Type Here to Get Search Results !

کیا یونیورسٹی کی لڑکیاں یونیورسٹی کی مسجد میں نماز پڑھ سکتی ہیں؟

 (سوال نمبر 5173)
کیا یونیورسٹی کی لڑکیاں یونیورسٹی کی مسجد میں نماز پڑھ سکتی ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہم یوکے میں رہائش پذیر ہیں. یہاں یونیورسٹی میں پڑھنے جاتے ہیں. جب نمازوں کا وقت ہو تو ہم لڑکیاں ایک بڑے ہال میں نماز پڑھنے جاتی ہیں. وہاں پردہ حائل ہوتا ہے. کیونکہ اسی ہال میں لڑکے بھی نماز پڑھتے ہیں پہلے ہمیں علم نہیں تھا کہ وہ ہال دراصل مسجد ہے. لیکن کچھ عرصہ قبل ہی معلوم ہوا کہ وہاں جمعہ اور عیدین بھی ادا کی جاتی ہیں تب مسجد کی انتظامیہ لڑکیوں والے حصہ سے پردہ ہٹا کر اس جگہ کو جماعت کے لئے استعمال کرتی ہےاس جگہ کے علاوہ دوسری کوئی جگہ میسر نہیں ایسی کہ جہاں ہم لڑکیاں بےخوف نماز پڑھ سکیں. ایک کمرہ ہے جو بہت الگ ہے اور وہاں عموماً کوئی آتا نہیں لیکن کبھی کبھار ہی کوئی وہاں جاتا ہے. جب ہمیں اس ہال کے مسجد ہونے کا علم ہوا تو ہم نے وہاں جانا چھوڑ دیا کیونکہ بچپن سے سنا ہے کہ لڑکیاں مسجد نہیں جاتیں. اور اس دوسرے کمرے میں جا کر نماز پڑھنے لگے. لیکن وہاں اس بے خوفی سے نماز نہیں پڑھی جا سکتی جیسے اس ہال میں.
سوال یہ ہے کہ کیا ہم لڑکیاں اس صورت میں اس مسجد میں نماز پڑھنے جاسکتی ہیں؟ وہاں اختلاط نہیں ہے، پردے کا مکمل اور بہترین انتظام ہوتا ہے کرم حضور وضاحت سے باحوالہ شرعی رہنمائی فرمائیں۔
سائلہ:- اسلامی بہن فرام یوکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں جہاں لڑکے نماز پڑھتے ہیں وہاں آپ نماز نہ پڑھیں میسک ہوکر بلکہ ایسی جگہ نماز پڑھیں جہاں پردے کا مکمل انتظام ہوں۔
وہ جو الگ ایک کمرہ ہے جہاں کوئی نہیں اتا اسی میں لڑکیاں سب نماز پڑھیں۔لڑکیاں مسجد میں جا سکتی ہیں جب مردوں سے الگ انتظام ہو اور لڑکیوں اور لڑکوں کے بیچ میں مکمل دیوار ہو کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے پھر لڑکیاں مسجد میں نماز پڑھ سکتی ہیں مگر میکس ہوکر لڑکوں کے ساتھ بدوں پردہ نہیں 
جہاں بھی لڑکوں سے الگ تھلگ پردے کا مکمل انتظام ہو وہاں نماز پڑھیں۔جہاں الگ روم ہو یا پھر مسجد ہی جس میں مردوں سے الگ انتطام ہو 
مرآة المناجیح میں ہے 
اب فی زمانہ عورتوں کو باپردہ مسجد وں میں آنے اور علیٰحدہ بیٹھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ اب عورتیں سینماؤں بازاروں میں جانے سے تو رکتی نہیں، مسجدوں میں آکر کچھ دین کے احکام سن لیں گی،عہد فاروقی میں عورتوں کو مطلقًا گھر سے نکلنے کی ممانعت تھی۔
(المرأة ج ٢ ص ٢٨٣ مكتبة المدينة)
ایک حدیث میں ہے مَنْ اَتَی الْجُمُعَۃَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ
اس لیئے جمعہ میں عورتوں کو آنا بھی مستحب ہے، مگر اب زمانہ خراب ہے عورتیں مسجدوں میں نہ آئیں۔(مرقاۃ)
 اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں سینماؤں، بازاروں، کھیل تماشوں، اسکولوں، کالجوں میں جائیں، صرف مسجد میں نہ جائیں گھروں میں رہیں،بلاضرورت شرعیہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔اسی لیئے فقیر کا یہ فتویٰ ہے کہ اب عورتوں کو باپردہ مسجدوں میں آنے سے نہ روکو اگر ہم انہیں روکیں تو یہ وہابیوں، مرزائیوں، دیوبندیوں کی مساجد میں پہنچتی ہیں جیسا کہ تجربہ ہوا۔ان لوگوں نے عورتوں کے لیئے بڑے بڑے انتظامات اپنی اپنی مسجدوں میں کیئے ہوئے ہیں عورتوں کو گمراہ کرکے ان کے خاوندوں اور بچوں کو بہکاتے ہیں۔
(المرأة ج ٢ ص ٦٠٩ مكتبة المدينة)
جس طرح خواتین بازاروں شادیوں مردوں کی محافل مجالس میں باپردہ جاتی ہیں اگر کسی مسجد میں اتنے انتظامات ہوں کہ دخول و خروج کا راستہ الگ ہوں مسجد کی دیواریں اس طرح ہوں کہ مرد و زن ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں پھر ان قیود و شروط کے ساتھ جانے کی اجازت ہونی چاہئے 
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال 
20/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area