(سوال نمبر 5172)
شب زفاف یعنی سہاگ رات سے پہلے دعوت ولیمہ کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا پہلی رات بیوی صحبت کرنا ضروری ہے
اور ولیمہ کے لیے یہ کرنا ضروری ہے اگر صحبت نا کرے مرد تو کیا ولیمہ ہوجاۓ گا یا پھر رخصتی سے پہلے ولیمہ ہو جاۓ گا جیسے بعض لوگ پہلے ولیمہ کر لیتے ہیں رہنمائی فرما دیں۔
سائل:- محمد عرفان کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ نکاح کے بعد رخصتی کی پہلی رات بیوی سے ہمبستری کرنا شرعا ضروری نہیں ہے
٢/ بدون صحبت بھی ولیمہ ہوجائے گا پر سنت بعد شب زفاف ہے ۔
ہمارے یہاں بھی پیلے ولیمہ کا کھانا کھلا دیتے ہیں میلاد وغیرہ کر لیتے ہیں پھر بارات لے کر جاتے ہیں پھر لڑکی کے یہاں نکاح پھر رخصتی پھر باراتی اپنے اپنے گھر جبکہ ایسا نہین ہونا چاہیے۔
دولھا باراتیوں کے ساتھ لڑکی کے گھرجائے بلکہ بارات نہ لے جائے ،ضروری سمجھ کرجو مروجہ سو دوسو لڑکے والے بارات لے جاتے ہیں یہ ظلم ہے بے حیائی یے ہندوانہ رسم و رواج ہے، لڑکی والے کو کئی سالوں تک قرض تلے ڈال دیتے ہیں
پھر لڑکی والے پریشان ان باراتیوں کے کھانے کے لئے بعض غریب لڑکی والے قرض لے کر باراتی کے کھانے کا بند و بست کرتے ہیں یہ ظلم ہے اور شرعا جائز نہیں ہے۔یہ کوئی شرعی شادی نہیں اقا علیہ السلام یا صحابہ کرام کبھی شادی میں اس طرح مروجہ بارات سو دو سو لے کر لڑکی کے گھر گئے تھے ؟ لڑکے اور ان کے والد کو شرم آنی چاہیے اگر ذرہ برابر اسلامی غیرت اور دینی تعلیم ہو تو کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے۔
لڑکا والا اور دولھا اللہ و رسول کا خوف کریں چار پانچ لوگوں کو لے کر لڑکی کے گھر جائے اور جو ملے کھائے اور نکاح کرے بعد نکاح رخصتی پھر اپنے گھر رات گزار کر صبح دعوت ولیمہ کرے یہ سنت یے ۔اب جس قدر مہگی دعوت کرنی ہو کرے دو سو پانچ سو لوگوں کو اپنی حیثیت کے مطابق شادی کی خوشی کے موقع سے کھلائے یہ سنت یے ۔
شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محلہ کے لوگوں کی حسب استطاعت ضیافت کرنی ہے یہ نالائق اپنے احباب خیش و اقارب دو سو تین سو، لے کر بارات کی شکل میں لڑکی کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔یاد ریے یہ نہ شرعی شادی ہے نہ شرعی دعوت ہے
بہارشریعت میں ہے
ولیمہ سنت ہے بنیت اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولیمہ کرو خویش و اقارب اور دوسرے مسلمانوں کو کھانا کھلاؤ۔ بالجملہ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے ہر کام کو شریعت کے موافق کرے اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مخالفت سے بچے اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
دعوتِ ولیمہ سنت ہے۔ ولیمہ یہ ہے کہ شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محلہ کے لوگوں کی حسب استطاعت ضیافت کرے اور اس کے لیے جانور ذبح کرنا اور کھانا طیار کرانا جائز ہے اور جو لوگ بلائے جائیں ان کو جانا چاہیے کہ ان کا جانا اس کے لیے مسرت کا باعث ہوگا۔ ولیمہ میں جس شخص کو بلایا جائے اس کو جانا سنت ہے یا واجب۔ علما کے دونوں قول ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِجابت سنت مؤکدہ ہے۔ (بہار شریعت ح 16 ص 394 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
