Type Here to Get Search Results !

مختصر حیات مبارکہ حضرت لالہ میاں رفاعی رحمتہ اللہ علیہ

155 واں عرس رفاعی
مختصر حیات مبارکہ حضرت لالہ میاں رفاعی رحمتہ اللہ علیہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قَلَم: سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی 
خانقاہ رفاعیہ ، بڑودہ ، گجرات
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
صوفیائے کرام نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور آپسی بھائی چارہ کا ماحول تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ھے۔ بیشتر صوفیائے کرام نے اپنی خدمات کے لیے ایسے مقامات کو منتخب کیا جہاں اسلام ناموس رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اخلاق، کردار اور طرز عمل سے اپنے اور غیر ہر ایک کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ تمام مذاہب کے ماننے والے ان کے عقیدت مند رہے اور آج بھی ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی عظیم المرتبت شخصیات میں سلسلہ رفاعیہ کے صوفیائے کرام بھی شامل ہیں جنہوں نے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی محبتوں کا اسیر کرلیا۔ سلسلۂ رفاعیہ کے ایسے ہی معزز بزرگان دین میں سے مشہور و معروف بزرگ حضرت مولانا سید رضی الدین محمد ابرہیم المعروف لالہ میاں رفاعی شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ذات کریمانہ ہے. آپ ایک خدا ترس،نیک سیرت،متقی اور صفاتِ اولیاء سے متصف بزرگ تھے، آپ مشائخ رفاعیہ میں بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے اور ہندوستان میں سلسلہ رفاعیہ کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
جد امجد
        آپ کے اجداد میں حضرت الشیخ عارف العالم الکامل الفاضل الشریف السید نجم الدین المعروف عبد الرحیم رضوان اللہ حسنی حسینی موسوی شافعی رفاعی مدنی سورتی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کی ولادت 20، جمادی الاول 1070ھ ، بروز پیر بوقت عصر مدینہ شریف میں ہوئی. آپ حضرت شیخ سید شاہ سلطان نجیب الدین عبد الرحیم محبوب اللہ حسنی حسینی موسوی شافعی رفاعی احمدآبادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: 813 ھ) کی وفات کے 309 سال کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت و حکم سے اپنے افراد خاندان کے ساتھ مدینہ شریف سے ہجرت فرماکر بعمر 52 سال بمطابق 25 رجب المرجب 1122ھ میں ہندوستان کے تاریخی شہر باب المکہ سورت گجرات تشریف لائے اور ہمیشہ کے لیے سکونت پذیر ہوے.
وفات:
سورت بندرگاہ میں 10 سال خدمت خلق اور سلسلہ رفاعیہ کی روحانی و باطنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے بعد 62 سال کی عمر میں 20 جمادی الاول 1132 ھ بروز پیر بوقت عصر وصال ہوا۔ اور 22 جمادی الاول 1132ھ بدھ کے دن آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کا مزار مبارک خانقاہ رفاعیہ بریا بھاگل سورت گجرات میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ (تاریخ مشائخ رفاعیہ) 
والد گرامی :-
    آپ کے والد ماجد کا اسم شریف حضرت مولانا سید نور الدین ہاشم فیض اللہ حسنی حسینی موسوی شافعی رفاعی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔ (ولادت: 1176ھ سورت میں ہوئی/ وصال: 1244ھ میں ہوا، مزار مبارک خانقاہ رفاعیہ رفاعی باغ بریا بھاگل سورت میں ہے) آپ کے علمی اور روحانی مراتب بہت بلند تھے، آپ سلسلہ رفاعیہ کے عظیم صوفی تہجد گزار بزرگ عالم دین تھے کہ ان کا ہر فعل و عمل سنت کے مطابق اور طریقت کے موافق ہوتا تھا. دین سے رغبت اور دنیا داری سے بیزار رہتے تھے کبھی آپ نے دنیا جمع کرنے کی فکر نہ کی بلکہ ہمیشہ قوم کی فکر میں لگے رہتے تھے ہر وقت ذکر الہیٰ سے رطب اللسان رہتے تھے، بغض و عناد سے دل کو پاک رکھتے تھے، جدھر چلے جاتے لوگ پروانے کی طرح آپ پر فدا ہوجاتے تھے آپ کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپ کے تین صاحبزادگان ہیں (1) حضرت مولانا سید فخر الدین غلام حسین المعروف امیر میاں رفاعی رحمۃ اللہ علیہ ( متولد 1199ھ/ متوفی: 1262ھ ) (2) حضرت مولانا سید رضی الدین محمد ابرہیم المعروف لالہ میاں رفاعی رحمۃ اللہ علیہ (جن کا تذکرہ مضمون میں مقصود ہے ) ۔ (3) حضرت مولانا سید قطب الدین احمد المعروف بادشاہ میاں رفاعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: 1263ھ).
