کیا رمضان شریف کے مہینے میں انتقال کرنے سے قبر میں سوال جواب نہیں ہوگا؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ مسلمان اگر رمضان شریف میں انتقال کرجائے تو اس سے قبر میں سوال وجواب نہ ہوگا تو کیا یہ صرف رمضان شریف تک ہی محدود ہے بعد رمضان شریف سوال وجواب ہونگے یا ہمیشہ کیلیۓ بری ہو گیا قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمایٔں نوازش ہوگی۔
سائل:- محمد انور حسین صدیقی رحمانی محمد آباد غازی پور یوپی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
کسی مومن کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو وہ عذاب قبر و منکر نکیر کے سوال سے محفوظ رہے گا،لیکن عذاب سے چھُٹکارا ملنا، صرف ماہ رمضان وجمعہ کے دن اور رات سے خاص نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کریم ہےاور اُس رحیم وکریم سے یہی امید ہے کہ جب اپنے بندے کو ایک دفعہ عذاب اور قبر کی سختی سے محفوظ فرما لےگا، تو دوبارہ اُس میں مبتلا نہیں فرمائے گا، یعنی دائمی طور پر عذاب سے محفوظ ہونے کی امید ہے۔
چنانچہ ابو المعین علامہ مَیْمون بن محمد نَسَفی حنفی ماتریدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:508ھ/1114ء) لکھتے ہیں:
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
کسی مومن کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو وہ عذاب قبر و منکر نکیر کے سوال سے محفوظ رہے گا،لیکن عذاب سے چھُٹکارا ملنا، صرف ماہ رمضان وجمعہ کے دن اور رات سے خاص نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کریم ہےاور اُس رحیم وکریم سے یہی امید ہے کہ جب اپنے بندے کو ایک دفعہ عذاب اور قبر کی سختی سے محفوظ فرما لےگا، تو دوبارہ اُس میں مبتلا نہیں فرمائے گا، یعنی دائمی طور پر عذاب سے محفوظ ہونے کی امید ہے۔
چنانچہ ابو المعین علامہ مَیْمون بن محمد نَسَفی حنفی ماتریدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:508ھ/1114ء) لکھتے ہیں:
’’إن كان عاصياً يكون له عذاب القبر وضيقه لكن ينقطع عنه عذاب القبر يوم الجمعة، ثم لا يعود العذاب إلى يوم القيامة، وإن مات يوم الجمعة أو ليلة الجمعة يكون له العذاب ساعة وضيقه كذلك ثم ينقطع عنه العذاب ولا يعود إلى يوم القيامة‘‘
ترجمہ:جو مقبور گنہگار ہوا، تو اُسے عذابِ قبر اور اُس کی تنگی کا سامنا ہو گا، لیکن یہ عذاب جمعہ کا دن آنے پر ختم ہو جائے گا اور پھر دوبارہ تاقیامت عذاب نہیں ہو گا۔ اِسی طرح اگر کسی کا جمعہ کے دِن یا رات میں انتقال ہوا اور وہ گنہگار بھی ہوا، تو اُسے بھی معمولی عذاب اور قبر کی تنگی درپیش ہو گی، مگر پھر فوراً اُس سے عذاب کو دور کر دیا جائے گا اور تا قیامت دوبارہ نہ ہو گا۔(بحر الکلام، المبحث الاول فی سوال القبر وعذابہ، صفحہ 251، مطبوعہ مکتبۃ دار الفرفور)
شرح فقہ اکبر میں ہےکہ مومن مطیع کو قبر دبائے گی مگر جیسے ماں بچے کو چمٹاتی ہے۔۔۔اور مومن عاصی جو بروز جمعہ یارات میں مرے، اسے بھی دبائےگی اور اسے ہلکا عذاب بھی ہوگا، پھر تاقیامت عذاب نہ ہوگا۔
{شرح الصدور میں ہے:
"عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :مامن مسلم یموت یوم الجمعة أو ليلة إلا وقاہ اللہ فتنة القبر ۔
شرح فقہ اکبر میں ہےکہ مومن مطیع کو قبر دبائے گی مگر جیسے ماں بچے کو چمٹاتی ہے۔۔۔اور مومن عاصی جو بروز جمعہ یارات میں مرے، اسے بھی دبائےگی اور اسے ہلکا عذاب بھی ہوگا، پھر تاقیامت عذاب نہ ہوگا۔
{شرح الصدور میں ہے:
"عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :مامن مسلم یموت یوم الجمعة أو ليلة إلا وقاہ اللہ فتنة القبر ۔
(شرح الصدور۔ص:89 )
شرح الفقہ الاکبر میں ہے:
