محبوبِ خدا یار ہے عثمان غنی کا
(یومِ وصال 18 ذی الحجہ ہر خاص)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
حافظ افتخاراحمدقادری
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
حافظ افتخاراحمدقادری
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
امیر المومنین امام المجاہدین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ آغاز بعثت میں اسلام لائے۔
امیر المومنین امام المجاہدین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ آغاز بعثت میں اسلام لائے۔
آپ کی کنیت ابو عبدالله اور لقب ذو النورین ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم الله وجہ الکریم نے ارشاد فرمایا
عثمان وہ شخصیت ہیں جنہیں ملاء اعلٰی میں ذو النورین کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔عشرہ مبشرہ میں حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ ممتاز مقام کے حامل اور قبول اسلام میں چوتھے نمبر پر ہیں۔آپ کا لقب غنی اور ذوالنورین ہے۔
کیونکہ آپ بیحد مخیر اور مذہب اسلام میں داخلہ لینے کے بعد مسلمانوں خصوصاً اسلامی جنگوں میں آپ نے بیحد مالی اعانت کی اس لئے آپ کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے غنی کا لقب مرحمت فرمایا اور آپ کے عقد میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی دو صاحب زادیاں آئیں اس لئے آپ کو ذو النورین(دو نور والا)کا لقب ملا۔
حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ ان چند صحابہ کرام میں سے ہیں جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جنہیں ایمان لانے والوں میں سبقت کرنے والے کہا جاتا ہے۔آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے۔ مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے کافروں نے دوسرے مسلمانوں کی طرح آپ کو بھی ستایا،خود آپ کے بزرگ حکم بن العاص نے آپ پر بہت سختی کی،ایک دفعہ آپ کو ایک کوٹھری میں بند کیا اور اس میں اتنا دھواں بھرا کہ آپ کا دم گھٹنے لگا لیکن آپ کے ایمان میں ذرا بھی فرق نہیں آیا اور اسلام کے دشمن انہیں دین سے برگشتہ نہ کر سکے۔حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے عہد میں قرآن مجید ایک لہجہ اور قرآت پر جمع کیا گیا اور جمع و تدوینِ قرآن کا اور اس کی اشاعت کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا۔مختلف اقطاع کے لوگ اپنے اپنے لہجے کے مطابق اس کی قرآت کرتے تھے۔جناب حذیفہ اور ابن مسعود نے خلیفہ وقت کی توجہ مبذول کرائی۔ چنانچہ قرآت کی ایک مجلس منعقد کی گئی معلوم ہوا حضرت حذیفہ کے پاس خلیفہ اول کے وقت سے ترتیب شدہ جو مسودہ ہے اور جس کی ترتیب خود حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہوئی تھی اسی اصول پر قرآن مجید جمع کیا گیا اور اس کی سورتوں کی ترتیب حضرت حفصہ کے نسخے کے مطابق مسلم قرار پائی۔حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے حکم جاری کر دیا کہ تمام مسلمان اپنے اپنے نسخوں کو لے کر حضرت حفصہ کے نسخے کے مطابق کر لیں۔امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے مکمل نسخوں کی اشاعت اپنی مہر لگا کر کی،حضرت علی کرم الله وجہ الکریم نے حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کے اس عمل کو سراہا اور کہا:،،اگر میں خلیفہ ہوتا تو میں بھی یہی کرتا،،۔جمع اور ترتیب قرآن مجید کا یہ حکم تیس ہجری میں جاری اور نافذ ہوا،خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنی وفات سے قبل مدینہ منورہ کے اکابر صحابہ کرام سے مشورہ کر کے حضرت عمر فاروق کا نام خلافت کی ذمہ داری کے لئے تجویز کیا تھا اور خلیفہ اول کی وفات کے بعد مسلمانوں نے حضرت عمر فاروق کے ہاتھ پر بیعت کی اور اُنہیں امیر المومنین منتخب کرلیا۔جب ان کی وفات قریب ہوئی اور وہ زخمی حالت میں تھے تو اُنہیں مسلمانوں کے مستقبل کا خیال پریشان کررہا تھا اُنہوں نے چھ حضرات کے اوپر یہ چھوڑا کہ وہ باہمی مشورہ سے کسی ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں۔