اشرفؔی میاں کی غزل گوئی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم : طفیل احمد مصباحی (سابق مدیر ماہنامہ اشرفیہ ٬ مبارک پور ٬ اعظم گڑھ)
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
غزل کی تعریف
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
غزل کی تعریف
" حسن و عشق کی مختلف کیفیات کا اظہار " سے کی گئی ہے ۔ غزل کی حقیقت سے متعلق کسی شاعر نے بڑی درست بات کہی ہے :
یار سے پیار کی باتوں کو غزل کہتے ہیں
زلف و رخسار کی باتوں کو غزل کہتے ہیں
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں ۔ چوں کہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے ٬ اس لیے اس صنفِ سخن کو " غزل " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ غزل اس چیخ کو بھی کہتے ہیں جو شکار ہوتے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے ۔ اصطلاحِ شاعری میں غزل سے مراد وہ صنفِ نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں حسن و عشق کی باتیں بیان کی گئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی ۔ دنیا دار شعرا غزلوں میں دنیاوی محبوب کے قصیدے پڑھتے ہیں اور اللہ والے یعنی صوفی شعرا اللہ اور اللہ کے نیک بندوں کے حسن و عشق کے قصے بیان کر کے اپنے ایمان و عرفان کو جِلا بخشتے ہیں اور روحانی تسکین پاتے ہیں ۔ تاہم آج کل غزلوں میں بڑی وسعت اور تہہ داری پیدا ہو گئی ہے ۔ اب حسن و عشق کے علاوہ ہر قسم کے موضوعات غزل میں شامل ہو گئے ہیں ۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا ۔ عربی قصائد میں " تشبیب " کے اشعار کو غزل کا نقشِ اول کہا جاتا ہے ۔ یہ مقبول ترین صنفِ سخن فارسی زبان کے راستے اردو میں داخل ہوئی اور شہرت و مقبولیت کی حامل ٹھہری ۔ حسن و عشق سے قطعِ نظر غزل کے وسیع موضوعات کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ :
غزل میں ذات بھی ہے اور کائنات بھی ہے
ہماری بات بھی ہے اور تمہاری بات بھی ہے
سرور اس کے اشارے داستانوں پر بھی بھاری ہیں
غزل میں جوہرِ اربابِ فن کی آزمائش ہے
یعنی غزل میں ذاتی واردات کے بیان کے ساتھ کائنات بھی موجود ہے ۔ اس کے علاوہ غزل کا آرٹ اشاروں کا آرٹ ہے اور یہ اشارے بڑی بڑی داستانوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کو " رمز و ایما کا فن " کہا گیا ہے ۔ امیر خسروؔ کے مندرجہ ذیل شعر کو اردو غزل کا بالکل ابتدائی نمونہ بتایا جاتا ہے :
ز حالِ مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
اس شعر میں ہندی اور فارسی الفاظ کی جھلک ملتی ہے ٬ لیکن پھر بھی اس کو اردو غزل کا ابتدائی نمونہ تسلیم کیا گیا ہے ۔ امیر خسروؔ کے بعد اردو غزل کے ابتدائی نقوش دکنی ادب میں ملتے ہیں ۔ اس امر میں قلؔی قطب شاہ کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا جا سکتا ہے ۔ قلی قطب شاه اُردو غزل کا صاحبِ دیوان شاعر ہے ۔ ان کے علاوه ، ولؔی دکنی ٬ غوّاصی ، نصرتؔی ، شاؔہی اور شوقؔی کے کلام میں غزل کے نمونے ملتے ہیں ۔ ان کی زبان پر دکنیت کا اثر کافی گہرا ہے ۔ اردو غزل کو واقعی غزل کا حقیقی رنگ و روپ عطا کرنے میں جس شاعر نے اہم رول ادا کیا وہ ولؔی دکنی ہیں ۔ انھوں نے تصوف اور اخلاقی مسائل کو بھی اپنی غزلوں میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ان کی غزلوں کے اشعار زندگی کے مسلمہ حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ غزل کے لیے پہلے " ریختہ " کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا ۔ امیر خسروؔ نے موسیقی کی راگ کو ریختہ کا نام دیا تھا ۔ ادب کے دیگر اصناف اور فنونِ لطیفہ میں سب سے زیادہ غزل کو پسند کیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ غزل اسٹیج کے علاوہ سخن کا بہترین ذریعۂ اظہار بھی ہے ۔ کم لفظوں میں مکمل بات کرنے کا ہنر ہے ۔ غزل کا سانچہ چھوٹا ہوتا ہے ٬ اس میں جذبات یا خیالات کو پھیلانے کی گنجائش محدود ہوتی ہے ٬ اس لیے رمز و ایما ٬ تمثیل و استعارہ ، پیکر آفرینی اور محاکات اُس کے فنی لوازم بن گئے ہیں ۔
غزل متنوع موضوعات کا معجونِ مرکب ہے ۔ غزل کی بدلتی ہیئت کے پیشِ نظر اس کو چار ادوار میں منقسم کیا گیا ہے ۔ پہلا دور : دکنی غزل ۔ دوسرا دور : اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے نصف اول تک ٬ بلکہ ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے آخر تک ۔ تیسرا دور : ۱۸۵۷ ء سے ڈاکٹر اقبالؔ تک اور آخری دور میں اقبالؔ کے بعد جدید دور تک ۔ اس کے بعد اردو ادب میں ترقی پسند دور ( ۱۹۳۶ ء تا ۱۹۵۰ ء ) شروع ہوتا ہے ۔ اس عہد میں غزل کی ہیئت اور معنویت دونوں میں تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوئی ۔ ترقی پسندوں نے بھی غزل کے متعلق اپنی اجدادی وراثت اور روایت سے بیشمار غلط سمجھوتے کیے ۔ قدیم روایاتی علامات ، استعاروں ، تشبیہات و تلمیحات کو غیر روایتی معانی و مفاہیم دینے کی کوشش کی ۔ اس طرح قدیم روایت کے ملے جلے اثرات ترقی پسندوں کی روایت شکنی کے اعلانات کے باوجود جدید غزل میں شعوری اور غیر شعوری طور سے سرایت کرتے چلے گئے ۔ جدید تحقیق کے مطابق اُردو غزل کا پہلا نمونہ امیر خسرؔو کے ہاں ریختہ کی صورت میں ملتا ہے ۔ ان کے علاوہ بہت سارے صوفیائے کرام نے شاعری کو اظہارِ خیالات کا ذریعہ بنایا ٬ لیکن غزل کا ان کے یہاں کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ بہمنی سلطنت میں غزل کے نمونے بہت ہیں ۔ گولکنڈہ کی سلطنت کے قطب شاہی اور عادل شاہی دور میں ٬ ان حکمرانوں کی شعر و ادب سے دلچسپی کی وجہ سے ٬ اردو غزل نے بہت ترقی کی ۔ چوں کہ یہ صنف فارسی سے اردو میں آئی ہے ٬اس لیے فارسی کی عصری معنویت اور تاثرات بھی اردو غزل میں جا بجا نظر آتے ہیں ۔ابتدائی غزلوں میں عشق و محبت کے علاوہ دیگر مضامین نہیں باندھے جاتے تھے ٬ کیوں کہ خود غزل کا لغوی معنی ہی عورتوں سے بات چیت کرنے کے ہیں ۔ یہاں تک کہ شبلؔی نعمانی نے بھی غزل کو عشق و محبت کے جذبات کی تحریک سمجھا ۔ لیکن بعد میں حالؔی نے " مقدمہ شعر و شاعری " میں غزل کے متعلق ہر قسم کے مضمون کی گنجائش پیدا کر دی ٬ جس کے بعد اس صنف میں ہر قسم کے خیالات بیان کیے جانے لگے ۔
غزل کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے کچھ لوگ اس حقیقت سے چشم پوشی کرنے لگے ہیں کہ غزل مکمل طور پر شاعری نہیں ہے اور نہ غزل کو پوری شاعری کی آبرو کہہ کر دل خوش کر لینا مناسب ہے ۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ غزل ہماری شاعری کی ایک اہم اور قابل قدر صنف ہے اور ہردور میں زندگی کے حقائق کی عکاسی اپنے مخصوص انداز و اسلوب میں کرتی رہی ہے ۔ غزل کی شہرت و مقبولیت کے پیشِ نظر نقادانِ فن نے اس کے جملہ ممکنہ اور باریک پہلوؤں پر دل کھول کر بحث کی کی اور دادِ تحقیق دی ہے ۔ غزل فن یا آرٹ ہے بھی یا نہیں ، اس پہلو پر بھی گفتگو ہوئی ہے ۔ حالؔی صنف غزل کے خلاف ہرگز نہیں تھے ۔ وہ غزل میں اصلاح چاہتے تھے اور یہ اصلاح غزل کے موضوعات کے دائرے میں تھی ۔ غزل کی ساخت اور ہیئت پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا مگر غزل کی ہیئت اور ساخت پر وحید الدین سلیم ، عظمت اللہ خاں ، جوش ملیح آبادی اور کلیم الدین احمد کے اعتراضات بنیادی ہیں ۔ ان لوگوں کا اعتراض غزل کی ریزہ خیالی اور ریزہ کاری پر ہے ۔ ان کے نزدیک ہر فن پارے میں مضمون کا تسلسل ضروری ہے اور ابتدا ٬ وسط اور تکمیل کا احساس بھی ۔ غزل چوں کہ منفرد اشعار کا ایک گلدستہ ہے اور اس کے فارم میں بھی ربط وتسلسل کی شرط نہیں ہے ، اس لیے ان حضرات کے نزدیک غزل بے وقت کی راگنی ہے یا بقول کلیم الدین احمد : نیم وحشیانہ شاعری ۔ عظمت اللہ خاں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اردو شاعری کی ترقی صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ غزل کی گردن بے تکلف مار دی جائے ۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی اور دوسرے حضرات نے غزل کے اشعار میں تسلسل تلاش کرنے کی سعی کی ۔ اس سلسلے میں حامد حسن قادری کا رویہ زیادہ دیانت داری پر مبنی ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ غزل کے اشعار میں تسلسل قطعی ضروری نہیں ۔ غزل میں وحدتِ خیال کا سوال ہی نہیں ہے ، ہاں ! وحدتِ تاثر ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ۔ غزل کے حامیوں نے فن کے فطری نظریے سے متاثر ہو کر ہائیکو سے اس کا قرب دریافت کیا ٬ مگر ہائیکو میں دو مختلف تصویریں بالآخر ایک تیسرے نقش کے ذریعہ سے ایک مجموعی تاثر پیش کرتی ہیں ۔
غزل کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ مغربی نظریۂ فن کے مطابق یہ فن پارہ ہو یا نہ ہو ، مشرقی نظریۂ فن کے مطابق یہ بھی فن کا ایک روپ ہے اور اس میں بحر ، قافیے اور ردیف کے ذریعہ سے ذہن کی ایک خاص رَو ، کیفیات کے ایک خاص آہنگ ، جذبات کی ایک خاص لَے ، ایک مخصوص فضا کی آئینہ بندی کی جاتی ہے ۔ بحر ایک بساط عطا کرتی ہے ۔ قافیہ اس بساط کی سطح پر تکرار اور توقع کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذہن کو ایک روشنی اور روح کو ایک بالیدگی عطا کرتی ہے اور ردیف حالت یا زمانے یا شرط کے ذریعے اسے چستی اور چابک دستی عطا کرتی ہے ۔ پہلے اس پر غور کیجیے کہ غزل میں مطلع کیوں ہوتاہے یعنی شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیے کا استعمال کیوں ضروری ہے ۔ میرؔ کی مشہور غزل کے مطلع کو ذہن میں رکھیے :
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوانے کا م کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
اگر غزل مطلع سے شروع نہ ہو تو سننے والے یا پڑھنے والے کے ذہن کی تربیت ان خطوط پر نہیں ہو سکتی ہے ٬ جو غزل کا خاصہ ہیں ۔ اس لیے قدما نے غزل کے لیے مطلع کی شرط لگائی ہے ، خواہ یہ کمزور ہی کیوں ہوں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ بہت سے اساتذہ نے کئی مطلعوں کی غزل کہی ہے ٬ مگر یہ قطعی ضروری نہیں ہے ۔ کیوں کہ پہلے مطلع کے بعد وہ صوتی نظام اور وہ موسیقی جو غزل کے ساتھ مخصوص ہے ، سننے والے یا پڑھنے والے کے ذہن میں بس جاتی ہے ۔ اس کے بعد دوسرے مصرعے کا قافیہ اس رَو کو آگے بڑھانے کے لیے کافی ہے ۔ وحید الدین سلیم اور دوسرے نقادوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزل کاشاعر قافیے کا غلام ہوتاہے ۔ وہ خیال کے مطابق قافیہ نہیں لاتا ٬ بلکہ قافیے کے مطابق خیال لاتا ہے ۔ یہ بات بھی جزوی صداقت رکھتی ہے ۔ غزل سے متعلق ان تمہیدی کلمات کے حضور اشرفؔی میاں کی اردو غزل گوئی کے نقش و نگار ملاحظہ فرمائیں ۔
اشرفؔی میاں کی اردو غزل گوئی :
مخدوم الاولیاء ٬ اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں قدس سرہ کی ذاتِ گرامی مجموعۂ کمالات تھی ۔ شاعری و نثر نگاری ٬ آپ کے علمی محاسن کا دو نمایاں رخ اور آپ کی تہہ دار شخصیت کا معتبر حوالہ ہے ۔ آپ فارسی ٬ اردو اور ہندی زبان کے ایک منجھے ہوئے قادر الکلام شاعر ٬ ممتاز نعت گو اور صوفیانہ اقدار و روایات کی ترجمانی کرنے والے ایک بلند پایہ غزل گو تھے ۔ آپ کو فارسی شاعری کا " امیر خسرو " اور اردو کا " میر تقی میرؔ " سمجھنا چاہیے ۔ راقم کے دعویٰ کی صداقت ملاحظہ کرنے کے لیے آپ کے شعری دیوان " تحائفِ اشرفی " کا مطالعہ مفید ہوگا ٬ جس کے زریں صفحات پر شعری و ادبی کہکشاں اشعار کی صورت میں تجلی ریز ہے ۔ فارسی و اردو نعت گوئی کے بعد آپ کی اردو غزل گوئی کا مختصر تعارف نذرِ قارئین ہے ۔ آپ کی فارسی غزل گوئی کا تفصیلی ذکر گذشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے ۔ تحقیقی و تنقیدی نقطۂ نظر سے آپ کی شاعری کا مفصل جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کرے کوئی بندہ سامنے آئے اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر بنائے ۔
