Type Here to Get Search Results !

لکی کمیٹی اور بولی والی کمیٹی کے بابت شرعا کیا حکم ہے؟

 (سوال نمبر 5279)
لکی کمیٹی اور بولی والی کمیٹی کے بابت شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے متعلق
مروجہ لکی کمیٹی کا شرعی حکم کیا ہے نیز بولی والی کمیٹی کا طریقہ کار اور شرعی حکم بتفصیل و بدلیل بیان فرما دیں
سائل:- کامران شہر خوشاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
لکی کمیٹی شرعا جائز ہے 
اور بولی والی کمیٹی شرعا جائز نہیں ہے 
1/ لکی کمیٹی یعنی چند احباب مل کر اپنی تھوڑی تھوڑی پس انداز رقم کو ماہ بماہ کسی کے پاس جمع کر تے رہتے ہیں پھر ہر مہینے پہلے سے طے شدہ پروگرام یا قرعہ انداز کے ذریعے تمام جمع شدہ رقم ممبران میں سے کوئی ایک لے لیتا ہے یہ جسے رقم مل جا تی ہے ، اس کا نام آئندہ طے شدہ پروگرام یا قرعہ انداز ی میں شامل نہیں کیا جا تا، البتہ اپنی پس انداز رقم ہر ماہ ادا کر تا رہتا ہے، اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ یہ ایک امداد باہمی کا ذریعہ ہے، اس طریقہ سے تھوڑی تھوڑی رقم یکمشت مل جا تی ہے جسے کسی ہنگامی مصرف میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔
2/ بولی والی کمیٹی اس کی صورت یہ ہو تی ہے کہ چند آدمی مل کر کمیٹی ڈالتے ہیں، پھر ایک مقررہ تاریخ پر اس جمع شدہ رقم کی بولی لگائی جا تی ہے، جو ممبر سب سے کم بولی لگائے اسے جمع شدہ رقم دے دی جا تی ہے ۔ مثلاً اگر جمع شدہ رقم پچاس ہزار روپیہ ہے تو اس کی چالیس ہزار بولی لگانے والے کو چالیس ہزار دے دیا جا تاہے، باقی دس ہزار رقم تمام ممبران آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں ، اس کے ناجائز اور حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ یہ ایک کاروبار ہے، اس میں امداد باہمی کا جذبہ نہیں پایا جا تا، یہ کاروبار اس لیے نا جائز ہے کہ اس کی بنیاد نا جائز ذرائع سے مال کھانےپر ہے
فتاوی اہل سنت میں ہے 
عام طور پر کمیٹی اس طرح ڈالی جاتی ہے کہ ہرمہینے کچھ افراد مقررہ مقدار میں پیسے جمع کرواتےہیں اور کسی ایک کا نام منتخب کرکے جمع شدہ پیسے اسے دے دیتےہیں یوں آگے پیچھے تمام افراد کوایک ایک کرکے اپنے جمع کروائے ہوئے پیسے مل جاتےہیں۔ اس انداز پر رہ کر یہ کمیٹی ڈالنا ، جائز اور درست ہے۔ 
البتہ کچھ کمیٹیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں بولی لگائی جاتی ہے اور جو سب سے کم بولی لگاتا ہے بولی شدہ رقم اس کو دے دی جاتی ہے اور باقی جو رقم بچتی ہے وہ دیگر شرکاء میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ مثلاً کمیٹی کی جمع شدہ مجموعی رقم دو لاکھ روپے ہے اب اگر کسی نے سب سے کم بولی ایک لاکھ اسی ہزار روپے لگائی تو ان دو لاکھ روپے میں سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے بولی لگانے والے کو مل جائیں گے اور بقیہ بیس ہزار روپے دیگر ممبران میں تقسیم کردئیےجائیں گے لیکن کمیٹی لینے والے ممبر کو مجموعی طور پر دو لاکھ روپے ہی جمع کروانے پڑیں گے۔ یہ سود کی صورت ہے ، ایسی کمیٹی ڈالنا حرام و گناہ ہے۔
(فتاوی اہل سنت ماہنامہ فیضان مدینہ 1442)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area