(سوال نمبر 5280)
کیا دین اسلام میں کاسٹ ذات پات کا کوئی سسٹم نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
۱) دین اسلام میں کاسٹ کا کوئی سسٹم نہیں ہے جیسے انصاری پٹھان سید سب same ہے ۔
کہیں کہیں دیکھا بھی جاتا ہے کہ، کوئی شیخ ہے تو وہ انصاری سے راستہ نہیں کریگا وغیرہ اور کوئی سید ہے آل رسول ﷺ ہے تو ہم الحمدللہ سب کے لئے جان سے زیادہ عزت احترام ہے، لیکِن کیا اور مسلمنوں کے طرح سید بھی کاسٹ وغیرہ میں same ہونگے ۔ اسلام میں کاسٹ کا کیا ہے ہم سب کی قرآن حدیث کے روشنی میں اصلاح فرمائے حضرت۔
۲)انصاری community کا ابتداء انڈیا میں کب سے ہوا اور کیا انصاری کا تعلق عرب ہے اور کیا یہ سب قبیلہ انصار سے ہیں جو مدینہ منورہ میں تھا ۔ ان کی تاریخ برائے کرام بتائے ۔
۳) حضرت کوئی خاص وظیفہ ارشاد فرمائے جس کے ذریعے جادو جنت آسیب سارے چیزوں سے حفاظت ہو سکے۔
۴)حضرت مینے کچھ علماء اہل سنت سے سنا ہے کہ ، علماء آل رسول سے افضل ہیں ، اس کی کیا حقیقت ہے دلیل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائی ۔
جزاک اللہ خیرا ۔۔
سائل:- محمد آفتاب ، ویسٹ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
1/ سب کاسٹ سیم نہیں ہے
سید کا لفظی مطلب سردار کا ہے جو احتراماً ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ سادات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر ان کی زیادہ تعداد عرب علاقوں، ایران، پاکستان، ہندوستان، ترکی اور وسط ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ سادات سنی اور شیعہ دونوں مسلکوں میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ سادات کرام کا نسبی تعلق حضور سرور کائنات فخر موجو دات صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اس لئے ان جیسا کوئی کاست نہیں
2/ ہند میں موجودہ انصاری قبلیہ انصار سے نہیں ہے پیشے کی وجہ سے انصاری کہا جاتا ہے ۔
3/ صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھیں
1/ آیۃ الکرسی اور آخری تین قل ۔
2 /؛فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَی مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَیُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ
3/ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لاَمَّةٍ۔
3/ علماء آل رسول سے افضل نہیں۔
رہا دوسری ذات برادری والوں کا تعلق کن شخصیتوں اور کس سبب سے ہے تو اس سلسلے میں فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
عربوں میں طلوع آفتاب اسلام سےقبل پشتہاپشت سےنسب محفوظ رکھنےکاعام رواج تھا برخلاف عجمیوں کے کہ اس پر ان کی کوئی خاص توجہ نہیں تھی اسی لئے ان کانسب نامہ محفوظ نہیں رہا لیکن ہندوستانی لوگ جب اسلام قبول کرتے گئے تو قوم مسلم میں انہیں اپنی شناخت وپہچان کی ضرورت پڑی اس طرح انہیں ہندوستانی مسلمانوں میں ذات برادری کالحاظ ہونےلگا اور یہ دو امورسےہوا
1/ ایک نسب سے
2/ دوسرا پیشہ سے
ہندوستان میں نسب کے اعتبار سے چارقومیں مشہور ہیں
(1) سید (2) مغل (3) خان
(4) شیخ پھر شیخ دوطرح کےہوتے ہیں ایک قریشی جنہیں شیخ صدیقی شیخ فاروقی شیخ علوی شیخ جعفری کہتے ہیں
دوسرے غیر قریشی جو شیخ انصاری کہلاتے ہیں یہ اقوام اپنا اپنانسب ثابت کرتی ہیں اور اپنے آپ کو ان کی نسل واولاد میں سےکہتی ہیں
فتاوی رضویہ میں ہے
ہندوستان میں مسلمانوں نے تین قومیں خاص شریف قراردیں اور انہیں سید یامیر اورخان بیگ کےخطاب دیئے کہ ان سب لفظوں کےمعنی عربی و فارسی وترکی زبان میں سردار ہیں باقی تمام شرفاء مثل اولاد امجاد و خلفائے کرام وبنی عباس وانصار کوایک عام لقب دیا شیخ کہ یہ بھی بمعنی بزرگ ہے(فتاویٰ رضویہ قدیم ج پنجم ص 456)
