(سوال نمبر 5265)
مردہ عورت سے وطی کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مردہ عورت سے وطی کرنا کیسا ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
سائل:- محمد تبریز پرتاپگڑھ یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مردہ عورت سے وطی کرنا حرام و گناہ کبیرہ ہے
بدکاری کرناکبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ہے اور احادیث مبارکہ میں بدکاری کرنے والے کو ملعون قرار دیا گیاہے اور مردہ عورت سے بدکاری کرنے سے اس کی قباحت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ایسے شخص کو تعذیر کی جائے گی
تعزیراً دی جانے والی سزا صرف قاضی یا حاکم وقت اپنی صواب دید کے اعتبار سے مقرر کرسکتاہے۔
قال اللہ تعالى
وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلزِّنَىٰٓ إِنَّهٗ كَانَ فٰحِشَةً وَسَآءَ سَبِيلًا (سورۃ بنی اسرائیل،آیت نمبر:32)
اور زنا کے پاس مت پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور وہ بری راہ ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
قال في الدرربنحو الإحراق بالنار و هدم الجدار و التنكيس في محل مرتفع باتباع الأحجار،و في الحاوي و الجلد أصح ،و في الفتح يعزر و يسجن حتى يموت أو يتوب ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة.(كتاب الجنايات،باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لايوجبه،ج :4 ،ص: 27،)
فتاوی عالمگیری میں ہے
رجل زنى بامرأة ميتة اختلفوا فيه قال أهل المدينة حد وقال أهل البصرة يعزر ولا يحد. وقال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - وبه نأخذ.(کتاب الحدود،باب الوطء الذي یوجب الحد و الذي لایوجبه، ج:2 ،ص:150،)
اور مفتی اعظم ہالینڈ مفتی عبد الواجد قادری فرماتے ہیں کہ جہاں اسلامی امارت و قاضی شرع نہیں اور کفار و مشرکین کے غلبہ کی وجہ سے حدود و تعزیرات کو بروجہ شرعی جاری نہ کر سکے تو وہاں کے مجرمین پر توبہ و استغفار لازم ہے
ہندوستان میں فی الحال غلبہ مشرکین و کفار کی وجہ سے حدود و تعزیرات کا نفاذ متعذر ہے تو وہاں کے مجرمین پر وجوب توبہ عاٸد ہوگی
(فتاوی یورپ ص 495)
صورت مسٸولہ میں ایسے بد بخت شخص پر توبہ و استغفار لازم ہے جب تک صدق دل تے توبہ نہ کرے اسے مسلمان اپنی سوسائٹی سے باٸکاٹ کريں نیز توبہ کے بعد بھی مذکورہ زید سے وہاں کے مسلمان ایسے برتاٶ کريں اور ایسی سماجی سزا ديں کہ جو دوسروں کیلٸے عبرت آموز ہو لیکن خیال رہے کہ توبہ و استغفار سے یہ مطلب نہیں کہ وہ آخرت کی سزا سے برئی الذمہ ہو گیا بلکہ توبہ کے سبب وہ مسلمان سوسائٹی میں رہنے کے قابل ہو گیا اور توبہ کے ذریعہ گناہ کے قریب نہ جانے کا عہد کر لیا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
مردہ عورت سے وطی کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مردہ عورت سے وطی کرنا کیسا ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
سائل:- محمد تبریز پرتاپگڑھ یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مردہ عورت سے وطی کرنا حرام و گناہ کبیرہ ہے
بدکاری کرناکبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ہے اور احادیث مبارکہ میں بدکاری کرنے والے کو ملعون قرار دیا گیاہے اور مردہ عورت سے بدکاری کرنے سے اس کی قباحت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ایسے شخص کو تعذیر کی جائے گی
تعزیراً دی جانے والی سزا صرف قاضی یا حاکم وقت اپنی صواب دید کے اعتبار سے مقرر کرسکتاہے۔
قال اللہ تعالى
وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلزِّنَىٰٓ إِنَّهٗ كَانَ فٰحِشَةً وَسَآءَ سَبِيلًا (سورۃ بنی اسرائیل،آیت نمبر:32)
اور زنا کے پاس مت پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور وہ بری راہ ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
قال في الدرربنحو الإحراق بالنار و هدم الجدار و التنكيس في محل مرتفع باتباع الأحجار،و في الحاوي و الجلد أصح ،و في الفتح يعزر و يسجن حتى يموت أو يتوب ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة.(كتاب الجنايات،باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لايوجبه،ج :4 ،ص: 27،)
فتاوی عالمگیری میں ہے
رجل زنى بامرأة ميتة اختلفوا فيه قال أهل المدينة حد وقال أهل البصرة يعزر ولا يحد. وقال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - وبه نأخذ.(کتاب الحدود،باب الوطء الذي یوجب الحد و الذي لایوجبه، ج:2 ،ص:150،)
اور مفتی اعظم ہالینڈ مفتی عبد الواجد قادری فرماتے ہیں کہ جہاں اسلامی امارت و قاضی شرع نہیں اور کفار و مشرکین کے غلبہ کی وجہ سے حدود و تعزیرات کو بروجہ شرعی جاری نہ کر سکے تو وہاں کے مجرمین پر توبہ و استغفار لازم ہے
ہندوستان میں فی الحال غلبہ مشرکین و کفار کی وجہ سے حدود و تعزیرات کا نفاذ متعذر ہے تو وہاں کے مجرمین پر وجوب توبہ عاٸد ہوگی
(فتاوی یورپ ص 495)
صورت مسٸولہ میں ایسے بد بخت شخص پر توبہ و استغفار لازم ہے جب تک صدق دل تے توبہ نہ کرے اسے مسلمان اپنی سوسائٹی سے باٸکاٹ کريں نیز توبہ کے بعد بھی مذکورہ زید سے وہاں کے مسلمان ایسے برتاٶ کريں اور ایسی سماجی سزا ديں کہ جو دوسروں کیلٸے عبرت آموز ہو لیکن خیال رہے کہ توبہ و استغفار سے یہ مطلب نہیں کہ وہ آخرت کی سزا سے برئی الذمہ ہو گیا بلکہ توبہ کے سبب وہ مسلمان سوسائٹی میں رہنے کے قابل ہو گیا اور توبہ کے ذریعہ گناہ کے قریب نہ جانے کا عہد کر لیا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/11/2023
28/11/2023