Type Here to Get Search Results !

علامہ وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ


علامہ وصی احمد محدث سورتی ـــ کتابِ زندگی کے چند صفحات 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
 آپ محدث ہیں۔ اَعلم بالسنة ہیں ۔
( امام احمد رضا)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از : محمدفیضان سرور مصباحی رکن : روشن مستقبل ـ دہلی 
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
 علامہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ مذہب اسلام کے بے باک ترجمان کا نام ہے ۔ تفسیر ، عقائد ، فقہ ، عشق و روحانیت، رد بدمذہباں اور فن طب کے ساتھ ساتھ "علم حدیث" آپ کا خاص میدان تھا ۔ جس میں آپ نے بیش بہا قیمتی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں ۔ 
"منیۃ المصلی" پر آپ کا اہم اور وقیع حاشیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، یہ حاشیہ کیا ہے! محدثانہ رنگ میں مختلف فیہ مسائل پر ایسی زبردست توضیح وتنقیح، اور جرح وتعديل واسماء الرجال کی روشنی میں فقہ حنفی کی ایسی تائید وترجیح کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔ مجلسِ برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے عمدہ کاغذ پر اسے مجلد شائع کرایا ہے ۔ "شرح معانی الآثار " پر بہت مختصر عربی حاشیہ بھی بیروت سے طبع ہوچکا ہے ۔" التعلیق المجلی " کے بعض حدیثی ابحاث جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں سبقاً سبقاً پڑھنے کے بعد میں دل دماغ پر آپ کے حوالے سے نہایت خوشگوار اثرات قائم ہوئے ۔ تفصیلی حالات پڑھنے کی خواہش تھی، مگر اب تک قاصر رہا تھا. الحمدللہ اس مضمون کی تیاری کے بہانے آپ کی زندگی کو بہت تفصیل سے جاننے کا موقع ملا ۔ 
  ۸؍ جمادی الاولی ١٣٣٤ھ آپ کے وصال کی تاریخ ہے ۔ اس لیے خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے چند سطریں لکھ کر نذر قارئین کر رہے ہیں ۔ 
گرقبول افتد زہے عزو شرف 
ولادت اور نسبی تعلق 
ـــــــــــــــــــــــــ
امام شاہ وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ کی ولادت انقلاب 1857ء سے بیس سال قبل ١٢٥٢ھ/ ١٨٣٦ء میں راندیر، ضلع : سورت ـ (انڈیا) میں ہوئی ۔ آپ کا شجرۂ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے صاحبزادے حضرت محمد بن حنفیہ - رضي الله عنه - سے جاملتا ہے۔ اسی نسبت سے آپ ”حنفی ـ یا ـ حنیفی“ بھی لکھا کرتے تھے ۔
1857ء کی آزمائشیں اور ہجرتِ عراق 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
انقلاب 1857ء کا جب آغاز ہوا؛ تو اس میں آپ کے خاندان کے متعدد افراد کے ساتھ ساتھ آپ کے ۲ ؍ حقیقی بھائی بھی شہید ہوگئے ۔ سامانِ تجارت جل کر راکھ ہوگیا، باقیات پر انگریزی فوجوں نے قبضہ کرلیا ۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے والدین کریمین اور برادرِ صغیر مولانا عبد اللطیف سورتی علیہ الرحمہ کے ہمراہ کسی طرح سرزمین ”عراق “ پہنچے ۔ وہاں ۳ ؍ سال تک سکونت پذیر رہے ۔ 
سفر حج اور وطنِ ہند واپسی 
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
پھر بارادۂ حج سبھی مکۂ مکرمہ، پھر وہاں سے مدینۂ منورہ کی زیارت سے باریاب ہوئے۔ مدینہ منورہ سے اب واپسی میں راندیر، سورت ـ انڈیا کا قصد تھا کہ راستے میں والد گرامی کا وصال ہوگیا ۔ راندیر پہنچ کر والدۂ ماجدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں ۔