"ان عذاب القبر حق سواء کان مؤمناً أم کافرًا أم مطیعا أم فاسقا ولكن اذاکان کافرًا فعذابه یدوم فی القبر إلی یوم القیامة و یرفع عنه العذاب یوم الجمعة و شھر رمضان بحرمة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، لأنہ مادام فی الأحياء لایعذبھم اللہ تعالی بحرمتہ فکذالک فی القبر یرفع عنهم العذاب یوم وکل رمضان بحرمتہ۔۔۔فالصواب ماقالہ القونوی:من ان المومن ان کان مطیعالایکون لہ عذاب القبرویکون لہ ضغطة فیجدھول ذلک وخوفہ لماانہ کان یتنعم بنعم اللہ سبحانہ ولم یشکرالانعام حقہ۔۔وان کان عاصیا۔۔۔وان مات یوم الجمعة اولیلة الجمعة یکون لہ العذاب ساعة واحدة وضغطة القبرثم یقطع عنہ العذاب ولایعودالی یوم القیامة۔۔"(ص:185)
{ردالمحتارمیں ہے:}}
"قال اہل السنة والجماعة: عذاب القبر حق،وسؤال منکر ونکیر، وضغطةالقبر حق ؛لکن إن کان کافرا فعذابه یدوم إلی یوم القیامة، یرفع عنه یوم الجمعة و شھر رمضان، فیعذب اللحم متصلا بالروح والروح متصلا بالجسم فیتالم الروح مع الجسد وان کان خارجا عنه والمؤمن المطیع لایعذب، بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط، لکن ینقطع عنه العذاب یوم الجمعة وليلتها ثم لا یعود ،وإن مات یومها أو لیلتها یکون العذاب ساعة واحدة و ضغطة القبر ثم يقطع"-(شامی 42/3)
(وفی مقام آخر:)
"ثم ذکر أن من لا یسال ثمانیة:الشهيد، والمرابط، والمطعون، والمیت زمن الطاعون بغیرہ اذاکان صابرا محتسبا، والصديق والأطفال، والمیت یوم الجمعة أو لیلتها، والقارئ کل لیلة تبارک الملك وبعضهم ضم الیھا السجدة. (أيضا:81 )
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’العاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعة واحدة وضغطة القبر ثم يقطع كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي‘‘ ترجمہ:گنہگار کو عذابِ قبر دیا جاتا اور قبر کی تنگی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن یہ عذاب اور تنگی جمعہ کی رات اور دن میں ختم کر دی جاتی ہے، پھر دوبارہ اُسے اِس عذاب کا سامنا نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی جمعہ کے دن یا رات میں انتقال کرے ،تو اُسے بھی ایک ساعت کے لیے عذاب اور قبر کی تنگی درپیش ہو گی، مگر پھر فوراً اُس سے عذاب کو دور کر دیا جائے گا اور تا قیامت دوبارہ نہ ہو گا۔
شرح الفقہ الاکبر میں ہے:
"ان عذاب القبر حق سواء کان مؤمناً أم کافرًا أم مطیعا أم فاسقا ولكن اذاکان کافرًا فعذابه یدوم فی القبر إلی یوم القیامة و یرفع عنه العذاب یوم الجمعة و شھر رمضان بحرمة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، لأنہ مادام فی الأحياء لایعذبھم اللہ تعالی بحرمتہ فکذالک فی القبر یرفع عنهم العذاب یوم وکل رمضان بحرمتہ۔۔۔فالصواب ماقالہ القونوی:من ان المومن ان کان مطیعالایکون لہ عذاب القبرویکون لہ ضغطة فیجدھول ذلک وخوفہ لماانہ کان یتنعم بنعم اللہ سبحانہ ولم یشکرالانعام حقہ۔۔وان کان عاصیا۔۔۔وان مات یوم الجمعة اولیلة الجمعة یکون لہ العذاب ساعة واحدة وضغطة القبرثم یقطع عنہ العذاب ولایعودالی یوم القیامة۔۔"(ص:185)
{ردالمحتارمیں ہے:}}
"قال اہل السنة والجماعة: عذاب القبر حق،وسؤال منکر ونکیر، وضغطةالقبر حق ؛لکن إن کان کافرا فعذابه یدوم إلی یوم القیامة، یرفع عنه یوم الجمعة و شھر رمضان، فیعذب اللحم متصلا بالروح والروح متصلا بالجسم فیتالم الروح مع الجسد وان کان خارجا عنه والمؤمن المطیع لایعذب، بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط، لکن ینقطع عنه العذاب یوم الجمعة وليلتها ثم لا یعود ،وإن مات یومها أو لیلتها یکون العذاب ساعة واحدة و ضغطة القبر ثم يقطع"-(شامی 42/3)
(وفی مقام آخر:)
"ثم ذکر أن من لا یسال ثمانیة:الشهيد، والمرابط، والمطعون، والمیت زمن الطاعون بغیرہ اذاکان صابرا محتسبا، والصديق والأطفال، والمیت یوم الجمعة أو لیلتها، والقارئ کل لیلة تبارک الملك وبعضهم ضم الیھا السجدة. (أيضا:81 )
