(سوال نمبر 5175)
کیا لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کالج میں دنیاوی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لڑکیوں کا ایسے کالج میں جاکر دنیوی تعلیم حاصل کرنا جہاں لڑکے بھی ساتھ میں ہوتےہیں لڑکیاں پردے کا احتمام کر تی ہیں صرف ہاتھ پیر آنکھیں نظر آتی ہیں تو کیا ایسی صورت میں وہ دنیوی تعلیم حاصل کر سکتی ہے؟ جواب ارسال فرمائیں بڑی نوازش ہوگی
سائلہ:- سعدیہ فاطمہ شہر ناگپور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالات حاضرہ کے پیش نظر اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ نسری سے لے کر کالج،اور یونیورسٹی لازم بنائے جس میں صرف خواتین متعلمہ اور معلمہ ہوں مکمل شرعی حجاب کے ساتھ، مگر اس طرح کے ادرے میرے علم میں نہیں جس میں لڑکیاں ابتداء تا انتہاء علم حاصل کر سکیں
موجودہ دور میں لیڈی دکتور کی کتنی سخت ضرورت ہے یہ اہل علم و دانشوران سے مخفی نہیں ہے ائے دن روز مرہ کی زندگی میں مسلمہ مائیں بہنیں اپنا ہر قسم کے علاج کروانے کے لیے مرد دکتور کے پاس جاتی ہیں بعض علاقے میں مسلم مرد دکتور بھی میسر نہیں پھر غیر مسلم ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں جو ستر میں احتیاط کئے بغیر جس طرح چاہے وہ علاج کرتا یے ۔
اس لئے مذکورہ صورت میں جب کوئی مسلم گرل کالج نہ ہو پھر بوجہ مجبوری مع حجاب جانے کی گنجائش ہے کہ لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ صرف کلاس کریں کلاس کے بعد لڑکوں سے الگ ہوجائے۔فرض علوم دینی تعلیم کے بعد
علاج ومعالجہ کی ضروری تعلیم کے لیے با پردہ طالبہ کے حق میں اس طرح تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے تاکہ مسلمانوں میں با پردہ لیڈی ڈاکٹرس ہوں اور مسلم خواتین کو علاج ومعالجہ کے لیے اولین درجے میں قابل اعتماد مسلم لیڈی ڈاکٹرس مل سکیں۔
فتاوٰی شامی میں ہے
لکنہ یفید أیضاً أنھا لا تنتفي بوجود امرأة أخری…… ثم رأیت في منیة المفتي ما نصہ: الخلوة الأجنبیة مکروھة وإن کانت معھا أخری کراھة تحریم اھ
کیا لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کالج میں دنیاوی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لڑکیوں کا ایسے کالج میں جاکر دنیوی تعلیم حاصل کرنا جہاں لڑکے بھی ساتھ میں ہوتےہیں لڑکیاں پردے کا احتمام کر تی ہیں صرف ہاتھ پیر آنکھیں نظر آتی ہیں تو کیا ایسی صورت میں وہ دنیوی تعلیم حاصل کر سکتی ہے؟ جواب ارسال فرمائیں بڑی نوازش ہوگی
سائلہ:- سعدیہ فاطمہ شہر ناگپور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالات حاضرہ کے پیش نظر اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ نسری سے لے کر کالج،اور یونیورسٹی لازم بنائے جس میں صرف خواتین متعلمہ اور معلمہ ہوں مکمل شرعی حجاب کے ساتھ، مگر اس طرح کے ادرے میرے علم میں نہیں جس میں لڑکیاں ابتداء تا انتہاء علم حاصل کر سکیں
موجودہ دور میں لیڈی دکتور کی کتنی سخت ضرورت ہے یہ اہل علم و دانشوران سے مخفی نہیں ہے ائے دن روز مرہ کی زندگی میں مسلمہ مائیں بہنیں اپنا ہر قسم کے علاج کروانے کے لیے مرد دکتور کے پاس جاتی ہیں بعض علاقے میں مسلم مرد دکتور بھی میسر نہیں پھر غیر مسلم ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں جو ستر میں احتیاط کئے بغیر جس طرح چاہے وہ علاج کرتا یے ۔
اس لئے مذکورہ صورت میں جب کوئی مسلم گرل کالج نہ ہو پھر بوجہ مجبوری مع حجاب جانے کی گنجائش ہے کہ لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ صرف کلاس کریں کلاس کے بعد لڑکوں سے الگ ہوجائے۔فرض علوم دینی تعلیم کے بعد
علاج ومعالجہ کی ضروری تعلیم کے لیے با پردہ طالبہ کے حق میں اس طرح تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے تاکہ مسلمانوں میں با پردہ لیڈی ڈاکٹرس ہوں اور مسلم خواتین کو علاج ومعالجہ کے لیے اولین درجے میں قابل اعتماد مسلم لیڈی ڈاکٹرس مل سکیں۔
فتاوٰی شامی میں ہے
لکنہ یفید أیضاً أنھا لا تنتفي بوجود امرأة أخری…… ثم رأیت في منیة المفتي ما نصہ: الخلوة الأجنبیة مکروھة وإن کانت معھا أخری کراھة تحریم اھ
(رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس، ۹: ۵۳۰،)