سفر برائے تحصیلِ علم دین  
ــــــــــــــــــــــــــ
اب آپ اور آپ کے چھوٹے بھائی بچے تھے ۔ دونوں تحصیل علم کی غرض سے دہلی روانہ ہوئے ۔ وہاں جامع مسجد فتحپوری ـ دہلی میں چند دن رہے۔ اس وقت وہاں حضرت علامہ رحیم بخش معروف بہ : خواجہ مسعود مظہری دہلوی علیہ الرحمہ درس و تدریس کے جوہر لٹا رہے تھے، پھر مدرسہ حسین بخش ـ دہلی میں کچھ دن رہ کر اساتذۂ کرام سے اکتساب فیض کیا ۔ ادھر کانپور میں صاحبِ علم الصیغہ حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ کا ادارہ "مدرسہ فیض عام کانپور " اپنی علمی شہرت کے ڈنکے بجارہا تھا، دونوں بھائیوں نے وہاں پہنچ کر حضرت مفتی لطف اللہ علی گڑھی علیہ الرحمہ سے خوب خوب استفادہ کیا، اور ١٢٨٢ھ میں وہیں سے فراغت حاصل کی ۔
بیعت وخلافت 
ــــــــــــــــــ
فراغت کے بعد "بیعت" کے لیے مرشد کامل اویس زماں شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پہنچے۔ یہ "گنج مرادآباد" ضلع اناؤ، یوپی (انڈیا) میں ایک مشہور علاقہ ہے۔ مرشدِ کامل نے آپ کے اندر موجود علمی و روحانی دونوں خوبیوں کو دیکھ کر بخوشی نہ صرف سلسلۂ قادریہ نقشبندیہ میں شامل فرمایا؛ بلکہ سند حدیث اور خلعتِ خلافت سے بھی نواز دیا ۔ بیعت کے بعد ۱یک سال تک وہیں مرشدِ کامل کی بارگاہ میں روحانی تربیت کے لیے موجود رہے ۔
درس و تدریس کا آغاز 
ــــــــــــــــــــــــــ
١٢٨٨ھ کے شروع میں علامہ احمدحسن کانپوری علیہ الرحمہ اور دیگر علما کے مشورے کے بعد اپنے مادر علمی "مدرسہ فیض عام کانپور " سے تدریس کا آغاز کیا ۔ جو تقریباً آٹھ سالوں تک جاری رہا ۔ یہاں دارالافتاء کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد تھی ۔ 
سنن نسائی پر عربی حاشیہ نویسی 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہیں "مدرسہ فیض عام کانپور " میں آپ نے یکے از صحاح ستہ: "نسائی شریف" پر عربی حاشیہ نویسی کا کام شروع کیا تھا، جو ١٢٩٤ھ میں پایۂ تکمیل کو پہنچا ۔
علامہ احمدعلی محدث سہارنپوری کی خدمت میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ کے مرشدِ گرامی شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی علیہ الرحمہ نے فن حدیث میں آپ کی خصوصی رغبت و دلچسپی دیکھ کر "مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور " جانے کا حکم دیا ، اس وقت وہاں محدث جلیل محشئی بخاری علامہ احمد علی محدث سہارنپوری کی تدریسِ حدیث کا بڑا شہرہ تھا ۔ گوکہ آپ کے پاس پہلے ہی سے مرشد کامل علیہ الرحمہ اور استاذ گرامی حضرت مفتی لطف اللہ علی گڑھی علیہ الرحمہ کی طرف سے ملی ہوئی حدیث شریف کی دو دو سندیں موجود تھیں، پھر بھی مرشد کا اذن پاکر آپ علامہ احمدعلی محدث سہارنپوری کی خدمت میں پہنچ گئے ۔ ۳ ؍ سال وہاں رہ کر فن حدیث کی منتہی درجے کی کتابیں پڑھیں، اس کے بعد محدث سہارنپوری کا وصال ہوگیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ وہاں حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ اور حضرت علامہ سید دیدار علی الوری علیہ الرحمہ دورۂ حدیث شریف کے طالب علم تھے ۔
شادی خانہ آبادی اور پیلی بھیت آمد 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