ادب چاہے نظم کی شکل میں ہو یا نثر کی صورت میں ٬ سماجی اقدار کی ترجمانی اس کا طرۂ امتیاز رہا ہے ۔ ادب سوسائٹی کے عمل دخل ٬ معاشرتی رویوں اور سماجی ناہمواریوں کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی ، تہذیب و ثقافت ، طرز معاشرت اور انسانی کلچر کی عکاسی کرتا ہے ۔ کامیاب ادب وہ ہے جس میں سماج کی پوری تصویر نظر آتی ہو ۔ ادب یا بلفظِ دیگر نظم و نثر ٬ زندگی کا آئینہ دار ہے ۔ اس میں شاعر یا پھر سماج کے دوسرے افراد کی زندگی کو چلتی پھرتی تصویر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ پروفیسر احتشام حسین کے بقول : ادب ادیب کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے ۔ ادب زندگی کی ازسر نو تخلیق ہے ۔ ادب انسان کی مادی کشمکش کا دلکش عکس ہے ۔ ادب صرف لفظوں کی خوب صورت مورتیوں کو فن کی لڑی میں پرونے کا نام نہیں ٬ در حقیقت ادب وہ ہے جس میں زندگی کے تجربات اور مشاہدات بیان کیے گیے ہوں ۔ حضور اشرفؔی میاں کی غزل گوئی میں سماجی زندگی کی آئینہ داری کم اور خود ان کی زندگی و بندگی ٬ ان کی افتادِ طبع اور پاکیزہ شخصیت کے جلوے زیادہ نظر آتے ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیں کہ آپ کس طرح غمِ عشق سے دو چار ہیں اور آہ و فغاں کر رہے ہیں :
رو رہا ہے کس قلق سے دل ہمارا زار زار
چبھ گئے سینے میں غم سے اے گلِ بے خار خار
بختِ خوابیدہ پہ حسرت آ رہی ہے بار بار
ہم تو چھوٹے یار سے اور ہو گئے اغیار یار
گر خوشی ہے قتل میں میرے تو پھر تاخیر کیا
گردنِ عاشق پہ کیجے کھینچ کر تلوار وار
جان کام آئے تمہارے عشق میں تو خوب ہے
صورتِ منصورؔ پائے طالبِ دیدار وار
وصل مشکل ہے تو کر تدبیرِ وصل اے اشرفؔی
کرتے ہیں آخر تو بیٹھے بیٹھے کچھ بیکار کار
" صورتِ منصور " کی تشبیہ ٬ " بیکار کار " اور " گلِ بے خار خار " کی ترکیب و تکرار لطف سے خالی نہیں ۔
وہ جو کسی صاحبِ دل اور تصوف آشنا شاعر نے کہا ہے کہ سو کتاب اور سو اوراق آگ میں جھونک دو اور اپنا روئے دل دلدار کی طرف کرو ۔
صد کتاب و صد ورق در نار کن
روئے دل را جانبِ دل دار کن
تو حضور اشرفؔی میاں کا روئے سخن اور روئے دل اسی دلدار کی طرف تھا اور ان کا شاعرانہ وجود از اول تا آخر اسی کوئے جاناں کا طواف کرتا رہا اور نوع بہ نوع شعری پیکر تراشتا رہا ۔ وہ کبھی بحرِ عشق میں غوطہ زن ہوتے ہیں ۔ کبھی غمِ ہجر میں آہیں بھرتے ہیں ۔ کبھی نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں ۔ کبھی چاکِ گریباں کی بات کرتے ہیں اور کبھی محوِ جانِ جاناں اور طالبِ بتاں ہو کر خود کو طائرِ مقید بتاتے ہیں اور مرغِ بسمل کی طرح تڑپتے نظر آتے ہیں ۔ غرض کہ آپ کی غزلیہ شاعری اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے اور طالبانِ معرفت کو مسرور و مسحور کرتی ہے ۔ یہ اشعار دیکھیں کہ کس قدر ذوق و مستی اور والہانہ انداز لیے ہوئے ہیں :
کھو گئے دو عالم سے محوِ جان جاں ہو کر
دیر میں کیا مسکن طالبِ بتاں ہو کر
تیرے مے پرستوں کو فکرِ زہد و تقویٰ کیا
کس لیے مقیّد ہوں مطلق العناں ہو کر
کیوں قفس میں پر باندھے طائر مقید کے
ہائے کیا تو نے یار مہرباں ہو کر
تیرے ڈھونڈنے والے کہتے ہیں یہ حسرت سے
یار کیوں ہوا مخفی بے طرح عیاں ہو کر
یوں تو جستجو میں ہم مدتوں رہے لیکن
کچھ نشاں ملا تیرا آپ بے نشاں ہو کر
رازِ خلوتِ جاناں لب پہ آ نہیں سکتے
خود بہ خود ہوئے ساکت شکلِ بے زباں ہو کر
بے قراریاں کیسی اشرفؔی ترے دل کو
ضبط کیوں نہیں کرتا مردِ راز داں ہو کر
ادب ٬ جس کی مقبول ترین قسم شاعری ہے ٬ وہ فنِ لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب و شاعر اپنے جذبات و افکار اور قلبی واردات کو اپنے خاص نفسیاتی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے ٬ بلکہ الفاظ کے توسط سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوتِ مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے مسرت بخش ٬ حسین اور مؤثر پیرائے اختیار کرتا ہے جن سے سامع و قاری کا جذبہ و تخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے ٬ جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوتا ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ذیل کے اشعار کا مطالعہ کریں ۔ ممکن ہے عام انسانوں پر یہ اثر انداز نہ ہوں ٬ لیکن جادۂ سلوک و معرفت کا مسافر اور ایک ایسا شخص جس کے سینے میں عشق کی چنگاری بھڑک رہی ہو ٬ وہ سن کر مچل اٹھے گا ۔ آپ نے سیرت و سوانح کی کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ محفلِ سماع میں صوفیائے کرام کی حالت دگر گوں ہو جایا کرتی اور وہ مدھ بھرے عشقیہ کلام سن کر رقص کرنے لگتے یا جیب و گریباں پھاڑنے لگتے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض کلام و اشعار اتنے اثر انگیز اور ذہن و فکر کو جھنجھوڑنے والے ہوتے ہیں ۔ حضور اشرفؔی میاں کے یہ اشعار اسی نوعیت کے ہیں :
دردِ ہجراں میں ہوا سخت گرفتار مریض
بسترِ غم پہ تڑپتا ہے ترا یار مریض
دیکھ بیمارِ محبت کو لگا کہنے طبیب
اچھے ہونے کے نہیں تیرے کچھ آثار مریض
آئے تو بہرِ عیادت اگر اے رشکِ مسیح
ابھی اچھا ہو ترا طالبِ دیدار مریض
اُس نے تیرے لبِ جاں بخش کے چکھّے ہیں مزے
داروئے تلخ سے کرتا ہے جو انکار مریض
غش پہ غش آتے ہیں بیتابیِ دل ظاہر ہے
اب یہ بچتا نہیں آتا نہیں زنہار مریض
نزع کے وقت نظر آئے اگر صورتِ یار
جی اٹھے کیوں نہ ترا طالبِ دیدار مریض
اشرفؔی کے تپِ فرقت میں گئے تاب و تواں
آؤ مل جاؤ تڑپتا ہے یہ ناچار مریض
محبت چاہے حقیقی ہو یا مجازی ٬ عاشق کا سکون ٬ چین اور قرار چھین لیتی ہے ۔ عشق ہنساتا کم ٬ رلاتا زیادہ ہے ۔ محبت ٬ تجارت نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے ٬ بشرطیکہ نفسانیت اور حرص و ہوس سے خالی ہو ۔ عندلیبِ گلشنِ عشق فضائے محبت میں اڑان بھرنے ٬ راہِ عشق میں ٹھوکریں کھانے اور بے پناہ مشقتیں برداشت کرنے کے بعد آخر میں یوں نغمہ سرائی کرتا ہے :
زلفِ بُتاں کے پیچ سے خالق بچائے دل
مرنا جسے قبول ہو جا کر پھنسائے دل
یارب کبھی کوئی نہ کسی سے لگائے دل
مر جائے زہر کھا کے کسی پر جو آئے دل
رکھوں کہاں میں اب اسے پہلو کو چیر کر
ڈر ہے کہیں نہ یہ شررِ غم جلائے دل
کرتا ہے ابتدائے محبت سے شوخیاں
فرمائیے تو قابو میں کس طرح آئے دل
اے اشرفؔی بتوں میں محبت ذرا نہیں
کس طرح کوئی سنگ دلوں سے لگائے دل
ہجر و فرقت اور قربت و وصال جیسے مضمون کی آمیزش کے علاوہ تسلیم و رضا ٬ جاں سپاری ٬ نالہ و فریاد اور بعض اوقات تب و تاب کھونے اور صدمۂ ہجر کا بار نہ اٹھانے کا بیان بھی غزلیہ شاعری کے اہم اور پسندیدہ موضوعات رہے ہیں ۔ حضور اشرفؔی میاں کے مندرجہ ذیل کلام میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں :
آج مزے وصل کے پائیں گے ہم
لذتِ دیدار اُٹھائیں گے ہم
اس تنِ خاکی کو مٹا ئیں گے ہم
در سے تیرے پر نہیں جائیں گے ہم
ذبح کرو خنجرِ ابرو سے تم
پر کبھی گردن نہ ہلائیں گے ہم
جس نے سنا اس پہ جنوں چھا گیا
آپ کا قصہ نہ سنائیں گے ہم
ساتھ لیے جائیے جانِ حزیں
صدمۂ ہجراں نہ اٹھا ئیں گے ہم
پیرِ مغاں اب تو نہ انکار کر
کہہ میری خاطر سے پلائیں گے ہم
بند درِ میکدہ ہے اشرفؔی
جان پر اب کھیل کے جائیں گے ہم
جو بندہ شرابِ عشق کی لذتوں سے سرشار اور شاہراہِ الفت کا مسافر بن جاتا ہے ٬ پھر اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے ۔ وہ چلتے پھرتے ٬ اٹھتے ٬ بیٹھتے ٬ خلوت و جلوت ہر جگہ عشق ہی کا راگ چھیڑتا ہے اور اپنے محبوب کی یادوں میں مگن ہو کر کچھ اس طرح اپنے جذبِ دروں کا اظہار کرتا ہے :
چھپائی کس لیے صورت دکھا کر
ہمیں آشفتہ و شیدا بنا کر
پھر اپنے حسن کا جلوہ دکھا دو
ہمارا سینہ آئینہ بنا کر
تڑپتا ہے دل میں ہمارا
ملے گا کیا تمہیں ہم کو ستا کر
کیا پیرِ مغاں نے کیا ہی بیخود
ہمیں جامِ مئے وحدت پلا کر
وہ دامِ زلف میں دیتے ہیں ایذا
ہمارے طائرِ دل کو پھنسا کر
جنونِ عشق میں یا رب کسی کو
نہ یوں میری طرح تو مبتلا کر
نہ بھولو اشرفؔی کو دل سے اشرفؔ
درِ شاہانہ پر اپنے بلا کر
حضور اشرفؔی میاں نے اردو و فارسی زبان میں بڑی اچھی اور کامیاب غزلیں کہی ہیں اور قدیم شعرائے غزل کے شعری لہجوں کو اپناتے ہوئے اپنے خیابانِ سخن کو غزل کے لالہ و گل سے سجایا ہے ۔ وہی انداز ٬ وہی لہجہ ٬ وہی کسک ٬ وہی سوز و گداز اور ذہن و فکر کو مسحور و مسرور کرنے والا وہی مدھر بھرا اسلوب آپ کی غزلوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ یہ غزل دیکھیں کہ کس قدر جان دار اور شان دار ہے اور شاعر کی عظمتِ سخن پر دلالت کرتی ہے :
غمِ فراق سے رہتی ہے انتشار میں روح
جو وصل ہو تو رہے شاد جسمِ زار میں روح
نہ قبر پر بھی اگر بعد مرگ آیا تو
رہے گی تیرے ہی تا حشر انتظار میں روح
سنا دے مژدۂ دیدار جلد اے قاصد
بہت دنوں سے تپاں ہے فراقِ یار میں روح
نہ سخت ہاتھ لگاؤ سنبھل کے شانہ کرو
چھپی ہے کاکلِ مشکیں کے تار تار میں روح
طبیب دیکھ کے بیمارِ عشق کو بولا
بس اک حُباب سی باقی ہے جسمِ زار میں روح
اگر نہ آئے عیادت کو وقت نزع بھی تم
تڑپ تڑپ کے رہے گی مرے مزار میں روح
خبر نہیں تنِ لاغر کی اشرفؔی ہم کو
بھٹکتی پھرتی کہیں ہوگی کوئے یار میں روح
شاعری اور بالخصوص غزل گوئی کی کامیابی کا راز اس کی شعریت و معنویت اور اثر انگیزی میں مضمر ہے ۔ میر تقی میرؔ کی شہرت و مقبولیت کا راز ان کی گداختہ اور دلربا غزلیں ہیں ۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ٬ لیکن راقم الحروف اشرفؔی میاں کے گداختہ اور تغزلانہ لہجوں پر مبنی غزلوں کو " غزلیاتِ میرؔ " کا مماثل اور ہم قرار دیتا ہے ۔ یہ غزل دیکھیں کہ کس قدر عشق و وارفتگی سے معمور ہے اور اس کا لہجہ کس قدر ذہن و دماغ میں ہیجان برپا کرنے والا ہے :
خاک صحرا کی اڑاؤں گا مجھے جانے دو
کوئی دم اس دلِ بیتاب کو بہلانے دو
سیرِ گلشن نہیں بے یار کے مجھ کو بھاتی
اے رقیبو ! مرے گُل رُو کو ادھر آنے دو
قیس لیلیٰ پہ ہوا شیفتہ اور تم پر ہم
ہوں گے مشہور زمانے میں یہ افسانے دو
جھکیں زلفیں رخِ تاباں کی بلا لینے کو
ہو بہو جیسے گریں شمع پہ پروانے دو
نہ پریشاں کرو اے بادِ صبا کے جھونکو
دوش پر کاکلِ خُم دار کو بل کھانے دو
جب سے آئے ہیں ترے نرگسِ مخمور نظر
چھلکے جاتے ہیں مری آنکھوں کے پیمانے دو
جان ہی پر جو بنے گی تو بنے کیا غم ہے
اشرفؔی ! ناز و کرشمہ اُسے دکھلانے دو
نعوت و مناقب کی طرح اشرفؔی میاں کی غزلوں میں جذبات کی شدت ٬ احساسات کی حرارت ٬ صدائے قلب کی بے چینی اور ربودگی و شیفتگی قارئین کا تڑپا کر رکھ دیتی ہے ۔ ذیل کے غزلیہ اشعار شاعر کی اضطرابی کیفیات کے غماز ہیں :
نقشہ رخِ انور کا جما جا مرے دل میں
جلوہ قدِ رعنا کا دکھا جا مرے دل میں
اے کافرِ بد کیش تو آجا مرے دل میں
بت خانہ خدا خانہ بنا جا مرے دل میں
یہ گھر ہے ترے واسطے اغیار سے خالی
تجھ کو نہ تکلف ہو تو آ جا مرے دل میں
میں تیرے تجسس میں رہا کرتا ہوں رات
کچھ اپنا ٹھکانا تو بنا جا مرے دل میں
سینے میں بھڑکتی ہے غضب آتشِ فرقت
یہ دل کی لگی آگ بجھا جا مرے دل میں
تیری ہی قسم تجھ کو مرا نام نہ لینا
کر کچھ بھی نشاں غیر کا پا جا دل میں
ہیں دیدہ و دل اشرفؔی زار کے حاضر
آ جا مری آنکھوں میں سما جا مرے دل میں
غزل کا یہ آسان ٬ سادہ اور سلیس ترین اندازِ بیان بھی دیکھیں :
سلامت رہو میرے سر پر سلامت
ہمیشہ رہو سایہ گستر سلامت
رہے گا جو قاتل ترا گھر سلامت
نہ جائے گا لے کر کوئی گھر سلامت
مقابل میں اُس تیغِ ابرو کے آ کر
نکل جائے کیوں کر کوئی سر سلامت
پھنسا مرغِ دل دامِ گیسو میں ایسا
کہ ممکن نہیں ہووے جانبر جانب سلامت
جفا پر تمہاری دعا کر رہے ہیں
رہے شاد و خرّم ستم گر سلامت
سمائے نگاہوں میں ایسے کہ ہر سو
تمہیں تم ہو اے بندہ پرور سلامت
دلِ اشرفی باتوں باتوں میں چھپنا
رہے تا ابد میرا دلبر سلامت
صوفیائے کرام کی غزلیں عشقِ حقیقی کی آئینہ دار ہوا کرتی ہیں اور ان کے محبوب ٬ اللہ رب العزت ٬ اس کے پیارے حبیب جناب محمد مصطفیٰ ﷺ ٬ پیر و مرشد اور دیگر اولیائے کاملین ہوا کرتے ہیں اور یہ حضرات انہیں نفوسِ قدسیہ کے حسین چہروں کی رعنائیوں اور دل فریبیوں کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں اور ان کے حسن و عشق میں سرشار نظر آتے ہیں ۔ جیسا کہ درج ذیل اشعار سے یہ حقیقت ظاہر ہے :
بہ شکلِ شیخ دیدم مصطفی را
نہ دیدم مصطفیٰ را بل خدا را
ز خود فانی شدم دیدم بقا را
ندیدم غیر ذاتِ خود خدا را
مکن اے زاہدِ خشک اعتراضے
چہ دانی سرِّ توحیدِ خدا را
اگر گوئی مرا تو بت پرستی
بگویم در بتاں دیدم خدارا
چہ گویم اشرفم یا اشرفؔیم
مپرس ایں سرِّ پنہانی خدا را
کلامِ اشرفؔی کا جمالیاتی پہلو :
