Type Here to Get Search Results !

حالات کے تناظر میں مفتی مطیع الرحمن صاحب کا خوف و ہراس میں مبتلاء ہونا۔


حالات کے تناظر میں مفتی مطیع الرحمن صاحب کا خوف و ہراس میں مبتلاء ہونا۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
قاضی مشتاق احمد رضوی نظامی، کرناٹک بروز دوشنبہ 12 فروری 2024
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
مفتی مطیع الرحمن صاحب نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ آج بنامِ مسلمان لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں وہاں یہ نہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ سنّی ہے، نہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ شیعہ ہے، اور نہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ غیر مقلد ہے، اور وہاں نہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ کسی اور فرقے کا ماننے والا ہے، وہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ کلمہ پڑھتا ہے، ایسے حالات میں ضروت ہے ،،کلمہ گو ہر فرقہ اپنے اپنے تشخصات کے ساتھ ہم اہلسنت کا جو عقیدہ ہے ہم اس پر قائم رہیں دوسرے لوگ اپنے عقیدے پر قائم رہنا چاہیں تو وہ بھی رہیں مگر بنامِ اسلام سب شیشہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں عقیدہ ہمارا اپنا ہو لیکن عمل دنیاداری کے لئے جو کریں ہم وہ متحد ہوکر کریں، خدا نہ کردہ کسی گاؤں میں آگ لگے تو جس گھر میں پہلی بار آگ لگتی ہے وہی گھر نہیں جلتے ارد گرد کے دوسرے مکان بھی جل جاتے ہیں، آج یہ وہی دور ہے، "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلمہ نے جو مدینے طیبہ آکر جو پہلا معاہدہ فرمایا تھا مسلم غیر مسلم سب کو لیکر" آج پھر وہی دور آگیا ہے ہاں یہ ضرور ہے ہم اپنے عقیدے پر قائم رہیں اور اخلاص کے ساتھ قائم رہیں اور دوسروں کو بھی اس سچائی کی دعوت دیں۔
یہ تھی ان کی 3 منٹ 32 سکینڈ کی کلپ جو ہمیں میسر ہوئی جس کو ہم نے سنا اور من و عن لکھ کر قارئین کے نظر کیا ہے،
پہلی بات اس پوری گفتگو سے ہمیں اتفاق نہیں، اس گفتگو کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ہمیں کئی باتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں اُن باتوں کو پیش کرنے سے پہلے راقم یہ بتانا ضروری سمجھتا ہے، 
الحمد للّہ 
اسوقت ملک کے ان سلگتے حالات میں ہم سارے سنی مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئیے؟
اس پر ہمارے مرکزی قائدین مرکزی خانقاہوں کے پیرانِ طریقت اپنے اپنے بزرگوں کے اعراس کے موقعوں پر دیگر جلسے جلوسوں اور خصوصاً بریلی شریف میں عرسِ رضوی کے موقعے پر جامعة الرضا میں قائم امام احمد رضا انٹر نیشنل کانفرنس کے ذریعے ملک کے سارے سنی مسلمانوں کو پیغام دیتے ہوئے اعلامیہ جاری کرکے پڑھ کر سنا دیا جاتا ہے، اور اس اعلامیہ کو سوشیل میڈیا اخبار وغیرہ کے ذریعے نیشنل اور انٹرنیشنل طور پر دنیاء بھر میں شائع کیا جاتا ہے،
اور ابھی حالیہ دنوں میں علماء و ملک کے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو لیکر اور ہلدوانی و دیگر مقامات پر مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو لیکر بھی مرکزی تنظیموں کی جانب سے مرکزی حکومتوں کو آگاہ کرتے ہوئے اور ان سارے مظالم کے خلاف احتجاج درج کرا رہے ہیں اور بے قصور علماء و نوجوانوں کو رہا کرنے کی مانگیں کر رہے ہیں،