ان میں حضرت عثمان بن عفان،حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت علی بن ابی طالب،حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت زبیر بن العوام اور حضرت طلحہ شامل تھے۔مذاکرات اور مشوروں کے بعد یکم محرم الحرام 25ھ کو حضرتِ عثمان بن عفان خلیفہ مقرر ہوئے اور تین دن تک بیعت کا سلسلہ چلتا رہا۔غزہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ شریک ہوئے۔جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت رقیہ کی بیماری کی وجہ سے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو مدینہ منورہ میں اپنے جانشین کے طور پر چھوڑ دیا تھا۔غزوہ احد،غزوہ بنو نضیر،غزوہ خندق،جنگ خیبر اور جنگ حنین میں آپ برابر شریک رہے۔خلیفہ اول اور خلیفہ دوم کے عہد خلافت میں حضرتِ جامع قرآن نے ان سے مکمل تعاون کیا۔ہر معاملے میں ان کے مشیر رہے۔مجلس شوریٰ کے انتہائی اہم رکن تصور کئے جاتے تھے اور نہایت صدق و اخلاص کے ساتھ مشورے دیتے تھے۔حضرتِ فاروق اعظم کی شہادت کے بعد یکم محرم الحرام 24ھ مطابق 7/ نومبر 644ء بروز یک شنبہ خلیفہ ثالث کی حیثیت سے آپ کا انتخاب عمل میں آیا۔
حضرتِ سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کے دورِ خلافت میں چوبیس ہجری سے بتیس ہجری تک مشرقی وسطیٰ کی بڑی بڑی مہمات جاری رہیں۔ افریقہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ 25ھ سے 31ھ تک جاری رہا۔آپ کے عہد خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود ہندوستان،روس، افغانستان،لیبیا،الجزائر،مراکش اور بحیرہ روم کے جزائر تک وسیع ہوگئیں تھیں۔فتوحات کا سلسلہ آرمینیا کے علاقے سے شروع ہوکر بحیرہ روم کے جزیرہ ارواہ کی تسخیر پر ختم ہوا۔مفاد عامہ کے کاموں میں سڑکیں بنوائی گئیں،مہمان خانے تعمیر کرائے گیے،دریا وغیرہ پر پل باندھے گئے،مساجد کثرت سے تعمیر کرائی گئیں،مفتوحہ علاقوں میں چھاؤنیاں قائم کیں،چراگاہوں میں مویشیوں کے لئے چشمے کھدوائے،رعایا کی آسائش کے لیے سڑکیں پل اور مسافر خانے بنوائے۔حضرتِ سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے محرم الحرام 24ھ سے ذی الحجہ 35ھ تک خلافت کے فرائض اور ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے پورے کئے۔آپ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی اور بہت سے ملک فتح کیے قصر روم کی طاقت کا بھی خاتمہ ہوا۔
حضرتِ سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ اسلام کے لئے اپنے جان ومال نثار کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے۔کوئی ضرورت مند آپ کے دروازے سے کبھی مایوس ہوکر نہیں گیا۔ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرنا آپ کا معمول تھا۔مدینہ منورہ میں آنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔مسجد نبوی میں تمام نمازی سما نہیں سکتے تھے۔ایک روز حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کون ہے جو فلاں خاندان کی زمین کا ٹکڑا خرید کر وقف کرے گا اس کے صلے میں اس کو اس سے بہتر جگہ جنت میں ملے گی۔یہ سنتے ہی حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے وہ قطعہ زمین خرید کر آپ کی خدمت میں پیش کی۔حضرتِ سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ نے 39ھ میں مسجد نبوی میں بھی توسیع کی اور مسجد حرام میں بھی توسیع کی۔حضرت علی المرتضیٰ کرم الله وجہ الکریم نے ارشاد فرمایا:عثمان ہم سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے متقی اور پرہیز گار تھے۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ایمان اور تقویٰ میں درجہ کمال حاصل کرلیتے ہیں۔جس وقت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم غزوہ تبوک کا سامان کررہے تھے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ بارگاہِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور ایک ہزار اشرفیاں آپ کی گود میں ڈال دیں۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ان اشرفیوں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے رہے اور فرماتے تھے:عثمان کو اب کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا آج کے بعد جو چاہیں کریں دو مرتبہ حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہ جملہ دہرایا۔