١٢٩٥ھ میں مظاہر علوم سہارنپور سے فراغت کے بعد واپسی ہوئی ۔ عمر تقریباً ٤٢ ؍ سال کی ہوچکی تھی؛ مگر اب تک آپ غیر شادی شدہ تھے ۔ ہاں! آپ کے چھوٹے بھائی مولانا عبد اللطیف سورتی علیہ الرحمہ پیلی بھیت میں نکاح کرکے وہیں رہ رہے تھے ۔ حضرت علامہ احمد حسن کانپوری علیہ الرحمہ کی خواہش پر محدث سورتی کی شادی کانپور ہی میں میر عنایت حسین صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی ۔ کچھ روز وہاں قیام پذیر رہے، اس کے بعد چھوٹے بھائی مولانا عبد اللطیف سورتی علیہ الرحمہ نے کافی اصرار کیا؛ تو آپ نے پیلی بھیت میں مستقل رہائش اختیار کرلی ۔ آپ کی پانچ صاحبزادیاں اور ایک صاحب زادے سلطان الواعظین مولانا عبد الاحد پیلی بھیتی علیہ الرحمہ ہوئے ۔
 مدرسۃ الحدیث ـ پیلی بھیت شریف کا قیام
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
١٣٠١ھ میں اپنے مکان سے ملحق زمین خرید کر "مدرسۃ الحدیث"کے نام سے ۱یک مدرسہ تعمیر کرایا ۔ جس کی افتتاحی تقریب میں اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ نے شرکت فرمائی، اور "فن حدیث" سے متعلق ۳ ؍ گھنٹے کا منفرد انداز میں خطاب فرمایا ۔ اس موقع پر علماے رامپور، علماے بدایوں اور علماے پنجاب کا عظیم الشان قافلہ موجود تھا ۔
(تذکرۂ محدث سورتی ، ص: ٧٧،٧٨ )
اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی اس حدیثی تقریر سے صاحبزاۂ محدث سہارنپوری مولانا خلیل الرحمٰن سہارنپوری صاحب متاثر ہوکر کہتے ہیں :
اگر اس وقت میرے والد ماجد (علامہ احمدعلی محدث سہارنپوری) ہوتے تو آپ - رحمة الله تعالیٰ عليه - کے تبحرعلمی کی دل کھول کر داد دیتے ۔ اور انھیں اس کا حق بھی تھا ۔
(امام احمد رضا اور رد بدعات ومنکرات، ص: ٣٣)
امام وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمہ کے اس مدرسۃ الحدیث کا فیض عام سے عام تر ہوا ۔ جس میں رہ کر آپ ٢٠ ؍ سال تک درس حدیث میں مشغول رہے ۔ دیگر تبلیغی مصروفیات اس پر متضاد ہیں ۔ جب کہ اس ادارے کے قیام سے پہلے پندرہ سال مسلسل "مدرسۂ حافظ العلوم ـ پیلی بھیت" میں بحیثیت صدر مدرس علم وفن کے گوہر لٹاتے رہے ۔ 
مشہور تلامذہ 
ـــــــــــــــــــــ
چوں کہ اپنی زندگی کا بیش تر حصہ درس و تدریس میں گزارا، اس لیے آپ کے تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے۔ جن میں چند مشہورنام یہ ہیں ۔ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ ● ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری ● حضرت مفتی ضیاء الدین احمد مدنی ● حضرت مولانا مشتاق احمد کانپوری ● محدث اعظم سید محمد محدث کچھوچھوی ● پروفیسر علامہ سید سلیمان اشرف بہاری ـ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ● حضرت مولانا عبدالعزیز خاں محدث بجنوری ● حضرت مولانا عزیز الحسن پھپھوندی ● حضرت مولانا مصباح الحسن پھپھوندی ● حضرت مولانا نثار احمد کانپوری علیہم الرحمہ ۔ 
معمولاتِ محدث سورتی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
فخر المحدثين حضرت علامہ وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ کے معمولات پر نظر ڈالیں تو متقدمین اسلاف کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ۔آپ کے معمولات میں سے یہ باتیں تحریری طور پر تاریخ کا حصہ بنی ہیں :۔ 