شب زفاف یعنی سہاگ رات سے پہلے دعوت ولیمہ کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا پہلی رات بیوی صحبت کرنا ضروری ہے
اور ولیمہ کے لیے یہ کرنا ضروری ہے اگر صحبت نا کرے مرد تو کیا ولیمہ ہوجاۓ گا یا پھر رخصتی سے پہلے ولیمہ ہو جاۓ گا جیسے بعض لوگ پہلے ولیمہ کر لیتے ہیں رہنمائی فرما دیں۔
سائل:- محمد عرفان کراچی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ نکاح کے بعد رخصتی کی پہلی رات بیوی سے ہمبستری کرنا شرعا ضروری نہیں ہے
٢/ بدون صحبت بھی ولیمہ ہوجائے گا پر سنت بعد شب زفاف ہے ۔
ہمارے یہاں بھی پیلے ولیمہ کا کھانا کھلا دیتے ہیں میلاد وغیرہ کر لیتے ہیں پھر بارات لے کر جاتے ہیں پھر لڑکی کے یہاں نکاح پھر رخصتی پھر باراتی اپنے اپنے گھر جبکہ ایسا نہین ہونا چاہیے۔
دولھا باراتیوں کے ساتھ لڑکی کے گھرجائے بلکہ بارات نہ لے جائے ،ضروری سمجھ کرجو مروجہ سو دوسو لڑکے والے بارات لے جاتے ہیں یہ ظلم ہے بے حیائی یے ہندوانہ رسم و رواج ہے، لڑکی والے کو کئی سالوں تک قرض تلے ڈال دیتے ہیں
پھر لڑکی والے پریشان ان باراتیوں کے کھانے کے لئے بعض غریب لڑکی والے قرض لے کر باراتی کے کھانے کا بند و بست کرتے ہیں یہ ظلم ہے اور شرعا جائز نہیں ہے۔یہ کوئی شرعی شادی نہیں اقا علیہ السلام یا صحابہ کرام کبھی شادی میں اس طرح مروجہ بارات سو دو سو لے کر لڑکی کے گھر گئے تھے ؟ لڑکے اور ان کے والد کو شرم آنی چاہیے اگر ذرہ برابر اسلامی غیرت اور دینی تعلیم ہو تو کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے۔
لڑکا والا اور دولھا اللہ و رسول کا خوف کریں چار پانچ لوگوں کو لے کر لڑکی کے گھر جائے اور جو ملے کھائے اور نکاح کرے بعد نکاح رخصتی پھر اپنے گھر رات گزار کر صبح دعوت ولیمہ کرے یہ سنت یے ۔اب جس قدر مہگی دعوت کرنی ہو کرے دو سو پانچ سو لوگوں کو اپنی حیثیت کے مطابق شادی کی خوشی کے موقع سے کھلائے یہ سنت یے ۔
شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محلہ کے لوگوں کی حسب استطاعت ضیافت کرنی ہے یہ نالائق اپنے احباب خیش و اقارب دو سو تین سو، لے کر بارات کی شکل میں لڑکی کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔یاد ریے یہ نہ شرعی شادی ہے نہ شرعی دعوت ہے
بہارشریعت میں ہے
ولیمہ سنت ہے بنیت اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولیمہ کرو خویش و اقارب اور دوسرے مسلمانوں کو کھانا کھلاؤ۔ بالجملہ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے ہر کام کو شریعت کے موافق کرے اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مخالفت سے بچے اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
دعوتِ ولیمہ سنت ہے۔ ولیمہ یہ ہے کہ شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محلہ کے لوگوں کی حسب استطاعت ضیافت کرے اور اس کے لیے جانور ذبح کرنا اور کھانا طیار کرانا جائز ہے اور جو لوگ بلائے جائیں ان کو جانا چاہیے کہ ان کا جانا اس کے لیے مسرت کا باعث ہوگا۔ ولیمہ میں جس شخص کو بلایا جائے اس کو جانا سنت ہے یا واجب۔ علما کے دونوں قول ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِجابت سنت مؤکدہ ہے۔ (بہار شریعت ح 16 ص 394 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
20/11/2023
20/11/2023