(سوال نمبر 5147)
کیا بینک سے لون لینا سہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کیا بینک سے لوں لینا سہی ہے؟ برائے کرم جواب عنایت فرمائیں
کیا بینک سے لون لینا سہی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کیا بینک سے لوں لینا سہی ہے؟ برائے کرم جواب عنایت فرمائیں
سائل :- محمّد تاج الدین متھرا یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
واضح رہے کہ کفار کی تین قسمیں ہیں
1/ ذمی،
2/ مستامن،
3/ اور حربی۔
ذمی وه کافر ہیں جو دارالاسلام میں رہتے ہوں اور بادشاه اسلام نے ان کی جان و مال کی حفاظت اپنے ذمے لیا ہو اور مستامن وه کافر ہیں کہ کچھ دنوں کے لیے امان لے کر دارالاسلام میں اگئے ہوں اور ظاہر ہے کہ ہندوستان کے کفار نہ تو ذمی ہے اور نا مستامن بلکہ وه تیسری قسم یعنی کافر حربی ہیں
جیسا کہ تفسیرات احمدیه میں ہے
ان هم الاحربى وما يعقلها الا العالمون۔
(تفسیرات احمدیه ص300 )
اور یہاں ہندوستان میں حکومت کافروں کی ہے۔ اور مسلمان و کافر کے درمیان سود نہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے
لا ربا بین المسلم والحربی فی دار الحرب
اور دار الحرب کی قید واقعی ہے نہ کہ احترازی لهذا یہاں کی حکومت کے بینکوں سے نفع لینا جائز ہے لیکن اس کو دینا جائز نہیں ہاں اگر تھوڑا نفع دینے میں اپنا نفع زیاده ہو تو جائز ہے۔
جیسا کہ ردالمحتار میں ہے الظاھر ان الاباحة یفید نیل المسلم الزیادة وقد الزم الاصحاب فی الدرس ان مرادھم من حل الربا و القمار ما اذا حصلت الزیادة للمسلم (ردالمحتار، ج 4 ص 188)
لہذا بینک یا کسی کمپنی سے لون لیکر اپنا بزنس چلانا اس وقت جائز ہے جبکہ اسکی ضرورت ہو یا اسکی حاجت ہو کہ بغیر اسکے کام نہیں چلے گا یا چلے گا لیکن بہت دشواری سے چلےگا اور یہ صورت حاجت شدیده کی ہے اور اس میں نفع مسلم بھی زیاده ہے تو جائز ہے۔
حضور مفتی اعظم هند علیه الرحمه بھی بینک سے لون لینے کی اجازت اس میں مسلمانوں کو نفع کثیر ہونے کی بنا پر دیتے تھے لیکن یہ اجازت مطلقا نہیں ہے یہ اس طور پر مشروط ہے کہ جس کام کے لیے لون لے رہا ہے یہ اسکی شرعی ضرورت ہو کہ اسکے بغیر کوئی چارا نہ ہو یا ہو کہ کام تو چل جائےگا لیکن بہت مشقت سے چلےگا۔
اور لیتے وقت اسے پورا اعتماد ہو کہ مدت مقرره میں قسطیں ادا کر دیگا تو جائز ہے۔ کہ اس میں بینک کا تھوڑا فائده ہے لیکن مسلمانوں کا نفع زیادہ ہے۔
اسی طرح فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
گورنمنٹ کے بینک فاضل مال دینے کی شرط پر قرض لیا تو یہ اس شرط پر ہے کہ بینک کو جو زائد رقم سود دینی پڑتی ہے اس زائد رقم کے برابر یا اس سے زیاده نفع کا حصول یقینی طور پر معلوم ہو جب تو فاضل مال دینے کی شرط پر قرض لینا جائز ہے ورنہ نا جائز"
(فتاوی مرکز تربیت افتاء ج 2 )
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ اگر اس طرح بھی قرض نہ مل سکے تو صحیح شرعی مجبوری کی صورت میں سودی قرض لینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
واضح رہے کہ کفار کی تین قسمیں ہیں
1/ ذمی،
2/ مستامن،
3/ اور حربی۔
ذمی وه کافر ہیں جو دارالاسلام میں رہتے ہوں اور بادشاه اسلام نے ان کی جان و مال کی حفاظت اپنے ذمے لیا ہو اور مستامن وه کافر ہیں کہ کچھ دنوں کے لیے امان لے کر دارالاسلام میں اگئے ہوں اور ظاہر ہے کہ ہندوستان کے کفار نہ تو ذمی ہے اور نا مستامن بلکہ وه تیسری قسم یعنی کافر حربی ہیں
جیسا کہ تفسیرات احمدیه میں ہے
ان هم الاحربى وما يعقلها الا العالمون۔
(تفسیرات احمدیه ص300 )