( تاریخ مشائخ رفاعیہ)
ولادت :- 
  حضرت لالہ میاں رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کے سن میں اختلاف ہے "حقیقت السورت گلدستہ صلحائ سورت" کے مصنف شیخ رضی الدین احمد بخش عرف بخشومیاں صفحہ 43 پر لکھتے ہیں کہ "ان کی ولادت 1207 ھ میں ہوئی تھی۔ اور "تاریخ مشائخ رفاعیہ" کے مطابق 1206ھ لکھا ہے۔(ص: 18)
      مقام پیدائش ہندوستان کے مشہور شہر گجرات کی تاریخی بندرگاہ باب المکہ سورت میں ہوئی.
آپ کا شجرہ نسب :-
      آپ کا شجرہ نسب (19) واسطوں سے بانی سلسلہ رفاعیہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے اور وہاں سے امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے توسط سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔شجرہ نسب کی تفصیل یہ ہے: 
(1)حضرت سید رضی الدین محمد ابراہیم المعروف لالہ میاں رفاعی بن (2) سید نورالدین ہاشم فیض اللہ رفاعی بن (3) سید عمادالدین احمد اللہ رفاعی بن (4) سید رکن الدین المعروف یوسف سیف اللہ رفاعی بن (5) حضرت الشیخ عارف العالم الکامل الفاضل الشریف السید نجم الدین المعروف عبدالرحیم رضوان اللہ رفاعی بن (6) سید سراج الدین المعروف محمد امین محبت اللہ رفاعی بن (7) سید فخرالدین المعروف صالح آفندی حامد اللہ رفاعی بن (8) سید علی رفاعی ابن (9) سید عبداللہ رفاعی بن (10) سید حسین رفاعی بن( 11) سید قاسم شرف الدین بحر علوم اللہ رفاعی بن (12) سید ابوالمحامد یوسف تاج الدین ہیبت اللہ رفاعی بن (13) سید علی داغر صاحب الشباک رفاعی بن (14) سید ابوالعباس احمد حجّت اللہ رفاعی بن (15) سید سیف الدین عبدالرحمن مختاراللہ رفاعی بن (16) سید عمر جیش اللہ رفاعی بن (17) سید رضی الدین ابراہیم کنز معرفت اللہ رفاعی بن (18) سید محمد معدن اسراراللہ رفاعی بن (19) حضرت الشیخ غوث الثقلین ابوالعلمین سید احمد کبیر رفاعی بن (20) سلطان سیدنا نورالدین ابوالحسن علی بن (21) سید یحییٰ کاظمی بن (22) سیدنا ثابت سیف اللہ بن (23)سیدنا ابو سلیمان حازم بن (24) سیدنا علی مشتاق اللہ بن (25) سیدنا حسن ابو المکارم بن (26) سیدنا جلیل جمال الدین ابوالقاسم محمد بن (27) سیدنا حسین بن (28) سیدنا شہاب الدین ابوالعباس احمد بن (29) سیدنا موسیٰ ثانی بن (30) سیدنا ابراہیم مرتضیٰ بن (31) سیدنا امام موسیٰ کاظم بن (32) سیدنا امام جعفر صادق بن (33) سیدنا امام محمد باقر بن (34) سیدنا امام زین العابدین بن (35) سیدنا امام حسین شہید کربلا بن (36) سیدنا امام امیرالمومنین اسداللہ الغالب علی بن ابوطالب۔۔(شجرہ رفاعیہ)
آپ کا شجرۂ طریقت :-
     آپ کا شجرہ طریقت بھی (19) واسطوں سے بانی سلسلہ رفاعیہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے، اور وہاں سے سلسلۃ الذہب امام الاولیا حضرت علی کرم اللہ وجہ تک پہنچتا ہے۔اور وہ حسب ذیل ہیں۔ 
