Type Here to Get Search Results !

سود بھرنا زمین لینا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 5178)
سود بھرنا زمین لینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ سود بھرنا زمین لینا کیسا ہے؟ یعنی اگر کسی شخص نے دو کٹھا زمین ایک ہزار روپے میں دے کر لیا اور اس کی فصل و آمدنی کھاتا رہا اس وقت تک جب تک ایک ہزار روپے واپس نہ کردے اس کھیت کا اناج و فصل بیاج سود ہوا یا نہیں ؟
برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد مفید عالم قادری اتردیناج پور بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
سود بھرنا زمین مسلمان سے لینا جائز نہیں ہے 
البتہ کافر سے لیتے سکتے ہیں اور زمین کو استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
یعنی روپیہ دے کر کافر حربی سےاس شرط پرکھیت لینا کہ جب روپیہ واپس کردوگے تو ہم تمہاراکھیت واپس کردیں گے ۔ اور جب تک روپیہ واپس نہیں کرتے ہم تمہارے کھیت سے نفع اٹھاتے رہیں گے تواس قسم کا معاملہ کرسکتے ہیں ۔ اور کافر حربی کی زمین میں کاشتکاری کرنا جائز ہوگا ۔جبکہ مسلمانوں سے جائز نہیں ہے 
فتاوی شامی میں ہے 
وَنَماءُ الْرَّهنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاهنِ لِتَوَلُّدِه مِنْ مِلْکِه‘‘. (درمختار ج۵/ ص۳۳۵)
ایک مقام پر ہے 
لاَ یَحِلُ لَه اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنه بِوَجْه مِنَ الْوُجُوه اِنْ اَذِنَ لَه الْرَّاهنُ لأنَّه أذِنَ لَه في الْرِبَوا‘‘. (شامی ج۵/ ص۳۱۰) 
حدیث شریف میں ہے
لاربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب
یعنی کافرحربی ومسلمان کے درمیان سود نہیں ۔
مگر مسلمان نے مسلمان سے رہن رکھا تو اس زمین میں کاشتکاری کرنا اور فائدہ اٹھانا جائز نہیں ۔ کیونکہ قرض دے کر اس سے فائدہ حاصل کرنا سود ہے وہ حرام ہے ۔ 
فتاوی فیض الرسول میں ہے (مسلمان کا مسلمان سے رہن پر زمین لےکر اس سے فائدہ اٹھانا) جائز نہیں اس لیے کہ قرض دے کر نفع حاصل کرنا سود ہے حرام ہے۔
 حدیث شریف میں ہے 
کل قرض جر نفعا فھو ربوا،،
البتہ غیرمسلم حربی کافر کا کھیت اس طرح لے سکتا ہے اس لیۓ کہ عقود فاسدہ کے ذریعہ ان کا مال لینا جائز ہے ۔
ھدایه اور فتح القدیر وغیرہ میں ہے 
مالھم مباح فبای طریق اخذہ المسلم اخذ مالا مباحا اذالم یکن فیه غدرا اھ
(فتاوی فیض الرسول ج دوم کتاب الرھن ص ٤٢٣)
فتاوی بحر العلوم میں نے 
ہندوستان دارالاسلام ہے یہاں کے کافر حربی ہیں اپنی خوشی سے اگر اپنی کوئی رقم یامال ومتاع ایسے معاملے کے ذریعہ جو مسلمانوں میں ناجائز ہو دیں تو عقود فاسدہ کے ذریعہ یہاں کے غیر مسلموں کا مال لیا جاسکتا ہے ایسے طریقے سے نہیں لیا جاسکتا جس سے مسلمان کی اذیت اور بے عزتی کا خطرہ ہو یا غیرقوم کودھوکہ دیاگیا ہو ۔
ھدایہ میں ہے 
لان مالھم مباح فی دراھم فبای طریق اخذہ عنھم اخذ مالا مباحا اذالم یکن فیه غدرا
(الھدایة کتاب البیوع ج دوم ص٧٠) فتاوی بحرالعلوم ج چہارم ص ٩٩ کتاب البیوع )
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area