Type Here to Get Search Results !

جمعہ کا ثانی آذان پہلی صف میں ممبر شریف کے آگے دینا کیسا ہے؟

(سوال نمبر 5239)
جمعہ کا ثانی آذان پہلی صف میں ممبر شریف کے آگے دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جمعہ کا ثانی آذان پہلی صف میں ممبر شریف کے آگے دینا کیسا ہے؟ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد شاہ نواز ضلع کٹیہار بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
جمعہ میں اذان ثانی ممبر کے پاس دینا خلاف سنت یے ۔
دیگر اذانوں کی طرح جمعہ کے خطبے کی اذان بھی مسجد کے اندر خصوصاً منبر کے متصل خطیب کے سر پر دینا خلاف سنت اور بدعت ومکروہ ہے۔ فقہاے کرام نے مطلقاً ہر اذان کے بارے میں فرمایا کہ مسجد میں نہ دی جائے مسجد کے باہر دی جائے ، مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ خانیہ، خلاصہ قلمی، خزانۃ المفتیین قلمی، عالمگیری، البحر الرائق، شرح نقایہ برجندی ، فتح القدیر میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ غنیہ شرح منیہ میں ہے: الأذان إنما یکون في المئذنۃ أو خارج المسجد والإقامۃ في داخلہ۔ اذان نہ دی جائے مگر مینارے پر یا مسجد سے باہر اور اقامت مسجد کے اندر۔ فتح القدیر خاص باب الجمعہ میں ہے: لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ مسجد میں اذان مکروہ ہے ۔ نظم امام زندویستی پھر قہستانی پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ ان ارشادات میں نہ اذان پنج گانہ کی تخصیص ہے نہ اذان خطبہ کا استثنا اس لیے وہ بھی اس حکم میں داخل اور دوسری اذانوں کی طرح اسے بھی مسجد کے اندر دینا ممنوع ومکروہ۔ حضور اقدس ﷺ اور خلفاے راشدین کے زمانے میں یہ اذان مسجد کے باہر دروازہ مسجد پر ہوتی تھی حتی کہ جب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی اذان کا اضافہ فرمایا تو بھی یہ اذان وہیں ہوتی رہی جہاں حضور اقدس ﷺ کے زمانے سے ہو رہی تھی۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اسے گھسیٹ کر منبر کے سامنے نہیں لائے وہیں رہنے دی، ابو داؤد شریف میں ہے : كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ. رواہ أبو داؤد عن السائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ۔ جمعہ کے دن حضور ﷺ منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی ایسا ہی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں بھی ہوتا تھا۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں لوگوں کی کثرت ہوئی تو انھوں نے مقام زوراء پر ایک اذان کا اضافہ فرمایا جیسا کہ مجیبی مجیب صاحب نے خود نقل کیا ہے مگر یہ چھوڑ دیا کہ اذان خطبہ کہاں رہی اس لیے کہ یہ ان کے مقصد کے خلاف تھا۔ ہم سے سنیئے اذان خطبہ وہیں ہوتی رہی جہاں حضور ﷺ کے عہد مبارک میں ہوتی آئی تھی۔ زرقانی علی المواہب میں ہے: ’’لما کان عثمان وکثروا أمر بالأذان قبلہ علی الزوراء ثم نقلہ ہشام إلی المسجد‘‘ أي أمر بفعلہ فیہ ’’وجعل الاٰخر‘‘ الذي يفعل بعد جلوس الخطیب علی المنبر ’’بین یدیہ‘‘ مرۃ واحدۃ بمعنی أنہ أبقاہ بالمکان الذي یفعل فیہ فلم یغیرہ بخلاف ما کان یفعل بالزوراء فحولہ إلی المسجد علی المنار۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے اذان خطبہ سے پہلے ایک اذان بازار میں زوراء کی چھت پر دلوائی پھر اس پہلی اذان کو ہشام نے مسجد کی طرف منتقل کر لیا یعنی اس کے مسجد میں ہونے کا حکم دیا اور دوسری جو خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی ہے وہ خطیب کے مواجہہ میں رکھی یعنی جہاں ہوا کرتی تھی وہیں باقی رکھی۔ اس اذان ثانی میں ہشام نے کوئی تبدیلی نہ کی بخلاف بازار والی اذان اول کے کہ اسے مسجد کی طرف منارے پر لے آیا۔ اسی سے ان مجیب صاحب کی یہ نکتہ آفرینی باطل ہو گئی کہ اذان اعلام غائبین کے لیے ہے جو پہلی اذان سے حاصل ہو چکا دوسری حاضرین کے چپ کرنے کے لیے ہے انھیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ حضور اقدس ﷺ کے عمل اور خلفاے راشدین اور صحابۂ کرام کے اجتماعی عمل کے مقابلہ میں نکتہ آفرینی کر کے حضور اقدس ﷺ کے عمل اور فقہا کے ارشاد کو رد کر رہے ہیں۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ یہ اذان ہے اور ہر اذان غائبین کے اعلام کے لیے ہے ۔آج تک کسی فقیہ نے یہ نہ لکھا کہ یہ حاضرین کے انصات کے لیے ہے اس لیے کہ پھر یہ اذان نہ رہتی جب اذان کو اعلام غائبین کے لیے مانا تو یاتو یہ کہیں کہ یہ اذان ہی نہیں اور جب یہ اذان ہے تو اعلام غائبین ہی کے لیے ہوگی یہ اسی وقت ہوگا جب مسجد کے باہر دی جائے مفتی صاحب یہ بتائیں کہ نص صریح کو قیاس سے رد کرنا دین داری ہے ؟ حضور ﷺ تو یہ ارشاد فرمائیں: ’’علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاءالراشدین‘‘ میری اور خلفاے راشدین کی اتباع تم پر لازم ہے۔ اور مفتی
صاحب سنت کے خلاف اپنے قیاس تکّے کے مطابق عوام کالانعام کو فتوی دیں۔ مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی بھی ان کے نزدیک بہت بڑے معتمد عالم ہیں انھیں کی مان لیں۔ عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھتے ہیں: قولہ: ’’بین یدیہ‘‘ أي مستقبل الإمام داخل المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني۔ یعنی ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی صرف اس قدر ہے کہ امام کے رو برو، اور یہ رو برو مسجد کے اندر پر بھی صادق اور باہر پر بھی ۔ اور مسنون دوسرا طریقہ ہے ۔ یعنی سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو جب یہ تصریح کر چکے تو اسی سے ثابت کہ مسجد کے اندر اس اذان کا ہونا خلاف سنت اور بدعت ہے۔ رہ گیا سوال تعامل کا تو جب احادیث صحیحہ سے یہ ثابت کہ حضور اقدس ﷺ اور صحابۂ کرام کا تعامل یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو تو اس کے خلاف آج کے تعامل کا کیا اعتبار۔ اگر آج کے تعامل کا اعتبار کر لیا جائے تو دین کا خدا حافظ۔ وہ دن دور نہیں کہ مفتی صاحب داڑھی منڈا نے کو بھی جائز کہہ دیں، نیز تعامل کا دعوی غلط ۔ حرمین طیبین میں کہیں بھی یہ اذان منبر کے متصل خطیب کے سر پر نہیں ہوتی۔ مسجد حرام میں کنارے مطاف پر ہوتی ہے اور عہد نبوی میں مسجد حرام مطاف ہی تک تھی مسلک متقسط میں ہے: المطاف ہو ما کان في زمنہ ﷺ مسجدا ۔ اور حاشیۂ مطاف خارج مسجد تھا اور یہ اپنی جگہ پر طے کہ قبل تمام مسجدیت اذان کے لیے جو جگہ مقرر کر لی جائے وہ خارج مسجد کے حکم میں ہے، اور مسجد نبوی میں مئذنہ پر ہوتی ہے جو منبر سے بہت دور ہے۔ مفتی صاحب نے سوچا ہوگا عوام میں حاجی کتنے ہوتے ہیں اور جو حج کے لیے جاتے ہیں ان میں سب کو اس سے کیا غرض کہ خطبے کی اذان کہاں ہوئی، اس لیے تعامل کا بھانڈا نہ پھوٹے گا دور کیوں جائیے جامع مسجد دہلی اور آگرہ میں یہ اذان منبر کے متصل خطیب کے سر پر نہیں ہوتی مئذنہ پر ہوتی ہے اب کوئی مفتی صاحب سے پوچھے تعامل کہاں رہا۔ واللہ تعالی اعلم اور صاحب ہدایہ کے اس ارشاد: أذن المؤذنون بین یدي المنبر بذلک جری التوارث‘‘۔ سے یہ سمجھنا کہ یہ اذان مسجد کے اندر ہونا چاہیے نری جہالت ہے اس لیے کہ ’’بین یدي‘‘ کے معنی کسی لغت میں اندر کے نہیں بلکہ سامنے کے ہیں جیسا کہ خود مجیبی صاحب کے معتمد ومستند مولانا عبد الحی صاحب کا ارشاد گزرا ۔ نیز ابو داؤد شریف کی حدیث میں ’’بین یدي‘‘ کے ساتھ ’’علی باب المسجد‘‘ بھی ہے اور مسجد اقدس عہد رسالت میں سو ہاتھ لمبی اور سو ہاتھ چوڑی تھی تو جب ’’بین یدي‘‘ قریب قریب سو ہاتھ کی دوری پر بھی صادق اس کے باوجود کہ باب مسجد خارج مسجد تھا تو ’’بین یدی‘‘ سے اندرون مسجد پر استدلال فریب نہیں تو اور کیا ہے؟ اور ’’بذلک‘‘ سے اشارہ ’’بین یدي‘‘ کی جانب ہے اس لیے کہ یہی مذکور ہے داخل مسجد پر نہیں کہ نہ یہ مذکور ہے اور نہ مطلوب ۔رہ گیا مولانا عبد الحی کے اس کہنے سے ’’یہ اعلان حاضرین کے لیے ہے‘‘ یہ استدلال کہ مسجد کے اندر ہونی چاہیے سو ے فہمی ہے۔ اس لیے کہ پھر مولانا ہی کے کلام میں تعارض لازم آئے گا کہ اس کے اختصار عمدۃ الرعایہ میں وہ لکھ چکے ہیں کہ مسنون یہ ہے کہ اذان مسجد کے باہر ہونی چا ہیے اور تعارض کے وقت منطوق مستفاد پر راجح۔ اس لیے کہ خود مولانا لکھنوی کے کلام سے مسجد کے باہر اس اذان کا راجح ہونا ثابت۔ مفتی صاحب کو یہ بھی خبر نہیں کہ تشبیہ کے لیے مشبہ بہ کے تمام اوصاف کا مشبہ میں پایا جانا لازم نہیں ورنہ لازم کہ اگر مفتی صاحب کو کسی نے شیر کہہ دیا تو اس سے ثابت ہو جائے گا کہ مفتی صاحب کے دُم بھی ہے اور وہ چار پیر پر چلتے بھی ہیں، جنگل میں رہتے ہیں ، مردار کھاتے ہیں پھر یہاں یہ لازم آئے گا کہ اس اذان میں ’’قد قامت الصلاۃ ،قد قامت الصلاۃ‘‘ بھی کہیں اور کانو ں میں انگلیاں دینا مسنون نہ ہو ورنہ بات صاف ہے کہ خود مولانا نے وجہ شبہ کی تصریح کر دی ہے اور وہ رفع صوت کا مستحب نہ ہونا اور بس۔ مفتی صاحب نے بہت زور باندھا ہے کہ فقہا نے کہیں ’’علی باب المسجد‘‘ یا ’’خارج المسجد‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں۔ اس پر عرض ہے : اولاً: حدیث میں ’’علی باب المسجد‘‘ ہے آپ کو وہ نظر نہیں آیا۔ ثانیاً : جب فقہا نے تصریح کر دی کہ اذان مسجد کے اندر دینی ممنوع ہے اور اذان خطبہ کا استثنا نہیں فرمایا تو ثابت ہو گیا کہ یہ بھی مسجد کے اندر دینا ممنوع ہے ، اب الگ سے خارج مسجد ذکر کر نے کی ضرورت نہیں جیسے نماز کی صفت میں بیان کر دیا جاتا ہے کہ نماز کے یہ فرائض، یہ واجبات، یہ سنن، یہ مستحبات ہیں اسی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نماز خواہ فرض ہو یا واجب یا سنت یا نفل سب کے لیے یہی تفصیل ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ وتر کے لیے کہیں نہیں کہ اس میں تکبیر تحریمہ یا قراءت یا رکوع سجدہ فرض ہے، فقہا نے کہیں نہیں لکھا ہے تو اس کا کیا علاج ۔ ثالثاً : آپ ہم سے خارج مسجد کا مطالبہ کر رہے ہیں آپ دکھائیے کہ کہیں کسی فقیہ نے اس اذان کے لیے داخل مسجد کا لفظ استعمال کیا ہے جب کہ آپ لوگوں کے مذہب کے مطابق یہ ضروری تھا ، اس لیے کہ جب مطلق اذان کے احکام کے بیان میں یہ
فرما دیا کہ ’’اذان مسجد میں دینا ممنوع ہے‘‘ تو فقہا پر لازم تھا کہ اذان خطبہ کے لیے تصریح فرماتے کہ یہ اس سے مستثنیٰ ہے اسے اندر ہونا چاہیے۔ رابعاً : ہم نے تو فقہا کا قاعدۂ کلیہ بیان کر دیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’مسجد میں اذان دینا ممنوع ہے‘‘۔ آپ ایسا کوئی قاعدہ بیان کر دیجیے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ اذان مسجد میں دینی چاہیے ہم کہے دیتے ہیں کہ کوئی شخص ایک ایسا لفظ کسی فقیہ کا نہیں دکھا سکتا جس سے اشارۃً بھی یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ اذان مسجد میں ہونی چاہیے۔ عوام پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو حدیث صحیح اور فقہا کے ارشادات سے ثابت ہے اور ادھر ادھر کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ واللہ تعالی اعلم۔
(فتاویٰ جامعہ اشرفیہ، ج ۵ فتاویٰ شارح بخاری )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area