جمالیات ( جس کو انگریزی میں Aesthetics کہتے ہیں ) یونانی لفظ " Aistheta " سے ماخوذ ہے ۔ اس کا لغوی معنیٰ ہے : حواس کے ذریعے حسن و دلکشی سے متعلق مشاہدے میں آنے والی اشیا ۔ حسین اشیا کی اصل یا حسین اشیا سے حاصل ہونے والی مسرت و شادمانی اور زندگی میں حسن و دلکشی کی افادیت ظاہر کرنے والے علم و فلسفہ کو " جمالیات " کہتے ہیں ۔ حسن و دلکشی ، خوبی و عمدگی ، نظم و ترتیب اور تہذیب و شائستگی جو کلیتاً یا جزئیتاً اشیا کے مشاہدے سے حواس کو متاثر کریں اور ان کے جزوی و کلی تاثر سے ناظر یا سامع پر فرحت و انبساط کے جذبات طاری ہوں ، اس کو " جمال " کہتے ہیں ۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ عرفِ عام میں ہم جس چیز کو " جمال " کہتے ہیں ، اس کی مجموعی کیفیت اور اس سے متعلق علم و فلسفہ کو " جمالیات " کہا جاتا ہے ۔ " جمالیات " کی توضیح و تشریح میں محققینِ ادب کے اقوال و آرا مختلف ہیں ۔ ہر ایک نے اپنے ذوق و وجدان کے مطابق اس تعریف و تشریح کی ہے ۔ لیکن ہر ایک کی تعریف میں قدرِ مشترک کے طور پر جو بات سامنے آتی ہے ، وہ یہ کہ " جمالیات ، حسن اور فلسفۂ حسن بیان کرنے اور اس سے مسرت و شادمانی حاصل کرنے کا نام ہے " ۔
مجنوں گورکھ پوری لکھتے ہیں :
جس انگریزی لفظ ( Aesthetics ) کے جواب میں یہ اردو لفظ ( جمالیات ) گڑھا گیا ہے ، اس کا یہ صحیح مرادف نہیں ہے ۔ انگریزی زبان میں Aesthetics ، جمالیات سے کہیں زیادہ جامع اور بلیغ ہے ۔ Aesthetics کے لغوی معنیٰ ہر اس چیز کے ہیں جس کا تعلق حِس یا حِس لطیف سے ہو ۔ اس اعتبار سے اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو Aesthetics کے لیے " حِسّیات " یا " وجدانیات " یا " ذوقیات " بہتریں اصطلاح ہو ……………. Aesthetics کا موضوع حسن اور فنونِ لطیفہ ہے ۔ اول اول ہیگل نے اس لفظ کو فلسفۂ فنونِ لطیفہ ( موسیقی ، سنگ تراشی ، شاعری وغیرہ ) کے معنوں میں استعمال کیا ۔ اسی رعایت سے عربی اور اردو میں اس کا ترجمہ " جمالیات " کیا گیا اور اب اس کو اردو میں قبول کر لیا گیا ہے ۔ جمالیات ، فلسفہ ہے حسن اور فنکاری کا ۔
( تاریخِ جمالیات ، ص : ۱۱ – ۱۲ ، ناشر : انجمن ترقی اردو ہند ، علی گڑھ )
مجنوں گورکھ پوری نے حسن اور فن کاری کے فلسفے کو جمالیات کا نام دیا ہے ۔ راقم کی محدود اور ناقص معلومات کے مطابق ہر وہ چیز جو حسن و جمال اور دلکشی و رعنائی کی مُظہِر ہو ، وہ جمالیات کے زمرے میں آتی ہے ۔ جمالیات ایک وصف ہے ، جس سے موصوف ہونے والی اشیا بیشمار ہیں ۔ مثلاً : علم و دانائی ، اخلاقِ حسنہ ، دولت و ثروت ( جب کہ اس کا استعمال جائز طریقوں سے ہو ) فکر و فن ، شعر و سخن ، فنونِ لطیفہ کے سارے اقسام ، انسان کے موزوں و متناسب اعضا ، حسین چہرہ ، حسین طرزِ گفتار و کردار ، خوب صورت اعمال و اشغال ، حسین قدرتی مناظر ، وغیرہ وغیرہ ۔ جس طرح وصف کا اپنا کوئی مستقلاً وجود نہیں ہوتا ، اسی طرح جمالیات کا فی نفسہٖ کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ یہ جب بھی پائی جائے جائے گی ، کسی حقیقتِ ثابتہ کے ضمن میں پائی جائے گی ۔ حسن و جمال جہاں اور جس چیز سے متعلق ہو گی ، جمالیات بھی اس کے ارد گرد یا اس کے اندر پائی جائے گی ۔
غرض کہ فنونِ لطیفہ کے علاوہ جمالیات کہیں بھی اپنا جلوہ دکھا سکتی ہے ، لیکن اس کا نظارہ کرنے کے لیے ذوق آشنا نظر اور بلاغت آشنا فکر چاہیے ۔ جمالیات کا تعلق شعر و ادب سے کچھ زیادہ ہی رہا ہے ۔ جمالیاتی ادب ، جمالیاتی اسلوب اور جمالیاتی تنقید کی اصطلاح آپ نے بارہا سنی ہو گی ۔ مشہور مفکر " سارتر " نے شاعری کو فنونِ لطیفہ یعنی مصوری ، موسیقی اور سنگ تراشی کی مانند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان فنونِ لطیفہ ( Fine Arts ) کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے : تفریحِ طبع ، لطف اندوزی اور فرحت و انبساط کا حصول ۔ انسان گانا سن کر لطف اندوز ہوتا ہے ۔ موسیقی کی راگ اور سریلی آواز سے حظ اٹھاتا ہے ۔ خوب صورت عمارت یا مجسمہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔ انسان کے کانوں میں معنیٰ خیز اشعار جب رس گھولتے ہیں تو وہ مچل اٹھتا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان فنونِ لطیفہ میں ایک غیر مرئی مقناطیسی کشش ہے ، جو انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور اپنا والہ و شیدا بناتی ہے ۔ فنونِ لطیفہ میں موجود اس غیر مرئی مقناطیسی کشش کو " حسن کاری " کہتے ہیں ، جس کو ادب کی اصطلاح میں " جمالیات " کا نام دیا جاتا ہے ۔ اظہارِ حسن اور حصولِ انبساط ، فنونِ لطیفہ کا بنیادی مقصد ہے ۔ شاعری بھی ایک حسنِ مجسم ہے ۔ اب تنقید نگار کا منصبی فرض بنتا ہے کہ دیگر خوبیوں کے علاوہ شعر میں حسن کے جتنے بھی عناصر موجود ہیں ، ان سب کا پتہ لگائے ۔ جو تنقید اس جہت سے شعر اور شاعر کو پرکھے ، اسے " جمالیاتی تنقید " کہا جاتا ہے ۔ جس طرح انسان شاعری سے متاثر اور مسحور ہوتا ہے ، اسی طرح نثر نگاری سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے ۔ نظم کی طرح نثر میں بھی " جمالیات " اپنا اثر دکھاتی ہے ۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعر و ادب کا جمالیات سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔ جمالیات کی تفہیم اور اس کے شعور و ادراک کے لیے علم و مطالعہ کے ساتھ ذوقِ سلیم اور قلبِ مستقیم کی ضرورت ہے ۔
زبان و بیان کا لطف اور طرزِ ادا کا بانکپن ٬ غزل کے حسن کی پہچان اور اس کی کامیابی کی دلیل ہے ۔ شعر و ادب میں جمالیات کا رنگ لطفِ زبان ٬ حسنِ بیان ٬ ترنم و تغزل اور ندرتِ اسلوب سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہ اوصاف جس قدر گہرے ہوں گے ٬ شعر و ادب کا جمالیاتی رخ اتنا ہی تابناک اور دل کشا ہوگا ۔ اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کے کلام کا جمالیاتی پہلو بھی لائقِ دید اور قابلِ توجہ ہے ۔ آپ کی شاعری چوں کہ ایک نوائے عارفانہ اور صدائے درویشانہ ہے ٬ اس لیے اپنے اندر پُر کشش جمالیاتی شان رکھتی ہے اور اس کا مطالعہ و سماعت قاری و سامع کو تڑپا دیتی ہے اور یہی آپ کی شعری جمالیات کی علامت ہے ۔ مثال دیکھیں :
کوئے جاناں میں ہوئے چاک گریباں کتنے
جان پر کھیل گئے عاشقِ بے جاں کتنے
طے کیے عشق کی منزل میں بیاباں کتنے
میرے تلوؤں میں چبھے خارِ مغیلاں کتنے
سیرِ گلشن کا ذرا قصد نہ کیجے للہ
صید ہو جائیں گے واں مرغِ خوش الحاں کتنے
منزلِ عشق کی اب تک نہیں طے ہوتی ہے راہ
اے جنوں تو نے دکھائے ہیں بیاباں کتنے
کٹ گئی وصل کی شب اور نہ حسرت نکلی
رہے باقی دلِ رنجیدہ میں ارماں کتنے
بتِ کافر سے مرے اپنی لڑا کر آنکھیں
گیرجا جا کے بنے صاحبِ ایماں کتنے
اشرفؔی کو جو سنا دے خبرِ کوچۂ یار
اے صبا ہم پہ رہیں گے ترے احساں کتنے
ڈاکٹر سید امین اشرف مرحوم کلامِ اشرفؔی کے جمالیاتی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ " تحائفِ اشرفی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی شخصیت کبھی سوز و گداز کا پیکر ہوتی ہے اور کبھی ایک نعرۂ مستانہ بن جاتی ہے ۔ کبھی وہ اضطرابی کیفیات سے گزرتے ہیں اور کبھی جذب و شوق کی فراوانی کے مراحل سے ۔ ان کی نعتیہ غزلوں سے کسی تبحر علمی ، ادبی موشگافی یا فلسفیانہ دقت پسندی کا پتہ نہیں چلتا ۔ یہ کسی فقیہ یا پیشہ ور شاعر کا کلام نہیں ۔ تحائفِ اشرفی تو ایک رہروِ راہِ سلوک کی نوائے عارفانہ ہے ٬ جو شعر و سخن میں ڈھل گئی ہے ۔ افراط و تفریط ، رطب و یابس ، رعایت لفظی اور صناعی سے عاری صاف و سادہ کلام میں شعریت کے عنصر نے رعنائیِ اظہار کی دل آویزی میں اضافہ کر دیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت کی طبع موزوں نے عام طور سے رواں اور مترنم بحروں کا استعمال کیا ہے ۔ بعض غزلوں میں لمبی ردیف اور قافیوں کے تکرار سے غزلوں کا حسن دو بالا ہو گیا ہے ۔ ان کی غزلوں کی مجموعی فضا سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قلبِ عارف کے جذب واثر ، اس کی والہانہ سرشاری اور سحر انگیزی کی تال پر پوری کائنات رقص کر رہی ہے " ۔
(ابتدائیہ تحائفِ اشرفی ٬ ص : ۲۸ ٬ ۳۰ ٬ مطبوعہ : جامع اشرف ٬ کچھوچھہ شریف)
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ کی نعتیہ و غزلیہ شاعری میں شعریت و معنویت کے دلکش عنصر نے آپ کے کلام میں جمالیاتی آہنگ ٬ رعنائیِ اظہار اور دلکشی و دل آویزی پیدا کر دی ہے ۔ سادگی و طرفگی ٬ صفائی و برجستگی ٬ سنگینی و دل آویزی ٬ فصاحت و بلاغت ٬ لطافت و ملائمت ٬ نفاست و طہارت ٬ سلاست و نزاکت ہر طرح کے ادبی و فنی اوصاف خزانۂ اشرفؔی میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیں کہ کس قدر جمالیاتی پہلو لیے ہوئے ہیں :
دردِ ہجراں میں ہوا سخت گرفتار مریض
بسترِ غم پہ تڑپتا ہے ترا یار مریض
دیکھ بیمارِ محبت کو لگا کہنے طبیب
اچھے ہونے کے نہیں تیرے کچھ آثار مریض
آئے تو بہرِ عیادت اگر اے رشکِ مسیح
ابھی اچھا ہو ترا طالبِ دیدار مریض
اُس نے تیرے لبِ جاں بخش کے چکھّے ہیں مزے
داروئے تلخ سے کرتا ہے جو انکار مریض
سلسلہ جب سے ہے اُس زلفِ گرہ گیر کے ساتھ
دل کو اک لاگ سی ہے حلقۂ زنجیر کے ساتھ
خمِ ابرو کے اشاروں میں چڑھے ہیں تیور
آپ نشتر بھی لگا لائے ہیں شمشیر کے ساتھ
میتِ عاشقِ رسوا ہے سرِ راہ پڑی
دفن کر دیجیے صاحب اسے توقیر کے سا تھے
مفت میں جان گنوائی ہے غمِ ہجراں میں
کام ڈالے نہ خدا اس بُتِ بے پیر کے ساتھ
حق سے کرتا ہے دعا اشرفؔیِ خستہ مدام
حشر کے روز اٹھوں حضرتِ شبیّر کے ساتھ
حضور اشرفؔی میاں کا درد بھرا لہجہ اور مدھ بھری لَے " از دل خیزد بر دل ریزد " کی مثال پیش کرتی ہے اور جمالیاتی رنگ و روپ کا نظارہ کراتی ہے ۔ غزل کی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں سے عشقِ حقیقی جو کے راگ چھیڑے ہیں ٬ اس کا روحانی ارتعاش خوابیدہ احساس کو بیدار کرتا ہے اور قلوب و اذہان میں مسرت و بہجت کا سماں باندھ دیتا ہے ۔ حسبِ سابق آپ کا یہ کلام بھی جمالیاتی قدروں کا حامل ہے :
جب سے کہ آغوش میں وہ مہِ خوش رو نہیں
صبر تو رخصت ہوا دل پہ بھی قابو نہیں
لاکھ تکلّف کرے بزمِ جہاں میں کوئی
خاک نظر آئے گی ہم کو جہاں تو نہیں
بعد مرے ہم نشیں پڑھ کے میرے شعر کو
بولیں حسرت سے یوں نافہ ہے آہو نہیں
تیری شبِ ہجر میں کثرتِ اندوہ سے
نالہ جو کر اٹھتے ہیں ضبط پہ قابو نہیں
سینے میں ملتا نہیں اب تو جگر کا پتہ
پارۂ دل بہتے ہیں آنکھ میں آنسو نہیں
ہو کے ترے مبتلا نذر کو لائے ہیں جاں
غیروں سے دل بیچنا اپنی تو یہ خو نہیں
ڈاکٹر سید امین اشرف نے بجا فرمایا ہے کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے غزل کی بنیادی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا رخ لب و رخسار سے برکات وانوار ، مادیت سے روحانیت ، کثافت سے لطافت اور مجاز سے حقیقت کی جانب موڑ دیا ۔ اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی محبت میں اعلیٰ حضرت کے رنگ تغزل میں کس قدر گہرائی ، شادابی ، پاکیزگی اور شفافیت ہے ٬ اس کی ایک جھلک ان چند اشعار میں دیکھیے :
نقشہ رخِ انور کا جما جا مرے دل میں
جلوہ قدِ رعنا کا دکھا جا مرے دل میں
یہ گھر ہے ترے واسطے اغیار سے خالی
تجھ کو نہ تکلف ہو تو آ جا مرے دل میں
سلسلہ جس کا ہے اس زلفِ گرہ گیر کے ساتھ
دل کو اک لاگ سی ہے حلقۂ زنجیر کے ساتھ
آہ کس طرح نہ نکلے دلِ سوزاں سے میرے
آگ ہوتی ہے جہاں بند دھواں ہوتا ہے
جس پر نظر پڑی اسے بیتاب کر دیا
جادو ہے ٬ سحر ہے ٬ ترے چتون بلا کی ہے
آنکھ ملا کے دل کو چھینا
تیری نظروں میں جادو ہے
نہیں کچھ اشرفؔی کے دل میں سودا
تمہارا ہی اسے ہر دم قلق ہے
ان اشعار کی ایک ندرت یہ ہے کہ ان میں الفاظ کے انتخاب اور تراکیب کی سحر کاری کے لیے شعوری کوشش نظر نہیں آتی ۔ الفاظ و تراکیب کی موزونیت ، روانی اور سلاست میں بے ساختہ پن ہے ۔ ان اشعار میں کیفیتِ نغمہ کا ارتعاش ہے اور میٹھے میٹھے درد کی زیریں لہر بھی ۔
(ابتدائیہ تحائفِ اشرفی ٬ ص : ۲۴ ٬ ۲۵ ٬ مطبوعہ : جامع اشرف کچھوچھہ شریف)
اشرفؔی میاں اردو شاعری کے امیر خسرو
خلیفۂ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ٬ رئیس المحققین علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ ( سابق صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی ٬ علی گڑھ ) کے بقول : صاحبِ سیر الاولیاء لکھتے ہیں کہ اوائل میں جب امیر خسروؔ شعر کہتے تو اس کو اپنے شیخ طریقت حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیا رضی اللہ عنہ کو دکھایا کرتے تھے ۔ ایک روز حضرت نے فرمایا کہ " طرزِ صفاہانیاں بگو " یعنی عشق انگیز و زلف و خال آمیز شاعری کرو ۔ اسی روز سے امیر خسروؔ زلف و خال کے پھندے میں ایسے پھنسے کہ تمام ما سوی اللہ سے بے نیاز ہو گئے اور آج تک ان کا عاشقانہ کلام مردہ دلوں کے لیے آبِ حیات کا کام کر رہا ہے ۔ ثبوت کے لیے ان کے کلام کا دفتر بھرا پڑا ہے ٬ جہاں سے چاہو اٹھا کر دیکھ لو ۔ ایک چھوڑ ہزار ثبوت پاؤ گے ۔
(الانھار - تنقیدِ مثنوی ہشت بہشت ٬ ص : ۷۶ ٬ ۷۷ ٬ مطبوعہ : مطبع انسٹی ٹیوٹ مسلم یونیورسٹی ٬ علی گڑھ)
