Type Here to Get Search Results !

ہیوی ڈپازٹ دے کر مکان یا زمین کرائے پر لینا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 5242)
ہیوی ڈپازٹ دے کر مکان یا زمین کرائے پر لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد کی ایک زمین ہے زید پانچ لاکھ روپے بطور ڈیپوزٹ دے رہا ہے کہ اس رقم سے مجھے مکان بنا کر کرایہ پر دو، پانچ سال کے لیے کرایہ پر لے گا اور دو سو ماہانہ کرایہ دے گا،
٢، مسجد کی ایک زمین ہے زید دو سو روپیہ ماہانہ کرایہ پر مانگ رہا ہے کہ مجھے زمین کرایہ پر دو میں اس زمین پر مکان بنا کر رہوں گا اور مکان بنانے میں جو رقم خرچ ہو گا پانچ سال کے بعد متولی مسجد وہ رقم واپس دے کر مکان لے لیں گے ،
حضور مفتی صاحب قبلہ دونوں سوال کا جواب عنایت فرمادیں کہ ایسا کر سکتے ہیں
المستفتی انور بھائی مہسانہ ،گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
١/ مذکورہ صورت جائز نہیں ہے 
پہلے پانچ سال کا کرایہ ایک ساتھ لے لیں جو وہاں عام کرایہ ہو اور اسی پیسہ سے مکان بنا دے پھر 5 سال کے لئے اسے دے دیں کرایہ لینے میں عام کرایہ سے کم نہیں ہونی چاہیے۔
٢/ سوال میں مذکورہ صورت بھی جائز نہیں ہے۔ مسجد کی رقم سے مکان بنادے پھر اسے مناسب قیمت پر دیں۔
اگر کرایہ دار کرایہ کم کرنے کی صورت میں سال بھر کا کرایہ یکمشت ادا کردے تو یہ جائز ہے بشرطیکہ کرایہ کے کم کرنے کو ایڈوانس ڈپازٹ کے زیادہ ہونے کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو۔ 
ڈپازٹ کی رقم معمول کے مطابق ہو یا بالکل بھی نہ ہو اور کرایہ بھی کم ہو اور کرایہ دار یک مشت ادا کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے 
"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضاً عن منفعة القرض لا مجاناً، وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حماراً ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع، (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63)
کسی مکان یا دکان کو ہیوی ڈپازٹ دے کر بلا کرایہ یا رائج کرایہ سے کم کرایہ دینا شرعا جائز نہیں،کہ ڈپازٹ کی رقم آجر کے پاس قرض ہوتی ہے،اب قرض دینے والا اگر اس مکان یا دوکان کا بالکل کرایہ نہ دے یا معروف کرایہ سے کم کرایہ دے تو یہ قرض پر نفع لینا ہوا جو سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے.
چناں چہ حدیث شریف میں ہے :کل قرض جر منفعۃ فھو ربا ہر وہ قرض جو نفع لائے سود ہے ۔
(نصب الرایہ ، جلد ٤، ص ٦٠ ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان ، بیروت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area