نسبی اقوام کو اپنے سلسلہ نسب پر اعتماد کرناضروری ہے خواہ وہ اعتماد شجرہ نسب کی بنا پر ہو یا بطریق شہرت وتواتر کے ہو یا کسی مشہور خاندان سے صحیح اتصال ہو نیز یہ امر مسلم ہے کہ ہندوستان میں اکثر قوموں نے بزرگان دین کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا ہے اور فتاویٰ رضویہ میں ہےکہ
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا من اسلم من اھل فارس فھوقریشی
یعنی جواہل فارس سےاسلام قبول کرے وہ قریشی ہے
اس مذہب کی بنا پر جس کے ہاتھوں جومسلمان ہوگا بطور رشتہ ولا اسی قوم میں گنے جانے کے قابل ہوگا تو خارج از امکان نہیں کہ یہاں کے آبآء واجداد ان اللہ والوں کی اولاد کے ہاتھوں اسلام قبول کئے ہوں اور بطور رشتہ ولا ان کو صدیقی، عثمانی، انصاری اور منصوری کہا جانے لگا ہو اور بعید نہیں کہ ان میں سے کسی کا سلسلہ نسب ان اللہ والوں کی اولاد سے ملتا ہو اگرچہ ان کا نسب نامہ محفوظ نہ رہ گیا ہو بہرحال وجہ کچھ بھی ہو جن کے آبآء واجدادکا تعلق ان برادریوں سے ہے اور وہ ان میں لکھتےچلے آئے ہوں تو جب تک ان کا ان برادریوں سےنہ ہونا یقین سےمعلوم نہ ہوجائے انہیں اپنے آپ کو ان برادریوں میں شمار کرنےسے منع نہیں کیا جاسکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
۱) دین اسلام میں کاسٹ کا کوئی سسٹم نہیں ہے جیسے انصاری پٹھان سید سب same ہے ۔
کہیں کہیں دیکھا بھی جاتا ہے کہ، کوئی شیخ ہے تو وہ انصاری سے راستہ نہیں کریگا وغیرہ اور کوئی سید ہے آل رسول ﷺ ہے تو ہم الحمدللہ سب کے لئے جان سے زیادہ عزت احترام ہے، لیکِن کیا اور مسلمنوں کے طرح سید بھی کاسٹ وغیرہ میں same ہونگے ۔ اسلام میں کاسٹ کا کیا ہے ہم سب کی قرآن حدیث کے روشنی میں اصلاح فرمائے حضرت۔
۲)انصاری community کا ابتداء انڈیا میں کب سے ہوا اور کیا انصاری کا تعلق عرب ہے اور کیا یہ سب قبیلہ انصار سے ہیں جو مدینہ منورہ میں تھا ۔ ان کی تاریخ برائے کرام بتائے ۔
۳) حضرت کوئی خاص وظیفہ ارشاد فرمائے جس کے ذریعے جادو جنت آسیب سارے چیزوں سے حفاظت ہو سکے۔
۴)حضرت مینے کچھ علماء اہل سنت سے سنا ہے کہ ، علماء آل رسول سے افضل ہیں ، اس کی کیا حقیقت ہے دلیل کی روشنی میں جواب عنایت فرمائی ۔
جزاک اللہ خیرا ۔۔
سائل:- محمد آفتاب ، ویسٹ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
1/ سب کاسٹ سیم نہیں ہے
سید کا لفظی مطلب سردار کا ہے جو احتراماً ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ سادات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر ان کی زیادہ تعداد عرب علاقوں، ایران، پاکستان، ہندوستان، ترکی اور وسط ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ سادات سنی اور شیعہ دونوں مسلکوں میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ سادات کرام کا نسبی تعلق حضور سرور کائنات فخر موجو دات صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اس لئے ان جیسا کوئی کاست نہیں
2/ ہند میں موجودہ انصاری قبلیہ انصار سے نہیں ہے پیشے کی وجہ سے انصاری کہا جاتا ہے ۔
3/ صبح و شام تین تین مرتبہ پڑھیں
1/ آیۃ الکرسی اور آخری تین قل ۔
2 /؛فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَی مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَیُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ
3/ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لاَمَّةٍ۔
3/ علماء آل رسول سے افضل نہیں۔
رہا دوسری ذات برادری والوں کا تعلق کن شخصیتوں اور کس سبب سے ہے تو اس سلسلے میں فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