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کو اردو شاعری کا امیر خسروؔ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ جو درد ٬ سوز و گداز ٬ شیفتگی و گداختگی ٬ والہانہ انداز اور طرفگی و دل آویزی حضرت امیر خسروؔ کی فارسی غزلوں میں پائی جاتی ہے ٬ بعینہٖ وہ ساری خوبیاں اشرفؔی میاں کی غزلوں میں بھی موجود ہیں ۔ موسمِ بہار کی آمد پر امیر خسروؔ اپنی مسرتوں اور طرب انگیزیوں کا کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں :
فصلِ نو روز کہ آورد طرب بر ہمہ خلق
چشمِ بد دور مرا موسمِ باراں آورد
ہر سحر باد کہ بر سینۂ من کرد گزر
در چمن بوئے کباب از پئے مستاں آورد
اور حضور اشرفؔی میاں جلوۂ جاناں نظر آنے پر اس طرح مچلتے ہیں :
جلوہ گاہِ جاناناں قلب بے قرار آمد
درمیانِ قطرہ چوں بحرِ بے کنار آمد
اور سیرِ چمن کے لیے اپنے یارِ گل عذار کی آمد کو " موجبِ فصلِ نو بہار " قرار دیتے اور عندلیبانِ گلشن کو اس کا مژدہ اس طرح سناتے ہیں :
در چمن پئے گلگشت یارِ گُل عذار آمد
مژدہ باد بلبل را فصلِ نَو بہار آمد
تصوف کے تین شعبے ہیں : ( ۱ ) الہٰیات / عقائد و ایمانیات ۔ ( ۲ ) دینی و اخلاقی تعلیمات مثلاً : تقویٰ ٬ اخلاق ٬ رضا ٬ صبر ٬ قناعت ٬ کم گوئی اور حسنِ اخلاق وغیرہ ۔ ( ۳ ) عشق اور اس کے متعلقات کا بیان ۔
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی صوفیانہ شاعری میں تیسرے شعبے کی گرم بازاری دیکھنے کو ملتی ہے اور شعر و سخن کے لیے یہی تیسرا شعبہ موزوں و انسب بھی ہے کہ تصوف کے پہلے اور دوسرے شعبے کے لیے نثری میدان خالی پڑا ہے ۔ شعر و سخن کا ذوق رکھنے والے تقریباً تمام صوفیا و مشائخ کے کلام میں حسن و عشق کا غلبہ ہے ٬ جو در اصل ان کے عشقِ حقیقی کے غماز ہیں ۔ اردو غزل اور غزل گو شعرا نے یہ آدابِ دلبری صوفیائے کرام سے ہی سیکھے ہیں ۔ صوفیائے کرام خانقاہوں میں بیٹھ کر عشق و معرفت کی شراب نوش فرماتے ہیں اور چچا غالؔب و جگؔر دنیاوی میخانے میں پرتگالی شراب حلق کے نیچے اتارتے نظر آتے ہیں ۔ خیر ظرف اپنا اپنا ٬ توفیق اپنی اپنی ۔ حضرت بو علی شاہ قلندر پانی علیہ الرحمہ کا یہ عاشقانہ کلام دیکھیں کہ کس قدر درد میں ڈوبا ہوا ہے ۔ اس سے دیگر صوفیائے کرام کی غزلوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے عشق کی نوعیت اور کربِ دروں کا زاویہ کیا ہے :
مَنَم محوِ جمالِ اُو ، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو ، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں ، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
غلامِ روئے اُو بُودَم ، اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم ، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے چہرے کا غلام ہوں ، اس کی خوشبو کا اسیر ہوں ، اس کے کُوچے کا غبار ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
بہ آں مہ آشنا گشتم ، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم ، نمی دانم کجا رفتم
اُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں ، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں ، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
شدم چوں مبتلائے اُو ، نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او ، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اس کے پاؤں پر سر رکھا ہوا ہوں اور ہمہ وقت اس کے دیدار میں محو اور میں نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں ۔
قلندر بُو علؔی ہستم ، بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم ، نمی دانم کجا رفتم
میں بُو علؔی قلندر ہوں اور دوست کے نام پر سرمست ہوں اور میرے دل میں بس اُسی کا عشق ہے اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
حضرت بو علی شاہ قلندر علیہ الرحمہ کا آتشِ غمِ عشق میں جلنے اور تڑپنے کا حال آپ نے ملاحظہ کیا ٬ اب لگے ہاتھوں عشق و وارفتگی میں حضور اشرفؔی میاں کے تڑپنے ٬ مچلنے اور رقص کرنے کا حال بھی دیکھیں :
شرابِ شوق می نوشم بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم و لے ہشیار می گردم
گہے خندم ، گہے گریم ، گہے افتم ، گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
یعنی میں شرابِ شوق ( شرابِ عشق و معرفت ) پیتا ہوں اور اپنے یار کے اردگرد رقص کرتا ہوں اور اسی عالمِ کیف میں مستانہ کلام کرتا ہوں اور رقص کرتا ہوں ۔ کبھی ہنستا ہوں ٬ کبھی روتا ہوں ٬ کبھی گرتا ہوں ٬ کبھی اٹھتا ہوں ۔ اپنا حال یہ ہے کہ مسیحا میرے دل میں مسند نشیں ہے ٬ بایں ہمہ بیمار بنا گھومتا ہوں ۔ کیوں کہ مرضِ عشق کا علاج ممکن نہیں ۔
خلاصۂ کلام یہ کہ حضور اشرفؔی میاں کی شاعری و غزل گوئی صوفیائے متقدمین کی صدائے باز گشت ہے ۔ اگر صوفیائے قدیم کے غزلوں سے آپ کی غزلوں کا تقابل کیا جائے تو جا بجا فکری مماثلت نظر آئے گی ۔ بالخصوص آپ کے غزلیہ کلام میں امیر خسروؔ کے اسلوبِ غزل کا عکس و نقش ( درد بھرا انداز ٬ والہانہ اسلوب ٬ تڑپ ٬ اضطراب و التہاب ٬ سوز و گداز وغیرہ ) صاف دکھائی دیتا ہے ۔ آپ کے فارسی و اردو کلام میں لفظِ " عشق " عشقِ حقیقی کے معنی پر دلالت کرتا ہے اور شراب و خمر و مئے ٬ جام ٬ خودی ٬ کیف و سرشاری ٬ رند و ساقی جیسے الفاظ عارفانہ مفہوم کے حامل ہیں ۔ آپ کا ساقی ٬ جاناں ٬ یار اور صنم کوئی دنیاوی محبوب نہیں بلکہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کو ہم ذاتِ باری تعالیٰ ٬ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی ٬ بزرگانِ دین اور خود آپ کے پیر و مرشد سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ ان کا عشق ٬ حقیقی ہے اور ان کی محبت ٬ روحانی اور لا فانی ہے ٬ جس کے سمندر میں آپ بار بار ڈوبتے ہیں اور پھر ابھرتے ہیں اور مستانہ وار یہ نعرہ لگاتے ہیں :
عشق بازی ست کارِ جاں بازی
اندر یں راه باختم خود را
یعنی عشق بازی اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا عمل ہے ۔ عشق کرنا گویا اپنی جان پر کھیلنا ہے اور راہِ عشق کا میں چکر لگا رہا ہوں ٬ تاکہ محبوبِ حقیقی کا قرب و وصال میسر آ سکے ۔
چوں خودی رفت از من اے ساقی
بے خود و مست یافتم خود را
اے ساقی ( مرشد ) ! عشق و وارفتگی میں میری خودی فنا ہو چکی ہے اور میں بے خود اور مست ہو گیا ہوں ۔ اس کے بعد عالمِ وجد و کیف میں آپ کہتے ہیں کہ شمعِ عشق پر پروانے کی مانند جلنے اور عشقِ کے جلوؤں سے معمور ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ دنیا روشن اور پُر نور ہو گئی ہے ۔ نیز عشق و محبت میں دنیا و ما فیہا سے بے نیازی کا مجھے یہ صلہ ملا کہ میرے وجود میں میرا یار مجھے مل گیا ۔ یہاں " یار " سے دنیاوی صنم کے بجائے " حقیقی محبوب " مراد ہے ۔ اشعار دیکھیں :
عالمے گشت روشن و پُر نور
شمع ساں چوں گداختم خود را
اشرفؔی چوں گذشتم از اغیار
ہمہ تن یار یافتم خود را
غزل بہرحال غزل ہے ۔ زخمی غزال کی طرح آہ بھرنا اور درد سے کراہنا ٬ اس کی امتیازی خصوصیت ہے ۔ غزل کی شریعت میں نفسانیت ٬ پھوہڑپن ناجائز ہے ۔ رمز و کنایہ غزل کی پہچان ہے ۔ غزل عشقیہ اور غنائی شاعری ہے لیکن یہ عشق حقیقی بھی ہو سکتا ہے اور مجازی بھی ۔ خدا سے بھی ہو سکتا ہے اور خدا کے محبوب بندوں سے بھی ۔ دنیاوی محبوب و معشوق سے ہو سکتا ہے اور اپنے والدین اور اساتذہ سے بھی ۔ غزل میں عشق و حسن کی مصوری بذات خود اہم نہیں ، عاشق کے مچلتے اور سسکتے جذبات کی گرمی ، سوز و گداز ، کیفیتِ دروں اور لطافتِ بیان ٬ یہ اہم ہے ۔ غزل میں معاملہ بندی کو اہمیت دی گئی ہے اور جرأتؔ و مومنؔ کی معاملہ بندی کو سراہا بھی گیا ہے مگر ہمیں میرؔ کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے جو انھوں نے جرأت سے کہی تھی کہ میاں ! تم شعر کہنا کیا جانو ۔ اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ غزل میں معاملاتِ دل کا کھلا کھلا بیان مستحسن نہیں ۔ یہاں عریانیت نہیں بلکہ شرافت و حیا محمود ہے اور آتشِ غمِ عشق کی آنچ کافی ہے اور وہ بھی ایمائی انداز اور رمزیہ اسلوب میں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اشرفؔی میاں غزل کے بڑے شاعر ہیں ۔ ان کی فارسی غزل گوئی کا موازنہ امیر خسروؔ خسرو سے اور اردو غزل گوئی کا مقابلہ میرؔ سے کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کی غزلوں میں رمزیہ اسلوب اور ایمائی انداز نمایاں ہے ۔ نیز تغزل کی بھرمار ہے ۔ آپ کی غزلوں میں مچلتے سسکتے جذبات ٬ چشمِ گریاں سے ٹپکتے موتی اور آپ کے قلبِ بریاں سے اٹھنے والے دھواں کو با ذوق قاری بآسانی محسوس کر سکتا ہے ۔ ہمارے دعوے کی دلیل ملاحظہ کریں :
رو رہا ہے کس قلق سے دل ہمارا زار زار
چبھ گئے سینے میں غم سے اے گلِ بے خار خار
کریں آہ و نالہ پیہم مگر اس کو کچھ نہیں غم
مرے دل کو صبر ہوتا وہ ذرا خبر بھی ہوتا
کششِ دلِ حزیں خود اسے میرے پاس لاتی
مری آہ میں جو ہمدم کہیں کچھ اثر بھی ہوتا
وہ آئے چل دیے میں تڑپتا ہی رہ گیا
پہلو میں درد اٹّھا کہ اٹھتا ہی رہ گیا
کن مدتوں کے بعد ملی دولتِ وصال
حسرت سے ان کے منہ کو میں تکتا ہی رہ گیا
یہ جوشِ گریہ تھا کہ جب آئے وہ سامنے
کچھ بھی نہ کہہ سکا میں سِسکتا ہی رہ گیا
خبر نہیں تنِ لاغر کی اشرفؔی ہم کو
بھٹکتی پھرتی کہیں ہوگی کوئے یار میں روح
طے کیے عشق کی منزل میں بیاباں کتنے
میرے تلوؤں میں چبھے خارِ مغیلاں کتنے
نزع کے وقت نظر آئے اگر صورتِ یار
جی اٹھے کیوں نہ ترا طالبِ دیدار مریض
نہ پریشاں کرو اے بادِ صبا کے جھونکو
دوش پر کاکلِ خُم دار کو بل کھانے دو
غزل گو بالعموم طالبِ عشق اور طالبِ دید ہوتا ہے ۔ وہ اپنے محبوب سے عشق کے بدلے عشق اور محبت کے عوض محبت مانگتا ہے اور مانگی مراد پوری نہ ہونے کی ہونے کی صورت میں محبوب کو کھرا کھوٹا سنانے لگتا ہے ۔ لیکن بعض عشاق بڑے خود دار ٬ غیّور اور جفا کش ہوتے ہیں ٬ وہ اپنے یار کے ظلم و ستم کو ہنس ہنس کے سہہ لیتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے ۔ حضور اشرفؔی میاں اسی قبیلے کے ایک فرد ہیں ۔ وہ ساقی سے شرابِ عشق طلب کرتے ہیں ٬ ایسی شراب جس کی برسوں سے انہیں آرزو و جستجو تھی ۔ کوچۂ محبوب میں ملنے والی ذلتوں اور رسوائیوں کو " تحفۂ یار " کر وہ اپنے دامنِ طلب میں سمیٹ لیتے ہیں اور شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح آپ مستِ مئے عشق نہیں بلکہ غرقابِ مئے عشق ہیں اور اپنے یار کی محبت میں ایسے مست و بیخود ہیں کہ دنیا کی ہر چیز میں ان کو یار ہی کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ وہ ایسی عاشقِ شیدا ہیں کہ نہ صرف اپنے یار پر فدا ہیں بلکہ اس تصور پر بھی قربان ہیں جس کے دوش پر سوار ہو کر وہ یادِ محبوب کا سفر کرتے ہیں ۔ غرض کہ آپ کی غزلوں کا معنوی پہلو بڑا لطیف اور طرب انگیز ہے :
تیرے میکدے میں ساقی یہی دل کی آرزو تھی
کہ ملے وہ جامِ رنگیں مجھے جس کی جستجو تھی
جو گلی میں تیری ہوتا میں ذلیل و خوار و رسوا
مجھے عار کچھ نہ آتی مری اس میں آبرو تھی
میرے دل میں تیری صورت نے جمایا ایسا نقشہ
کہ جدھر نظر اٹھائی تیری شکل روبرو تھی
تیرے دھیان میں ہم ایسے ہوئے بے خبر کہ اصلا
نہ رہا خیال اپنا نہ کہیں خودی کی بو تھی
میں ترے فدا تصور کہ دکھائی اس کی صورت
مجھے جس کی جستجو تھی مجھے جس کی آرزو تھی
کیا کس نے کل رقیبوں سے بیاں ہمارا شکوہ
پسِِ پردہ سن رہے تھے جو تمہاری گفتگو تھی
وہ جمالِ بے مثالی جوں ہی اشرفؔی نے دیکھا
ہوا ایسا بے خودی میں کہ رواں صدائے ہُوْ تھی
یہ صوفیانہ غزل بھی چشمِ بصیرت سے پڑھنے کے لائق ہے ۔ غزل کا سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ یہ حمدیہ غزل ہے یا پھر اس میں آپ نے اپنے شیخ و مرشد سے خطاب کیا ہے ۔ مقطع منقبت کا ہے ۔ غزل سادہ و سلیس اور برجستہ ہونے کے ساتھ تغزل کی خوب صورت مثال ہے :
میرے دل میں سمایا تو ہے
کوئی تجھ سا نہیں خوش رو ہے
آنکھ ملا کے دل کو چھینا
تیری نظروں میں جادو ہے
" فی انفسکم " سے ہم نے جانا
جو کچھ ہے وہ اللہ ہُوْ ہے
قولِ منصورؔ اب ہے لب پر
دل پہ نہیں مجھ کو قابو ہے
" انا اشرف " جب بولا اشرفؔی
پھر اب کس کی جُست و جُو ہے