غزوہ تبوک کے سلسلے میں ایک اور روایت حضرت عبد الرحمن بن خباب سے ہے وہ کہتے ہیں:غزوہ تبوک کی تیاری کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں اکٹھا کیا اور جہاد کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی تاکہ لوگ اپنا مال اس کے لئے دیں۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ فوراً کھڑے ہوئے اور ساز و سامان کے ایک سو اونٹ پیش کرنے کا اعلان فرمایا۔حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اپنا خطبہ جاری رکھا،یہ پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور دوسو اونٹ دینے کا اعلان فرمایا۔حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے پھر بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا۔خلیفہ ثالث پھر تیسری مرتبہ کھڑے ہوئے اور تین سو اونٹ دینے کا اعلان فرمایا اس مرتبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم منبر شریف سے اترے اور فرمایا:عثمان کے اس عمل کے بعد انہیں آخرت میں اور کس چیز کی ضرورت ہے جو نجات اخروی کے لیے درکار ہو۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے محبت و الفت جام شہادت نوش کرتے وقت تک قائم رہی۔چنانچہ جب امیر معاویہ نے امیر المومنین سے مدینہ چھوڑ کر شام چلنے کو کہا تو فرمایا:میں نہ مدینتہ النبی صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑوں گا اور نہ ہی روضہ اقدس کے قرب سے محرومی مجھے گوارا ہے جان جاتی ہے تو جائے۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کی راتیں عبادت وریاضت میں بسر ہوتیں۔ہر روز عشاء کی نماز کی امامت سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہوتے اور وتر کی ادائیگی میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کرلیتے تھے۔جس دن آپ کی شہادت ہونے والی تھی آپ روزہ تھے جمعہ کا دن تھا خواب میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم حضرتِ ابو بکر و عمر کے ہمراہ تشریف لائے اور فرمایا: عثمان جلدی کرو ہم تمہارے ساتھ افطار کے منتظر ہیں۔حضرت عثمان بیدار ہوئے تو فرمایا:میری وفات کا وقت آگیا ہے۔جب باغیوں نے آپ کے مکان ما محاصرہ کیا تو ان کی سرکشی اتنی بڑھی کہ دیواریں پھاند کر گھر میں کود گیے۔حضرتِ عثمان روزے سے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھے۔اُنہوں نے باغیوں سے کہا:تم سخت غلطی کررہے ہو اگر مجھے شہید کیا تو مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے گا پھر تم نماز تک اکٹھے نہ پڑھ سکو گے۔18:ذی الحجہ 35ھ کو حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کو قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید کردیا گیا آپ کی زوجہ نائلہ بچانے کے لیے دوڑیں تو ان کی ہتھیلی اور انگلیاں کٹ گئیں۔ اس واقعے کے بعد مسلمانوں کی تلواروں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف چلنے لگیں۔بلاشبہ امام ذو النورین کی شہادت تاریخ اسلام کا سب سے بڑا سانحہ کہے جانے کا مستحق ہے۔حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے بارہ سال امور خلافت انجام دیے۔18:ذی الحجہ 35ھ بعمر 82/ سال جام شہادت نوش فرمایا۔