اس لئے اس تعلق سے ہمیں ایسے کوئی پیغام کی قطعی ضرورت نہیں کہ جس سے ہم کسی بد عقیدہ وہابی، دیوبندی، شیعہ، رافضی، بلکہ ہر ایک گمراہوں اور مرتدوں کے ساتھ ملی اتحاد قائم کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سلام دعاء، مصاحفہ و معانقہ کرنے کی ضرورت پڑے،
 اسی بہانے صلح کلیت کے شکار ہوکر ان کے یہاں شادی بیاہ میں جانیں لگیں یا ان کو اپنے یہاں شادی بیاہ میں بلانے کی ضرورت پڑے،
اب آئیے مفتی مطیع الرحمن صاحب نے جو کچھ کہا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں،
مفتی صاحب کا یہ جو کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینے طیبہ آکر پہلی بار مسلم و غیر مسلم سب کو ساتھ لیکر معاہدہ فرمایا،
راقم کا یہ کہنا ہے
اگر چہ یہ پہلا معاہدہ جسے ،میثاقِ مدینہ، کہتے ہیں جو 622ء کو مدینہ طیبہ میں ہوا تھا تو اس معاہدے میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل صرف مدینے کے وہ کفار تھے جنہیں ابھی اسلام کی دعوت بھی نہیں دی گئی تھی، وہ تو پہلے ہی سے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اور اپنے مذہب کا حریف مانا کرتے تھے،
 ان سب کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قیادت منواتے ہوئے یہ معاہدہ طیے فرمایا تھا،
یہاں پر اس معاہدے میں مسلم و غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی بات سمجھ میں نہیں آتی، 
،،کفار ومشرکین کے ساتھ معاہدہ ہوا، یہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر مسلم و ،،غیر مسلم کو ساتھ لیکر کے معاہدہ،، یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے،
اور اگر مفتی صاحب کے کہنے کا مطلب اگر چہ وہ معاہدہ جسے ،،صلح حدیبیہ،، کہا جاتا ہے تو پھر یہ معاہدہ حضرت علی ابن ابی طالب حضرت محمد بن عبداللہ حضرت سہیل بن عمرو رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مبارک جماعت کے ذریعے کفار ومشرکین کے ساتھ کیا گیا تھا تو پھر یہ پہلا معاہدہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ مدینہ منورہ میں ہوا تھا یہ معاہدہ 628ء مقام حدیبیہ میں ہوا تھا جسے عربی میں ،،صلح الحدیبیہ،، کہا جاتا ہے،
بہرِ حال نبئی کائینات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جو بھی معاہدے فرمائے ہیں وہ سب کفار ومشرکین کے ساتھ فرمائے ہیں،
اگر آج کے دور میں ان مذکورہ معاہدوں کا ذکر کرتے ہوئے حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں
ادیانِ باطل کے ساتھ معاہدہ کرنے کو سنت اور تعلیمات نبوی سمجھتے ہوئے کوئی سمجھوتا بطورِ معاہدہ کے کرلیں یہ تو بات درست ہو سکتی ہے،
مگر ان حالات میں ادیانِ باطلہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے تیسرے گروہ کو اپنے ساتھ شامل کرنا یعنی تمام کلمہ گو گمراہ و بد مذہب فرقوں کو اپنے ساتھ لیکر ادیانِ باطلہ کے ساتھ معاہدہ کرنا
راقم اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں رکھتا،
چونکہ مذکورہ معاہدوں پر غور فرمائیں
معاہدے جو بھی ہوئے ہیں وہ اسلام کے کُھلے دشمن ادیانِ باطلہ کے ماننے والوں سے ہوئے ہیں نہ کہ کسی اسلام کا نام لیکر کلمہ پڑھنے والے منافق، مرتد گمراہوں سے،
یہاں اس وقت اس دور کی بات کریں تو اسلامی نکتہ نظر سے ہر ایک مسلمان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ ہمارے اپنے ملکِ بھارت میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے ادیانِ باطلہ میں سے جو سیاستدان ہیں لیڈرس ہیں ان سے معاہدہ کریں،
