(سوال نمبر 5163)
کیا نابالغ کی ملکیت سے والدین لے سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نابالغ کی ملکیت کب ہوگی اور اس کی ملکیت سے اس کے والدین یا کوئی اور لے سکتا ہے یا نہیں ؟
مع تفصیل قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد نورانی اکبر پور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
والدین یا کوئی جب بچے کو مکمل طور پر سونا چاندی مین کچھ بھی دے کر اس کی ملکیت میں کردی اور صراحت کردی کہ یہ سب اس کی ملکیت ہے
پھر مملوکہ چیز اس بچے کی ہے اب والدین بھی اس ملکیت کو نہیں لے سکتے اور نہ اس پر زکات ہے جب تک بالغ نہ ہوجائے بالغ ہونے کے بعد جب اس سونے چاندی پر سال گزر جائے کھر زکات یے ۔ البتہ والدین حفاظت میں رکھ سکتے ہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے
وهو أن الزكاة عبادة عندنا، والصبي ليس من أهل وجوب العبادة فلا تجب عليه كما لا يجب عليه الصوم والصلاة۔
(کتاب الزکوٰۃ 4/2، ط: دار الکتب العلمیة)
اگر نابالغ کو چیز دیتے وقت ملکیت کی صراحت کر دی ، تو عُرف کا اعتبار نہیں ہو گا،چنانچہ شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”فأما عند وجود التصريح بخلافه يسقط اعتباره بہر حال جب عرف کے خلاف صراحت پائی جائے ، تو عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔
کیا نابالغ کی ملکیت سے والدین لے سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ نابالغ کی ملکیت کب ہوگی اور اس کی ملکیت سے اس کے والدین یا کوئی اور لے سکتا ہے یا نہیں ؟
مع تفصیل قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل:- محمد نورانی اکبر پور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
والدین یا کوئی جب بچے کو مکمل طور پر سونا چاندی مین کچھ بھی دے کر اس کی ملکیت میں کردی اور صراحت کردی کہ یہ سب اس کی ملکیت ہے
پھر مملوکہ چیز اس بچے کی ہے اب والدین بھی اس ملکیت کو نہیں لے سکتے اور نہ اس پر زکات ہے جب تک بالغ نہ ہوجائے بالغ ہونے کے بعد جب اس سونے چاندی پر سال گزر جائے کھر زکات یے ۔ البتہ والدین حفاظت میں رکھ سکتے ہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے
وهو أن الزكاة عبادة عندنا، والصبي ليس من أهل وجوب العبادة فلا تجب عليه كما لا يجب عليه الصوم والصلاة۔
(کتاب الزکوٰۃ 4/2، ط: دار الکتب العلمیة)
اگر نابالغ کو چیز دیتے وقت ملکیت کی صراحت کر دی ، تو عُرف کا اعتبار نہیں ہو گا،چنانچہ شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”فأما عند وجود التصريح بخلافه يسقط اعتباره بہر حال جب عرف کے خلاف صراحت پائی جائے ، تو عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔
(شرح السیر الکبیر ، باب الامان ج 1، ص 208، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
اسی طرح عامۂ کتب فقہ میں اُصول موجود ہے
الصريح يفوق الدلالة أعني العرف
صراحت ، دلالت یعنی عُرف پر فوقیت رکھتی ہے۔
اسی طرح عامۂ کتب فقہ میں اُصول موجود ہے
الصريح يفوق الدلالة أعني العرف
صراحت ، دلالت یعنی عُرف پر فوقیت رکھتی ہے۔
(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب النکاح ،باب المھر، ج 4، ص281، مطبوعہ کوئٹہ)
اور جب نابالغ کو مالک بنا دیا ، تو نہ وہ خود کسی کو دے سکتا ہے اور نہ بلا حاجت والدین اس میں سے کچھ لے سکتے، کیونکہ جس تصرف سے نابالغ کومحض نقصان ہو ،وہ نہ تو خود کر سکتا ہے ، نہ ہی اس کا ولی کر سکتا،
چنانچہتنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار میں ہے،
وبین القوسین عبارۃ ردالمحتار:”و ان ضار کالطلاق و العتاق و الصدقۃ و القرض ،لا و ان اذن بہ ولیھما(و کذا لاتصح من غیرہ کابیہ و وصیہ و القاضی للضرر ة
اور اگربچہ یا معتوہ ایسا تصرف کریں،جس سے اُنہیں محض ضررہو ،جیسے طلاق دینا،غلام آزاد کرنا،صدقہ کرنا یا قرض دینا،تو یہ تصرف صحیح نہیں ہے،اگر چہ ان کا ولی اس کی اجازت دے ،اسی طرح اگریہ تصرفات بچے کا غیرکرے، جیسے اس کا باپ ،وصی یا قاضی،توضرر کی وجہ سے تب بھی درست نہیں۔
اور جب نابالغ کو مالک بنا دیا ، تو نہ وہ خود کسی کو دے سکتا ہے اور نہ بلا حاجت والدین اس میں سے کچھ لے سکتے، کیونکہ جس تصرف سے نابالغ کومحض نقصان ہو ،وہ نہ تو خود کر سکتا ہے ، نہ ہی اس کا ولی کر سکتا،
چنانچہتنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار میں ہے،
وبین القوسین عبارۃ ردالمحتار:”و ان ضار کالطلاق و العتاق و الصدقۃ و القرض ،لا و ان اذن بہ ولیھما(و کذا لاتصح من غیرہ کابیہ و وصیہ و القاضی للضرر ة
اور اگربچہ یا معتوہ ایسا تصرف کریں،جس سے اُنہیں محض ضررہو ،جیسے طلاق دینا،غلام آزاد کرنا،صدقہ کرنا یا قرض دینا،تو یہ تصرف صحیح نہیں ہے،اگر چہ ان کا ولی اس کی اجازت دے ،اسی طرح اگریہ تصرفات بچے کا غیرکرے، جیسے اس کا باپ ،وصی یا قاضی،توضرر کی وجہ سے تب بھی درست نہیں۔
(الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب المأذون ،ج 9،ص 291 مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے
نابالغ کے تصرفات تین قسم ہیں ضارّمحض جس میں خالص نقصان ہو یعنی دنیوی مَضَرَّتْ ہو ،اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو ،جیسے صدقہ و قرض ،غلام کو آزاد کرنا،زوجہ کو طلاق دینا،اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اجازت دے ،تو بھی نہیں کر سکتا ،بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تصرفات کو نافذ کرنا چاہے نہیں کر سکتا ،اس کا باپ یا قاضی ان تصرفات کو کرنا چاہیں، تو یہ بھی نہیں کر سکتے۔
بہار شریعت میں ہے
نابالغ کے تصرفات تین قسم ہیں ضارّمحض جس میں خالص نقصان ہو یعنی دنیوی مَضَرَّتْ ہو ،اگرچہ آخرت کے اعتبار سے مفید ہو ،جیسے صدقہ و قرض ،غلام کو آزاد کرنا،زوجہ کو طلاق دینا،اس کا حکم یہ ہے کہ ولی اجازت دے ،تو بھی نہیں کر سکتا ،بلکہ خود بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی نابالغی کے ان تصرفات کو نافذ کرنا چاہے نہیں کر سکتا ،اس کا باپ یا قاضی ان تصرفات کو کرنا چاہیں، تو یہ بھی نہیں کر سکتے۔
(بھار شریعت ج 3،ح 15،ص 204،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
19/11/2023
19/11/2023