حضرتِ سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کے دورِ خلافت میں چوبیس ہجری سے بتیس ہجری تک مشرقی وسطیٰ کی بڑی بڑی مہمات جاری رہیں۔ افریقہ میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ 25ھ سے 31ھ تک جاری رہا۔آپ کے عہد خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود ہندوستان،روس، افغانستان،لیبیا،الجزائر،مراکش اور بحیرہ روم کے جزائر تک وسیع ہوگئیں تھیں۔فتوحات کا سلسلہ آرمینیا کے علاقے سے شروع ہوکر بحیرہ روم کے جزیرہ ارواہ کی تسخیر پر ختم ہوا۔مفاد عامہ کے کاموں میں سڑکیں بنوائی گئیں،مہمان خانے تعمیر کرائے گیے،دریا وغیرہ پر پل باندھے گئے،مساجد کثرت سے تعمیر کرائی گئیں،مفتوحہ علاقوں میں چھاؤنیاں قائم کیں،چراگاہوں میں مویشیوں کے لئے چشمے کھدوائے،رعایا کی آسائش کے لیے سڑکیں پل اور مسافر خانے بنوائے۔حضرتِ سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے محرم الحرام 24ھ سے ذی الحجہ 35ھ تک خلافت کے فرائض اور ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے پورے کئے۔آپ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی اور بہت سے ملک فتح کیے قصر روم کی طاقت کا بھی خاتمہ ہوا۔
حضرتِ سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ اسلام کے لئے اپنے جان ومال نثار کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے۔کوئی ضرورت مند آپ کے دروازے سے کبھی مایوس ہوکر نہیں گیا۔ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرنا آپ کا معمول تھا۔مدینہ منورہ میں آنے کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔مسجد نبوی میں تمام نمازی سما نہیں سکتے تھے۔ایک روز حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کون ہے جو فلاں خاندان کی زمین کا ٹکڑا خرید کر وقف کرے گا اس کے صلے میں اس کو اس سے بہتر جگہ جنت میں ملے گی۔یہ سنتے ہی حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ نے وہ قطعہ زمین خرید کر آپ کی خدمت میں پیش کی۔حضرتِ سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ نے 39ھ میں مسجد نبوی میں بھی توسیع کی اور مسجد حرام میں بھی توسیع کی۔حضرت علی المرتضیٰ کرم الله وجہ الکریم نے ارشاد فرمایا:عثمان ہم سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے متقی اور پرہیز گار تھے۔وہ ان لوگوں میں سے تھے جو ایمان اور تقویٰ میں درجہ کمال حاصل کرلیتے ہیں۔جس وقت حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم غزوہ تبوک کا سامان کررہے تھے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ بارگاہِ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور ایک ہزار اشرفیاں آپ کی گود میں ڈال دیں۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ان اشرفیوں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے رہے اور فرماتے تھے:عثمان کو اب کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا آج کے بعد جو چاہیں کریں دو مرتبہ حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے یہ جملہ دہرایا۔
غزوہ تبوک کے سلسلے میں ایک اور روایت حضرت عبد الرحمن بن خباب سے ہے وہ کہتے ہیں:غزوہ تبوک کی تیاری کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں اکٹھا کیا اور جہاد کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی تاکہ لوگ اپنا مال اس کے لئے دیں۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ فوراً کھڑے ہوئے اور ساز و سامان کے ایک سو اونٹ پیش کرنے کا اعلان فرمایا۔حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے اپنا خطبہ جاری رکھا،یہ پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور دوسو اونٹ دینے کا اعلان فرمایا۔حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے پھر بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا۔خلیفہ ثالث پھر تیسری مرتبہ کھڑے ہوئے اور تین سو اونٹ دینے کا اعلان فرمایا اس مرتبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم منبر شریف سے اترے اور فرمایا:عثمان کے اس عمل کے بعد انہیں آخرت میں اور کس چیز کی ضرورت ہے جو نجات اخروی کے لیے درکار ہو۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سے محبت و الفت جام شہادت نوش کرتے وقت تک قائم رہی۔