی کا سبب بن سکتا ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے ان آیات کے تراجم تاویلی اور تفسیری انداز پر ہونے چاہئیں۔
(محاسن موضوع القرآن، ص 776)
اب ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ:
کیا یہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی وغیرہ کے معتبر اور قابل اعتماد ترجموں کو گمراہ کن اور توہین آمیز قرار دیا گیا؟
کیا عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ ایسی بے شمار آیات ہیں جن کا لفظی ترجمہ کرنے سے بندہ الجھن میں پڑ جاتا ہے؟
اور عقیدہ معصومیت کے خلاف عقیدہ بنا لیتا ہے؟
کیا عوام کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ایسی آیات کا لفظی ترجمہ کرنے سے توہین رسالت ہوتی ہے؟
اور بداعتقادی کا سبب بن جاتی ہیں؟
لہذا ان کا لفظی ترجمہ کرنا درست نہیں تاویلی و تفسیری ترجمہ کیا جائے؟
اب یہ ان کے گھر کے حوالہ جات ہی ان کے گلے کی ہڈی بنے ہیں۔ اب ہم قاسمی کے ترجمہ پہ بھی دیوبندی قواعد کی روشنی میں بات کر کر لیتے ہیں۔
مودودی کے ترجمہ کی بات چل رہی تھی مودودی نے ''ذنب'' کا ترجمہ گناہ کیا تو اس پر آپ ذرا قاضی مظہر چکوالی نے کیا کہا انہی سے سنیے:
یہاں شاہ عبدالقادر صاحب مفسر دہلوی قدس سرہ نے ''ذنب'' کا ترجمہ جو گناہ لکھا ہے تو وہ مجازاً اور صورتا نہ کہ حقیقتاً کیونکہ محکم آیات سے امام المعصومین صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلقاً معصوم ہونا ثابت ہے اور اس دور میں چونکہ اہل سنت والجماعت کے عقائد سے تعلیم یافتہ لوگ تھے اور علمی طور پر ایسے مسائل حل کیے جاتے تھے اس لیے ذنب کا ترجمہ گناہ لکھنے سے غلط فہمی کا موقع کم ملتا تھا لیکن موجودہ دور میں چونکہ اہل سنت کے بنیادی عقائد کی تعلیم کم ہے اور بجائے حق پسندی کے حجت بازی کا زور ہے اس لیے ذنب کا ترجمہ ایسے کرنا چاہیے جو اس کی حقیقی مراد ہے چنانچہ حکیم الامت حضرت تھانوی نے ذنب کا ترجمہ خطا لکھا ہے۔
(علمی محاسبہ، ص 298)
یہاں سے یہ باتیں ثابت ہوئیں کہ
شاہ عبدالقادر نے لفظی ترجمہ گناہ کیا۔
گناہ مجازاً اور صورۃ نہ حقیقتاً۔
محکم آیات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معصوم ہونا ثابت ہے۔
شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے وقت ترجمہ لفظی سے غلط فہمی پیدا نہ ہوتی تھی، لوگ عقائد سے واقف تھے۔
یہ مسائل علمی طور پر حل ہوتے
اب عقائد کی تعلیم کم ہے
حق پسندی نہیں
حجت بازی کا زور ہے
اب ذنب کا ترجمہ ایسا کرنا چاہیے جو اس کی حقیقی مراد ہے۔
اب اولاً ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی جن کے ترجمہ کو دیوبندی الہامی ترجمہ قرار دیتے ہیں انہوں نے ذنب کا ترجمہ کیا تو قاضی مظہر کو اب یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اب ''ذنب'' کا ترجمہ ایسا کرنا چاہیے جو اس کی حقیقی مراد ہے؟ اور پھر قاضی مظہر نے ساتھ ہی لکھا کہ تھانوی نے ''ذنب'' کا ترجمہ خطاء کیا۔
تو بقول خالد محمود مانچسٹروی تھانوی نے شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمے سے کیوں ٹکر لی؟
اس کا جواب تو دیوبندی اور ان کی ذریت دے نہ دے قاضی مظہر نے اس کا بخوبی جواب دے دیا کہ اب عقائد کی تعلیم کم ہے حق پسندی کے بجائے حجت بازی کا زور ہے، اب اس سبب سے عوام میں غلط فہمی پیدا ہوگی۔
تو ہم یہ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ غلط فہمی کیا اور کیسے پیدا ہوگی؟
ہم اس سوال کا جواب بھی ان کو انہیں کے گھر سے دیتے ہیں اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں:
اس قسم کی آیات عام تلاوت کرنے والے کو بڑی الجھن میں ڈال دیتی ہیں ایک طرف قرآن کہتا ہے کہ نبی و رسول معصوم بے گناہ ہوتے ہیں دوسری طرف قرآن ان رسولوں کو مخاطب کرکے سرزنش کرتا ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہاری نیکیاں برباد کر دی جائیں گی۔
(محاسن موضوع القرآن، ص 769)
آگے چل کر لکھتا ہے
ایسی آیات کے ترجمہ کو صرف لفظی ترجمہ کی حد تک لکھنا عام مسلمانوں کے لئے رسولوں کی طرف بد اعتقادی کا سبب بن سکتا ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے ان آیات کے تراجم تاویلی اور تفسیری انداز پر ہونے چاہئیں۔
(ایضاً ص 776)
