دیوبندی وہابی بدمذہبوں کے مدارس میں زکوٰۃ و فطرہ دینا شرعاً کیسا ہے؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرح متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ دیوبندی وہابی کے مدرسے میں زکوۃ و فطرہ کا روپیہ دینا کیسا ہے جواب عنایت فرمائیں گے مہربانی ہوگی
سائل:- محمد رمضان علی دیناجپوری مغربی بنگال۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سائل:- محمد رمضان علی دیناجپوری مغربی بنگال۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب :
دیوبندی ، وہابی بدمذہب ہیں ، ان میں سے جن کی بدمذہبی حد کفر تک پہونچ چکی ہے خود ان کو زکوٰۃ و فطرہ دینا ناجائز و حرام ہے
چنانچہ امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ فرماتے ہیں:
" ولا يجوز صرفها لأهل البدع "
الجواب بعون الملک الوھاب :
دیوبندی ، وہابی بدمذہب ہیں ، ان میں سے جن کی بدمذہبی حد کفر تک پہونچ چکی ہے خود ان کو زکوٰۃ و فطرہ دینا ناجائز و حرام ہے
چنانچہ امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ فرماتے ہیں:
" ولا يجوز صرفها لأهل البدع "
(تنویرالابصار ، کتاب الزکاۃ ، باب المصرف ، ص۷۳ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
یعنی ، بدمذہبوں پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے
اور علامہ محمد بن حسین انقروی حنفی متوفی ۱۰۹۸ھ فرماتے ہیں:
" المختار أنه لا يجوز دفع الزكاة لاهل البدع "
(الفتاوی الانقرویۃ ، کتاب الزکاۃ ، ۱/۱۳ ، المطبعة الأميرية ، ۱۲۸۱ھ)
یعنی ، مختار یہ ہے کہ بدمذہبوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں
اور علامہ عابد انصاری سندی حنفی متوفی ۱۲۵۷ھ " بد مذہب " تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" قال العلامۃ زیرک : ای لاھل العقائد الزائفۃ عن اھل الملۃ الاسلامیۃ کالمعتزلۃ والخوارج والروافض "
(طوالع الانوار شرح الدرالمختار ، کتاب الزکاۃ ، باب المصرف ، ۳/۱۱۱ ، مخطوطہ مکتبۃ الازھر ، الرقم : ۳۴۱)
یعنی ، علامہ زیرک نے فرمایا کہ ان بدمذہبوں کو دینا ناجائز ہے جن کے عقائد ملت اسلامیہ سے ہٹے ہوئے ہیں جیسے کہ معتزلہ ، خوارج اور روافض
اسی لئے امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ سے جب سوال ہوا کہ
" زکوة کا روپیه کافر، مشرک، وہابی، رافضی ، قادیانی وغیرہ کو دینا جائز ہے یا نہیں ؟"
تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:
" ان کو دینا حرام ہے اور ان کو دئے زکوۃ ادانہ ہوگی "
(فتاویٰ رضویہ مترجم ، کتاب الزکاۃ ، باب المصارف ، ۱۰/۲۹۴ ، رقم المسئلۃ: ۱۳۰ ، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور)
رہ گئے وہ بدمذہب جن کے عقائد حد کفر تک نہیں پہونچے ہیں تو انہیں بھی نہ دیا جائے ، بلکہ ان کے بجائے سنی صحیح العقیدہ مستحق مسلمان کو دینا بہتر ہے
چنانچہ علامہ عابد سندی فرماتے ہیں:
" ان اھل البدع من یکفر ببدعتہ فان لم یکفر بھا فانہ مسلم عاص فلا یمتنع جواز الدفع الیہ ، وان کان غیرہ اولی "
(طوالع الانوار ۳/۱۱۰)
یعنی ، بدمذہب سے مراد وہ ہے جس کی بدمذہبی کی وجہ سے تکفیر کی جائے ، تو جس کی بدمذہبی حد کفر تک نہ پہونچے وہ گنہگار مسلمان ہے لہذا اس کو دینا ناجائز نہیں اگرچہ دوسرے کو دینا بہتر ہے
خلاصہ کلام یہ کہ جن وہابی دیوبندی بدمذہبوں کے عقائد حد کفر تک پہونچے ہوئے ہیں جب خود انہیں دینا جائز نہیں تو ان کے مدارس میں دینا بھی جائز نہیں کہ ان کے مدارس سے گمراہی و بددینی کی ہی ترویج و اشاعت ہوتی ہے ، جن کی اعانت ناجائز و حرام ، یونہی جن بدمذہبوں کے عقائد حد کفر تک نہیں پہونچے ہیں وہ گمراہ ضرور ہیں فلہذا انہیں دینے سے بدمذہبی پر ڈٹے رہنے اور اشاعت بدعت کا محظور عین ممکن ہے فلہذا ان کو دینا بھی جائز نہیں ہے
چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
" وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ "
(القرآن الکریم ، ۵/۲)
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔
اور علامہ ابوالخیر محمد نوراللہ نعیمی حنفی متوفی ۱۴۰۳ھ فرماتے ہیں:
" عموماً یہ لوگ بدعتی اور شریعت کے چور ہوتے ہیں، ایسے کو دینا منع ہے۔ تنویر الابصارمتن در المختار میں ہے جو متون معتبرہ سے ہے ج ۲ ص ۹۴ مع الشرح والحاشية لا يجوز صرفها لاهل البدع أقول وقد قررها العلائی و الشامى فى الغالی بلکہ قرآن کریم کا فرمان ہے ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان. تو ان لوگوں کی امداد کرنا گناہ ہوا۔ اور بحر الرائق میں ہے لانہ اعانة على الحرام "
(فتاویٰ نوریہ ، کتاب الزکاۃ ، ۲/۱۲۴ ، دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور)
اور علامہ حبیب اللہ نعیمی حنفی متوفی ۱۳۹۵ھ فرماتے ہیں:
" اہل سنت و جماعت کے علاوہ کسی اور فرقہ اسلام کے مدارس کی امداد و اعانت کسی مصرف خیر سے ناجائز وحرام ہے۔ اور علم ہوتے ہوئے ایسے مدارس کی اعانت تو اشد ترین حرام اور جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے "
(حبیب الفتاوی ، کتاب الزکاۃ ، ۱/۶۴۸ ، رقم المسئلۃ: ۶۷۹ ، شبیر برادرز لاہور)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ، شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان) کراتشی۔
یعنی ، بدمذہبوں پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے
اور علامہ محمد بن حسین انقروی حنفی متوفی ۱۰۹۸ھ فرماتے ہیں:
" المختار أنه لا يجوز دفع الزكاة لاهل البدع "
(الفتاوی الانقرویۃ ، کتاب الزکاۃ ، ۱/۱۳ ، المطبعة الأميرية ، ۱۲۸۱ھ)
یعنی ، مختار یہ ہے کہ بدمذہبوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں
اور علامہ عابد انصاری سندی حنفی متوفی ۱۲۵۷ھ " بد مذہب " تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" قال العلامۃ زیرک : ای لاھل العقائد الزائفۃ عن اھل الملۃ الاسلامیۃ کالمعتزلۃ والخوارج والروافض "
(طوالع الانوار شرح الدرالمختار ، کتاب الزکاۃ ، باب المصرف ، ۳/۱۱۱ ، مخطوطہ مکتبۃ الازھر ، الرقم : ۳۴۱)
یعنی ، علامہ زیرک نے فرمایا کہ ان بدمذہبوں کو دینا ناجائز ہے جن کے عقائد ملت اسلامیہ سے ہٹے ہوئے ہیں جیسے کہ معتزلہ ، خوارج اور روافض
اسی لئے امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ سے جب سوال ہوا کہ
" زکوة کا روپیه کافر، مشرک، وہابی، رافضی ، قادیانی وغیرہ کو دینا جائز ہے یا نہیں ؟"
تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:
" ان کو دینا حرام ہے اور ان کو دئے زکوۃ ادانہ ہوگی "
(فتاویٰ رضویہ مترجم ، کتاب الزکاۃ ، باب المصارف ، ۱۰/۲۹۴ ، رقم المسئلۃ: ۱۳۰ ، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور)
رہ گئے وہ بدمذہب جن کے عقائد حد کفر تک نہیں پہونچے ہیں تو انہیں بھی نہ دیا جائے ، بلکہ ان کے بجائے سنی صحیح العقیدہ مستحق مسلمان کو دینا بہتر ہے
چنانچہ علامہ عابد سندی فرماتے ہیں:
" ان اھل البدع من یکفر ببدعتہ فان لم یکفر بھا فانہ مسلم عاص فلا یمتنع جواز الدفع الیہ ، وان کان غیرہ اولی "
(طوالع الانوار ۳/۱۱۰)
یعنی ، بدمذہب سے مراد وہ ہے جس کی بدمذہبی کی وجہ سے تکفیر کی جائے ، تو جس کی بدمذہبی حد کفر تک نہ پہونچے وہ گنہگار مسلمان ہے لہذا اس کو دینا ناجائز نہیں اگرچہ دوسرے کو دینا بہتر ہے
خلاصہ کلام یہ کہ جن وہابی دیوبندی بدمذہبوں کے عقائد حد کفر تک پہونچے ہوئے ہیں جب خود انہیں دینا جائز نہیں تو ان کے مدارس میں دینا بھی جائز نہیں کہ ان کے مدارس سے گمراہی و بددینی کی ہی ترویج و اشاعت ہوتی ہے ، جن کی اعانت ناجائز و حرام ، یونہی جن بدمذہبوں کے عقائد حد کفر تک نہیں پہونچے ہیں وہ گمراہ ضرور ہیں فلہذا انہیں دینے سے بدمذہبی پر ڈٹے رہنے اور اشاعت بدعت کا محظور عین ممکن ہے فلہذا ان کو دینا بھی جائز نہیں ہے
چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
" وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ "
(القرآن الکریم ، ۵/۲)
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔
اور علامہ ابوالخیر محمد نوراللہ نعیمی حنفی متوفی ۱۴۰۳ھ فرماتے ہیں:
" عموماً یہ لوگ بدعتی اور شریعت کے چور ہوتے ہیں، ایسے کو دینا منع ہے۔ تنویر الابصارمتن در المختار میں ہے جو متون معتبرہ سے ہے ج ۲ ص ۹۴ مع الشرح والحاشية لا يجوز صرفها لاهل البدع أقول وقد قررها العلائی و الشامى فى الغالی بلکہ قرآن کریم کا فرمان ہے ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان. تو ان لوگوں کی امداد کرنا گناہ ہوا۔ اور بحر الرائق میں ہے لانہ اعانة على الحرام "
(فتاویٰ نوریہ ، کتاب الزکاۃ ، ۲/۱۲۴ ، دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور)
اور علامہ حبیب اللہ نعیمی حنفی متوفی ۱۳۹۵ھ فرماتے ہیں:
" اہل سنت و جماعت کے علاوہ کسی اور فرقہ اسلام کے مدارس کی امداد و اعانت کسی مصرف خیر سے ناجائز وحرام ہے۔ اور علم ہوتے ہوئے ایسے مدارس کی اعانت تو اشد ترین حرام اور جرم عظیم اور گناہ کبیرہ ہے "
(حبیب الفتاوی ، کتاب الزکاۃ ، ۱/۶۴۸ ، رقم المسئلۃ: ۶۷۹ ، شبیر برادرز لاہور)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ، شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی غفرلہ ، شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان) کراتشی۔