Type Here to Get Search Results !

اب ہمیں اطمینان سے سونے کی بجائے اپنے آپ کو اندر سے مضبوط کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے


پس پردہ بالآخر نفرت کی آندھی تھم گئی
اب ہمیں اطمینان سے سونے کی بجائے اپنے آپ کو اندر سے مضبوط کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
چھ ماہ پہلے تک ایسا محسوس ہورہاتھا کہ نفرت وعداوت کے سرکش سیلابی ریلے میں ہندوستان کی سرزمین پر برسوں سےزندہ مذہبی رواداری بہہ جائے گی اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے علاقے ویرانے میں تبدیل ہوجائیںگے، لیکن زمینی مشاہدات کے جھروکوں سے دکھائی دینے والے تشویشناک حالات تیزی سے تبدیل ہوگئے ، اوروہ بھی اس قدر تیزی کے ساتھ کہ فرقہ پرستی کی آگ جلا کر ذاتی مفادات حاصل کرنے والے سرکردہ سیاسی عمائدین بھی انگشت بدن داں ہیں ۔
 کوئی شک نہیں کہ حالیہ انتخابات کے نتائج نہ صرف برسراقتدار جماعت کے لیے حیران کن ہیں ، بلکہ حزب اختلاف کے لیے بھی ۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اسے ہمیں اس پس منظر میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ جیت کس کی ہوئی ہے ، یا ہزیمت سے کون دوچار ہوا ہے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ مذہبی رواداری سرخرو ہوئی ہے، جب کہ ہزیمت بہر کیف فرقہ پرستی کی ہوئی ہے، نفرت وعداوت کی ہوئی ہے اور ظلم وتشدد کی ہوئی ہے ۔ اور کہنے دیا جائے کہ موجودہ حالات میں ہر امن پسند شہری کے لیے یہ خموش پیغام نہایت ہی امید افزا ہے ۔
 ذرائع ابلاغ کے پروگراموں میں اب یہ موضوع زیر بحث ہے کہ عوام نے حالیہ انتخابات میں مذہبی منافرت کے خلاف اپنے غم وغصے کا اظہار کیا ہے ۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنے سیاسی فائدے کے لیے باہمی تعلقات کو کشیدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ، وہ اب اپنی متعصبانہ حکمت عملی پر از سر نو غورکرنے پر مجبور ہوں گے ۔ اس طرح اب شاید بہت دنوں تک ہندوستانی سرزمین کسی حدتک پرسکون رہے ۔ اللہ کرے اسے دوام حاصل ہوجائے ۔ یہ خوش فہمی ہمیں اس لیے ہے کہ عموما جہاں کہیں بھی سرکار ی سطح پر کسی چیز کی پذیرائی ہوتی ہے تو ، وہ چیز پروان چڑھتی ہے اور جب اُسی چیز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ، تووہ چیز قصہ پارینہ بن جاتی ہے ۔ اب چونکہ حالیہ انتخابات کے نتائج مذہبی منافرت کے خلاف ہیں ، اس لیے بجاطورپر ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ اب ہر اعتبار سے نہ سہی، جزوی پس منظر میں امن وسلامتی اور باہمی رواداری کی خنک ہوائیں ہمارے مشام جاں کو معطرکرتی رہیں گی۔
 یہ تورہی ایک بات، اب آئیے ملی پس منظر میں دوباتوں پر غور کرتے ہیں ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ برقی ذرائع ابلاغ پر ایک حوصلہ شکن خیالات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مرکزی حکومت میںایک بھی مسلم کرسی وزارت سے سرفراز نہیں کیا گیا ہے ۔ اس لیے اسے ’مسلم مکت حکومت‘ کہنا چاہیے ۔ ظاہرہے کہ اس طرح کی باتوں سے مسلم معاشرےمیں قنوطیت ومایوسی پھیلے گی ، جو ہماری ملی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے توکوئی تعجب نہیں ۔ میرے خیال میں اِسے نتیجے کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے ۔ کیا اس حقیقت میں دورائے ہے کہ اگر کسی سیاسی پارٹی میں دوچارنہیں، دس بیس بھی ایم ایل اے یا ایم پی اپنے ہوں ، جب بھی مسلم مسائل کی حمایت یا مخالفت میں کوئی توانا آواز اس وقت تک نہیں اٹھ سکتی، جب تک متعلقہ سیاسی پارٹی خود نہ چاہے ۔ٹھیک اسی طرح اگر مرکزی سرکار ہی مسلم مخالفت پر کمربستہ ہو، توایک دومسلم وزرا کے رہنے یا نہ رہنے سے نتیجے کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کے زیر سایہ سابقہ وزارت میں دوچار مسلم چہرے کس درجہ ملی حمیت وغیرت رکھتے رہے ہیں ، وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں ، بلکہ کہنے دیا جائے کہ تاریخ شاہد ہے کہ فرقہ پرستوں کے سائے میں رہنے والے اپنے بھی ، مسلمانوں کے مفادات کے خلاف اٹھنے والے اقدامات کی مخالفت نہیں ، بلکہ غیر منطقی توجیہ ہی کرتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں موجودہ حکومت میں مسلم نمائندگی پر نہ توخوش ہونے کی ضرورت ہے اور نہ عدم نمائندگی پر مایوس ہونے کی ۔