غزل کے عام مضامین و موضوعات کو آپ نے تغزلانہ انداز اور سرمستانہ لہجے میں بیان کیا ہے ۔ آپ کے اسلوب کی دلکشی اور پیرایۂ بیان کی طرفگی قابلِ دید اور لائقِ داد ہے ۔ غزل کے پامال موضوع کو بھی آپ اپنے شستہ اور شائستہ اسلوب کی چاشنی سے نیا بنا دیتے ہیں ۔ آئینۂ دل میں تصویرِ یار نظر آنے والی بات بہت پرانی ہے ۔ یوں ہی حسیناؤں اور مہوشوں کی تیغِ نگاہ سے دل کا گھائل ہو جانا اور آنکھیں چار ہونے سے دل کا بیتاب ہونا ٬ عام سی بات ہے ۔لیکن ان دونوں مفہوم کو اپنے خاص غزلیہ لہجے میں جب آپ بیان کرتے ہیں تو ان کے اندر نئے پن کا احساس ہوتا ہے اور یہ بات شاعرانہ کمال کی دلیل ہے ۔ حسبِ سابق آپ کی یہ غزل بھی لطافت و نفاست اور جذب و تاثیر کی منہ بولتی تصویر ہے :
دل میں جھلک تمہارے رخِ پُر ضیا کی ہے
ذرّہ میں آفتاب یہ قدرت خدا کی ہے
جس پر نظر پڑی اسے بیتاب کر دیا
جادو ہے سحر ہے تیری چتون بلا کی ہے
تم ہم سے کیوں الجھتے ہو زلفیں بکھرنے پر
میری خطا نہیں ہے یہ شوخی صبا کی ہے
جب سرِّ " اینما " نے کیا اپنا کچھ ظہور
جو شکل دیکھی سمجھے یہ صورت خدا کی ہے
آے اشرفؔی نہ کیوں ہو جہاں تیرا شیفتہ
صورت میں تیری شکل کسی دل رُبا کی ہے
چوتھا شعر تلمیحی ہے اور عارفانہ رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔ اسی طرح دوسرے شعر کا دوسرا مصرع " جادو ہے ٬ سحر ہے ٬ تری چتون بلا ہے " سلاست و برجستگی کا خوب صورت مرقع ہے ۔ مطلع بھی لا جواب ہے ۔ اسی طرح درج ذیل کلام مواد و ہیئت ٬ زبان و بیان اور ندرتِ اسلوب کے اعتبار سے قابلِ مطالعہ ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ دوسرے شعر کا دوسرا مصرع " میرے مژگاں کی ترے روزن پہ چلمن چاہیے " تعبیر کی عمدگی کی اچھوتی مثال ہے ۔ نیز یہ مصرع " عاشقی کے واسطے دانائے ہر فن چاہیے " بڑا عمدہ اور معنویت سے پُر ہے ۔ غزلیاتِ اشرفؔی کا غائرانہ مطالعہ اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ آپ غزل کے مقتضیات اور ان کے فنکارانہ استعمال سے بخوبی واقف ہیں ۔ اس قسم کی بلند پایہ شاعری ایک بلند پایہ شاعر ہی کر سکتا ہے ۔ بیسویں صدی کے ممتاز غزل گو شعرا میں آپ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔ اشعار ملاحظہ ہوں :
طائرِ جاں کے لیے عمدہ نشیمن چاہیے
بہرِ دفعِ وحشتِ دل سیرِ گلشن چاہیے
کوئی دیکھے گا اگر تجھ کو نظر لگ جائے گی
میرے مژگاں کی ترے روزن پہ چلمن چاہیے
زلفِ پیچاں کے تصور میں بڑھا جوشِ جنوں
تیرے وحشی کے لیے زنجیرِ آہن چاہیے
کیسی کیسی مشکلیں آتی ہیں راہِ عشق میں
عاشقی کے واسطے دانائے ہر فن چاہیے
جلوۂ جانانہ ہے ہر سو عیاں اے اشرفؔی
نورِ باطن دیکھنے کو قلبِ روشن چاہیے
غزل ٬ رمز و ایما کا فن ہے ٬ جس میں تشبیہ و استعارہ کا ہنرمدانہ استعارہ کلام میں دلکشی میں اضافے کا موجب بنتا ہے ۔ اشرفؔی میاں کی غزل گوئی " آہ " بھرنے والی شاعری ہے اور " واہ واہ " کا خراج وصول کرنے والی شاعری ہے ۔ ذیل کی غزل میں حسنِ تشبیہ اور لطفِ استعارہ کا حسین سنگم نظر آتا ہے ٬ جو اہلِ ذوق اور اہلِ نظر سے مخفی نہیں ۔ نیز ایک ہی مصرع میں متصلاً " کُو کُو و کو بہ کو " کی تکرار نے شعر میں غنائیت بھر دی ہے ۔ راقم کی نظر میں یہ غزل آپ کی منتخب غزلوں میں سے ایک ہے :
چشمِ جاناں ہے شبیہِ چشمِ آہو ہو بہو
عنبریں ہیں کاکلِ شبرنگ کے مُو مُو بمُو
مست ہوگا ایک عالم مثلِ آہوئے ختن
اے صبا مت کر پریشاں بوئے گیسو سو بہ سو
عشقِ سروِ قدِّ جاناں میں ہے عاشق کا یہ رنگ
کر رہا ہے فاختہ کے مثل کُو کُو کُو بہ کُو
قتل کا گر ہے ارادہ دیر کیوں کرتے ہیں آپ
دیکھیے موجود ہے یہ تیغِ ابرو روبرو
اشرفؔی للہ سمجھے ان بتوں کے ظلم سے
آنکھ دکھلانے ہی میں کرتے ہیں جادو دو بدو
پیکر تراشی :
پیکر تراشی ایک ایسا الہامی نزول ہے جس کا زیادہ تر حصہ لاشعوری ہوتا ہے اور وہ اس وقت ورود کرتا ہے جب شاعر کے جذبات بامِ عروج پر ہوتے ہیں ۔ یہ شاعری کا وہ طاقت ور لسانی عنصر یا اثر آفریں صورتِ اظہار ہے جو شاعر کے مافی الضمیر کو سامع و قاری کے ذہن پر پوری طرح منکشف کر دیتا ہے اور جس سے تصور و خیال کی چلتی پھرتی تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں ۔ پیکر ( image ) کے لغوی معنی " شکل و صورت اور ہیئت و شباہت " کے ہیں ۔ اصطلاحِ شعر و ادب میں پیکر یا پیکر تراشی کا مفہوم یہ ہے : اشیا کی مشابہت جو صرف ذہنی تصویریں پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتی ، بلکہ زبان کے فنکارانہ استعمال سے جذبات و خیالات ، تصورات و اعمال اور اشیا کے حسی و ماورائے حسی تجربات کو محسوس و مدرک اجسام میں بھی بیان کرتی ہے ۔ بیان کے لحاظ سے پیکر کی تین قسمیں ہیں : حقیقی پیکر ، ادراکی پیکر ، تصوراتی پیکر ۔ غالبؔ کا مشہورِ زمانہ شعر ہے :
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
" چمن میں جا کر نالہ کرنا " حقیقی پیکر ہے اور چمن میں جانے سے " دبستاں کا کھل جانا " ادراکی پیکر ہے اور " بلبلوں کا غزل خواں ہونا " تصوراتی پیکر ہے ۔ پیکر کی زبان خالص ادبی اور شعری زبان ہوتی ہے ، جو قاری یا سامع کے حواسِ خمسہ کو متاثر کر کے اس کے ذہن و فکر میں مشابہ پیکر تخلیق کرتی ہے ۔ غالبؔ کا یہ شعر بھی پیکر تراشی کی بہترین مثال ہے :
چِپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر اقبالؔ کو پیکر تراشی کے فن میں مہارتِ تامہ حاصل تھی ۔ وہ کہتے ہیں :
برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
اردو شاعری میں پیکر تراشی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہ ملکہ ہر شاعر کو حاصل نہیں ہوتا ۔ آسان لفظوں میں پیکر تراشی کا مطلب ہے : لفظوں کے ذریعے کسی تصور یا خیال کو اس طرح پیش کرنا کہ اس کی شکل و صورت سامنے آ جائے ۔ نعتیہ شاعری میں پیکر تراشی کے نمونے کم پائے جاتے ہیں ۔ ہاں ! امام احمد رضا خاں بریلوی اور محسنؔ کاکوروی کے نعتیہ کلام میں اس کی کثیر مثالیں موجود ہیں ۔ پیکر تراشی کے قابلِ قدر نمونے دبیرؔ و انیسؔ کے مرثیوں میں بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ پیکر تراشی سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ محدث بریلوی کا یہ شعر دیکھیں :
سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول
پیکر تراشی ، شاعری کا جزوِ لا ینفک ہے ۔ اس عمل سے شعر کے حسن و دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے اور قارئین و سامعین متاثر ہوتے ہیں ۔ حضور اشرفؔی میاں کی بالیدہ فکر اور بلاغت آشنا قلم نے اپنے خیابانِ سخن میں منظر نگاری کے علاوہ پیکر تراشی کے نوع بہ نوع پھول سجائے ہیں ۔ پیکر تراشی کا یہ انداز دیکھیں :
شہِ خوبانِ من رنگیں قبا نازک ادا دارد
ہہر غمزه بہر عشوہ جہانے مبتلا دارد
بصد ناز و کرشمہ شوخیِ لا انتہا دارد
دلِ عشاق پامالِ خرامِ نازہا دارد
نہ در علم نظیرِ صورتش موجود و نے ممکن
چه گویم و صفِ حسنِ او کہ از خوبی چہا دارد
نگردد چوں فدایش عالمے کز بہرِ تسخیرے
قدِ رعنا ٬ رخِ زیبا ٬ جمالِ دل ربا دارد
بہ رقصم جاں فدا سازم بہ زیرِ پائے او خنداں
اگر از خواہشِ خود یار من قتلم روا دارد
مپرس از اشرفؔی احوالِ او در عشقِ تو چوں است
کہ آں بے چاره اندر سینہ دردِ لا دوا دارد
سہلِ ممتنع
سادگی و صفائی اور سنجیدگی و برجستگی کے علاوہ " سہلِ ممتنع " بھی آپ کی غزلوں کی ایک بڑی خصوصیت ہے ۔ آپ جو کچھ کہتے ہیں نہایت آسان اور سادہ لب و لہجے میں کہتے ہیں ۔ تکلفات و تصنعات اور بیجا تشبیہات و استعارات سے آپ اپنے کلام کو بوجھل نہیں کرتے ہیں ۔ آپ کے بعض کلام " سہلِ ممتنع " کے زمرے میں داخل ہیں ۔ مثلاً :
سلامت رہو میرے سر پر سلامت
ہمیشہ رہو سایہ گستر سلامت
رہے گا جو قاتل ترا گھر سلامت
نہ جائے گا لے کر کوئی گھر سلامت
مقابل میں اُس تیغِ ابرو کے آ کر
نکل جائے کیوں کر کوئی سر سلامت
پھنسا مرغِ دل دامِ گیسو میں ایسا
کہ ممکن نہیں ہووے جانبر جانب سلامت
جفا پر تمہاری دعا کر رہے ہیں
رہے شاد و خرّم ستم گر سلامت
سمائے نگاہوں میں ایسے کہ ہر سو
تمہیں تم ہو اے بندہ پرور سلامت
دلِ اشرفی باتوں باتوں میں چھپنا
رہے تا ابد میرا دلبر سلامت
معزز قارئین ! مذکورہ بالا صفحات میں حضور اشرفؔی میاں کی غزل گوئی اور اس کے متعلقات و لوازمات پر مختلف زاویے سے گفتگو کی جا چکی ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نعت و غزل گوئی میں فصاحت و بلاغت اور اصلیت و جوش وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ٬ جو ادبی و لسانی نقطۂ نظر سے شاعری کے لیے امورِ ضروریہ میں سے ہیں ۔ آپ کی نعوت و مناقب اور غزلیات میں یہ چاروں چیزیں بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔ بلاغت ٬ اصلیت اور جوش کا مفہوم بیان کرتے ہوئے خلیفۂ اشرفؔی میاں ٬ علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
بلاغتؔ یہ ہے کہ کلام وقت اور حال کے مطابق ہو ۔ انسان میں گوناگوں خیالات و جذبات پائے جاتے ہیں ۔ کبھی غم و غصہ ہے اور کبھی مسرت و مہربانی ۔ ایک وقت بیتابی و بیقراری ہے تو دوسرے وقت راحت و سکون ۔ کبھی مستی و مدہوشی ہے اور کبھی باخودی و ہوشیاری ۔ پس جس حالت و کیفیت کا بیان ہو ، کلام اگر اس میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے کہ کہنے والا کہہ رہا ہے اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے اس کا نقشہ کھنچا جاتا ہے ۔ تفصیل کی جگہ وضاحت ہے اور اجمال کی جگہ اختصار ، تو وہ کلام بلیغ کہلائے گا اور اسی کو " بلاغت " کہتے ہیں ........ اصلیت کے یہ معنی ہیں کہ جس چیز کا بیان ہو ، وہ باعتبارِ واقعہ یا شاعر کے عندیہ میں یا مخاطب کے عقیدے میں ویسا ہی ہو ، جیسا کہ اس کے الفاظ اس کو کہہ رہے ہیں اور اگر ( وہ کلام و بیان جو شاعر پیش کر رہا ہے ) ایسا نہیں ہے تو کلام کا اس قدر نقص اسے بے اثر بنا دے گا ۔ جوشِ بیان کے یہ معنی ہیں کہ شعر سن کر یہ اثرا پیدا ہو کہ مضمون نے شاعر کو ( شعر کہنے پر ) مضطر کر دیا ہے ، شاعر نے از خود مضمون نہیں لایا ہے ۔ یہ وہ امورِ جزئیہ ہیں جن سے شعر کا آب و رنگ کھلتا ہے اور زبانوں سے نکل کر دلوں کو تڑپا دیتے ہیں ۔
(مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ۸ / ۱۰ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور)
مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں حضور اشرفؔی میاں کے کسی بھی نعتیہ یا غزلیہ کلام کا آپ جائزہ لیں ٬ فصاحت و بلاغت اور اصلیت و جوش ہر جگہ اپنا جلوہ دکھاتے نظر آئیں گے ۔
یار سے پیار کی باتوں کو غزل کہتے ہیں
زلف و رخسار کی باتوں کو غزل کہتے ہیں
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں ۔ چوں کہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے ٬ اس لیے اس صنفِ سخن کو " غزل " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ غزل اس چیخ کو بھی کہتے ہیں جو شکار ہوتے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے ۔ اصطلاحِ شاعری میں غزل سے مراد وہ صنفِ نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں حسن و عشق کی باتیں بیان کی گئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی ۔ دنیا دار شعرا غزلوں میں دنیاوی محبوب کے قصیدے پڑھتے ہیں اور اللہ والے یعنی صوفی شعرا اللہ اور اللہ کے نیک بندوں کے حسن و عشق کے قصے بیان کر کے اپنے ایمان و عرفان کو جِلا بخشتے ہیں اور روحانی تسکین پاتے ہیں ۔ تاہم آج کل غزلوں میں بڑی وسعت اور تہہ داری پیدا ہو گئی ہے ۔ اب حسن و عشق کے علاوہ ہر قسم کے موضوعات غزل میں شامل ہو گئے ہیں ۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا ۔ عربی قصائد میں " تشبیب " کے اشعار کو غزل کا نقشِ اول کہا جاتا ہے ۔ یہ مقبول ترین صنفِ سخن فارسی زبان کے راستے اردو میں داخل ہوئی اور شہرت و مقبولیت کی حامل ٹھہری ۔ حسن و عشق سے قطعِ نظر غزل کے وسیع موضوعات کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ :
غزل میں ذات بھی ہے اور کائنات بھی ہے
ہماری بات بھی ہے اور تمہاری بات بھی ہے
سرور اس کے اشارے داستانوں پر بھی بھاری ہیں
غزل میں جوہرِ اربابِ فن کی آزمائش ہے
یعنی غزل میں ذاتی واردات کے بیان کے ساتھ کائنات بھی موجود ہے ۔ اس کے علاوہ غزل کا آرٹ اشاروں کا آرٹ ہے اور یہ اشارے بڑی بڑی داستانوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ غزل کو " رمز و ایما کا فن " کہا گیا ہے ۔ امیر خسروؔ کے مندرجہ ذیل شعر کو اردو غزل کا بالکل ابتدائی نمونہ بتایا جاتا ہے :
ز حالِ مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
