Type Here to Get Search Results !

تاج الشریعہ!حق گوئی وبے باکی کا نادر استعارہ


تاج الشریعہ!حق گوئی وبے باکی کا نادر استعارہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از:مفتی محمدعبدالرحیم نشترؔفاروقی 
ایڈیٹرماہنامہ سنی دنیاومفتی مرکزی دارالافتاء،بریلی شریف
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
 حق گوئی وبے باکی علمائے حق کی شان اورپہچان ہواکرتی ہے ،وہ اعلائے کلمۃ الحق میں کسی اپنے بیگانے ، چھوٹے بڑے، شاہ و گدا، خاص وعام اورعربی وعجمی میں کوئی امتیاز نہیں برتتے اورناہی وقت کے کسی صاحب اقتدارسے مرعوب ہواکرتے ہیں،حق و صداقت کاببانگ دہل اعلان کرتے ہیں،وہ اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کایہ قدم وقت کے کسی شہنشاہ کے خلاف جارہاہے یاکسی کوتاہ کے موافق! وہ اظہارحق کے لئے کسی کی لعنت وملامت کی بھی فکرنہیں کرتے ،خواہ وہ اپنی رائے میں بالکل تنہاہی کیوں نہ ہوں۔
 حضورتاج الشریعہ کواللہ رب العزت نے جہاں بے شمارعلمی فضائل وکمالات سے نوازا تھا،وہیں اظہارحق کے لئے جرأت و بےباکی جیسی خوبیوں سے بھی بہرہ ورفرمایاتھا،چنانچہ آپ کی حق گوئی وبے باکی کایہ عالم تھا کہ خلاف شرع امورمیں بڑے سے بڑے اہل علم وفضل،چوٹی کے صاحبان اقتدار اور نامور مال داروں کی بھی کوئی رعایت نہیں فرمائی،جوحق ہے اس کاببانگ دہل اظہارفرمایا، کبھی کسی کاچہرہ دیکھ کربات نہیں کی،کبھی کسی کی ناراضگی یا کسی ذاتی نقصان کی پرواہ نہیں کی۔
 ایک بارکاواقعہ ہے کہ انٹرنیشنل میلاد کانفرنس کراچی پاکستان کے اسٹیج پردیگر بڑی خانقاہوں کے سجادگان کے ساتھ ساتھ خانقاہ غوث اعظم کے سجادہ نشین بھی موجودتھے ،انھوں نے کوٹ پینٹ کے ساتھ ساتھ ٹائی بھی لگارکھی تھی ،جیسے ہی حضورتاج الشریعہ کی نظر ٹائی پرپڑی، آپ نے فوراً برسر اسٹیج ٹائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے فرمایاکہ’ ’حضوریہ ٹائی یہودونصاریٰ کامذہبی شعار ہونے کی وجہ سے ناجائزوحرام ہےیہ دیکھ کر اس وقت توتھوڑی دیرکے لئے اہل اسٹیج بلکہ تمام مجمع پرسکتہ طاری ہوگیا،ہرایک دوسرے کامنھ تکنے لگا،لوگ پریشانی میں پہلوبدلنے لگے کہ نہ معلوم اب کیاردّعمل سامنے آئے۔
 دراصل بھرے مجمع میں اس عظیم ترین شخصیت کوٹوکنے کی جرأت کرنابلاشبہ بڑےدل گردے کی بات تھی،لیکن آپ کمال اطمینان و سکون سے مسئلہ کی تفہیم فرماتے رہے اورسجادہ نشین مسحور ہوکر بغور سماعت فرماتے رہے،حق کی کشش ملاحظہ فرمایئے کہ جب ان کو نفس مسئلہ سمجھ میں آگیاتوانھوں نےآپ کی پیشانی کوبوسہ دیااورنہایت ہی خوش دلی کے ساتھ اپنی ٹائی اتار دی، نیزآپ کے ساتھ کافی دیرتک دیگرمسائل پرگفتگو فرماتے رہے۔
 جبکہ اکثر دیکھااور سناجاتاہے کہ ایسے مواقع پربہت سے لوگ اظہارحق وصداقت سے پس وپیش کرتے ہیں اور طرح طرح کی مصلحتوں کا سہارا لےکربیان حق سے گریزکرتے ہیں۔اسی طرح ہالینڈ کی سرزمین پر ایک جلسے میں آپ شریک ہوئے جہاں بہت سے ڈاکٹرز اور پروفیسرحضرات ٹائی لگا کر شریک اجلاس تھے، آپ نے برملا ٹائی کی حقیقت اور اس سےمتعلق عیسائیوں کے عقیدے پر بھر پور تقریر فرمائی، ساتھ ہی اس سلسلے میں ایک سوال کا مدلل اورمبرہن جواب بھی تحریر فرمایا۔ 