 ان سے مل بیٹھ کر بات کریں،
 ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم اور مسجد و مدرسوں پر ہونے والی زیادتیوں کو لیکر مکالمات کریں،
 اپنے خیالات اور اپنے معاملات کو بطورِ معاہدے کے ان کے سامنے رکھیں،
یہ اختیار ملک کے آئین کے مطابق ہمیں اور ہر ایک مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہے،
اس حد تک معاہدے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے،
مگر ادیانِ باطل کے افراد کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے کے لئے کسی بد عقیدہ گمراہ و مرتد جماعت کے افراد کو اپنے ساتھ میں لیکر کیا گیا ہو جو ان *چودہ سو پینتالیس سالوں* میں اسلام کی تاریخ میں کہیں کوئی ایسا معاہدہ ہمیں نظر نہیں آتا،
یا صاف لفظوں میں کہا جائے تو تاریخِ اسلام میں جو بھی معاہدوں کے تعلق سے ہمیں پڑھنے کو ملا ہے وہ دو جماعتوں کے درمیان یعنی مسلمانوں اور ادیانِ باطل کے ساتھ معاہدے ہوئے ہیں اتنا تو معلوم ہوتا ہے،
اس میں تیسری جماعت جو کلمہ گو ہونے کا بھی دعویٰ کرے اور اسلام کے سچے پیروکاروں سے لڑائی بھی مول لیں، انبیاء و اولیاء کی شان میں گستاخیاں بھی کرتے رہیں، گستاخیوں پر منحصر کتابیں بھی لکھیں،
ایسے کسی گروہ کو سچے پکے اسلام کے پیروکاروں نے ادیانِ باطلہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لئے اپنے ساتھ رکھا ہو،
 یہ ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا، (یہ میری اپنی معلومات کے مطابق ہے)
تو حالات حاضرہ میں ادیانِ باطلہ کے ظلم و ستم کے خلاف آوازیں اٹھانے یا احتجاج کرنے کے لئے اس وقت کے اُن تمام علماء کو یہ سوچنا چاہئیے کہ اِس وقت کے گمراہ مرتد بد عقیدہ جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر لینے اور متحد ہوکر رہنے کے لئے مفتی صاحب کی طرف سے جو صورت بتائی جا رہی ہے اور اس کے لئے جن معاہدوں کی دہائی دی جا رہی ہیں کیا وہ صورت از روئے شرع درست ہے؟
دوسری خطرناک بات مفتی صاحب نے یہ فرمایا 
کہ کلمہ گو ہر فرقہ اپنے اپنے تشخصات کے ساتھ ہم اہلسنت کا جو عقیدہ ہے ہم اس پر قائم رہیں،، دوسرے لوگ بھی اپنے عقیدے پر قائم رہنا چاہیں تو وہ بھی رہیں۔
قارئین کرام سے گزارش ہے
مفتی صاحب کے ان جملوں پر خاص کر غور کریں!!! 
کہتے ہیں!
،،کلمہ گو ہر فرقہ،، ،،اپنے اپنے تشخصات کے ساتھ،، 
یعنی ہر کلمہ گو فرقے کے تشخصات برقرار رکھ لینےکی ان کو فکر ہے
آخر ایسی فکر کرنے کی مفتی صاحب کو کیا ضرورت ہے؟
مفتی صاحب کی دوسری خطرناک بات یہ ہے 
وہ یہ کہے رہے ہیں،
،،ہم اہلسنت اپنے عقیدے پر قائم رہیں دوسرے لوگ بھی اپنے عقیدے پر قائم رہنا چاہیں تو وہ بھی رہیں۔
اہلسنت کو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کے لئے تلقین، تاکید، یا تنبیہ کرنے کی تو بات سمجھ میں آتی ہے،
مگر آپ کو کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کو بھی ان کے عقیدوں پر انہیں قائم رہنے کی بات کریں اور انہیں تلقین کریں کی اپنے اپنے عقیدے پر قائم رہنا چاہیں تو وہ بھی رہیں،
معاذاللہ 
تو کیا مفتی صاحب کو اس طرح کی فکر رکھنا یا ان کو ان کی بد عقیدگی پر قائم رہنے کی اجازت دینا درست ہے؟
مطلب صاف سمجھ میں آرہا ہے کہ آپ کو ان کی بد عقیدگی کی کوئی فکر نہیں وہ اپنی ساری بدعقیدگیوں کے ساتھ رہنا چاہیں تو آپ ان کو اجازت دے رہے ہیں،