چنانچہ جب امیر معاویہ نے امیر المومنین سے مدینہ چھوڑ کر شام چلنے کو کہا تو فرمایا:میں نہ مدینتہ النبی صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑوں گا اور نہ ہی روضہ اقدس کے قرب سے محرومی مجھے گوارا ہے جان جاتی ہے تو جائے۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کی راتیں عبادت وریاضت میں بسر ہوتیں۔ہر روز عشاء کی نماز کی امامت سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم کے پیچھے کھڑے ہوتے اور وتر کی ادائیگی میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کرلیتے تھے۔جس دن آپ کی شہادت ہونے والی تھی آپ روزہ تھے جمعہ کا دن تھا خواب میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم حضرتِ ابو بکر و عمر کے ہمراہ تشریف لائے اور فرمایا: عثمان جلدی کرو ہم تمہارے ساتھ افطار کے منتظر ہیں۔حضرت عثمان بیدار ہوئے تو فرمایا:میری وفات کا وقت آگیا ہے۔جب باغیوں نے آپ کے مکان ما محاصرہ کیا تو ان کی سرکشی اتنی بڑھی کہ دیواریں پھاند کر گھر میں کود گیے۔حضرتِ عثمان روزے سے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھے۔اُنہوں نے باغیوں سے کہا:تم سخت غلطی کررہے ہو اگر مجھے شہید کیا تو مسلمانوں کا شیرازہ بکھر جائے گا پھر تم نماز تک اکٹھے نہ پڑھ سکو گے۔18:ذی الحجہ 35ھ کو حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله عنہ کو قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید کردیا گیا آپ کی زوجہ نائلہ بچانے کے لیے دوڑیں تو ان کی ہتھیلی اور انگلیاں کٹ گئیں۔ اس واقعے کے بعد مسلمانوں کی تلواروں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف چلنے لگیں۔بلاشبہ امام ذو النورین کی شہادت تاریخ اسلام کا سب سے بڑا سانحہ کہے جانے کا مستحق ہے۔حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنہ نے بارہ سال امور خلافت انجام دیے۔18:ذی الحجہ 35ھ بعمر 82/ سال جام شہادت نوش فرمایا۔
فضائلِ سیدنا عثمان غنی:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرتِ عثمان غنی کے متعلق فرمایا:الٰہی میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو۔عثمان!خدا تمہارے اگلے پچھلے ظاہر اور چھپے ہوئے اور روز قیامت تک ہونے والے گناہ معاف کر دے جنت میں عثمان میرے رفیق ہوں گے۔عثمان دنیا و آخرت میں میرے قریبی دوست ہیں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہما نے فرمایا:حضرت عثمان جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آنحضرت سمٹ کر بیٹھ جاتے اور اپنے کپڑوں کو بھی سمیٹ لیتے۔ایک روز کسی نے پوچھا یا حضرت آپ پر میرے ماں باپ قربان آپ عثمان کے آنے پر اس قدر سمٹ کیوں جاتے ہیں؟آپ نے جواب دیا میں ایسے آدمی سے کیوں شرم نہ کروں جس سے خدا کے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں۔(مسلم)
ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں اور میرے رفیق جنت میں عثمان ہیں۔(ترمذی)جس وقت حضور غزوہ تبوک کا سامان کررہے تھے حضرت عثمان ایک ہزار اشرفیاں آستین میں رکھ کر حضور کے پاس لائے اور آپ کی گود میں ڈال دیں۔حضور ان اشرفیوں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے تھے اور فرماتے تھے کہ عثمان کو اب کچھ نقصان نہیں ہو سکتا آج کے بعد جو چاہیں وہ کریں دو مرتبہ یہی فرمایا۔(مسند احمد)حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم ایک روز احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرتِ ابو بکر عمر اور عثمان تھے۔پہاڑ ہلنے لگا تو آپ نے اپنے پاؤں سے اسے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اے احد ٹھر جا۔ تجھ پر ایک نبی ہے،ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں یعنی حضرت عمر اور حضرتِ عثمان