(1)حضرت سید رضی الدین محمد ابراہیم المعروف لالہ میاں الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی ، م- 14/ ذی قعدہ 1290ھ مدفن سورت نے اس طریقے کی نعمت کو تمام سلسلوں سے اپنے والد ماجد(2) حضرت السید نورالدین ہاشم فیض اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ، م- 1244ھ سورت سے اور آپ نے اپنے والد (3) حضرت السید عمادالدین احمد اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 21، محرم، 1192ھ، مدفن سورت سے اور آپ نے اپنے والد(4) حضرت السید رکن الدین المعروف یوسف سیف اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 18، ربیع الاول، 1144ھ، مدفن سورت سے اور آپ نے اپنے والد (5) حضرت الشیخ عارف العالم الکامل الفاضل الشریف السید نجم الدین المعروف عبدالرحیم رضوان اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی قدس اللہ سرہ م- 22، جمادی الاول، 1132ھ، مزار مبارک خانقاہ رفاعیہ وریاوی بھاگل،سورت، گجرات سے اور آپ نے اپنے والد (6) حضرت الشیخ السید سراج الدین المعروف محمد امین محبت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 7، شوال 1097ھ مدینہ شریف سے اور آپ نے اپنے والد (7) حضرت الشیخ السید فخرالدین المعروف سید صالح آفندی حامد اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 1063ھ مدفن ملک شام سے اور آپ نے اپنے والد (8) حضرت الشیخ السید علی الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 27، رمضان 1030ھ مدفن مصر سے اور آپ نے اپنے والد (9) حضرت الشیخ السید عبداللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 9، ذی الحج، 1011ھ مدفن مصر سے اور آپ نے اپنے والد (10) حضرت الشیخ السید حسین الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے م- 1، رجب، 990ھ مدفن مصر سے اور آپ نے اپنے والد (11) حضرت الشیخ السید قاسم شرف الدین بحرعلوم اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 25، صفر،953ھ مدفن سویس بندرگاہ سے اور آپ نے اپنے والد (12) حضرت الشیخ السید ابوالمحامد یوسف تاج الدین ہیبت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 14، جمادی الآخر،927ھ مدفن شیباک مصر سے اور آپ نے اپنے والد (13) حضرت الشیخ السید علی داغر صاحب الشباک الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 10، شعبان 856ھ مدفن شیباک مصر سے اور آپ نے اپنے والد (14) حضرت الشیخ السید ابوالعباس احمد حجت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 12، رجب 824ھ مدفن حویزہ سے اور آپ نے اپنے والد (15) حضرت الشیخ السید سیف الدین عبدالرحمن مختاراللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 16، شعبان 813ھ مدفن مصر سے اور آپ نے اپنے والد (16) حضرت الشیخ السید عمر جیش اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 11، ربیع الآخر 751ھ مدفن مصر سے اور آپ نے اپنے والد (17) حضرت الشیخ السید رضی الدین ابراہیم کنز معرفت اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 14، رمضان 683ھ مدفن مصر سے اور آپ نے اپنے والد (18) حضرت الشیخ غوث الافاق شمس العراق السید محمد معدن اسراراللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ م- 12/ 14، محرم 639ھ مدفن مصر سے اور آپ نے اپنے والد ماجد (19) حضرت الشیخ غوث الثقلین ابوالعلمین سلطان العارفین محی الحق و الشرع