اس شعر میں ہندی اور فارسی الفاظ کی جھلک ملتی ہے ٬ لیکن پھر بھی اس کو اردو غزل کا ابتدائی نمونہ تسلیم کیا گیا ہے ۔ امیر خسروؔ کے بعد اردو غزل کے ابتدائی نقوش دکنی ادب میں ملتے ہیں ۔ اس امر میں قلؔی قطب شاہ کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا جا سکتا ہے ۔ قلی قطب شاه اُردو غزل کا صاحبِ دیوان شاعر ہے ۔ ان کے علاوه ، ولؔی دکنی ٬ غوّاصی ، نصرتؔی ، شاؔہی اور شوقؔی کے کلام میں غزل کے نمونے ملتے ہیں ۔ ان کی زبان پر دکنیت کا اثر کافی گہرا ہے ۔ اردو غزل کو واقعی غزل کا حقیقی رنگ و روپ عطا کرنے میں جس شاعر نے اہم رول ادا کیا وہ ولؔی دکنی ہیں ۔ انھوں نے تصوف اور اخلاقی مسائل کو بھی اپنی غزلوں میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ ان کی غزلوں کے اشعار زندگی کے مسلمہ حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ غزل کے لیے پہلے " ریختہ " کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا ۔ امیر خسروؔ نے موسیقی کی راگ کو ریختہ کا نام دیا تھا ۔ ادب کے دیگر اصناف اور فنونِ لطیفہ میں سب سے زیادہ غزل کو پسند کیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ غزل اسٹیج کے علاوہ سخن کا بہترین ذریعۂ اظہار بھی ہے ۔ کم لفظوں میں مکمل بات کرنے کا ہنر ہے ۔ غزل کا سانچہ چھوٹا ہوتا ہے ٬ اس میں جذبات یا خیالات کو پھیلانے کی گنجائش محدود ہوتی ہے ٬ اس لیے رمز و ایما ٬ تمثیل و استعارہ ، پیکر آفرینی اور محاکات اُس کے فنی لوازم بن گئے ہیں ۔
غزل متنوع موضوعات کا معجونِ مرکب ہے ۔ غزل کی بدلتی ہیئت کے پیشِ نظر اس کو چار ادوار میں منقسم کیا گیا ہے ۔ پہلا دور : دکنی غزل ۔ دوسرا دور : اٹھارہویں صدی کی ابتدا سے انیسویں صدی کے نصف اول تک ٬ بلکہ ۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے آخر تک ۔ تیسرا دور : ۱۸۵۷ ء سے ڈاکٹر اقبالؔ تک اور آخری دور میں اقبالؔ کے بعد جدید دور تک ۔ اس کے بعد اردو ادب میں ترقی پسند دور ( ۱۹۳۶ ء تا ۱۹۵۰ ء ) شروع ہوتا ہے ۔ اس عہد میں غزل کی ہیئت اور معنویت دونوں میں تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوئی ۔ ترقی پسندوں نے بھی غزل کے متعلق اپنی اجدادی وراثت اور روایت سے بیشمار غلط سمجھوتے کیے ۔ قدیم روایاتی علامات ، استعاروں ، تشبیہات و تلمیحات کو غیر روایتی معانی و مفاہیم دینے کی کوشش کی ۔ اس طرح قدیم روایت کے ملے جلے اثرات ترقی پسندوں کی روایت شکنی کے اعلانات کے باوجود جدید غزل میں شعوری اور غیر شعوری طور سے سرایت کرتے چلے گئے ۔ جدید تحقیق کے مطابق اُردو غزل کا پہلا نمونہ امیر خسرؔو کے ہاں ریختہ کی صورت میں ملتا ہے ۔ ان کے علاوہ بہت سارے صوفیائے کرام نے شاعری کو اظہارِ خیالات کا ذریعہ بنایا ٬ لیکن غزل کا ان کے یہاں کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ بہمنی سلطنت میں غزل کے نمونے بہت ہیں ۔ گولکنڈہ کی سلطنت کے قطب شاہی اور عادل شاہی دور میں ٬ ان حکمرانوں کی شعر و ادب سے دلچسپی کی وجہ سے ٬ اردو غزل نے بہت ترقی کی ۔ چوں کہ یہ صنف فارسی سے اردو میں آئی ہے ٬اس لیے فارسی کی عصری معنویت اور تاثرات بھی اردو غزل میں جا بجا نظر آتے ہیں ۔ابتدائی غزلوں میں عشق و محبت کے علاوہ دیگر مضامین نہیں باندھے جاتے تھے ٬ کیوں کہ خود غزل کا لغوی معنی ہی عورتوں سے بات چیت کرنے کے ہیں ۔ یہاں تک کہ شبلؔی نعمانی نے بھی غزل کو عشق و محبت کے جذبات کی تحریک سمجھا ۔ لیکن بعد میں حالؔی نے " مقدمہ شعر و شاعری " میں غزل کے متعلق ہر قسم کے مضمون کی گنجائش پیدا کر دی ٬ جس کے بعد اس صنف میں ہر قسم کے خیالات بیان کیے جانے لگے ۔
غزل کی بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے کچھ لوگ اس حقیقت سے چشم پوشی کرنے لگے ہیں کہ غزل مکمل طور پر شاعری نہیں ہے اور نہ غزل کو پوری شاعری کی آبرو کہہ کر دل خوش کر لینا مناسب ہے ۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ غزل ہماری شاعری کی ایک اہم اور قابل قدر صنف ہے اور ہردور میں زندگی کے حقائق کی عکاسی اپنے مخصوص انداز و اسلوب میں کرتی رہی ہے ۔ غزل کی شہرت و مقبولیت کے پیشِ نظر نقادانِ فن نے اس کے جملہ ممکنہ اور باریک پہلوؤں پر دل کھول کر بحث کی کی اور دادِ تحقیق دی ہے ۔ غزل فن یا آرٹ ہے بھی یا نہیں ، اس پہلو پر بھی گفتگو ہوئی ہے ۔ حالؔی صنف غزل کے خلاف ہرگز نہیں تھے ۔ وہ غزل میں اصلاح چاہتے تھے اور یہ اصلاح غزل کے موضوعات کے دائرے میں تھی ۔ غزل کی ساخت اور ہیئت پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا مگر غزل کی ہیئت اور ساخت پر وحید الدین سلیم ، عظمت اللہ خاں ، جوش ملیح آبادی اور کلیم الدین احمد کے اعتراضات بنیادی ہیں ۔ ان لوگوں کا اعتراض غزل کی ریزہ خیالی اور ریزہ کاری پر ہے ۔ ان کے نزدیک ہر فن پارے میں مضمون کا تسلسل ضروری ہے اور ابتدا ٬ وسط اور تکمیل کا احساس بھی ۔ غزل چوں کہ منفرد اشعار کا ایک گلدستہ ہے اور اس کے فارم میں بھی ربط وتسلسل کی شرط نہیں ہے ، اس لیے ان حضرات کے نزدیک غزل بے وقت کی راگنی ہے یا بقول کلیم الدین احمد : نیم وحشیانہ شاعری ۔ عظمت اللہ خاں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اردو شاعری کی ترقی صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ غزل کی گردن بے تکلف مار دی جائے ۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی اور دوسرے حضرات نے غزل کے اشعار میں تسلسل تلاش کرنے کی سعی کی ۔ اس سلسلے میں حامد حسن قادری کا رویہ زیادہ دیانت داری پر مبنی ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ غزل کے اشعار میں تسلسل قطعی ضروری نہیں ۔ غزل میں وحدتِ خیال کا سوال ہی نہیں ہے ، ہاں ! وحدتِ تاثر ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی ۔ غزل کے حامیوں نے فن کے فطری نظریے سے متاثر ہو کر ہائیکو سے اس کا قرب دریافت کیا ٬ مگر ہائیکو میں دو مختلف تصویریں بالآخر ایک تیسرے نقش کے ذریعہ سے ایک مجموعی تاثر پیش کرتی ہیں ۔
غزل کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ مغربی نظریۂ فن کے مطابق یہ فن پارہ ہو یا نہ ہو ، مشرقی نظریۂ فن کے مطابق یہ بھی فن کا ایک روپ ہے اور اس میں بحر ، قافیے اور ردیف کے ذریعہ سے ذہن کی ایک خاص رَو ، کیفیات کے ایک خاص آہنگ ، جذبات کی ایک خاص لَے ، ایک مخصوص فضا کی آئینہ بندی کی جاتی ہے ۔ بحر ایک بساط عطا کرتی ہے ۔ قافیہ اس بساط کی سطح پر تکرار اور توقع کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے ذہن کو ایک روشنی اور روح کو ایک بالیدگی عطا کرتی ہے اور ردیف حالت یا زمانے یا شرط کے ذریعے اسے چستی اور چابک دستی عطا کرتی ہے ۔ پہلے اس پر غور کیجیے کہ غزل میں مطلع کیوں ہوتاہے یعنی شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیے کا استعمال کیوں ضروری ہے ۔ میرؔ کی مشہور غزل کے مطلع کو ذہن میں رکھیے :
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوانے کا م کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
اگر غزل مطلع سے شروع نہ ہو تو سننے والے یا پڑھنے والے کے ذہن کی تربیت ان خطوط پر نہیں ہو سکتی ہے ٬ جو غزل کا خاصہ ہیں ۔ اس لیے قدما نے غزل کے لیے مطلع کی شرط لگائی ہے ، خواہ یہ کمزور ہی کیوں ہوں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ بہت سے اساتذہ نے کئی مطلعوں کی غزل کہی ہے ٬ مگر یہ قطعی ضروری نہیں ہے ۔ کیوں کہ پہلے مطلع کے بعد وہ صوتی نظام اور وہ موسیقی جو غزل کے ساتھ مخصوص ہے ، سننے والے یا پڑھنے والے کے ذہن میں بس جاتی ہے ۔ اس کے بعد دوسرے مصرعے کا قافیہ اس رَو کو آگے بڑھانے کے لیے کافی ہے ۔ وحید الدین سلیم اور دوسرے نقادوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزل کاشاعر قافیے کا غلام ہوتاہے ۔ وہ خیال کے مطابق قافیہ نہیں لاتا ٬ بلکہ قافیے کے مطابق خیال لاتا ہے ۔ یہ بات بھی جزوی صداقت رکھتی ہے ۔ غزل سے متعلق ان تمہیدی کلمات کے حضور اشرفؔی میاں کی اردو غزل گوئی کے نقش و نگار ملاحظہ فرمائیں ۔
اشرفؔی میاں کی اردو غزل گوئی :
مخدوم الاولیاء ٬ اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں قدس سرہ کی ذاتِ گرامی مجموعۂ کمالات تھی ۔ شاعری و نثر نگاری ٬ آپ کے علمی محاسن کا دو نمایاں رخ اور آپ کی تہہ دار شخصیت کا معتبر حوالہ ہے ۔ آپ فارسی ٬ اردو اور ہندی زبان کے ایک منجھے ہوئے قادر الکلام شاعر ٬ ممتاز نعت گو اور صوفیانہ اقدار و روایات کی ترجمانی کرنے والے ایک بلند پایہ غزل گو تھے ۔ آپ کو فارسی شاعری کا " امیر خسرو " اور اردو کا " میر تقی میرؔ " سمجھنا چاہیے ۔ راقم کے دعویٰ کی صداقت ملاحظہ کرنے کے لیے آپ کے شعری دیوان " تحائفِ اشرفی " کا مطالعہ مفید ہوگا ٬ جس کے زریں صفحات پر شعری و ادبی کہکشاں اشعار کی صورت میں تجلی ریز ہے ۔ فارسی و اردو نعت گوئی کے بعد آپ کی اردو غزل گوئی کا مختصر تعارف نذرِ قارئین ہے ۔ آپ کی فارسی غزل گوئی کا تفصیلی ذکر گذشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے ۔ تحقیقی و تنقیدی نقطۂ نظر سے آپ کی شاعری کا مفصل جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کرے کوئی بندہ سامنے آئے اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر بنائے ۔
ادب چاہے نظم کی شکل میں ہو یا نثر کی صورت میں ٬ سماجی اقدار کی ترجمانی اس کا طرۂ امتیاز رہا ہے ۔ ادب سوسائٹی کے عمل دخل ٬ معاشرتی رویوں اور سماجی ناہمواریوں کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی ، تہذیب و ثقافت ، طرز معاشرت اور انسانی کلچر کی عکاسی کرتا ہے ۔ کامیاب ادب وہ ہے جس میں سماج کی پوری تصویر نظر آتی ہو ۔ ادب یا بلفظِ دیگر نظم و نثر ٬ زندگی کا آئینہ دار ہے ۔ اس میں شاعر یا پھر سماج کے دوسرے افراد کی زندگی کو چلتی پھرتی تصویر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ پروفیسر احتشام حسین کے بقول : ادب ادیب کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے ۔ ادب زندگی کی ازسر نو تخلیق ہے ۔ ادب انسان کی مادی کشمکش کا دلکش عکس ہے ۔ ادب صرف لفظوں کی خوب صورت مورتیوں کو فن کی لڑی میں پرونے کا نام نہیں ٬ در حقیقت ادب وہ ہے جس میں زندگی کے تجربات اور مشاہدات بیان کیے گیے ہوں ۔ حضور اشرفؔی میاں کی غزل گوئی میں سماجی زندگی کی آئینہ داری کم اور خود ان کی زندگی و بندگی ٬ ان کی افتادِ طبع اور پاکیزہ شخصیت کے جلوے زیادہ نظر آتے ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیں کہ آپ کس طرح غمِ عشق سے دو چار ہیں اور آہ و فغاں کر رہے ہیں :
رو رہا ہے کس قلق سے دل ہمارا زار زار
چبھ گئے سینے میں غم سے اے گلِ بے خار خار
بختِ خوابیدہ پہ حسرت آ رہی ہے بار بار
ہم تو چھوٹے یار سے اور ہو گئے اغیار یار
گر خوشی ہے قتل میں میرے تو پھر تاخیر کیا
گردنِ عاشق پہ کیجے کھینچ کر تلوار وار
جان کام آئے تمہارے عشق میں تو خوب ہے
صورتِ منصورؔ پائے طالبِ دیدار وار
وصل مشکل ہے تو کر تدبیرِ وصل اے اشرفؔی
کرتے ہیں آخر تو بیٹھے بیٹھے کچھ بیکار کار
" صورتِ منصور " کی تشبیہ ٬ " بیکار کار " اور " گلِ بے خار خار " کی ترکیب و تکرار لطف سے خالی نہیں ۔
وہ جو کسی صاحبِ دل اور تصوف آشنا شاعر نے کہا ہے کہ سو کتاب اور سو اوراق آگ میں جھونک دو اور اپنا روئے دل دلدار کی طرف کرو ۔
صد کتاب و صد ورق در نار کن
روئے دل را جانبِ دل دار کن
تو حضور اشرفؔی میاں کا روئے سخن اور روئے دل اسی دلدار کی طرف تھا اور ان کا شاعرانہ وجود از اول تا آخر اسی کوئے جاناں کا طواف کرتا رہا اور نوع بہ نوع شعری پیکر تراشتا رہا ۔ وہ کبھی بحرِ عشق میں غوطہ زن ہوتے ہیں ۔ کبھی غمِ ہجر میں آہیں بھرتے ہیں ۔ کبھی نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں ۔ کبھی چاکِ گریباں کی بات کرتے ہیں اور کبھی محوِ جانِ جاناں اور طالبِ بتاں ہو کر خود کو طائرِ مقید بتاتے ہیں اور مرغِ بسمل کی طرح تڑپتے نظر آتے ہیں ۔ غرض کہ آپ کی غزلیہ شاعری اپنے اندر بڑی کشش رکھتی ہے اور طالبانِ معرفت کو مسرور و مسحور کرتی ہے ۔ یہ اشعار دیکھیں کہ کس قدر ذوق و مستی اور والہانہ انداز لیے ہوئے ہیں :
کھو گئے دو عالم سے محوِ جان جاں ہو کر
دیر میں کیا مسکن طالبِ بتاں ہو کر
تیرے مے پرستوں کو فکرِ زہد و تقویٰ کیا
کس لیے مقیّد ہوں مطلق العناں ہو کر
کیوں قفس میں پر باندھے طائر مقید کے
ہائے کیا تو نے یار مہرباں ہو کر
تیرے ڈھونڈنے والے کہتے ہیں یہ حسرت سے
یار کیوں ہوا مخفی بے طرح عیاں ہو کر
یوں تو جستجو میں ہم مدتوں رہے لیکن
کچھ نشاں ملا تیرا آپ بے نشاں ہو کر
رازِ خلوتِ جاناں لب پہ آ نہیں سکتے
خود بہ خود ہوئے ساکت شکلِ بے زباں ہو کر
بے قراریاں کیسی اشرفؔی ترے دل کو
ضبط کیوں نہیں کرتا مردِ راز داں ہو کر
