Type Here to Get Search Results !

ایسی چابی کے چھلے کا کیا حکم ہے جو گڑیا یا کارٹون کی ہو؟

 (سوال نمبر 5169)
ایسی چابی کے چھلے کا کیا حکم ہے جو گڑیا یا کارٹون کی ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایسی چابی کے چھلے کا کیا حکم ہے جس پر گڑیا یا کارٹون وغیرہ کی تصاویر بنی ہوں۔ کیا ہم ایسے چھلے روزمرہ زندگی میں استعمال کر سکتے ہیں؟  شرعی راہنمائی فرما دیجیئے۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا
سائلہ:- لائبہ بنت اصغر شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
اپ نے جو چھلے کی تصویر بھیجی ہے وہ کارٹون ہے اور 
 کارٹون تصویر نہیں ہے اور نہ تصویر کے حکم میں ہے اس لئے اسے چھلے کی شکل میں استعمال کرنا جائز ہے 
آجکل جس انداز کے کارٹون بن رہے ہیں ان میں عموماً دو طرح کے کارٹون ہوتے ہیں 
 (1) اگر وہ ذی روح کی حکایت نہ کرتا ہو توجائز ہے جیسے بس کے آگے آنکھ لگادی تو اس طرح کی کوئی جاندار مخلو ق دنیا میں نہیں پائی جاتی لہٰذا یہ خیالی مخلوق کا کارٹون ہے جو تصویر کے حکم میں نہیں آتا 
(2) اگر کسی شخص یا جانور وغیرہ کا کارٹون بنایا جو ذی روح کی حکایت کر رہا ہوتا ہے تو ایسا کارٹون بنانا جائز نہیں۔
(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
حدیث شریف میں ہے 
ابو داود نے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے روایت کی، کہتی ہیں کہ رسول ﷲ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم غزوہ تبوک یا خیبر سے تشریف لائے اور ان کے طاق پر گڑیاں تھیں اور پردہ پڑا ہوا تھا، ہوا چلی اور پردہ کا کنارہ ہٹ گیا، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کی گڑیاں دکھائی دیں حضورصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا عائشہ یہ کیا ہیں عرض کی، میری گڑیاں ہیں ان گڑیوں کے درمیان میں کپڑے کا ایک گھوڑا تھا جس کے دو بازو تھے۔حضور صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس گھوڑے کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ گڑیوں کے بیچ میں یہ کیا ہے؟ عرض کی، یہ گھوڑا ہے ارشاد فرمایا گھوڑے کے یہ کیا ہیں ؟ عرض کی، یہ گھوڑے کے بازو ہیں ارشاد فرمایا گھوڑے کے لئے بازو حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے عرض کی، کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام
کے گھوڑوں کے بازو تھے، حضور صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے سن کر تبسم فرمایا۔
(بهار ح ١٦ص ٥١٣ المرجع السابق)
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا کَانَتْ تَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- قَالَتْ وَکَانَتْ تَأْتِینِی صَوَاحِبِی فَکُنَّ یَنْقَمِعْنَ مِنْ رَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- قَالَتْ فَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم- یُسَرِّبُہُنَّ إِلَیَّ (أخرجہ مسلم: ۶۴۴۰)
وفي حدیث جریر کُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ فِی بَیْتِہِ وَہُنَّ اللُّعَبُ 
محتمل ہے۔
یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان گڑیوں کی ناک کان وغیرہ نہ تھیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ لڑکی نما کھلونے تھے، باقاعدہ مجسمے کی شکل نہیں تھی، نیز یہ بھی امکان ہے کہ یہ واقعہ تصویرکی حرمت کے نزول سے پہلے کا ہے.
یہ سب ممکنات میں سے ہیں پر جاندار کی تصویر تھی مجسمہ کی شکل میں یہ متحقق ہے ۔
 فتاویٰ رضویہ میں ہے 
 تصویر کسی طرح استیعاب مابہ الحیاۃ۔نہیں ہوسکتی فقط فرق حکایت و فہم ناظر کا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ، 24 / 587)
ایسی تصویر جو موضع اہانت میں ہو اس کا بھی بنانا اور بنوانا جائز نہیں۔ 
فتاوی رضویہ میں ہے 
 تصویر کی توہین مثلاً فرش پا انداز میں ہونا کہ اس پر چلیں پاؤں رکھیں یہ جائز ہے اور مانع ملائکہ نہیں اگرچہ بنانا بنوانا ایسی تصویروں کا بھی حرام ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ، 24 / 587)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
20/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area