والدین سید احمد کبیر معشوق اللہ الحسنی الحسینی الموسوی الشافعی الرفاعی قدس اللہ سرہ العزیز وصال ،22، جمادی الاول 578ھ ام عبیدہ عراق، سے حاصل کیا اور آپ نے (20) حضرت الشیخ عارف بااللہ علاءالدین علی القاری الواسطی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (21) حضرت الشیخ عارف بااللہ ابی الفضل محمد بن کامخ رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (22) حضرت الشیخ عارف بااللہ علام بن ترکان رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (23) حضرت الشیخ عارف بااللہ علی بازیاری رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (24) حضرت الشیخ عارف بااللہ علی العجمی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (25) حضرت الشیخ عارف باللہ ابو بکر محمد الشبلی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (26) حضرت الشیخ عارف بااللہ سید الطائفہ ابی القاسم جنید بن محمد البغدادی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے اپنے ماموں (27) حضرت الشیخ عارف باللہ ابی عبداللہ سری سقطی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (28) حضرت الشیخ عارف باللہ ابی المحفوظ معروف الکرخی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (29) حضرت الشیخ عارف باللہ ابی سلیمان داود طائی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (30) حضرت الشیخ ابو محمد حبیب العجمی رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (31) حضرت الشیخ الجلیل ابی سعید سیدنا الحسن البصری رضی اللہ عنہ سے اور آپ نے (32) امیرالمومنین امام المشارق والمغارب ابی الحسنین سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ سے آپ نے اپنے ابن عم (33) سلطان الانبیاء والمرسلین حبیب رب العلمین سیدنا و نبینا و شفیعنا و مولانا و مولی الثقلین حضرت ابی القاسم سیدنا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا۔
(تاریخ مشائخ رفاعیہ)
 تعلیم و تربیت و بیعت و خلافت :-
     تصوف و سلوک، روحانیت و طریقت اور علم و فن کا جو ماحول آپ کو ملا اس کی بدولت اپنے شعور کے آغاز سے ہی تزکیہ نفس ، مجاہدۂ باطن، طہارت قلب و نظر اور ذکر و فکر کی طرف مائل تھے۔ اپنی خاندانی روایت کے مطابق والد ماجد قدس سرہ سے تعلیم و تربیت پائی اور انہیں کے دست اقدس پر سلسلہ رفاعیہ میں بیعت ہو گئے اور ساتھ ہی اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔ 
بڑودہ میں سلسلہ رفاعیہ کی آمد اور مرغ کی مشہور کرامت
      بڑودہ میں سلسلہ رفاعیہ کی آمد کا سبب کچھ اس طرح ہوا کہ حضرت سید فخرالدین غلام حسین المعروف امیرمیاں رفاعی ، حضرت سید رضی الدین محمد ابراہیم المعروف لالہ میاں رفاعی اور حضرت سید قطب الدین احمد المعروف بادشاہ میاں رفاعی علیہم الرحمتہ والرضوان اپنے مریدین و معتقدین کے ساتھ ایک مرتبہ دکن حیدرآباد دورے پر گئے ہوئے تھے ، وہاں حلقہ راتب رفاعیہ (سلسلہ عالیہ رفاعیہ میں ذکر الٰہی کی محفل کو محفل راتب رفاعیہ کہا جاتا ہے ۔ راتب رفاعیہ کی محفل میں ذکر الٰہی سے مغلوب ہوکر وجدانی کیفیت میں مریدین و وابستگان سلسلہ فنائیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کو ضربات رفاعیہ کہا جاتا ہے )
