Type Here to Get Search Results !

عوام کی علماء سے دوری کیوں؟


عوام کی علماء سے دوری کیوں؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
 ازقلم : ابوالحسن محمد شعیب قادری رضوی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
امت محمدیہ آج زوال کے جس مرحلہ میں آ کھڑی ہے یہ کوئی اچانک حادثہ نہیں بلکہ ایک عرصہ دراز سے یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ امت جتنی دین سے دور ہوئی اتنا ہی زوال ان پر آیا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ مسلمان غالب اور کفار مغلوب تھے مگر اب معاملہ برعکس ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ امت کی دین سے بیزاری ھے۔ بالخصوص علماۓ دین سے بغض و عناد کہ علماء اگر جہاد کی تبلیغ کریں تو دہشتگرد کہا جاتا ھے۔ اگر خاموش رہیں تو کہتے ہیں کہ اب مولوی کہاں چھپ گئے ۔؟ بس حلوے کھاتے ہیں پیٹ بھرا اور سوگئے۔ ان کو کوئی فکر ہی نہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔ کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
دین سے ایسے بیزار لوگ بس باتیں کر سکتے ھیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس کے علاوہ بھی یہ قوم ایک دوسرے سے بدظن اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو لیکر ایک دوسرے سے شدید دشمنی مول لے لیتی ہے۔ اتحاد کا نام و نشان ہی نہیں اور پھر جن علما کے بارے میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ھیں : علمائے دین کی وجہ سے دین باقی ہے اور دین کی بقا سے عالم قائم ہے۔
(مرآة المناجیح۔جلداول۔ص:194)
انہی علماء سے عوام اس قدر بدظن اور اتنی شدید عداوت رکھتی ہے کہ یہاں تک بھی بول دیتے ہیں کہ '' مولوی بخشے گئے تو ہم بھی بخشے جائیں گے ۔"
اور یہ بھی بے دریغ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ "سب سے پہلے جہنم میں مولوی ہی جائیں گے ۔" اسی طرح بھی کہتے ہیں کہ "مولویوں نے دین کا بیڑا غرق کردیا ھے ۔" اسی طرح اور بھی بہت سے نازیبا جملے بولے جاتے ہیں۔ اور تو اور اب عوام کے لیے تو علماء ہر معاملے میں ہدف تنقید بن چکے ہیں۔ یاد رہے !امام محمد بن محمد غزالی شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
خصومت (دشمنی) ہر شر کی بنیاد ہے۔
(احیاء العلوم جلد:3۔۔ص:363)
اس لیے اپنوں اور بالخصوص علماء سے اپنی بےجا خصومت ختم کریں وگرنہ یہ باطنی مرض آپ کی عاقبت کو برباد کردے گا۔ اسی طرح ہم احادیث کی مستند و معتبر صحاح ستہ کی کتب میں سے ایک کتاب "سنن ابن ابی ماجہ" سے ایک مقام پر علماء حق کی فضیلت پر حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا "علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
(احیاءالعلوم جلد اول/ص:45)
اسی طرح کثیر احادیث میں بھی علماء کی فضیلت بیان کی گئی ھے۔ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا وگرنہ علماء کے فضائل پر ایک کتاب لکھی جاۓ تو ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ بہرحال امام اہلسنت کا ایک فتوی نقل کرکے مزید آگے بات بڑھاؤں گا۔ علماء کی توہین کرنے کے متعلق امام اہلسنت اعلیحضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ھیں: " اگر عالم کو اس لیے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کفر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنے کسی دنیاوی خصومت (دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے، گالی دیتا ہے (یا) تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق و فاجر ہے اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔( پھر ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ) خلاصہ میں ہے کہ :
 "جو کسی عالم سے بغیر سبب ظاہری کے عداوت رکھتا ہے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔"
(فتاوی رضویہ:جلد21_ ص:129)