 اسی طرح ایک باردبئی کی گولڈ مارکیٹ کی مسجد میں جمعہ کی امامت کے لئے حضور تاج الشریعہ تشریف لے گئے،وہاں جا کر معلوم ہواکہ اس مسجد میں جمعہ کی نماز مائک پر ادا کی جاتی ہے،لیکن حضور تاج الشریعہ نے کسی بھی مصلحت کوخاطرمیں لائے بغیرمائک ہٹادیا اور مکبّرین کی تنصیب کےبعد امامت فرمائی ۔ 
 دبئی کےہی ایک صاحب جو سونے چاندی کے بڑے نامور اورکھرب پتی تاجر تھے، سیکڑوں لوگ ان کے یہاں کام کرتے تھے، قسمت سےانھیں حضور تاج الشریعہ سےشرف بیعت بھی حاصل ہے، دبئی کے کسی سفرمیں وہ حضور تاج الشریعہ سے ملاقات کے لئے آئے، کسی نے
آپ کو بتایا کہ ان کے یہاں تراویح کی امامت کوئی وہابی یا دیوبندی مولوی کرتا ہے، اتنا سنتےہی غلبۂ جلال سےحضورتاج الشریعہ کاچہرہ سرخ ہوگیا، آپ نےنہایت ہی سخت الفاظ میں انھیں ڈانٹا پھٹکارا، یہاں تک کہ ان سے مصافحہ بھی نہیں کیا، بالآخر انھوں نے عذر خواہی کرتے ہوئے کہا کہ حضورہمیں اس بات کاعلم نہیں، کیونکہ ہماری کمپنی میں سیکڑوں لوگ کام کرتے ہیں اور انھیں میں سےکوئی امامت بھی کرتاہے ، آئندہ ایسا ہرگزنہیں ہوگا، پھر انھوں نے سب کے سامنے اس لا پرواہی سےتوبہ و استغفار کیا۔
 اس کے بعدحضور تاج الشریعہ نے وہابیہ ودیابنہ کے عقائدباطلہ بتاکر مسائل شرعیہ سے آگاہ فرمایا، اس موقع پرلوگوں نے اپنے ماتھے کی نگاہوں سے دیکھاکہ اپنے وقت کےایک کھرب پتی کی بھی تاج الشریعہ نے کوئی رعایت نہیں فرمائی ،توبہ واستغفارکے بعد کھرب پتی تاجر نے سراپا عجز ونیازبن کر عرض کیا: حضور غریب خانہ پر تشریف لے چلیں ،آپ نے صاف انکار کردیا اور فرمایا: نہیں ! اس بار نہیں، البتہ اگر تم اپنی توبہ پر قائم رہے تو آئندہ سفر میں اس کےلئےسوچوں گا۔
 مذکورہ حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضور تاج الشریعہ حق گوئی وبے باکی،استقامت علی الحق اور تصلب فی الدین کی اپنی مثال آپ تھے ،سنت وشریعت کی اسی پابندی کے سبب اہل جہاں انھیں’’تاج الشریعہ‘‘جیسے مؤقرلقب سے یادکرتے ہیں،چناںچہ حضور تاج الشریعہ کی حق گوئی وبے باکی ،تصلب فی الدین اوراستقامت علی الحق کااعتراف کرتے ہوئے مصرکے معروف محقق شیخ محمدخالد ثابت اپنی کتاب ’’انصاف الامام‘‘میں رقم طرازہیں:
"كان الإمام أحمد رضا يحرّم التصوير، وكانت وفاته في سنة١٩٢١م، واليوم -بعد ما يقرب من تسعين عاما على وفاته ،حدثت في الدنيا تغييرات هائلة وأصبح التصوير كالماء والهواء لشعوب الأرض لا يكاد أحد يتصور الحياة إذا غاب التصويرعنها. ومع ذلك وجدت للشيخ الجليل محمد أختر ضمن مؤلفاته كتابـاً فـي تحـريم التصوير. وعلمت من أتباعه ومحبيه أنه لایسمح بالتصوير في مجلسه، حتى أنه لاتوجد له صورة متداولة بينهم.