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرتِ عثمان غنی کے متعلق فرمایا:الٰہی میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو۔عثمان!خدا تمہارے اگلے پچھلے ظاہر اور چھپے ہوئے اور روز قیامت تک ہونے والے گناہ معاف کر دے جنت میں عثمان میرے رفیق ہوں گے۔عثمان دنیا و آخرت میں میرے قریبی دوست ہیں۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہما نے فرمایا:حضرت عثمان جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آنحضرت سمٹ کر بیٹھ جاتے اور اپنے کپڑوں کو بھی سمیٹ لیتے۔ایک روز کسی نے پوچھا یا حضرت آپ پر میرے ماں باپ قربان آپ عثمان کے آنے پر اس قدر سمٹ کیوں جاتے ہیں؟آپ نے جواب دیا میں ایسے آدمی سے کیوں شرم نہ کروں جس سے خدا کے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں۔(مسلم)
ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں اور میرے رفیق جنت میں عثمان ہیں۔(ترمذی)جس وقت حضور غزوہ تبوک کا سامان کررہے تھے حضرت عثمان ایک ہزار اشرفیاں آستین میں رکھ کر حضور کے پاس لائے اور آپ کی گود میں ڈال دیں۔حضور ان اشرفیوں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے تھے اور فرماتے تھے کہ عثمان کو اب کچھ نقصان نہیں ہو سکتا آج کے بعد جو چاہیں وہ کریں دو مرتبہ یہی فرمایا۔(مسند احمد)حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم ایک روز احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرتِ ابو بکر عمر اور عثمان تھے۔پہاڑ ہلنے لگا تو آپ نے اپنے پاؤں سے اسے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اے احد ٹھر جا۔ تجھ پر ایک نبی ہے،ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں یعنی حضرت عمر اور حضرتِ عثمان
(صحیح بخاری)
حضرت عثمان غنی کے ارشادات:
دنیا کے رنج و غم سے دل میں تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کے فکر و اندوہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔مجھے تین چیزوں مرعوب ہیں۔بھوکوں کو آسودہ رکھنا،ننگوں کا بدن ڈھاپنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔سب سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفر آخرت کی کچھ تیاری نہ کرے۔دنیا جس کے لیے قید خانہ ہو قبر اس کے لیے باعثِ راحت ہوگی۔محب الله کو تنہائی محبوب ہوتی ہیں۔جب لوگوں کو اچھے کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔الله رب العزت کے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہوگا۔تعجب ہے اس پر جو دوزخ کو برحق جانتا ہے اور پھر گناہ کرتا ہے۔تعجب ہے اس پر جو الله کو حق جانتا ہے اور غیروں کا ذکر کرتا ہے اور پھر ان پر بھروسہ کرتا ہے۔بندگی کے یہ معنی ہیں کہ مسلمان احکامِ الٰہیہ کی اطاعت کرے جو عہد کسی سے کرے اسے پورا کرے اور جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرے۔
حضرت عثمان غنی کے ارشادات:
دنیا کے رنج و غم سے دل میں تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کے فکر و اندوہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے۔مجھے تین چیزوں مرعوب ہیں۔بھوکوں کو آسودہ رکھنا،ننگوں کا بدن ڈھاپنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔سب سے زیادہ بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفر آخرت کی کچھ تیاری نہ کرے۔دنیا جس کے لیے قید خانہ ہو قبر اس کے لیے باعثِ راحت ہوگی۔محب الله کو تنہائی محبوب ہوتی ہیں۔جب لوگوں کو اچھے کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔الله رب العزت کے ساتھ تجارت کرو تو بہت نفع ہوگا۔تعجب ہے اس پر جو دوزخ کو برحق جانتا ہے اور پھر گناہ کرتا ہے۔تعجب ہے اس پر جو الله کو حق جانتا ہے اور غیروں کا ذکر کرتا ہے اور پھر ان پر بھروسہ کرتا ہے۔بندگی کے یہ معنی ہیں کہ مسلمان احکامِ الٰہیہ کی اطاعت کرے جو عہد کسی سے کرے اسے پورا کرے اور جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرے۔