Type Here to Get Search Results !

مکتب میں زکوٰۃ کا پیسہ لگانا کیسا ہے؟


مکتب میں زکوٰۃ کا پیسہ لگانا کیسا ہے؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت اس مسئلہ میں کہ ایک بستی میں سب لوگ مالدار ہیں ایک مکتب ہے لوگ زکوٰة فـطرہ کا پیسہ اس مکتب میں لگا سکتے ہیں یا نہیں زید کہتا ہے نہیں لگا سکتے آپ لوگ مالدار ہیں اس کا حقدار مدرسہ والے ہیں امام مسجد کہتے ہیں اس مکتب میں بھی لگانا جائز ہے اب قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
المستفتی: محمد کلیم الدین رضوی چھپرہ بہار انڈیا
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكاتُهُ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صورت مسئولہ میں زید کا قول صحیح ہے کہ مصارف زکوٰۃ میں مکتب کا کوئی دخل نہیں، امام مسجد کو بلا تحقیق و جستجو کے غلط مسئلہ بتانے پر گناہ ضرور ہوگا توبہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد بھی،
درمختار میں ہے:
مصرف الزکوٰۃ فقیر و فی سبیل ﷲ وھو منقطع الغزاۃ وابن السبیل وھو کل من لہ مال لامعہ "،(ملخصًا)
زکوٰۃ فقراء میں خرچ کی جائے اور ﷲ تعالیٰ کی راہ میں، اور اس سے مراد محتاج غازی اور مسافر، اور اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کا مال تو ہو مگر اس کے پاس نہ ہو۔
(درمختار باب المصرف جلد (۱) ص (۱۴۰) مطبع مجتبائی دہلی )
مدارس اسلامیہ کو زکوٰۃ دینا اس لیے جائز اور افضل ہے کہ دین کا کام ہوتا ہے علم دین سکھایا جاتا ہے اور وہاں غریب طلباء علوم دین حاصل کرتے ہیں اور متولی اس پیسے کو انہیں طلباء پر صرف کرتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں،
امام اہلسنت فقیہ باکمال امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز مدارس اسلامیہ میں زکوٰۃ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں :
مدرسہ اسلامیہ اگر صحیح اسلامیہ خاص اہلسنت کا ہو۔ نیچریوں، وہابیوں، قادیانیوں، رافضیوں، دیوبندیوں وغیرہم مرتدین کا نہ ہو تو اس میں مالِ زکوٰۃ اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مہتمم اس مال کو جُدا رکھے اور خاص تملیك فقیر کے مصارف میں صرف کرے مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جاسکتی نہ مدرسہ کی تعمیر یا مرمت یا فرش وغیرہ میں صرف ہو سکتی ہے، نہ یہ ہوسکتا ہے کہ جن طلبہ کو مدرسہ سے کھانا دیا جاتا ہے اُس روپے سے کھانا پکا کر اُن کو کھلایا جائے کہ یہ صورتِ اباحت ہے اور زکوٰۃ میں تملیك لازم،
(فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد (۱۰) ص (۲۵۵) مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
نوٹ= جب آبادی کے مال دار لوگ اپنی بستی کے مکتب کے اخراجات اپنے غیر واجبہ عطیات مثلاً خیرات و امداد (جو زکوٰۃ عشر صدقۂ فطر نذرِ شرعی کے علاوہ ہوتے ہیں) کے تعاون سے نہ کرتے ہوں! تو اب بقائے علمِ دین کی ضرورت و حاجت فی زماننا متحقق ہو جائے گی! اور اس صورتِ خاصہ میں حیلۂ شرعی کی شرط پر زکوٰۃ و دیگر صدقاتِ واجبہ لینا دینا درست ہو جائے گا! ورنہ صدقاتِ واجبہ لینا دینا اور حیلۂ شرعی کرنا اس مکتب کے لئے درست نہ ہوگا!
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وعلمه جل مجدة أتم وأحكم
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــه:
حضرت مولانا محمد راشد مکی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی گرام ملک پور کٹیہار بہار
✅الجواب صحیح : خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی سید شمس الحق برکاتی مصباحی دامت برکاتہم العالیہ۔ 
✅ الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جابر القادری رضوی صاحب قبلہ جمشید پور۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area