کا عام اور وسیع پیمانے پر عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا، اس وقت حضرت نے ایک مرید کی گردن پر ضرب کی اور گردن کو جسم سے الگ کردیا اور پھر اسی گردن کو چند لمحوں میں بسم اللہ شریف اور مخصوص اوراد رفاعی پڑھتے ہوئے جسم سے جوڑدیا ، اس وقت حیدرآباد دکن میں آصفجاہی حکومت کا دور دورہ تھا اور نظام دکن علماء و مشائخین کے بڑے قدردان بادشاہ تھے اور کیوں نہ ہو جب کہ ان کی تعلیم و تربیت ایک عارف باللہ حضور شیخ الاسلام شاہ محمد انوار اللہ فاروقی رفاعی علیہ الرحمۃ بانی جامعہ نظامیہ کے دست حق پرست پر ہوئی تب ہی تو آپ علماء و مشائخ کے بڑے قدردان تھے اور یہ واقعہ بھی ان ہی کے سامنے پیش آیا اور شاہ وقت نے خود اپنی آنکھوں سے اس کرامت کو دیکھا ، شاہ دکن پہلے ہی سے آپ سے اعتقاد رکھتے تھے لیکن اس واقعہ کے بعد ان کی عقیدت اور زیادہ ہو گئ اور آپ نے اس واقعہ کو بڑودہ کے مہاراجہ کھنڈےراؤ صاحب کو سنایا اور اپنا دیکھا سب کچھ مہاراجہ کے سامنے بیان کردیا ، نظام حیدرآبادی اور مہاراجہ کھنڈےراؤ بڑودوی کا آپس میں بڑا گہرا دوستانہ تعلق تھا ۔    
     جب اس واقعہ کو کھنڈےراؤ مہاراجہ نے سنا پھر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ کرامت خاندان رفاعیہ کے بزرگ حضرت لالہ میاں رفاعی سے صادر ہوئی ۔ شاہ دکن نے مہاراجہ کے سامنے آپ کے تمام فضل و کمال اور حسن و جمال کا ذکر کیا جس کو سن کر مہاراجہ بڑودوی کو بھی آپ سے عقیدت ہو گئ اور وہ آپ کا گرویدہ ہو گیا اور بڑودہ تشریف آوری کی آپ کو دعوت دی، آپ مہاراجہ کی دعوت پر اپنے دونوں بھائیوں اور مریدین و خلفاء کے ساتھ سورت سے بڑودہ تشریف لائے اور اس طرح سے بڑودہ میں سلسلہ رفاعیہ کی آمد ہوئ ۔
 کھائے ہوے مرغ کو زندہ فرمایا
     آپ کی بڑودہ آمد کے بعد مہاراجہ نے خود اپنے محل میں شب جمعہ ایک جلسہ حلقہ راتب رفاعیہ کا منعقد کیا اور مہاراجہ خود اس جلسے میں حاضر ہوا۔ اس وقت مہاراجہ نے عرض کی کہ حضور آج موقع ہے آپ ہم کو ضربات رفاعیہ دکھادیں لیکن اگر آپ کسی انسان پر ضرب کریں گے تو میں تاب نہیں لا سکوں گا کیوں کہ میرا دل بہت کمزور ہے تو میری خواہش یہ ہے کہ آپ کسی جانور پر ضرب کریں تاکہ میں دیکھ سکوں۔ دادا حضور نے فرمایا تمہاری مراد ضرور پوری ہو گی ان شاءاللہ، دادا حضور نے فرمایا کوئی جانور لے آؤ تو مہاراجہ نے ایک بہت بڑا مرغا منگوایا، آپ کے اس حلقہ راتب رفاعیہ کو دیکھنے کے لئے مہاراجہ نے پورے بڑودہ شہر میں اعلان کروا دیا تھا اور جگہ جگہ سے کثیر تعداد میں لوگ جمع ہو گئے تھے، بعد نماز عشاء جب راتب رفاعیہ کا جلسہ شروع ہوا تو مریدین حضرت رفاعی علیہ الرحمہ کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے پھر آپ نے بادشاہ کے منگائے ہوئے مرغ کو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا اورپکا کر سب کو کھلا دیا۔ جب اہل محفل کھاکر فارغ ہو گئے تب دادا حضور نے مرغ کے تمام ہڈیوں اور پروں کو یک جا کرنے کا حکم دیا جب ہڈیوں اور پروں کو جمع کر دیا گیا تو دادا حضور نے فورا اس پر اپنی چادر مبارک ڈال دی ، یہ سارا واقعہ تمام حاضرین کے سامنے ہورہا تھا اور حلقہ راتب رفاعیہ اپنی پوری روحانیت کے ساتھ جاری تھا کہ تبھی حضرت سید رضی الدین محمد ابراہیم المعروف لالہ میاں رفاعی وجد میں آگئے اورکھڑے ہو کر اپنے بڑے بھائی حضرت سید فخرالدین غلام حسین المعروف امیرمیاں رفاعی کی دست بوسی کی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ اے پروردگار ! آج تیری وحدانیت کا منکر میرے سامنے بیٹھا ہے ، اے میرے رب تو اسلام کی صداقت و حقانیت کو واضح فرمادے اور اپنے حکم سے اس مرغ کو زندہ کر دے، اس کے بعد آپ نے ان ہڈیوں (جس پر آپ نے اپنی چادر ڈالی تھی )کی طرف دیکھتے ہوئے "قم باذن اللہ" کہا،اتنا کہنا تھا کہ ہڈیوں و پروں میں جنبش ہونے لگی اور اب تک جو مرغ مردہ پڑا تھا بانگ دیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا پھر جب آپ نے اپنی چادر مبارک ہٹائی تو اس مرغ کی ایک ہی ٹانگ تھی ، جب راجہ نے یہ منظر دیکھا تو عرض گزار ہوا حضور میں نے تو آپ کو دو ٹانگ والا مرغ پیش کیا تھا پھر یہ ایک ٹانگ والا کیسے ہو گیا تو دادا حضور نے فرمایا اس کی ایک ٹانگ آپ کے وزیر کے پاس ہے جو انہوں نے کھانے کے بعد چھپا لیا تھا ، فورا وزیر کو بلایا گیا اور اس سے پوچھ تاچھ کی گئی تو وزیر اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوا اور آپ کی بارگاہ میں معافی طلب کرتے ہوئے کہنے لگا ہاں یہ بات سچ ہے، میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ جو مرغ انہوں نے زندہ فرمایا یہ وہی مرغ ہے یا کوئی اور. پھر دادا حضور نے وزیر کو معاف فرما دیااور اس سے دوسری ٹانگ لے کر بسم اللہ پڑھ کر جوڑ دیا ۔
 سرکار نے جلایا اک مرغ ذبح کرکے
 کیا مرد باخدا ہے لالہ میاں رفاعی 
     یہ آپ حضرت لالہ میاں رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کی شان ہے کہ جانور پر ضرب کی، آج تک سلسلہ رفاعیہ میں کسی نے بھی جانور پر ضرب نہیں کی تھی۔ تمام اہل مجلس محو حیرت تھے، ہر ایک نے آپ کی کرامت دیکھی، مہاراجہ نے جب یہ دیکھا تو آپ کے آگے سر کو جھکا دیا ،آپ کا معتقد ہو گیا اور اسلام کا گرویدہ ہو گیا پھر اپنے خزانچی کو ایک خطیر رقم بطور نذرانہ آپ کے قدموں میں پیش کرنے کا حکم دیا،اس زمانے سے آج تک نذرانے کی رقم 746 روپیہ خانقاہ رفاعیہ کے سجادہ نشینوں کو ہر سال عرس رفاعی کے موقع پر ملتی آئی ہے۔ وہ رقم آج بھی سجادہ نشین خانقاہ رفاعیہ حضرت سید شاہ کمال الدین مظہر اللہ رفاعی صاحب کو ملتی ہے۔ 
      اس واقعہ سے بھی حلقہ راتب رفاعیہ کا ثبوت ملتا ہے،کیوں کہ یہ راتب رفاعیہ کی برکت تھی کہ مرغ زندہ ہو گیا، جس کا مشاہدہ ایک غیر مسلم راجہ نے کیا اور اسلام کی عظمت کے سامنے سر جھکا دیا۔ اس کی تفصیلات خود راجہ کے محل میں موجود ایک تاریخی دستاویز( تامرپتر) میں موجود ہے۔
حضرت امام رفاعی کی روحانی اور اخلاقی تعلیمات کا گائک وارڑ حکمرانوں پر بڑا اثر ہوا، اور انہوں نے زمین کا ایک بڑا خطہ وقف کر دیا جس پر فی الوقت خانقاہ رفاعیہ واقع ہے