اب پڑھ لیا، غور کر لیا ۔؟ خدارا عوام الناس ہوش کی ناخن لیں۔ جن جن لوگوں نے علماء کی توہین کی وہ پکی سچی توبہ و رجوع کریں اور ساتھ ہی ساتھ آپ سب (سنی) متحد ہو جائیں۔
ادھر میں ڈاکٹر اقبال کا اشعار ان احباب کی نظر کرتا ہوں جو متحد ہونے کے بجاۓ ٹوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔( اتحاد صرف سنیوں سے کرنا ہے کسی بد عقیدہ سے نہیں )
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
آبرو باقی تیری تھی ملت کے اتحاد سے
جب رہا نہ اتحاد دنیا میں رسوا تو ہوا
اب میں عوام و خواص اہلسنت سے مخاطب ہوں کہ اگرچہ عوام کے علماء کے بارے میں یہ جملے غلط ہے۔عوام کو ایسا ہرگز ہرگز نہیں کہنا چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس میں عوام کا اتنا قصور نہیں جتنا چھوٹے طبقے کے متشدد، شہرت پرست اور نوٹ خور مولویوں و نعت خوانوں کا ہے۔ میں یہی سمجھتا ہوں کہ عوام علماء سے بدظن اگر ہے تو انہی شہرت پرستوں کی وجہ سے ہیں۔ انہی لوگوں نے اہلسنّت کا بیڑا غرق کر دیا۔ ہمارے سٹیجوں پر بیٹھ کر عوام کو قصے کہانیاں سنا کر پیسے بٹورے جاتے ہیں اور فقط کرامات اولیاء سنانے پر ہی اکتفاء کیا جاتا ھے۔ کسی موقع پر ان سے خطاء ھوجاۓ تو علماۓ دین اصلاح کریں تو انکے خلاف نازیبا گفتگو شروع کردی جاتی ہے اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ھے۔ ہماری عوام اتنی لا شعور ہے کہ دنیاوی معاملات میں جو پوچھ لو سب پتا ہوگا کہ غلط کیا ھے صحیح کیا ھے۔ ؟ اگر نہیں پتا تو دین کا نہیں پتا۔؟ علماۓ دین کی شان و عظمت کا نہیں پتا۔ (بہرحال میں کرامات اولیاء کا منکر نہیں مگر اب وقت کا تقاضہ کچھ اور ہے۔ میں نے ایک مضمون بنام "خطباء و واعظین حضرات متوجہ ہوں" لکھا ہے۔ جس میں تفصیلا اس حوالے سے گفتگو موجود ہے۔اس مضمون کو حاصل کرنے کےلیے ہم سے رابطہ کرسکتے ھیں۔) اسی طرح انہی نام نہاد کم علم مولویوں نے ہماری ملت کے ذہنوں کو مختلف مسائل میں الجھا دیا۔ عوام کو علماء کے مقابلے میں کھڑا کر دیا۔ ایک طرف سے کسی سنی عالم دین سے کوئی (بتقاضاۓ بشریت) غلطی ہو سہی بس ان کم علم و نام نہاد مولویوں کے فتوے ایڈوانس تیار ہوتے ہیں۔ بغیر سوچ و بچار کیے جھٹ پٹ سے و بے توقف اور بسر و چشم اپنے آپ کو وقت کے مجدد، مجتہد، محقق اور مفتی سمجھ کر فتوے لگا دیتے ھیں۔ خود ہی اپنے آپ کو مفتی سمجھ کر بغیر کسی دلیل کے بڑوں سے اختلاف رکھ لیتے ھیں۔
دلیل ہے نہ کوئی حوالہ ہے انکے پاس
عجیب لوگ ہیں بس اختلاف رکھتے ہیں
اور یہ سب بیماری پاکستان و ہندوستان میں موجود چند شہرت پرست و متشدد مولویوں کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی۔ بہرحال میں نے دیکھا ہے کہ اس متشدد، شہرت پرست، جھگڑالو طبقہ میں کشادہ پیشانی کی صورت کہیں نظر نہیں آتی۔ ایسے لوگ علماء و عوام میں یگانگت کی بجاۓ دوری چاہتے ہیں۔ یہ طبقہ ذہنی طور پر اپاہج، ان کا دماغ سقیم، انداذ وحشیانہ،پورے کے پورے پہواڑ، اور خصلتیں حیوانی (جانوروں والی) ہوتی ہیں اور اپنے آپ کو ہر کسی پر ترجیح دیتے اور دوسروں بالخصوص علماۓ دین کو حقیر جانتے ہیں۔
یاد رہے ! عوام اگر دین یا علماء کے حوالے سے مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہیں اور بدظن ہیں تو اس کام میں بس انہی متشدد، نوٹ خور و شہرت پرستوں کا ہاتھ ھے۔ اب تو یہ ان کا وطیرہ بن چکا ھے حالانکہ ہر صدی میں علماء کا آپس میں اختلاف رہا مگر آپس میں وہ ایک دوسرے کے لیے محبت، ادب اور دلی تعلق رکھتے تھے نا کہ نفرت، بغض، حسد تھا۔ اس صدی میں بھی ہمارے علماء کا مختلف مسائل میں اختلاف ہے اور ویسے بھی اختلاف کوئی بری چیز نہیں۔۔۔۔ مگر افسوس مجھے اُن (یعنی جن مولویوں کا ذکر مع صفات اوپر ہوا ھے ان) لوگوں پر ہوتا ہے جو علماء کے اختلافات کو عوام میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اور سوشل میڈیا ہی کو اپنا دارالافتاء سمجھا ہوا ھے ۔ بہرحال اب عصر حاضر میں قبلہ کنزالعلماء مفتی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب و مفتی راشد محمود رضوی صاحب کو دیکھ لیں۔ ان کا آپس میں اختلاف ہونے کے باوجود دوسرے کو جواب دیتے وقت اچھے الفاظ کا انتخاب کرتے ھیں (اگرچہ اتحاد کا نام و نشان نہیں) اور ویسے بھی ان کے اختلافات انہی تک رہیں تو بہتر ھے۔ عوام تک نہ ہی لایا جاۓ۔ اسی طرح حضور کنزالعلماء کا یا دیگر ہمارے کچھ علماء کا اختلاف حافظ سعد رضوی صاحب (امیر تحریک لبیک پاکستان) سے ہے وہ بھی انہی تک رہے تو بہتر ہے۔