اور یہاں ہندوستان میں حکومت کافروں کی ہے۔ اور مسلمان و کافر کے درمیان سود نہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے
لا ربا بین المسلم والحربی فی دار الحرب
اور دار الحرب کی قید واقعی ہے نہ کہ احترازی لهذا یہاں کی حکومت کے بینکوں سے نفع لینا جائز ہے لیکن اس کو دینا جائز نہیں ہاں اگر تھوڑا نفع دینے میں اپنا نفع زیاده ہو تو جائز ہے۔
جیسا کہ ردالمحتار میں ہے الظاھر ان الاباحة یفید نیل المسلم الزیادة وقد الزم الاصحاب فی الدرس ان مرادھم من حل الربا و القمار ما اذا حصلت الزیادة للمسلم (ردالمحتار، ج 4 ص 188)
لہذا بینک یا کسی کمپنی سے لون لیکر اپنا بزنس چلانا اس وقت جائز ہے جبکہ اسکی ضرورت ہو یا اسکی حاجت ہو کہ بغیر اسکے کام نہیں چلے گا یا چلے گا لیکن بہت دشواری سے چلےگا اور یہ صورت حاجت شدیده کی ہے اور اس میں نفع مسلم بھی زیاده ہے تو جائز ہے۔
حضور مفتی اعظم هند علیه الرحمه بھی بینک سے لون لینے کی اجازت اس میں مسلمانوں کو نفع کثیر ہونے کی بنا پر دیتے تھے لیکن یہ اجازت مطلقا نہیں ہے یہ اس طور پر مشروط ہے کہ جس کام کے لیے لون لے رہا ہے یہ اسکی شرعی ضرورت ہو کہ اسکے بغیر کوئی چارا نہ ہو یا ہو کہ کام تو چل جائےگا لیکن بہت مشقت سے چلےگا۔
اور لیتے وقت اسے پورا اعتماد ہو کہ مدت مقرره میں قسطیں ادا کر دیگا تو جائز ہے۔ کہ اس میں بینک کا تھوڑا فائده ہے لیکن مسلمانوں کا نفع زیادہ ہے۔
اسی طرح فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
گورنمنٹ کے بینک فاضل مال دینے کی شرط پر قرض لیا تو یہ اس شرط پر ہے کہ بینک کو جو زائد رقم سود دینی پڑتی ہے اس زائد رقم کے برابر یا اس سے زیاده نفع کا حصول یقینی طور پر معلوم ہو جب تو فاضل مال دینے کی شرط پر قرض لینا جائز ہے ورنہ نا جائز"
(فتاوی مرکز تربیت افتاء ج 2 )
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ اگر اس طرح بھی قرض نہ مل سکے تو صحیح شرعی مجبوری کی صورت میں سودی قرض لینا جائز ہے۔
(بہار شریعت ح ١٥ص ٧٨ مكتبة المدينة)
اور الاشباه میں ہے
فى القنية و البغية يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔
اور الاشباه میں ہے
فى القنية و البغية يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔
( الاشباه والنظائر ص92 )
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
سود دینے والا اگر حقیقة صحیح شرعی مجبوری کے سبب دیتا ہے اس پر الزام نہیں در مختار میں ہے
یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح
اور اگر بلا مجبوری شرعی سود لیتا ہے مثلا تجارت بڑھانے یا جائداد میں اضافہ کرنے یا محل اونچا بنوانے یا اولاد کی شادی میں بہت کچھ لگانے کے واسطے سودی قرض لیتا ہے تو وه بھی سود کھانے والے کے مثل ہے (فتاوی رضویہ ج 3 ص 243 )
(اور ایسا ہی فتاوی فیض الرسول ج 2 میں لکھا ہے۔)
والله ورسوله اعلم بالصواب
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
سود دینے والا اگر حقیقة صحیح شرعی مجبوری کے سبب دیتا ہے اس پر الزام نہیں در مختار میں ہے
یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح
اور اگر بلا مجبوری شرعی سود لیتا ہے مثلا تجارت بڑھانے یا جائداد میں اضافہ کرنے یا محل اونچا بنوانے یا اولاد کی شادی میں بہت کچھ لگانے کے واسطے سودی قرض لیتا ہے تو وه بھی سود کھانے والے کے مثل ہے (فتاوی رضویہ ج 3 ص 243 )
(اور ایسا ہی فتاوی فیض الرسول ج 2 میں لکھا ہے۔)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/3/2022
27/3/2022