یہ نہیں کہ ہم ان کی بد عقیدگی سے بیزارگی کا اظہار کریں اور ان کو بد عقیدگی سے بچانے کی فکر کریں،
اب مجھے تو یہی لگ رہا ہے کہ مفتی صاحب قبلہ ملک کے حالات کے تناظر میں اس وقت اس قدر خوف ہراس میں مبتلاء ہیں کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو رہا ہے انہیں سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ میں کیا کہے رہا ہوں اور میرے ان جملوں سے اہلسنت کو کیا پیغام جائے گا ؟
میٹھی میٹھی کھیر،، کے ساتھ دنیاء کی چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے گو گوبر سب کو ملا کر متحد رہنے اتحاد کر لینے کی سرِ عام دعوت دے رہے ہیں کہ دنیاداری کے لئے جو عمل کریں ان کے ساتھ متحد ہو کر کریں، 
بتایا جائے کہ دنیاء کا وہ کون سا ایسا عمل ہے جو ہم ان کے ساتھ متحد ہوئے بنا نہیں کرسکتے؟
اسلام نے ہمیں یہ تعلیم پہلے ہی سے دیا ہے اور بتایا ہے کہ دنیاء میں رہتے ہوئے ہم اپنے ،معاملات،، میں کسی کی شرکت کو برداشت کر سکتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ وہ بے ایمان ہیں ایمان و اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں بغیر اخوت و محبت سلام مصاحفہ و معانقہ کے،
اور ،،موالات،، میں جو باتیں آتی ہیں جیسے محبت، اخوت، میل ملاپ، وفاداری، مذہبی تقریبات میں شرکت، عبادات میں شرکت، عزت و احترام، تعظیم و تکریم، یہ سب ہم ایمان والوں کے ساتھ ہی کر سکتے ہیں نہ کہ کسی گمراہ و مرتد بے ایمان کے،
اس وقت ہر ایک مسلمان کو کماحقہ ،،مُوالات و معاملات،، کے حقوق کو سمجھنا ضروری ہے
،،معاملات،، کی بات آئے تو اس میں ادیان باطلہ کے اشتراک کی چند شرائط کے ساتھ گنجائش ہے
 نہ کہ مطلق ان کے ساتھ ہم مُوالات کے جو حقوق ہیں ان کی طرح ان کے ساتھ ہنستے کھاتے کھلاتے، پیتے پلاتے، اٹھتے بیٹھتے رہا کریں، 
اب بتایا جائے آخر مفتی صاحب کونسی دنیاداری کے عمل میں ہمیں ان بد مذہبوں کے ساتھ متحد ہوکر اتحاد کے ساتھ رہنے کی تعلیم دے رہے ہیں؟ 
اور یہ بھی یاد رکھیں ایک وقت تھا مفتی صاحب قبلہ اس طرح کی تنقید ہر ایک گمراہوں بد مذہبوں کے جانب سے دی جانی والی اتحاد کی دعوت پر کرتے آئے ہیں،
یہ سبق ہم نے ان سے اور انہیں جیسے علماء و مفکرین و مناظرین سے سیکھا ہے
 نوٹ:
یاد رہے راقم بس ایک تنقیدی تبصرہ نگار ہے کوئی حکم نہیں لگا رہا ہے،
اور حکم لگانے کے لئے میں کوئی شرعاً قاضی و مفتی و مناظر بھی نہیں ہوں،
شرعی حکم لگانا یہ مفتیانِ عظام و علمائے کرام کا کام ہے،
گرچہ مذکورہ تبصرے میں کوئی بات قابلِ گرفت ہے تو ہمیں فی الفور بتاکر ہماری اصلاح کی جائے نہ کہ حقیقت سے چشم پوشی کریں،
تاکہ راقم اپنی شرعی غلطی سے رجوع کر سکے، 
اور رہی بات ملک کے حالات کی۔
 اس کو لیکر سب کے سب فکرمند ہیں اور ساری مرکزی شخصیتیں یہی کہے رہی ہیں ان حالات کا مقابلہ ہمیں ملک کے آئین کو اچھی طرح سے سمجھتے ہوئے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا جواب آئن کی روشنی میں ہی دینا ہے۔
ملک کے آئین کے مطابق ہی ہمیں حکومتوں کی جانب سے ہونے والے مظالم کے خلاف لڑنا ہے،
اس کے ساتھ ساتھ ان مظالم کا مقابلہ اپنے اچھے اعمال و کردار سے بھی کرنا ہے،
،،گالی کا جواب گالی نہیں ہے۔
اگر وہ گالی دیتے ہیں تو ہمیں صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمانِ خدائے وحدہ لاشریک کے حکم کے مطابق 
لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ
کہہ کر جواب دینا ہے،
کوئی ایسا قدم اٹھانا نہیں ہے جس سے اسلام بدنام ہو،
اور مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے،
جان بوجھ کر کسی کو بھی اپنی ہو یا اپنے علاؤہ دیگر مسلمانوں کی جانوں کو ہلاکت میں ڈالنے کی اجازت اسلام نہیں دیتا،
ہر ایک مسلمان کو چاہئیے وہ نمازوں کی پابندی، گناہوں سے پرہیز، گھروں میں شادی بیاہ رسم منگنی کا ماحول اسلامی طرز پر کرے، ہر ایک حرام و ناجائز کاموں سے بچتے رہیں،
 سختی سے شریعتِ مطہرہ پر عمل پیرا رہیں، تو ان شاءاللہ تعالیٰ یہ یقین کریں ہمارا دشمن کتنا بھی طاقتور ہو وہ ہم پر غالب آ نہیں سکتا، 
پردہ، نکاح، منگنی، طلاق، خلع، تقسیمِ وراثت، حلال تجارت، و دیگر معاملات تعلیمِ اسلام کی روشنی میں ہو،
دنیوی معاملات میں بھی کوئی ہمارا قدم غلط نہ ہو تو پھر دشمنانِ اسلام کی یہ جرت نہ ہوگی کہ وہ اسلام و شریعت کے کسی معاملے میں دخل اندازی کرے اور ہمیں شریعت مطہرہ پر عمل کرنے سے روکیں،
فرمانِ باری تعالیٰ بھی یہی ہے 
کہ وَ اَنتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔
مفہومِ آیت : کہ کامل مؤمن ہوجاو تو تم ہی غالب رہوگے، کامیاب و کامران رہوگے شرط یہی ہے کہ تم سچے مؤمن بن کر رہو، 
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّةً۔
مفہومِ آیت: اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ،
اس طرح کی بے شمار قرآنی آیات ہیں جن پر ہم عمل کرلیں تو یقیناً ہم ہی سب پر غالب رہینگے،
لیکن ہم نے اور ہماری قوم نے (الا ماشاءاللہ) قرآن پڑھنا چھوڑ دیا، اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا، صرف جلسے جلوس اور نعرے بازی میں وقت گزار کر آج یہ ساری مصیبتوں کو ہم نے خود مول لے رکھا ہے، 
افسوس اور بہت افسوس ہوتا ہے کوئی بھی اپنے اعمال کی طرف نظر نہیں کر رہا ہے بلکہ جب بھی کفار ومشرکین کی جانب سے مصیبتیں آتی ہیں تو
اس وقت ہر کس و ناکس علماء و اکابرین سادات و مشائخ اور مرکزی قائدین کو کوسنے لگتے ہیں کہ انہوں اس مصیبت کے وقت خاموشی کیوں اختیار کی؟
کہاں بل میں گھس بیٹھے ہیں؟ وغیرہ 
یہ نہیں سوچتے کی یہ سب مصیبتیں ہم پر آ رہی ہیں تو وہ ہماری بد اعمالیوں و بد کرداریوں کی وجہ سے ہے،
عوام تو عوام چند خواص بھی اس حرام کاری ویڈیوبازی اور تصویر کشی سیلفی کی بیماری میں مبتلاء ہیں (الاماشاءاللہ) جس کو دیکھو اس کو اس حرام کاری میں مزہ آتا ہے،
 ویڈیو بازی سیلفی تصویرکشی کرنے کرانے میں مزہ لیتے ہیں اور یہ سب حرام کام اپنے جلسے جلوسوں اور گھروں میں شادی نکاح ولیمہ کے موقعے پر کرتے وقت انہیں 
مرکزی قائدین و مرکزی خانقاہوں کے مرکزی شخصیات کی نصیحتیں یاد نہیں آتیں اپنے پیر و مرشد کا قول اور نصیحت یاد نہیں آتیں،جب اسی ویڈیو بازی تصویر کشی اور بد اعمالیوں و بد کرداروں کی وجہ سے مسلمانوں پر مصیبتیں آتی ہیں تب ان سب حرامکاری کے مرتکبین کو قائدین پیرانِ طریقت اکابرینِ اسلام کی موجودگی و عدم موجودگی کی باتیں کرنا یاد آتا ہے، 
اللہ تعالیٰ اس طرح کی بے حس قوم پر رحم فرمائے،
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین 
جو نشتر لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا۔
اور یہ بھی کہ کاش کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
فقط والسلام

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area