اب ہمارے ہاں چونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے طلبہ اور طالبات کے ادارے الگ الگ نہیں ہیں، تو ایسے میں مجبوراً لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی ادارے میں پڑھنا پڑتا ہے۔ جن اداروں میں مخلوط نظامِ تعلیم ہے ان میں طلبہ اور طالبات کو صرف کلاس یا لیکچر سننے کی حد تک ہی اکٹھے بیٹھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کلاس کے اختتام کے ساتھ ہی لڑکے لڑکوں کے ساتھ اور لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں۔ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی ہے جو آپس میں ڈسکس کرنا ضروری ہے تو یہ ڈسکشن بھی کلاس میں ہی ہونی چاہیے۔ اگر لڑکا اور لڑکی کلاس کے علاوہ اکیلے میں ڈسکشن کریں گے تو اس سے خرابیوں کا خدشہ ہے۔
اس بات میں بالکل بھی دو رائے نہیں ہیں کہ مسلم معاشروں کو خاتون معالج اور لیڈی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے جو کہ مسلمان خواتین کا چیک اپ کریں اور ان کا علاج معالجہ کریں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہیں اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کا چیک اپ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں کوئی لیڈی ڈاکٹر میسر نہیں ہوتی، صرف مرد ڈاکٹر ہی ملتے ہیں! اس لیے مسلمان لڑکیوں کی جانب سے اس عظیم شعبے میں جانا شریعت کے ایک بہت بڑے ہدف کو پورا کرتا ہے۔
بلا شبہ طبی شعبے میں تعلیم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے کیونکہ لوگوں کی طبی اور علاج معالجے کی ضروریات اسی صورت میں پوری ہوں گی، اور جس کام کے بغیر مسلمانوں کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہوں تو وہ فرض کفایہ ہو تا ہے چاہے وہ کام بنیادی طور پر عبادات میں نہ بھی شامل ہو، اسی لیے ایسی خدمات جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ان کی فراہمی فرض کفایہ ہے
یاد رہے علم طب کے علاوہ ہر شعبے میں خواتین کی ضرورت ہے جو شرعی حجاب کے ساتھ خدمت خلق کر سکے اور ہماری مائیں اور بہنیں کبھی ظلم کا شکار نہ ہو ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
اب ہمارے ہاں چونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے طلبہ اور طالبات کے ادارے الگ الگ نہیں ہیں، تو ایسے میں مجبوراً لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ہی ادارے میں پڑھنا پڑتا ہے۔ جن اداروں میں مخلوط نظامِ تعلیم ہے ان میں طلبہ اور طالبات کو صرف کلاس یا لیکچر سننے کی حد تک ہی اکٹھے بیٹھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کلاس کے اختتام کے ساتھ ہی لڑکے لڑکوں کے ساتھ اور لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں۔ اگر بالفرض کوئی چیز ایسی ہے جو آپس میں ڈسکس کرنا ضروری ہے تو یہ ڈسکشن بھی کلاس میں ہی ہونی چاہیے۔ اگر لڑکا اور لڑکی کلاس کے علاوہ اکیلے میں ڈسکشن کریں گے تو اس سے خرابیوں کا خدشہ ہے۔
اس بات میں بالکل بھی دو رائے نہیں ہیں کہ مسلم معاشروں کو خاتون معالج اور لیڈی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے جو کہ مسلمان خواتین کا چیک اپ کریں اور ان کا علاج معالجہ کریں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہیں اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کا چیک اپ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں کوئی لیڈی ڈاکٹر میسر نہیں ہوتی، صرف مرد ڈاکٹر ہی ملتے ہیں! اس لیے مسلمان لڑکیوں کی جانب سے اس عظیم شعبے میں جانا شریعت کے ایک بہت بڑے ہدف کو پورا کرتا ہے۔
بلا شبہ طبی شعبے میں تعلیم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے کیونکہ لوگوں کی طبی اور علاج معالجے کی ضروریات اسی صورت میں پوری ہوں گی، اور جس کام کے بغیر مسلمانوں کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہوں تو وہ فرض کفایہ ہو تا ہے چاہے وہ کام بنیادی طور پر عبادات میں نہ بھی شامل ہو، اسی لیے ایسی خدمات جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ان کی فراہمی فرض کفایہ ہے
یاد رہے علم طب کے علاوہ ہر شعبے میں خواتین کی ضرورت ہے جو شرعی حجاب کے ساتھ خدمت خلق کر سکے اور ہماری مائیں اور بہنیں کبھی ظلم کا شکار نہ ہو ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/11/2023
21/11/2023