معزرت کے ساتھ ممکن ہے میری بات کسی کو کڑوی لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ان علماء کے اختلافات کو عوام تک لانے میں جن کا سب سے بڑا کردار ہے وہ بھی یہی چھوٹے طبقے کے متشدد اور جھگڑالو مولوی ہیں۔ ان مولویوں کو انتشار پھیلانے اور عوام الناس کو علماء کے خلاف بھڑکانے کے سوا اور کیا ملا ۔؟
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا تو بیڑا غرق کیا اور ساتھ ہی ساتھ عوام کا بھی بیڑاغرق کرکے رکھ دیا اور اپنی عاقبت بھی خراب کی اور کر رہے ہیں ۔۔۔ جن کا دل کرے جو دل کرے منہ اٹھا کر بغیر دلیل کے کسی بڑے عالم سے اختلاف کر لیتے ہیں۔ چلو ایک حد تک شریعت کے دائرہ میں رہ کر اختلاف کسی سے رکھنا ٹھیک ہے، جائز ہے اور میں ویسے بھی ایسے طبقہ سے مخاطب ہوں جو اختلاف تو اختلاف اس کے ساتھ مخالف کا الٹا نام، نازیبا کلمات بولتے ہیں۔ اپنے اخلاقیات کو ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ اللّٰه کی پناہ۔
بس ہم ہاتھ پے ہاتھ دھرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
 اہم گزارش:
              میں سب سے پہلے ایسے متشددین (جن کا تذکرہ اوپر ہوا اس) طبقہ سے یہی گزارش کروں گا کہ خدارا اپنے اور عوام کے حال پر رحم کریں اور کتنا اپنوں کو توڑنا چاہتے ہو ۔؟ علماء کے اختلافات کو انہی تک رکھیں۔ علمی اختلافات کو ہَوا نا دیں۔ آپ کو اگر کسی مسئلہ میں کسی سے کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو بے شک رکھیں۔ کوئی حرج نہیں مگر اپنے انداز بالخصوص اخلاقیات کو درست کریں۔اختلاف کو اختلاف کی حد تک ہی رکھیں۔ آپ لوگوں سے میری یہی گزارش ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
★ اس کے بعد عوام سے یہی اپیل کروں گا کہ دنیاوی معلاملات میں تو آپ سب کو ہر چیز کا پتا چل جاتا ھے مگر ادھر دین کے معاملے میں کون سا سانپ سونگھ جاتا ھے۔ بہرحال آپ خدارا ایسے کم علم حضرات سے دور رہیں جو علماۓ دین سے آپ کو بدظن کریں ۔ دین سے دور کریں ۔ آپ علماۓ حق کا ادب و احترام بجا لائیں۔ إن شاءاللّٰه یہی ذریعہ نجات ہو گا۔
 یہ میرا درد دل تھا جو بیان کر دیا۔ کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر اس بار کے لیے اتنا کافی ہے۔
 نوٹ:
یاد رہے کہ میں نے اوپر جو اختلاف کے حوالے سے گفتگو کی اس سے فروعی اختلافات مراد ہیں۔ اگر اصولی اختلافات بھی ہوں تو پھر بھی ہمیں اپنے اخلاق درست رکھنے چاہیں اور میں نے جو اوپر چند سخت الفاظ فتنہ باز لوگوں کے لیے بولے ہیں وہ اسی لیے بولے کے وہ اسی کے لائق ہیں ۔ بہرحال ایک چھوٹے سے مسئلہ کی وجہ سے کسی کو اسلام و سنیت سے خارج کر دینا بہت ہی غلط بات ہے۔باقی بات رہی بد عقیدہ لوگوں کی تو ان سے بھی اچھے انداز میں بات کرنی چاہیے اور احسن انداز میں اختلافات رکھنے چاہیں۔ مگر بدمذھبوں میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے سامنے متشدد بننا پڑتا ہے۔ حکمت عملی کے ساتھ موقع و مناسبت سے کام لینا چاہیے، جہاں نرمی سے پیش آنا ہے وہاں متشدد پن ظاہر نہیں کرنا چاہیے اور جہاں متشدد پن ظاہر کرنا چاہیے وہاں نرمی نہیں کرنی چاہیے۔ یاد رہے میں نے کسی فرد واحد کو مینشن نہیں کیا۔ مجھ سمیت ہر کوئی اپنی گریبان میں جہانکے۔

فقیرانہ آۓ صدا کر چلے 
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area