ادب ٬ جس کی مقبول ترین قسم شاعری ہے ٬ وہ فنِ لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب و شاعر اپنے جذبات و افکار اور قلبی واردات کو اپنے خاص نفسیاتی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے ٬ بلکہ الفاظ کے توسط سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوتِ مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے مسرت بخش ٬ حسین اور مؤثر پیرائے اختیار کرتا ہے جن سے سامع و قاری کا جذبہ و تخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے ٬ جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوتا ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ذیل کے اشعار کا مطالعہ کریں ۔ ممکن ہے عام انسانوں پر یہ اثر انداز نہ ہوں ٬ لیکن جادۂ سلوک و معرفت کا مسافر اور ایک ایسا شخص جس کے سینے میں عشق کی چنگاری بھڑک رہی ہو ٬ وہ سن کر مچل اٹھے گا ۔ آپ نے سیرت و سوانح کی کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ محفلِ سماع میں صوفیائے کرام کی حالت دگر گوں ہو جایا کرتی اور وہ مدھ بھرے عشقیہ کلام سن کر رقص کرنے لگتے یا جیب و گریباں پھاڑنے لگتے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض کلام و اشعار اتنے اثر انگیز اور ذہن و فکر کو جھنجھوڑنے والے ہوتے ہیں ۔ حضور اشرفؔی میاں کے یہ اشعار اسی نوعیت کے ہیں :
دردِ ہجراں میں ہوا سخت گرفتار مریض
بسترِ غم پہ تڑپتا ہے ترا یار مریض
دیکھ بیمارِ محبت کو لگا کہنے طبیب
اچھے ہونے کے نہیں تیرے کچھ آثار مریض
آئے تو بہرِ عیادت اگر اے رشکِ مسیح
ابھی اچھا ہو ترا طالبِ دیدار مریض
اُس نے تیرے لبِ جاں بخش کے چکھّے ہیں مزے
داروئے تلخ سے کرتا ہے جو انکار مریض
غش پہ غش آتے ہیں بیتابیِ دل ظاہر ہے
اب یہ بچتا نہیں آتا نہیں زنہار مریض
نزع کے وقت نظر آئے اگر صورتِ یار
جی اٹھے کیوں نہ ترا طالبِ دیدار مریض
اشرفؔی کے تپِ فرقت میں گئے تاب و تواں
آؤ مل جاؤ تڑپتا ہے یہ ناچار مریض
محبت چاہے حقیقی ہو یا مجازی ٬ عاشق کا سکون ٬ چین اور قرار چھین لیتی ہے ۔ عشق ہنساتا کم ٬ رلاتا زیادہ ہے ۔ محبت ٬ تجارت نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے ٬ بشرطیکہ نفسانیت اور حرص و ہوس سے خالی ہو ۔ عندلیبِ گلشنِ عشق فضائے محبت میں اڑان بھرنے ٬ راہِ عشق میں ٹھوکریں کھانے اور بے پناہ مشقتیں برداشت کرنے کے بعد آخر میں یوں نغمہ سرائی کرتا ہے :
زلفِ بُتاں کے پیچ سے خالق بچائے دل
مرنا جسے قبول ہو جا کر پھنسائے دل
یارب کبھی کوئی نہ کسی سے لگائے دل
مر جائے زہر کھا کے کسی پر جو آئے دل
رکھوں کہاں میں اب اسے پہلو کو چیر کر
ڈر ہے کہیں نہ یہ شررِ غم جلائے دل
کرتا ہے ابتدائے محبت سے شوخیاں
فرمائیے تو قابو میں کس طرح آئے دل
اے اشرفؔی بتوں میں محبت ذرا نہیں
کس طرح کوئی سنگ دلوں سے لگائے دل
ہجر و فرقت اور قربت و وصال جیسے مضمون کی آمیزش کے علاوہ تسلیم و رضا ٬ جاں سپاری ٬ نالہ و فریاد اور بعض اوقات تب و تاب کھونے اور صدمۂ ہجر کا بار نہ اٹھانے کا بیان بھی غزلیہ شاعری کے اہم اور پسندیدہ موضوعات رہے ہیں ۔ حضور اشرفؔی میاں کے مندرجہ ذیل کلام میں یہ ساری چیزیں موجود ہیں :
آج مزے وصل کے پائیں گے ہم
لذتِ دیدار اُٹھائیں گے ہم
اس تنِ خاکی کو مٹا ئیں گے ہم
در سے تیرے پر نہیں جائیں گے ہم
ذبح کرو خنجرِ ابرو سے تم
پر کبھی گردن نہ ہلائیں گے ہم
جس نے سنا اس پہ جنوں چھا گیا
آپ کا قصہ نہ سنائیں گے ہم
ساتھ لیے جائیے جانِ حزیں
صدمۂ ہجراں نہ اٹھا ئیں گے ہم
پیرِ مغاں اب تو نہ انکار کر
کہہ میری خاطر سے پلائیں گے ہم
بند درِ میکدہ ہے اشرفؔی
جان پر اب کھیل کے جائیں گے ہم
جو بندہ شرابِ عشق کی لذتوں سے سرشار اور شاہراہِ الفت کا مسافر بن جاتا ہے ٬ پھر اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے ۔ وہ چلتے پھرتے ٬ اٹھتے ٬ بیٹھتے ٬ خلوت و جلوت ہر جگہ عشق ہی کا راگ چھیڑتا ہے اور اپنے محبوب کی یادوں میں مگن ہو کر کچھ اس طرح اپنے جذبِ دروں کا اظہار کرتا ہے :
چھپائی کس لیے صورت دکھا کر
ہمیں آشفتہ و شیدا بنا کر
پھر اپنے حسن کا جلوہ دکھا دو
ہمارا سینہ آئینہ بنا کر
تڑپتا ہے دل میں ہمارا
ملے گا کیا تمہیں ہم کو ستا کر
کیا پیرِ مغاں نے کیا ہی بیخود
ہمیں جامِ مئے وحدت پلا کر
وہ دامِ زلف میں دیتے ہیں ایذا
ہمارے طائرِ دل کو پھنسا کر
جنونِ عشق میں یا رب کسی کو
نہ یوں میری طرح تو مبتلا کر
نہ بھولو اشرفؔی کو دل سے اشرفؔ
درِ شاہانہ پر اپنے بلا کر
حضور اشرفؔی میاں نے اردو و فارسی زبان میں بڑی اچھی اور کامیاب غزلیں کہی ہیں اور قدیم شعرائے غزل کے شعری لہجوں کو اپناتے ہوئے اپنے خیابانِ سخن کو غزل کے لالہ و گل سے سجایا ہے ۔ وہی انداز ٬ وہی لہجہ ٬ وہی کسک ٬ وہی سوز و گداز اور ذہن و فکر کو مسحور و مسرور کرنے والا وہی مدھر بھرا اسلوب آپ کی غزلوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ یہ غزل دیکھیں کہ کس قدر جان دار اور شان دار ہے اور شاعر کی عظمتِ سخن پر دلالت کرتی ہے :
غمِ فراق سے رہتی ہے انتشار میں روح
جو وصل ہو تو رہے شاد جسمِ زار میں روح
نہ قبر پر بھی اگر بعد مرگ آیا تو
رہے گی تیرے ہی تا حشر انتظار میں روح
سنا دے مژدۂ دیدار جلد اے قاصد
بہت دنوں سے تپاں ہے فراقِ یار میں روح
نہ سخت ہاتھ لگاؤ سنبھل کے شانہ کرو
چھپی ہے کاکلِ مشکیں کے تار تار میں روح
طبیب دیکھ کے بیمارِ عشق کو بولا
بس اک حُباب سی باقی ہے جسمِ زار میں روح
اگر نہ آئے عیادت کو وقت نزع بھی تم
تڑپ تڑپ کے رہے گی مرے مزار میں روح
خبر نہیں تنِ لاغر کی اشرفؔی ہم کو
بھٹکتی پھرتی کہیں ہوگی کوئے یار میں روح
شاعری اور بالخصوص غزل گوئی کی کامیابی کا راز اس کی شعریت و معنویت اور اثر انگیزی میں مضمر ہے ۔ میر تقی میرؔ کی شہرت و مقبولیت کا راز ان کی گداختہ اور دلربا غزلیں ہیں ۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ٬ لیکن راقم الحروف اشرفؔی میاں کے گداختہ اور تغزلانہ لہجوں پر مبنی غزلوں کو " غزلیاتِ میرؔ " کا مماثل اور ہم قرار دیتا ہے ۔ یہ غزل دیکھیں کہ کس قدر عشق و وارفتگی سے معمور ہے اور اس کا لہجہ کس قدر ذہن و دماغ میں ہیجان برپا کرنے والا ہے :
خاک صحرا کی اڑاؤں گا مجھے جانے دو
کوئی دم اس دلِ بیتاب کو بہلانے دو
سیرِ گلشن نہیں بے یار کے مجھ کو بھاتی
اے رقیبو ! مرے گُل رُو کو ادھر آنے دو
قیس لیلیٰ پہ ہوا شیفتہ اور تم پر ہم
ہوں گے مشہور زمانے میں یہ افسانے دو
جھکیں زلفیں رخِ تاباں کی بلا لینے کو
ہو بہو جیسے گریں شمع پہ پروانے دو
نہ پریشاں کرو اے بادِ صبا کے جھونکو
دوش پر کاکلِ خُم دار کو بل کھانے دو
جب سے آئے ہیں ترے نرگسِ مخمور نظر
چھلکے جاتے ہیں مری آنکھوں کے پیمانے دو
جان ہی پر جو بنے گی تو بنے کیا غم ہے
اشرفؔی ! ناز و کرشمہ اُسے دکھلانے دو
نعوت و مناقب کی طرح اشرفؔی میاں کی غزلوں میں جذبات کی شدت ٬ احساسات کی حرارت ٬ صدائے قلب کی بے چینی اور ربودگی و شیفتگی قارئین کا تڑپا کر رکھ دیتی ہے ۔ ذیل کے غزلیہ اشعار شاعر کی اضطرابی کیفیات کے غماز ہیں :
نقشہ رخِ انور کا جما جا مرے دل میں
جلوہ قدِ رعنا کا دکھا جا مرے دل میں
اے کافرِ بد کیش تو آجا مرے دل میں
بت خانہ خدا خانہ بنا جا مرے دل میں
یہ گھر ہے ترے واسطے اغیار سے خالی
تجھ کو نہ تکلف ہو تو آ جا مرے دل میں
میں تیرے تجسس میں رہا کرتا ہوں رات
کچھ اپنا ٹھکانا تو بنا جا مرے دل میں
سینے میں بھڑکتی ہے غضب آتشِ فرقت
یہ دل کی لگی آگ بجھا جا مرے دل میں
تیری ہی قسم تجھ کو مرا نام نہ لینا
کر کچھ بھی نشاں غیر کا پا جا دل میں
ہیں دیدہ و دل اشرفؔی زار کے حاضر
آ جا مری آنکھوں میں سما جا مرے دل میں
غزل کا یہ آسان ٬ سادہ اور سلیس ترین اندازِ بیان بھی دیکھیں :
سلامت رہو میرے سر پر سلامت
ہمیشہ رہو سایہ گستر سلامت
رہے گا جو قاتل ترا گھر سلامت
نہ جائے گا لے کر کوئی گھر سلامت
مقابل میں اُس تیغِ ابرو کے آ کر
نکل جائے کیوں کر کوئی سر سلامت
پھنسا مرغِ دل دامِ گیسو میں ایسا
کہ ممکن نہیں ہووے جانبر جانب سلامت
جفا پر تمہاری دعا کر رہے ہیں
رہے شاد و خرّم ستم گر سلامت
سمائے نگاہوں میں ایسے کہ ہر سو
تمہیں تم ہو اے بندہ پرور سلامت
دلِ اشرفی باتوں باتوں میں چھپنا
رہے تا ابد میرا دلبر سلامت
صوفیائے کرام کی غزلیں عشقِ حقیقی کی آئینہ دار ہوا کرتی ہیں اور ان کے محبوب ٬ اللہ رب العزت ٬ اس کے پیارے حبیب جناب محمد مصطفیٰ ﷺ ٬ پیر و مرشد اور دیگر اولیائے کاملین ہوا کرتے ہیں اور یہ حضرات انہیں نفوسِ قدسیہ کے حسین چہروں کی رعنائیوں اور دل فریبیوں کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں اور ان کے حسن و عشق میں سرشار نظر آتے ہیں ۔ جیسا کہ درج ذیل اشعار سے یہ حقیقت ظاہر ہے :
بہ شکلِ شیخ دیدم مصطفی را
نہ دیدم مصطفیٰ را بل خدا را
ز خود فانی شدم دیدم بقا را
ندیدم غیر ذاتِ خود خدا را
مکن اے زاہدِ خشک اعتراضے
چہ دانی سرِّ توحیدِ خدا را
اگر گوئی مرا تو بت پرستی
بگویم در بتاں دیدم خدارا
چہ گویم اشرفم یا اشرفؔیم
مپرس ایں سرِّ پنہانی خدا را
کلامِ اشرفؔی کا جمالیاتی پہلو :
جمالیات ( جس کو انگریزی میں Aesthetics کہتے ہیں ) یونانی لفظ " Aistheta " سے ماخوذ ہے ۔ اس کا لغوی معنیٰ ہے : حواس کے ذریعے حسن و دلکشی سے متعلق مشاہدے میں آنے والی اشیا ۔ حسین اشیا کی اصل یا حسین اشیا سے حاصل ہونے والی مسرت و شادمانی اور زندگی میں حسن و دلکشی کی افادیت ظاہر کرنے والے علم و فلسفہ کو " جمالیات " کہتے ہیں ۔ حسن و دلکشی ، خوبی و عمدگی ، نظم و ترتیب اور تہذیب و شائستگی جو کلیتاً یا جزئیتاً اشیا کے مشاہدے سے حواس کو متاثر کریں اور ان کے جزوی و کلی تاثر سے ناظر یا سامع پر فرحت و انبساط کے جذبات طاری ہوں ، اس کو " جمال " کہتے ہیں ۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ عرفِ عام میں ہم جس چیز کو " جمال " کہتے ہیں ، اس کی مجموعی کیفیت اور اس سے متعلق علم و فلسفہ کو " جمالیات " کہا جاتا ہے ۔ " جمالیات " کی توضیح و تشریح میں محققینِ ادب کے اقوال و آرا مختلف ہیں ۔ ہر ایک نے اپنے ذوق و وجدان کے مطابق اس تعریف و تشریح کی ہے ۔ لیکن ہر ایک کی تعریف میں قدرِ مشترک کے طور پر جو بات سامنے آتی ہے ، وہ یہ کہ " جمالیات ، حسن اور فلسفۂ حسن بیان کرنے اور اس سے مسرت و شادمانی حاصل کرنے کا نام ہے " ۔
مجنوں گورکھ پوری لکھتے ہیں :
جس انگریزی لفظ ( Aesthetics ) کے جواب میں یہ اردو لفظ ( جمالیات ) گڑھا گیا ہے ، اس کا یہ صحیح مرادف نہیں ہے ۔ انگریزی زبان میں Aesthetics ، جمالیات سے کہیں زیادہ جامع اور بلیغ ہے ۔ Aesthetics کے لغوی معنیٰ ہر اس چیز کے ہیں جس کا تعلق حِس یا حِس لطیف سے ہو ۔ اس اعتبار سے اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو Aesthetics کے لیے " حِسّیات " یا " وجدانیات " یا " ذوقیات " بہتریں اصطلاح ہو ……………. Aesthetics کا موضوع حسن اور فنونِ لطیفہ ہے ۔ اول اول ہیگل نے اس لفظ کو فلسفۂ فنونِ لطیفہ ( موسیقی ، سنگ تراشی ، شاعری وغیرہ ) کے معنوں میں استعمال کیا ۔ اسی رعایت سے عربی اور اردو میں اس کا ترجمہ " جمالیات " کیا گیا اور اب اس کو اردو میں قبول کر لیا گیا ہے ۔ جمالیات ، فلسفہ ہے حسن اور فنکاری کا ۔
( تاریخِ جمالیات ، ص : ۱۱ – ۱۲ ، ناشر : انجمن ترقی اردو ہند ، علی گڑھ )
مجنوں گورکھ پوری نے حسن اور فن کاری کے فلسفے کو جمالیات کا نام دیا ہے ۔ راقم کی محدود اور ناقص معلومات کے مطابق ہر وہ چیز جو حسن و جمال اور دلکشی و رعنائی کی مُظہِر ہو ، وہ جمالیات کے زمرے میں آتی ہے ۔ جمالیات ایک وصف ہے ، جس سے موصوف ہونے والی اشیا بیشمار ہیں ۔ مثلاً : علم و دانائی ، اخلاقِ حسنہ ، دولت و ثروت ( جب کہ اس کا استعمال جائز طریقوں سے ہو ) فکر و فن ، شعر و سخن ، فنونِ لطیفہ کے سارے اقسام ، انسان کے موزوں و متناسب اعضا ، حسین چہرہ ، حسین طرزِ گفتار و کردار ، خوب صورت اعمال و اشغال ، حسین قدرتی مناظر ، وغیرہ وغیرہ ۔ جس طرح وصف کا اپنا کوئی مستقلاً وجود نہیں ہوتا ، اسی طرح جمالیات کا فی نفسہٖ کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ یہ جب بھی پائی جائے جائے گی ، کسی حقیقتِ ثابتہ کے ضمن میں پائی جائے گی ۔ حسن و جمال جہاں اور جس چیز سے متعلق ہو گی ، جمالیات بھی اس کے ارد گرد یا اس کے اندر پائی جائے گی ۔