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’العاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعة واحدة وضغطة القبر ثم يقطع كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي‘‘ ترجمہ:گنہگار کو عذابِ قبر دیا جاتا اور قبر کی تنگی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن یہ عذاب اور تنگی جمعہ کی رات اور دن میں ختم کر دی جاتی ہے، پھر دوبارہ اُسے اِس عذاب کا سامنا نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی جمعہ کے دن یا رات میں انتقال کرے ،تو اُسے بھی ایک ساعت کے لیے عذاب اور قبر کی تنگی درپیش ہو گی، مگر پھر فوراً اُس سے عذاب کو دور کر دیا جائے گا اور تا قیامت دوبارہ نہ ہو گا۔
(ردالمحتار مع درمختار، جلد4، صفحہ443، مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سےسوال ہو اکہ’’جمعرات کو مرنے والا شخص دائماً عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا یا عارضی طور پر؟ ‘‘ تو آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواب ارشاد فرمایا:’’جمعرات کے لیے کوئی حکم نہیں آیا، شبِ جمعہ اور رمضان مبارک میں ہر روز کے واسطے یہ حکم ہے کہ جو مسلمان ان میں مرے گا سوالِ نکیرین وعذابِ قبر سے محفوظ رہے گا، وﷲ اکرم ان یعفو من شیئ ثم یعود فیہ،اللہ تعالیٰ اِس سے زیادہ کریم ہے کہ ایک شے کو معاف فرما کر پھر اُس پر مؤاخذہ کرے۔‘‘
امام اہلسنت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سےسوال ہو اکہ’’جمعرات کو مرنے والا شخص دائماً عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا یا عارضی طور پر؟ ‘‘ تو آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواب ارشاد فرمایا:’’جمعرات کے لیے کوئی حکم نہیں آیا، شبِ جمعہ اور رمضان مبارک میں ہر روز کے واسطے یہ حکم ہے کہ جو مسلمان ان میں مرے گا سوالِ نکیرین وعذابِ قبر سے محفوظ رہے گا، وﷲ اکرم ان یعفو من شیئ ثم یعود فیہ،اللہ تعالیٰ اِس سے زیادہ کریم ہے کہ ایک شے کو معاف فرما کر پھر اُس پر مؤاخذہ کرے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ، جلد9، صفحہ659، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
نوٹ:یہ مسئلہ علمائے کبار کے مابین اختلافی ہے۔
نوٹ:یہ مسئلہ علمائے کبار کے مابین اختلافی ہے۔
علامہ عبدالعزیز پرہاروی حنفی چشتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1239ھ/1824ء) اور علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) وغیرہما مذکورہ بالا مسئلے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ عذاب کا اِنقطاع واِرتفاع دائمی نہیں،عارضی ہے۔اُن کی عبارات”النبراس“ اور ”شرح الفقہ الاکبر“ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ مگر علامہ ابنِ عابدین شامی(سالِ وفات:1252ھ/1836ء) اور امامِ اہلِ سنَّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کا رجحان ومیلان” ماتریدیۃ“ کے جلیل القدر متکلِّم علامہ ابو المعین مَیْمون بن محمد نَسَفی حنفی ماتریدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی جانب ہے اور آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما نے اِن ہی کے قول کو اختیار فرمایا۔فلیتنبہ۔
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم ﷺ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 19/ رمضان المبارک 1445ھ
مطابق 30/مارچ 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔
کتبہ:- محمد صدام حسین قادری امجدی رضوی
خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز۔
مورخہ 19/ رمضان المبارک 1445ھ
مطابق 30/مارچ 24 0 2 ء۔
الجواب صحیح والمجیب نجیح
مفتی حیدر علی وحیدی قاضی شہر غازی پور۔
منجانب۔دارالشریعہ شہر غازی پور۔یوپی۔الھند۔