لیجئے جناب! ہم نے آپ کے گھر کی تصریحات سے ہی واضح کر دیا ہے کہ "ذنب" کا ترجمہ اب ’’گناہ‘‘ کرنا باعث گمراہی ہے اس سے عوام الناس کے اعتقاد متزلزل ہونے کا خدشہ ہے۔
اس کے بعد موصوف سرکش گھوڑے کی طرح تفسیری اقوال نقل کئے جس میں لفظ "ذنب" دیکھ کے جناب اچھل کود کر رہے ہیں کہ دیکھیں جی یہ تو فلاں فلاں مفسر نے کہا۔ جبکہ یہی عبارات مودودی نے اپنے دفاع میں پیش کی تھیں تو قاضی مظہر نے جو اسکے محاسبہ میں لکھا وہی ہم یہاں پیش کر کے تحریر کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قاضی مظہر لکھتے ہیں:
علامہ آلوسی کی عربی عبارت میں ذنب کا لفظ ہے لیکن اس کا ترجمہ مودودی صاحب نے بجائے لغزش کے گناہ کیا ہے اس سے مودودی صاحب تعلیم یافتہ طبقہ کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ حضرت یونس علیہ السلام کا یہ فعل گناہ تھا۔
(علمی محاسبہ، ص 196)
مزید لکھا کہ
علامہ آلوسی اور امام مجاہد نے تو لفظ ذنب لکھا ہے جس کا معنی گناہ نہیں ہے تو پھر آپ نے اکابر پر یہ کیوں بہتان لگایا کہ انہوں نے انبیاء کی طرف گناہ کی نسبت کی
(علمی محاسبہ، ص 196)
مزید لکھتے ہیں
لفظ ذنب کا ترجمہ گناہ سے کرنا انتہائی تلبیس ہے۔
اور صفحہ 196 پر لکھتے ہیں:
لفظ ذنب کا ترجمہ یہاں گناہ کرنا انبیاء کرام کی عظمت کو داغدار بنانے کی ایک ناجائز کوشش ہے۔ واللہ الھادی
صفحہ 209 پر لکھا
دیوبندی مولوی نے مودودی کی تقلید میں ذنب کا ترجمہ گناہ کرکے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔
اب شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمے کو سامنے رکھیں اور موصوف نے جو جاہلانہ باتیں کی ہیں تو ہم انہی کی عبارات کی روشنی میں پوچھتے ہیں کہ کیا
محدث دہلوی نے ذنب کا ترجمہ گناہ کر کے عصمت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو داغدار کیا؟
محدث دہلوی نے کیا انبیاء کی جانب گناہ کی نسبت کی؟
کیا محدث دہلوی نے ذنب کا ترجمہ گناہ کرکے تلبیس کیا؟
کیا محدث دہلوی یہ باور کرا رہے ہیں کہ معاذاللہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ ہوا؟
محدث دہلوی نے یہ ترجمہ کرکے کیا گناہ کیا؟
اور وہ گناہ صغیرہ ہے کہ کبیرہ؟
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو گناہ گار ثابت کرنا کفر ہے کہ نہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ان پر قرضہ رہا۔ اب یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ قاضی مظہر نے تو مودودی ترجمہ کا رد کیا نہ کہ محدث دہلوی کا تو ہم اس پر بھی پوچھتے ہیں کہ
کیا وجہ ہے کہ محدث دہلوی ترجمہ کریں تو جائز مودودی کرے تو عصمت انبیاء کے منافی؟
شاہ صاحب کا یہ ترجمہ بقول تمہارے الہامی ترجمہ ہے تو اب مودودی نے الہامی ترجمہ کے مطابق ترجمہ کیا تو گستاخ جبکہ تھانوی نے الہامی ترجمہ سے انحراف کیا تو حکیم الامت؟
اسے کہتے ہیں سانپ کے منہ میں چھچھندر نہ نگلتے بنے نہ اگلتے۔
اب فیصلہ آپ لوگوں کا دیکھنا ہے کہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمے کو قاضی کے فتوؤں سے بچاتے ہو یا تھانوی کا دفاع کرتے ہو؟
اگر شاہ صاحب کا ترجمہ درست تو مودودی کا گستاخی کیوں؟
یہ وہ لاینحل کی گتھی ہے جسے ذریت نجد سلجھائے مگر
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اب اگر پہلے کسی نے ذنب کا ترجمہ گناہ کیا تو اسے شاہ عبدالقادر کے ترجمے پر محمول کیا جائے گا۔
اور اگر موجودہ دور میں ذنب کا ترجمہ گناہ کرے گا تو اسے مودودی کے ترجمہ پہ محمول کریں گے باقی فتاوی جات کیا ہیں وہ قاضی مظہر حسین سے ہم پیش کر چکے اب اگر پہلے ذنب کے ترجمہ کو یہ کھینچ تان کر دور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین تک لے جاتے ہیں تو قاضی صاحب کی فتاوی جات کو بھی وہاں منطبق کرنے کی جسارت کریں گے؟
تفسیری اقوال جو موصوف نے پیش کئے ہیں اس پہ قاضی مظہر سے ہم تفصیل پیش کر چکے ہیں لہذا یہ ان کے مفاد میں نہ ہوئے بلکہ اس دور میں یہ ترجمہ مودودی کے ترجمہ جیسا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں سمجھتے تو قاضی صاحب کے سارے فتوے کالعدم قرار دیں۔ اور مودودی کو برات کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیں۔
اللّٰہ جل شانہ قبول حق کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین