(سوال نمبر 5211)
وہ کونسے دو صحابہ ہیں جو ایک قران آہستہ اور دوسرے بلند اواز سے پڑھ رہے تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ وہ کون سےدو صحابہ کرام ہیں جو ایک قرآن پاک بلند آواز کے ساتھ پڑھ رہے تھے اور ایک آہستہ آواز کے ساتھ پڑھ رہے تھے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ وآلہ وسلم نے ایک سے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا پست رکھو اور دوسرے سے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا بلند رکھو ان دو صحابہ کے نام مکمل واقع کے ساتھ ارشاد فرما دیجئے اور یہ بھی راہنمائی فرما دیں کہ کیا ایسا کوئی واقع کسی حدیث میں ہے یا کہ نہیں؟ مہربانی فرما کر میری راہنمائی فرمائیں اگر اس کا جواب تحریری طور پر بحوالہ مل جائے تو نوازش ہوگی جزاک الله خیرا
سائل:- سید حسن علی بخاری شاھدرہ لاہور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وہ دو صحابہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں
حدیث شریف میں ہے
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن ثابت البناني، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا الحسن بن الصباح، حدثنا يحيى بن إسحاق، اخبرنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن عبد الله بن رباح، عن ابي قتادة، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج ليلة فإذا هو بابي بكر رضي الله عنه يصلي يخفض من صوته، قال: ومر بعمر بن الخطاب وهو يصلي رافعا صوته، قال: فلما اجتمعا عند النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يا ابا بكر مررت بك وانت تصلي تخفض صوتك" قال: قد اسمعت من ناجيت يا رسول الله، قال: وقال لعمر:" مررت بك وانت تصلي رافعا صوتك" قال: فقال: يا رسول الله، اوقظ الوسنان، واطرد الشيطان. زاد الحسن في حديثه: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا ابا بكر ارفع من صوتك شيئا"، وقال لعمر:" اخفض من صوتك شيئا".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات باہر نکلے تو دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے ہیں اور پست آواز سے قرآت کر رہے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر کے پاس سے گزرے اور وہ بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے، جب دونوں (ابوبکر و عمر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! میں تمہارے پاس سے گزرا اور دیکھا کہ تم دھیمی آواز سے نماز پڑھ رہے ہو“، آپ نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے اس کو (یعنی اللہ تعالیٰ کو) سنا دیا ہے، جس سے میں سرگوشی کر رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ”میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے“، تو انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔
حسن بن الصباح کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کر لو“، اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ”تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کر لو (سنن الترمذی)
➊ رسول اللہﷺ معلم کتاب وحکمت اور مزکی نفوس وقلوب تھے، اس لیے اپنے اصحاب کرام کے احوال کا جائزہ لیتے رہتے تھے، لہذا اساتذہ اورمربی و داعی حضرات کو اپنے زیر درس و تربیت طلبہ کا ہرحال میں خیال رکھنا چاہیے۔
➋ حضرات صاحبین رضی اللہ عنہما کی حسن نیت کمال درجے کی تھی، مگر رسول اللہﷺ کا اپنا معمول ان دونوں کا جامع تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے
وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (سور ۃ الاسراء110)
اپنی نماز کی قراءت نہ تو بہت (بلند) آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ ان دونوں کےمابین کی راہ اختیار کریں
اور بقول علامہ طیبی رسول اللہﷺ نے حضرت صدیق اکبر سے فرمایا کہ مناجات ربانی کے مقام سے ذرا نیچے رہ کر اپنی قراءت سےمخلوق کو بھی قائدہ دو۔ اورحضرت عمر سے فرمایا اور کہ افادۂ مخلوق کےمقام سے قدرے بلند ہو کر مناجات ربانی سے بھی خط حاصل کرو۔
➌ اللہ کی رحمتوں کے حصول اور شیطان کو بھگانے اور اس کے شر سے محفوظ رہنے کا بہترین نسخہ نماز پڑھنا اور قرآن کریم کی کی تلاوت ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
وہ کونسے دو صحابہ ہیں جو ایک قران آہستہ اور دوسرے بلند اواز سے پڑھ رہے تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ وہ کون سےدو صحابہ کرام ہیں جو ایک قرآن پاک بلند آواز کے ساتھ پڑھ رہے تھے اور ایک آہستہ آواز کے ساتھ پڑھ رہے تھے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ وآلہ وسلم نے ایک سے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا پست رکھو اور دوسرے سے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا بلند رکھو ان دو صحابہ کے نام مکمل واقع کے ساتھ ارشاد فرما دیجئے اور یہ بھی راہنمائی فرما دیں کہ کیا ایسا کوئی واقع کسی حدیث میں ہے یا کہ نہیں؟ مہربانی فرما کر میری راہنمائی فرمائیں اگر اس کا جواب تحریری طور پر بحوالہ مل جائے تو نوازش ہوگی جزاک الله خیرا
سائل:- سید حسن علی بخاری شاھدرہ لاہور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وہ دو صحابہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں
حدیث شریف میں ہے
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن ثابت البناني، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا الحسن بن الصباح، حدثنا يحيى بن إسحاق، اخبرنا حماد بن سلمة، عن ثابت البناني، عن عبد الله بن رباح، عن ابي قتادة، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج ليلة فإذا هو بابي بكر رضي الله عنه يصلي يخفض من صوته، قال: ومر بعمر بن الخطاب وهو يصلي رافعا صوته، قال: فلما اجتمعا عند النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يا ابا بكر مررت بك وانت تصلي تخفض صوتك" قال: قد اسمعت من ناجيت يا رسول الله، قال: وقال لعمر:" مررت بك وانت تصلي رافعا صوتك" قال: فقال: يا رسول الله، اوقظ الوسنان، واطرد الشيطان. زاد الحسن في حديثه: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا ابا بكر ارفع من صوتك شيئا"، وقال لعمر:" اخفض من صوتك شيئا".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات باہر نکلے تو دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے ہیں اور پست آواز سے قرآت کر رہے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر کے پاس سے گزرے اور وہ بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے، جب دونوں (ابوبکر و عمر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! میں تمہارے پاس سے گزرا اور دیکھا کہ تم دھیمی آواز سے نماز پڑھ رہے ہو“، آپ نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے اس کو (یعنی اللہ تعالیٰ کو) سنا دیا ہے، جس سے میں سرگوشی کر رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ”میں تمہارے پاس سے گزرا تو تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے“، تو انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں سوتے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔
حسن بن الصباح کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! تم اپنی آواز تھوڑی بلند کر لو“، اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ”تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کر لو (سنن الترمذی)
➊ رسول اللہﷺ معلم کتاب وحکمت اور مزکی نفوس وقلوب تھے، اس لیے اپنے اصحاب کرام کے احوال کا جائزہ لیتے رہتے تھے، لہذا اساتذہ اورمربی و داعی حضرات کو اپنے زیر درس و تربیت طلبہ کا ہرحال میں خیال رکھنا چاہیے۔
➋ حضرات صاحبین رضی اللہ عنہما کی حسن نیت کمال درجے کی تھی، مگر رسول اللہﷺ کا اپنا معمول ان دونوں کا جامع تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے
وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (سور ۃ الاسراء110)
اپنی نماز کی قراءت نہ تو بہت (بلند) آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ ان دونوں کےمابین کی راہ اختیار کریں
اور بقول علامہ طیبی رسول اللہﷺ نے حضرت صدیق اکبر سے فرمایا کہ مناجات ربانی کے مقام سے ذرا نیچے رہ کر اپنی قراءت سےمخلوق کو بھی قائدہ دو۔ اورحضرت عمر سے فرمایا اور کہ افادۂ مخلوق کےمقام سے قدرے بلند ہو کر مناجات ربانی سے بھی خط حاصل کرو۔
➌ اللہ کی رحمتوں کے حصول اور شیطان کو بھگانے اور اس کے شر سے محفوظ رہنے کا بہترین نسخہ نماز پڑھنا اور قرآن کریم کی کی تلاوت ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
23/11/2023
23/11/2023