عربوں میں طلوع آفتاب اسلام سےقبل پشتہاپشت سےنسب محفوظ رکھنےکاعام رواج تھا برخلاف عجمیوں کے کہ اس پر ان کی کوئی خاص توجہ نہیں تھی اسی لئے ان کانسب نامہ محفوظ نہیں رہا لیکن ہندوستانی لوگ جب اسلام قبول کرتے گئے تو قوم مسلم میں انہیں اپنی شناخت وپہچان کی ضرورت پڑی اس طرح انہیں ہندوستانی مسلمانوں میں ذات برادری کالحاظ ہونےلگا اور یہ دو امورسےہوا
1/ ایک نسب سے
2/ دوسرا پیشہ سے
ہندوستان میں نسب کے اعتبار سے چارقومیں مشہور ہیں
(1) سید (2) مغل (3) خان
(4) شیخ پھر شیخ دوطرح کےہوتے ہیں ایک قریشی جنہیں شیخ صدیقی شیخ فاروقی شیخ علوی شیخ جعفری کہتے ہیں
دوسرے غیر قریشی جو شیخ انصاری کہلاتے ہیں یہ اقوام اپنا اپنانسب ثابت کرتی ہیں اور اپنے آپ کو ان کی نسل واولاد میں سےکہتی ہیں
فتاوی رضویہ میں ہے
ہندوستان میں مسلمانوں نے تین قومیں خاص شریف قراردیں اور انہیں سید یامیر اورخان بیگ کےخطاب دیئے کہ ان سب لفظوں کےمعنی عربی و فارسی وترکی زبان میں سردار ہیں باقی تمام شرفاء مثل اولاد امجاد و خلفائے کرام وبنی عباس وانصار کوایک عام لقب دیا شیخ کہ یہ بھی بمعنی بزرگ ہے(فتاویٰ رضویہ قدیم ج پنجم ص 456)
نسبی اقوام کو اپنے سلسلہ نسب پر اعتماد کرناضروری ہے خواہ وہ اعتماد شجرہ نسب کی بنا پر ہو یا بطریق شہرت وتواتر کے ہو یا کسی مشہور خاندان سے صحیح اتصال ہو نیز یہ امر مسلم ہے کہ ہندوستان میں اکثر قوموں نے بزرگان دین کی تبلیغ سے اسلام قبول کیا ہے اور فتاویٰ رضویہ میں ہےکہ
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا من اسلم من اھل فارس فھوقریشی
یعنی جواہل فارس سےاسلام قبول کرے وہ قریشی ہے
اس مذہب کی بنا پر جس کے ہاتھوں جومسلمان ہوگا بطور رشتہ ولا اسی قوم میں گنے جانے کے قابل ہوگا تو خارج از امکان نہیں کہ یہاں کے آبآء واجداد ان اللہ والوں کی اولاد کے ہاتھوں اسلام قبول کئے ہوں اور بطور رشتہ ولا ان کو صدیقی، عثمانی، انصاری اور منصوری کہا جانے لگا ہو اور بعید نہیں کہ ان میں سے کسی کا سلسلہ نسب ان اللہ والوں کی اولاد سے ملتا ہو اگرچہ ان کا نسب نامہ محفوظ نہ رہ گیا ہو بہرحال وجہ کچھ بھی ہو جن کے آبآء واجدادکا تعلق ان برادریوں سے ہے اور وہ ان میں لکھتےچلے آئے ہوں تو جب تک ان کا ان برادریوں سےنہ ہونا یقین سےمعلوم نہ ہوجائے انہیں اپنے آپ کو ان برادریوں میں شمار کرنےسے منع نہیں کیا جاسکتا
فتاوی حدیثیہ میں ہے
ان لم یثبت نبسہ شرعاً وادعاہ ولم یعلم کذبہ تعین التوقیف عن تکذیبہ دوسطر بعد ہےکہ
عام طور پر رائج ذات برادری پیشہ سےبنی ہے اور پیشہ میں کفائت منصوص ہے اس وجہ سے اس کی پابندی کا حکم دیا جاتا ہے (فتاویٰ مرکز تربیت افتاء ج اول ص 637/638 باب النسب )
اس سے بخوبی واضح ہوگیا کہ
چونکہ اہل عرب پشتہاپشت سے اپنے نسب نامہ کومحفوظ کئے رہے اس لئے ان کانسب نامہ محفوظ رہا اور اہل عجم کی اس طرف عدم توجہ کے باعث محفوظ نہ رہا اس لئے عام طور پرہندوستان میں رائج برادریوں کاتعلق پیشہ سے ہے لہذا جس کے آبآء واجداد جس برادری سے مشتہر و متعارف ہیں اس کو ان ہی سے انتساب ضروری ہے ہاں اگر کھوج و کھنگال سے یقنی طور پر معلوم ہوجائے کہ
فلاں برادری سے تعلق تھا عدم علم کے باعث دوسری برادری سے مشہور ہوگئے تو ایسی صورت میں اس سے انتساب ضروری ہوگا۔
یاد رہے جن لوگوں کا سلسلہِ نسب حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت علی یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم تک تحقیقی طور پر پہنچتا ہے اور ان کے نسب نامہ میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے تو وہ سید کہلاتے ہیں، آل رسول کی نسبت سے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/11/2023