 دوسری ایک اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہماری قوم پر جب کوئی آفت ٹوٹ پڑتی ہے تو ہم جاگ جاتے ہیں اور جب ذرا ماحول قدرے بہتر ہوجائے ، توہم گہری نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں ۔ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ ملی حیات کے لیے نہایت ہی خطرناک ہے ۔اس کے برعکس ہماری پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ جب حالات تکلیف دہ ہوں ، توآئینی حقوق کی روشنی میں سینہ سپر ہوجائیں اور حتی الامکان جد وجہد جاری رکھیں ، پھر جب حالات کسی قدر بہتر ہوجائیں ، تومستقبل میں ملی مفادات کے تحفظ کے لیے تیاری شروع کردیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ غیروں کے درمیان رہتے ہوئے جو بھی سہولت میسرآرہی ہے ، وہ دائمی نہیں ہے ، بلکہ عارضی ہے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جو قومیں سوجاتی ہے ، وہ ہمیشہ کے لیے سلادی جاتی ہیں اور جو قومیں جاگتی رہتی ہیں ، وہ فلاح وکامرانی اور وقار وتمکنت سے ہم کنار ہوجاتی ہیں ۔ لہذا ہمیں حالیہ انتخابات میں فرقہ پرستی کی شکست سے نہ توبہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی دوسروں کی فتح وکامرانی کا جشن منانے کی ، اس لیے کہ غیر پورے طورپر کبھی بھی ہمارے اپنے نہیں ہوسکتے ، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اب تو ہمارے اپنے بھی بوقت ضرورت اپنے ثابت نہیں ہورہے ہیں ۔ خیال رہے کہ وقت بہت کم ہے ۔ حالات کی نزاکت کی تفہیم کے لیے برف فروش کی مثال اپنے سامنے رکھیے اور اس سے درس عبرت لیجیے ۔ برف فروش وہ ہے ، جس کا مال ہر آنے والے لمحے میں کم ہورہاہے ۔ کوئی اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ بھی کرے ، جب بھی صرف اس کی عدم توجہ ہی اسے خائب وخاسر کرنے کے لیے کافی ہے۔تاہم اگر وہ پوری طرح چاق وچوبند ہے اور محنت ومشقت بھی کررہاہے ، نیز حکمت ودانائی کے ساتھ ایسے علاقے میں اپنی ریڑھی لگارہاہے ، جہاں لوگ برف کے محتاج ہیں ، توامید قوی ہے کہ ضائع ہونے سے پہلے ہی وہ اپنا سامان تجارت فروخت کرلے گا۔
  صاحبو! مرکز میں خواہ کسی کی بھی حکومت ہو، ہماری ترقی وخوش حالی اوروقار وعزت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ حکومت اگر مسلم مخالف ہوتوکچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ، تاہم اگرحکومت کسی قدر مسلمانوں کی خیر خواہ ہو، جب بھی وہ ہمارے لیے اُس وقت تک مفید ثابت نہیں ہوسکتی ، جب تک ہمارے معاشرے میں ترقی وخوش حالی کے لیے مطلوبہ صلاحیت رکھنے والے افراد نہ ہوں ۔ کیا اس حقیقت میں کوئی شک ہے کہ دنیاوی پس منظر میں اہلیت وصلاحیت ہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ معاشرہ باصلاحیت ہوجائے ، توایک نہ ایک دن ترقی وخوش حالی خود ہماری دہلیز پر سجدہ ریز ہوگی ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ صلاحیت واہلیت کے نکھارنے میں حالات کے ساز گار ہونے کو مرکزی کردار حاصل ہے ۔ چونکہ اللہ رب العزت نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں تشویشناک صورت سے باہر نکال دیا ہے ، اس لیے اب حالات پہلےسے زیادہ سازگار ہوگئے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ اسے غنیمت شمار کریں اور سونے کی بجائے غور وفکر، جد وجہد، تگ ودو کے لیےپورے طورپر کمر بستہ ہوجائیں-

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area