● ہر وقت باوضو ر ہتے؛ مگر دورانِ درس وضو کا خاص اہتمام فرماتے ۔ ● لباس ہمیشہ سادہ اور غذا نہایت ہی معمولی استعمال کر تے ۔ ● ١٢ ؍ ربیع الاول شریف کے محفل میلاد میں شریک ہوتے اور اختتام تک قیام فرماتے ۔ ● بچوں سے خصوصی انس و پیار فرماتے۔ ● قرب و جوار کے تمام بچے نماز عصر کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے چاروں طرف حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے اور آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ان کو پند و نصائح فرماتے ۔ ● نماز عصر تا مغرب مسجد میں قیام فرماتے۔ لیکن اس دوران بچوں کے علاوہ کوئی اور شخص آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے قریب نہ جاتا۔ ● نماز تہجد کے بعد وظیفہ پڑھتے ۔ ● نماز فجر سے قبل گھر کے تمام افراد اور مدرسہ کے طالب علموں کو بیدار کر تے ۔ 
● نماز فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت فرماتے۔ ●اشراق کی نماز سے قبل ناشتہ کرتے۔ ● آپ ایک اچھے طبیب بھی تھے، کچھ دیر مطب میں بیٹھتے ۔ پھر مدرسہ تشریف لے جانے ۔ ● بارہ بجے کھانا تناول فرمانے کے بعد کچھ دیر قیلولہ فرماتے ۔ ● ظہر کے بعد سے عصر تک طلباء کو حد یث شریف کا درس دیتے۔ ● مغرب عشاء کے درمیان خاندان کی بچیوں کو حدیث کا درس دیتے؛ جس میں محلہ کی عورتیں بھی شریک ہوتی تھیں ۔ ● عشاء کی نماز کے بعد رات گئے تک لکھنے اور پڑھنے میں مصروف رہتے ۔ ● نہایت دھیمی آواز میں گفتگو فرماتے حتی کے محافل وعظ میں بھی یہی طریقہ اختیار فرماتے ۔ ● جہری نمازوں میں بلند آواز سے قرات فرماتے۔ ● فجر کی نماز میں لمبی سورتیں تلاوت فرماتے ۔ ● اکثر و بیشتر دوران تلاوت رقت طاری ہو جاتی تھی۔ ● ہمیشہ نیچی نظریں رکھتے ۔ ● ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ رہتی ۔ ● سادگی وانکساری کا اعلی نمونہ تھے۔
(گلستانِ محدثین، ص: ١٩٩) 
احساسِ طالب علمی 
ـــــــــــــــــــــــ
آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے معمولات میں سب سے عجیب پہلو یہ تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے پاس دوران تدریس ایک تھیلا موجود رہتا تھا۔ جس میں قدیم کوفی طرز تحریر کا ،قرآن حکیم کا پہلا پارہ رکھا رہتا تھا۔ یہ پارہ اپنی قدامت کے اعتبار سے کافی بوسیدہ ہو چکا تھا۔ جبکہ تھیلا بھی کئی جگہ سے نکل گیا تھا، جو نہایت خوبصورت قدیم پارچہ کا سلا ہوا تھا، دیکھنے سے پتہ چلتا تھا کہ یہ کسی خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے ۔ شیخ الحد ثین حضرت وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اکثر اس تھیلے کی تفصیلات کو چھپاتے تھے۔ لیکن جب کوئی اصرار کرتا تو فرماتے : 
یہ وہ تھیلا ہے جو میری والدہ ماجدہ نے اپنے ہاتھوں سے سیا تھا اور جس میں پہلی مرتبہ یہی سپارہ لے کر مدرسہ پڑھنے گیا تھا، یہ تھیلا میری متاع عزیز ہے، جہاں یہ میری والدہ کی نشانی ہے، وہاں اس کی ہر وقت موجودگی مجھے احساس دلاتی ہے کہ میں بنیادی طور پر طالب علم ہوں، جس دن یہ احساس میرے دل میں معدوم ہو گیا۔ اس دن میرے علم اور جہالت میں کوئی حدِفاصل نہیں رہے گی ۔‘‘
(گلستانِ محدثین، ناصرالدین ناصر المدنی ، ص:١٩٣ ،١٩٤ )
تصنیف وتالیف 
ـــــــــــــــــــ
تحریکِ رد ندوہ اور تحریکِ رد غیر مقلدین کے آپ پرجوش داعی تھے ۔ اس سلسلے میں آپ نے کافی اسفار بھی کیے اور ان کے خطرات سے عوام و علماء کو آگاہ اور بیدار کرنے کی سعی بلیغ فرمائی ۔ مدرسے کی ذمہ داری اور اس کے اہتمام وانصرام کا معاملہ الگ تھا ۔ ان ہجومِ افکار کے باوجود خود کو تصنیف وتالیف کے ساتھ بھی جوڑے رکھا ۔ اکثر زیرِ درس، اور دیگر اہم کتابوں پر آپ نے حواشی لکھے۔ مگر بروقت اشاعت میں نہ آنے کی وجہ سے، یا دوسرے اسباب کی بنیاد پر ضائع ہوگئے ۔ چند تحریری کام یہ ہیں :۔
● حاشیہ مدارک التنزیل ● حاشیۂ تفسیر بیضاوی ● حاشیۂ تفسیر جلالین ● تعلیقات سنن نسائی ● حاشیہ شرح معانی الآثار ● تعلیقاتِ شروح اربعہ بر ترمذی شریف ● شرح سنن ابی داؤد ● شرح مشکوۃ المصابیح ● افادات حصن حصین ● التعلیق المجلي لما في منیۃ المصلي ● الدرۃ في عقد الأيدي تحت السرة ● كشف الغمامة عن سنية العمامة ● اظہارِ شریعت ● جامع الشواہد في إخراج الوهابيين عن المساجد ● حاشیہ مقامات حریری ● حاشیہ شافیہ ● تعلیقات شرح ملا حسن ● حاشیہ میبذی وغیرہ 
اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی سے عقیدت 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
اعلی حضرت امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ سے آپ عمر میں ٢٠ ؍ سال بڑے تھے ۔ مگر اس کے باوجود دونوں بزرگوں کی آپسی عقیدت ومحبت، عزت واحترام دیکھ کر بسااوقات دیکھنے والوں کی آنکھیں بھیگ جایا کرتیں ۔ اس سلسلے میں متعدد واقعات تاریخ کے صفحات پر نقش ہیں ۔ طوالت کا خوف نہ ہوتا تو ضرور لکھتا ۔
وصال پُرملال 
ــــــــــــــــــــ
آپ ایک عظیم محدث تھے۔ علومِ حدیث اور درس حدیث سے زندگی بھر خود کو وابستہ رکھا ۔ تقریباً چالیس سالوں تک درس حدیث کے بعد شدید اعصابی کمزوری کے شکار ہوگئے تو اس وقت بھی بستر علالت ہی سے درس حدیث دیتے رہے۔ وصال والے مہینے جمادی الاول کے آغاز ہی میں غشی کی کیفیت طاری ہونے لگی ۔ علاج ومعالجہ جاری تھا ۔ ۶؍ جمادی الاولی کو افاقہ کے بعد پوچھنے لگے کہ کیا دن ہے؟ بتایا گیا دوشنبہ ۔ فرمایا : بخاری شریف کی پہلی جلد ختم ہوگئی ۔
 ۸؍ جمادی الاولی ١٣٣٤ بمطابق ١٢ ؍ اپریل ١٩١٦ء کو بوقت تہجد اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ إنا للہ وانا الیہ راجعون. 
ہر طرف صفِ ماتم بچھ گئی ۔ پیلی بھیت شریف میں دیوانوں کا عجب ہجوم تھا، خلقِ خدا زاروقطار روتی تھی ۔ اعلی امام احمد رضا محقق بریلوی علیہ الرحمہ کو بھی وصال کا بڑا گہرا صدمہ پہنچا، اس دن کل نمازیں بیٹھ کر اداکیں، حالاں کہ ہرحال میں عصا لے کر کھڑے ہوکر نماز ادا کیا کرتے تھے ۔ یہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے شدید حزن ملال کا اظہاریہ تھا ۔ فرمانے لگے : وہ دنیا سے کیا رخصت ہوئے؛ بلکہ میرا داہنا ہاتھ مجھ سے جدا ہوگیا ۔ اور میری کمر ٹوٹ گئی ۔ 
انڈیا میں، صوبہ : یوپی کے شہر "یپلی بھیت" میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے ۔ اور اپنی برکتیں لٹا رہا ہے ۔ 
نوٹ : 
ــــــــــــــ 
 اعلی حضرت علیہ الرحمہ اور محدث سورتی علیہ الرحمہ کے درمیان خصوصی ربط وتعلق پر رفیق گرامی مولانا محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی (رام گڑھ ـ جھارکھنڈ ) نے قدرے تفصیل سے لکھا ہے ۔ گلستانِ محدثین، از: مولانا ناصرالدین ناصر المدنی میں بھی کافی واقعات درج ہیں۔ حضرت محدث سورتی علیہ الرحمہ کے پرپوتے "خواجہ رضی حیدر" نے ”تذکرۂ محدث سورتی“ کےنام سے تفصیلی حالات میں بھی آپ کے بارے میں تفصیل سے پڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ مختصر سا مضمون میں ہم نے انہی مؤخرالذکردونوں کی روشنی میں تیار کیا ہے ۔
از :محمدفیضان سرور مصباحی
رکن : روشن مستقبل، دہلی 
٨؍جمادی الآخرہ ۱۴۴۳ھ 
۲ا ؍ جنوری ۲۰۲۲ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area