      مذکورہ واقعہ کا اطراف و اکناف میں خوب خوب شہرہ ہوا ، راجہ چونکہ صوفی ازم سے گہرا لگاؤ رکھتا تھا، اس واقعے کے بعد اس کی وابستگی میں اور بھی اضافہ ہو گیا،اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی سلطنت سے وسیع وعریض زمین پر پھیلا ہوا (22) گاؤں نذرانہ کے طور پر پیش کیا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اسے قبول کرنے سے اعراض کیا اور فرمایا کہ ہم فقیر اور صوفی منش لوگ ہیں یہ لے کر کیا کریں گے، بادشاہ پھر سے عرض گذار ہوا اور قبول کرنے کے لئے اصرار کرنے لگا پھر بھی آپ نے لینے سے منع فرمایا، بعد ازاں بادشاہ نے یہ گزارش کی کہ آپ ہماری اتنی سی گزارش قبول فرما لیں کہ آپ ہمارے شہر بڑودہ کو چھوڑ کر نہ جائیں یہیں پر آپ قیام فرما کر اپنے فیض کو عام کریں، حضرت سید فخرالدین غلام حسین المعروف امیر میاں رفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بات رکھ لی اور قیام کرنے کے لئے راضی ہو گئے پھر بادشاہ نے اپنے محل کے سامنے خانقاہ کی تعمیر کروائی اور عبادت کے لئے مسجد بھی بنوائی۔
اور آپ کے بھائی سید قطب الدین احمد المعروف بادشاہ میاں رفاعی رحمتہ اللہ علیہ (پیران پٹن) پٹن تشریف لے گئے ، وہاں بھی لوگ کثیر تعداد میں حلقہ ارادت میں داخل ہوکر سلسلہ رفاعیہ کے فیضان سے مالا مال ہونے لگے۔
      اور آپ کے برادر اصغر حضرت مولانا سید رضی الدین محمد ابراہیم المعروف لالہ میاں رفاعی رحمتہ اللہ علیہ اپنے آبائی وطن سورت تشریف لے گئے ، وہاں بھی لوگ بڑی تعداد میں آپ کے دست حق پرست پر بیعت کر کے سلسلے کے فیضان سے مشرف ہونے لگے۔ آپ کے سورت تشریف لانےکے بعد عرصہ دراز تک سورت میں رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رہا اور ہندوستان میں یہ سلسلہ آپ کے ذریعے خوب پھیلا اور مقبول ہوا۔ 
جنات کے استاد :-
    حضرت لالہ میاں رفاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علمی و روحانی مقام بڑا بلند و بالا ہے. آپ کے فیضان علمی سے ایک زمانہ مستفیض ہوتا رہا ہے. آپ نے پوری زندگی دعوت و تبلیغ میں صرف کردی، خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ہزاروں بے راہ روؤں کو راہ راست پر لائے اور باطل قوتوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، علمی جاہ و جلال کا عالم یہ تھا کہ انسان تو انسان جنات بھی آپ کے شاگرد بننے میں فخر محسوس کرتے تھے ،جب آپ خانقاہ رفاعیہ رفاعی حویلی سیدواڑہ سورت میں مقیم تھے تو آپ کے حجرۂ مبارکہ سے باہر درس کی آواز آتی تھی لیکن جب دروازہ کھول کر دیکھا جاتا تو آپ کے سوا کوئی نظر نہ آتے پھر معلوم ہوا کہ آپ جناتوں کو بھی درس دیتے تھے ۔
وصال‌ :-
       آپ کا وصال مبارک 84 سال کی عمر میں 14/ ذی قعدہ 1290ھ خانقاہ رفاعیہ کے رفاعی حویلی سورت میں ہوا اور وہیں آپ کا مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق بنا ہوا ہے. 
   آپ کا عرس مبارک ہر سال 13/ ذی قعدہ کو خانقاہ رفاعیہ،بڑودہ شریف میں اور 14/ ذی قعدہ کو خانقاہ رفاعیہ رفاعی حویلی سیدواڑہ سورت جہاں آپ کا مزار پر نور واقع ہے پر بڑے ہی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area