Type Here to Get Search Results !

شرک کرنے والے کی معافی کیوں نہیں ہے؟

 (سوال نمبر 5106)
شرک کرنے والے کی معافی کیوں نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہر گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے پر شرک نہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- عبدالواحد بلوچستان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
پہلی بات تو یہ کہ جب کتاب و سنت میں کوئی حکم آجائے تو کیوں اور کیسے کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے بس ہمارا کام ہے دل و جان سے قبول کرنا ۔
کثرت سوال شرعا منع ہے۔
یاد رہے ہر گناہ اللہ معاف فر مادیتا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ اگر وہ چاہے تو معاف فرما دے گا ورنہ عذاب دیا جائے گا ۔شرک کے سوا کسی گناہ پر خلود فی النار نہیں۔
اب مشرک کی بخشش کیوں نہیں وہ کیوں خلود فی النار ہے تو چونکہ کسی گناہ میں گناہ کرنے والا رب سے مقابلہ نہیں کرتا پر شرک میں رب کے مقابل کھڑا کر دیتا یے اسی لئے اس کی بخشش نہیں۔مثلا رب نے کہا صرف میں اللہ ہوں میں صرف معبود ہوں میں صرف ہمیشہ سے ہوں اور ہمیشہ رہوں گا اب مشرک بت کو معبود بنا کر رب کے بالمقابل کھڑا کر دیتا یے کہ بت لائق معبود ہے وہی دیتا یے وہی مارتا جلاتا یے وہ ہمیشہ سے ہے وہی جہاں بنا یا وغیرہ وغیرہ اس لئے رب اپنے سے مقابل کرنے والے کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد 
بیشک اللہ اس گناہ کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور جو اس سے کم (گناہ) ہو اس کو جس کے لئے چاہیے بخش دیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو یقینا اس سے بہت بڑے گناہ کا بہتان باندھا (النساء : ٤٨) 
شرک کی تعریف 
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں 
شرک کا لغوی معنی ہے دو یا دو سے زیادہ لوگ کسی ایک معین چیز کے مالک ہوں تو وہ دونوں اس کی ملکیت میں شریک ہیں
 اور دین میں شرک یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کا شریک ٹھیرائے اور یہ سب سے بڑا کفر ہے اور شرک صغیر یہ کہ بعض کاموں میں اللہ کے ساتھ غیر اللہ کی بھی رعایت کرے جیسے ریاء اور نفاق۔ 
(المفردات ص ٢٦٠‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ٧٩١ ھ لکھتے ہیں 
شرک کرنے کی تعریف یہ ہے کسی شخص کو الوہیت میں شریک ماننا جیسے مجوس اللہ کے سوا واجب الوجود مانتے ہیں یا اللہ کے سوا کسی کو عبادت کا مستحق مانتے ہیں جیسا کہ بت پرست اپنے بتوں کو عبادت کا مستحق مانتے ہیں۔
(شرح عقائد نفسی ص ٦١‘ مطبوعہ مطبعہ یوسفیہ ہند) 
کیا چیز شرک ہے اور کیا چیز شرک نہیں ہے
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو واجب بالذات یا قدیم بالذات ماننا ‘ یا اللہ کے سوا کسی کی کوئی صفت مستقل بالذات ماننا (مثلا یہ اعتقاء رکھنا کہ اس کو ازخود علم ہے یا از خود قدرت ہے) یا کسی کو اللہ کے سوا عبادت کا مستحق ماننا (مثلا اللہ کے ساتھ خاص ہیں ان کو غیر اللہ کے لیے بجا لانا ‘ مثلا کسی بزرگ کی نذر ماننا یا کسی کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ اپنی قدرتت سے رزق اور اولاد دیتا ہے ‘ بارش برساتا ہے بلاؤں کو ٹالتا ہے نفع پہنچانا اور ضرر دینا اس کی ذاتی قدرت میں ہے۔ حانث ہونے کے قصد سے کسی کے نام کی قسم کھانا یہ تمام امور شرک ہیں (تفسیر تبیان القرآن سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 48)
حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قبولِ اسلام
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ وحشی جس نے حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کیا تھا وہ سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے امان دیجئے تا کہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خدا کا کلام سنوں کہ ا س میں میری مغفرت اور نجات ہے۔ ارشاد فرمایا: مجھے یہ پسند تھا کہ میری نظر تم پر اس طرح پڑتی کہ تو امان طلب نہ کر رہا ہوتا لیکن اب تو نے امان مانگی ہے تو میں تمہیں امان دیتا ہوں تاکہ تو خدا عَزَّوَجَلَّ کا کلام سن سکے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ(الفرقان :۶۸) (کنزُالعِرفان)
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے۔
وحشی نے کہا میں شرک میں مبتلا رہا ہوں اور میں نے ناحق خون بھی کیا ہے اور زنا کا بھی مرتکب ہوا ہوں کیا ان گناہوں کے ہوتے حق تعالیٰ مجھے بخش دے گا؟ اس پرسرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خاموشی اختیار فرمائی اور کوئی کلام نہ فرمایا، پھر یہ آیت نازل ہوئی
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا(الفرقان:۷۰)(کنزُالعِرفان)
 مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے۔
وحشی نے کہا: اس آیت میں شرط کی گئی ہے کہ گناہوں سے مغفرت اسے حاصل ہو گی جو توبہ کرلے اور نیک عمل کرے،جبکہ میں نیک عمل نہ کر سکا تو میرا کیا ہو گا؟ تب یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ(النساء:۴۸)( کنزُالعِرفان) بیشک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔
اب وحشی نے کہا: اس آیت میں مَغفرت مَشِیَّتِ الٰہی کے ساتھ وابستہ ہے، ممکن ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کے ساتھ حق تعالیٰ کی مشیت ِمغفرت وابستہ نہ ہو،ا س کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ(الزمر :۵۳)( کنزُالعِرفان)
 تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔
یہ آیت سن کر وحشی نے کہا:اب میں کوئی قید اور شرط نہیں دیکھتا اور اسی وقت مسلمان ہو گیا۔
(مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہفتم: ذکر سال ہفتم وفتح مکہ، ۲ / ۳۰۲)
مدارج کے علاوہ بقیہ کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ یہ عرض معروض نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں نہ ہوئی بلکہ دوسرے ذریعے سے ہوئی۔
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا کہ صرف مشرک کی بخشش نہیں باقی رب کی مشیت پر ہے ۔
والله ورسوله أعلم بالصواب 
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area