ورحت أتأمل في هذا الأمر وأقول لنفسي:لو أن علماء الأمة اتخذوا نفس الموقف من التصوير لربما أصبح العالم على غير الشكل القبيح الذي نراه عليه، تأمــل في أبواب الفساد التي فتحت على الدنيا كلها من باب التصوير وحده حتى تقدرلهؤلاء الرجال جهودهم في خدمة الدين وثباتهم على الحق-یعنی امام احمدرضاحرمت تصویرکے قائل تھے اوران کاوصال ۱۹۲۱؁ء میں ہوا، آج ان کے وصال کے تقریباً ۹۰؍ سال بعد دنیامیں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،جن میں ایک تصویرکشی بھی ہے جو(آج کل)پوری دنیامیں ہوا پانی کی طرح عام ہوگئی ہے،یہاں تک کہ اب کوئی ایسی زندگی کاتصوربھی نہیں کرسکتاجس سے تصویرغائب ہو،تاہم مجھے تصویرکی حرمت پرمشتمل تاج الشریعہ کی کتابوں میں سے ایک کتاب ملی اورمیں نے ان کے پیروکاروںاورمداحوں کےذریعہ جانا کہ وہ اپنی محفلوں میں تصویرکشی کی اجازت بالکل نہیں دیتے ،یہی وجہ ہے کہ آپ کی کوئی بھی مروجہ تصویرنہیں پائی جاتی ۔
 میں نے اس معاملے میں غورکیااوراس نتیجے پر پہنچاکہ اگرپوری دنیاکے علمااسی موقف کواپنالیتے توآج دنیااتنی بری شکل میں نہ ہوتی جس میں ہم اسے دیکھ رہے ہیں، اسي طرح اگر آپ معاشرہ میں موجود ان برائیوں اور فسادات کے بارے میں غور وفکر کریں جن کا وجود ہی تصویر کشی پر موقوف ہے تو تاج الشریعہ جیسے علمائے ذی وقار کی دینی خدمات، کدوکاش اور راہ حق میں ان کی ثابت قدمی کی تعظیم وتکریم کیے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔" [انصاف الامام،ص۱۱۴-۱۱۵]
 چندسطورکے بعدمزیدیوں تحریرفرماتے ہیں:
" نعم:هذه فتاوى المخلصين رجال الله الصادقين الذين يدورون مع الحق حيث دار، لا يلزمون أنفسهم بغيره، ولا يراعون فى ذلك إلا الله، يعلموننا درسا مهما،فحواه:أن الباطل لا بد أن يظل مرفوضاً من أهل الحق مهما علا شأنه و استشرى وانتشر-ہاں! ایسے معرکۃ الآرافتوے صادر فرمانا(تاج الشریعہ)جیسےہی اللہ کےنیک اور مخلص بندوںکی شان ہے جوکہیں بھی ہوں ہمیشہ حق کے ساتھ رہتے ہیں،کبھی حق سے جدانہیں ہوتے،وہ حق کے معاملے میں اپنے بے گانے کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتے ،ان کایہ درس ہوتاہے کہ باطل چاہے جتنابڑھ جائے اہل حق اسے کبھی خاطرمیں نہیں لاتے۔"[انصاف الامام،ص۱۱۴-۱۱۵]

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area