غرض کہ فنونِ لطیفہ کے علاوہ جمالیات کہیں بھی اپنا جلوہ دکھا سکتی ہے ، لیکن اس کا نظارہ کرنے کے لیے ذوق آشنا نظر اور بلاغت آشنا فکر چاہیے ۔ جمالیات کا تعلق شعر و ادب سے کچھ زیادہ ہی رہا ہے ۔ جمالیاتی ادب ، جمالیاتی اسلوب اور جمالیاتی تنقید کی اصطلاح آپ نے بارہا سنی ہو گی ۔ مشہور مفکر " سارتر " نے شاعری کو فنونِ لطیفہ یعنی مصوری ، موسیقی اور سنگ تراشی کی مانند قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان فنونِ لطیفہ ( Fine Arts ) کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے : تفریحِ طبع ، لطف اندوزی اور فرحت و انبساط کا حصول ۔ انسان گانا سن کر لطف اندوز ہوتا ہے ۔ موسیقی کی راگ اور سریلی آواز سے حظ اٹھاتا ہے ۔ خوب صورت عمارت یا مجسمہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔ انسان کے کانوں میں معنیٰ خیز اشعار جب رس گھولتے ہیں تو وہ مچل اٹھتا ہے ۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان فنونِ لطیفہ میں ایک غیر مرئی مقناطیسی کشش ہے ، جو انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور اپنا والہ و شیدا بناتی ہے ۔ فنونِ لطیفہ میں موجود اس غیر مرئی مقناطیسی کشش کو " حسن کاری " کہتے ہیں ، جس کو ادب کی اصطلاح میں " جمالیات " کا نام دیا جاتا ہے ۔ اظہارِ حسن اور حصولِ انبساط ، فنونِ لطیفہ کا بنیادی مقصد ہے ۔ شاعری بھی ایک حسنِ مجسم ہے ۔ اب تنقید نگار کا منصبی فرض بنتا ہے کہ دیگر خوبیوں کے علاوہ شعر میں حسن کے جتنے بھی عناصر موجود ہیں ، ان سب کا پتہ لگائے ۔ جو تنقید اس جہت سے شعر اور شاعر کو پرکھے ، اسے " جمالیاتی تنقید " کہا جاتا ہے ۔ جس طرح انسان شاعری سے متاثر اور مسحور ہوتا ہے ، اسی طرح نثر نگاری سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے ۔ نظم کی طرح نثر میں بھی " جمالیات " اپنا اثر دکھاتی ہے ۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعر و ادب کا جمالیات سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔ جمالیات کی تفہیم اور اس کے شعور و ادراک کے لیے علم و مطالعہ کے ساتھ ذوقِ سلیم اور قلبِ مستقیم کی ضرورت ہے ۔
زبان و بیان کا لطف اور طرزِ ادا کا بانکپن ٬ غزل کے حسن کی پہچان اور اس کی کامیابی کی دلیل ہے ۔ شعر و ادب میں جمالیات کا رنگ لطفِ زبان ٬ حسنِ بیان ٬ ترنم و تغزل اور ندرتِ اسلوب سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہ اوصاف جس قدر گہرے ہوں گے ٬ شعر و ادب کا جمالیاتی رخ اتنا ہی تابناک اور دل کشا ہوگا ۔ اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کے کلام کا جمالیاتی پہلو بھی لائقِ دید اور قابلِ توجہ ہے ۔ آپ کی شاعری چوں کہ ایک نوائے عارفانہ اور صدائے درویشانہ ہے ٬ اس لیے اپنے اندر پُر کشش جمالیاتی شان رکھتی ہے اور اس کا مطالعہ و سماعت قاری و سامع کو تڑپا دیتی ہے اور یہی آپ کی شعری جمالیات کی علامت ہے ۔ مثال دیکھیں :
کوئے جاناں میں ہوئے چاک گریباں کتنے
جان پر کھیل گئے عاشقِ بے جاں کتنے
طے کیے عشق کی منزل میں بیاباں کتنے
میرے تلوؤں میں چبھے خارِ مغیلاں کتنے
سیرِ گلشن کا ذرا قصد نہ کیجے للہ
صید ہو جائیں گے واں مرغِ خوش الحاں کتنے
منزلِ عشق کی اب تک نہیں طے ہوتی ہے راہ
اے جنوں تو نے دکھائے ہیں بیاباں کتنے
کٹ گئی وصل کی شب اور نہ حسرت نکلی
رہے باقی دلِ رنجیدہ میں ارماں کتنے
بتِ کافر سے مرے اپنی لڑا کر آنکھیں
گیرجا جا کے بنے صاحبِ ایماں کتنے
اشرفؔی کو جو سنا دے خبرِ کوچۂ یار
اے صبا ہم پہ رہیں گے ترے احساں کتنے
ڈاکٹر سید امین اشرف مرحوم کلامِ اشرفؔی کے جمالیاتی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ " تحائفِ اشرفی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی شخصیت کبھی سوز و گداز کا پیکر ہوتی ہے اور کبھی ایک نعرۂ مستانہ بن جاتی ہے ۔ کبھی وہ اضطرابی کیفیات سے گزرتے ہیں اور کبھی جذب و شوق کی فراوانی کے مراحل سے ۔ ان کی نعتیہ غزلوں سے کسی تبحر علمی ، ادبی موشگافی یا فلسفیانہ دقت پسندی کا پتہ نہیں چلتا ۔ یہ کسی فقیہ یا پیشہ ور شاعر کا کلام نہیں ۔ تحائفِ اشرفی تو ایک رہروِ راہِ سلوک کی نوائے عارفانہ ہے ٬ جو شعر و سخن میں ڈھل گئی ہے ۔ افراط و تفریط ، رطب و یابس ، رعایت لفظی اور صناعی سے عاری صاف و سادہ کلام میں شعریت کے عنصر نے رعنائیِ اظہار کی دل آویزی میں اضافہ کر دیا ہے ۔ اعلیٰ حضرت کی طبع موزوں نے عام طور سے رواں اور مترنم بحروں کا استعمال کیا ہے ۔ بعض غزلوں میں لمبی ردیف اور قافیوں کے تکرار سے غزلوں کا حسن دو بالا ہو گیا ہے ۔ ان کی غزلوں کی مجموعی فضا سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قلبِ عارف کے جذب واثر ، اس کی والہانہ سرشاری اور سحر انگیزی کی تال پر پوری کائنات رقص کر رہی ہے " ۔
(ابتدائیہ تحائفِ اشرفی ٬ ص : ۲۸ ٬ ۳۰ ٬ مطبوعہ : جامع اشرف ٬ کچھوچھہ شریف)
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ کی نعتیہ و غزلیہ شاعری میں شعریت و معنویت کے دلکش عنصر نے آپ کے کلام میں جمالیاتی آہنگ ٬ رعنائیِ اظہار اور دلکشی و دل آویزی پیدا کر دی ہے ۔ سادگی و طرفگی ٬ صفائی و برجستگی ٬ سنگینی و دل آویزی ٬ فصاحت و بلاغت ٬ لطافت و ملائمت ٬ نفاست و طہارت ٬ سلاست و نزاکت ہر طرح کے ادبی و فنی اوصاف خزانۂ اشرفؔی میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ اشعار دیکھیں کہ کس قدر جمالیاتی پہلو لیے ہوئے ہیں :
دردِ ہجراں میں ہوا سخت گرفتار مریض
بسترِ غم پہ تڑپتا ہے ترا یار مریض
دیکھ بیمارِ محبت کو لگا کہنے طبیب
اچھے ہونے کے نہیں تیرے کچھ آثار مریض
آئے تو بہرِ عیادت اگر اے رشکِ مسیح
ابھی اچھا ہو ترا طالبِ دیدار مریض
اُس نے تیرے لبِ جاں بخش کے چکھّے ہیں مزے
داروئے تلخ سے کرتا ہے جو انکار مریض
سلسلہ جب سے ہے اُس زلفِ گرہ گیر کے ساتھ
دل کو اک لاگ سی ہے حلقۂ زنجیر کے ساتھ
خمِ ابرو کے اشاروں میں چڑھے ہیں تیور
آپ نشتر بھی لگا لائے ہیں شمشیر کے ساتھ
میتِ عاشقِ رسوا ہے سرِ راہ پڑی
دفن کر دیجیے صاحب اسے توقیر کے سا تھے
مفت میں جان گنوائی ہے غمِ ہجراں میں
کام ڈالے نہ خدا اس بُتِ بے پیر کے ساتھ
حق سے کرتا ہے دعا اشرفؔیِ خستہ مدام
حشر کے روز اٹھوں حضرتِ شبیّر کے ساتھ
حضور اشرفؔی میاں کا درد بھرا لہجہ اور مدھ بھری لَے " از دل خیزد بر دل ریزد " کی مثال پیش کرتی ہے اور جمالیاتی رنگ و روپ کا نظارہ کراتی ہے ۔ غزل کی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں سے عشقِ حقیقی جو کے راگ چھیڑے ہیں ٬ اس کا روحانی ارتعاش خوابیدہ احساس کو بیدار کرتا ہے اور قلوب و اذہان میں مسرت و بہجت کا سماں باندھ دیتا ہے ۔ حسبِ سابق آپ کا یہ کلام بھی جمالیاتی قدروں کا حامل ہے :
جب سے کہ آغوش میں وہ مہِ خوش رو نہیں
صبر تو رخصت ہوا دل پہ بھی قابو نہیں
لاکھ تکلّف کرے بزمِ جہاں میں کوئی
خاک نظر آئے گی ہم کو جہاں تو نہیں
بعد مرے ہم نشیں پڑھ کے میرے شعر کو
بولیں حسرت سے یوں نافہ ہے آہو نہیں
تیری شبِ ہجر میں کثرتِ اندوہ سے
نالہ جو کر اٹھتے ہیں ضبط پہ قابو نہیں
سینے میں ملتا نہیں اب تو جگر کا پتہ
پارۂ دل بہتے ہیں آنکھ میں آنسو نہیں
ہو کے ترے مبتلا نذر کو لائے ہیں جاں
غیروں سے دل بیچنا اپنی تو یہ خو نہیں
ڈاکٹر سید امین اشرف نے بجا فرمایا ہے کہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے غزل کی بنیادی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا رخ لب و رخسار سے برکات وانوار ، مادیت سے روحانیت ، کثافت سے لطافت اور مجاز سے حقیقت کی جانب موڑ دیا ۔ اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی محبت میں اعلیٰ حضرت کے رنگ تغزل میں کس قدر گہرائی ، شادابی ، پاکیزگی اور شفافیت ہے ٬ اس کی ایک جھلک ان چند اشعار میں دیکھیے :
نقشہ رخِ انور کا جما جا مرے دل میں
جلوہ قدِ رعنا کا دکھا جا مرے دل میں
یہ گھر ہے ترے واسطے اغیار سے خالی
تجھ کو نہ تکلف ہو تو آ جا مرے دل میں
سلسلہ جس کا ہے اس زلفِ گرہ گیر کے ساتھ
دل کو اک لاگ سی ہے حلقۂ زنجیر کے ساتھ
آہ کس طرح نہ نکلے دلِ سوزاں سے میرے
آگ ہوتی ہے جہاں بند دھواں ہوتا ہے
جس پر نظر پڑی اسے بیتاب کر دیا
جادو ہے ٬ سحر ہے ٬ ترے چتون بلا کی ہے
آنکھ ملا کے دل کو چھینا
تیری نظروں میں جادو ہے
نہیں کچھ اشرفؔی کے دل میں سودا
تمہارا ہی اسے ہر دم قلق ہے
ان اشعار کی ایک ندرت یہ ہے کہ ان میں الفاظ کے انتخاب اور تراکیب کی سحر کاری کے لیے شعوری کوشش نظر نہیں آتی ۔ الفاظ و تراکیب کی موزونیت ، روانی اور سلاست میں بے ساختہ پن ہے ۔ ان اشعار میں کیفیتِ نغمہ کا ارتعاش ہے اور میٹھے میٹھے درد کی زیریں لہر بھی ۔
(ابتدائیہ تحائفِ اشرفی ٬ ص : ۲۴ ٬ ۲۵ ٬ مطبوعہ : جامع اشرف کچھوچھہ شریف)
اشرفؔی میاں اردو شاعری کے امیر خسرو
خلیفۂ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں ٬ رئیس المحققین علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ ( سابق صدر شعبۂ دینیات مسلم یونیورسٹی ٬ علی گڑھ ) کے بقول : صاحبِ سیر الاولیاء لکھتے ہیں کہ اوائل میں جب امیر خسروؔ شعر کہتے تو اس کو اپنے شیخ طریقت حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیا رضی اللہ عنہ کو دکھایا کرتے تھے ۔ ایک روز حضرت نے فرمایا کہ " طرزِ صفاہانیاں بگو " یعنی عشق انگیز و زلف و خال آمیز شاعری کرو ۔ اسی روز سے امیر خسروؔ زلف و خال کے پھندے میں ایسے پھنسے کہ تمام ما سوی اللہ سے بے نیاز ہو گئے اور آج تک ان کا عاشقانہ کلام مردہ دلوں کے لیے آبِ حیات کا کام کر رہا ہے ۔ ثبوت کے لیے ان کے کلام کا دفتر بھرا پڑا ہے ٬ جہاں سے چاہو اٹھا کر دیکھ لو ۔ ایک چھوڑ ہزار ثبوت پاؤ گے ۔
(الانھار - تنقیدِ مثنوی ہشت بہشت ٬ ص : ۷۶ ٬ ۷۷ ٬ مطبوعہ : مطبع انسٹی ٹیوٹ مسلم یونیورسٹی ٬ علی گڑھ)
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کو اردو شاعری کا امیر خسروؔ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ جو درد ٬ سوز و گداز ٬ شیفتگی و گداختگی ٬ والہانہ انداز اور طرفگی و دل آویزی حضرت امیر خسروؔ کی فارسی غزلوں میں پائی جاتی ہے ٬ بعینہٖ وہ ساری خوبیاں اشرفؔی میاں کی غزلوں میں بھی موجود ہیں ۔ موسمِ بہار کی آمد پر امیر خسروؔ اپنی مسرتوں اور طرب انگیزیوں کا کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں :
فصلِ نو روز کہ آورد طرب بر ہمہ خلق
چشمِ بد دور مرا موسمِ باراں آورد
ہر سحر باد کہ بر سینۂ من کرد گزر
در چمن بوئے کباب از پئے مستاں آورد
اور حضور اشرفؔی میاں جلوۂ جاناں نظر آنے پر اس طرح مچلتے ہیں :
جلوہ گاہِ جاناناں قلب بے قرار آمد
درمیانِ قطرہ چوں بحرِ بے کنار آمد
اور سیرِ چمن کے لیے اپنے یارِ گل عذار کی آمد کو " موجبِ فصلِ نو بہار " قرار دیتے اور عندلیبانِ گلشن کو اس کا مژدہ اس طرح سناتے ہیں :
در چمن پئے گلگشت یارِ گُل عذار آمد
مژدہ باد بلبل را فصلِ نَو بہار آمد
تصوف کے تین شعبے ہیں : ( ۱ ) الہٰیات / عقائد و ایمانیات ۔ ( ۲ ) دینی و اخلاقی تعلیمات مثلاً : تقویٰ ٬ اخلاق ٬ رضا ٬ صبر ٬ قناعت ٬ کم گوئی اور حسنِ اخلاق وغیرہ ۔ ( ۳ ) عشق اور اس کے متعلقات کا بیان ۔
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی صوفیانہ شاعری میں تیسرے شعبے کی گرم بازاری دیکھنے کو ملتی ہے اور شعر و سخن کے لیے یہی تیسرا شعبہ موزوں و انسب بھی ہے کہ تصوف کے پہلے اور دوسرے شعبے کے لیے نثری میدان خالی پڑا ہے ۔ شعر و سخن کا ذوق رکھنے والے تقریباً تمام صوفیا و مشائخ کے کلام میں حسن و عشق کا غلبہ ہے ٬ جو در اصل ان کے عشقِ حقیقی کے غماز ہیں ۔ اردو غزل اور غزل گو شعرا نے یہ آدابِ دلبری صوفیائے کرام سے ہی سیکھے ہیں ۔ صوفیائے کرام خانقاہوں میں بیٹھ کر عشق و معرفت کی شراب نوش فرماتے ہیں اور چچا غالؔب و جگؔر دنیاوی میخانے میں پرتگالی شراب حلق کے نیچے اتارتے نظر آتے ہیں ۔ خیر ظرف اپنا اپنا ٬ توفیق اپنی اپنی ۔ حضرت بو علی شاہ قلندر پانی علیہ الرحمہ کا یہ عاشقانہ کلام دیکھیں کہ کس قدر درد میں ڈوبا ہوا ہے ۔ اس سے دیگر صوفیائے کرام کی غزلوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے عشق کی نوعیت اور کربِ دروں کا زاویہ کیا ہے :
مَنَم محوِ جمالِ اُو ، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو ، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں ، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
غلامِ روئے اُو بُودَم ، اسیرِ بُوئے اُو بودم
غبارِ کوئے اُو بودم ، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے چہرے کا غلام ہوں ، اس کی خوشبو کا اسیر ہوں ، اس کے کُوچے کا غبار ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
بہ آں مہ آشنا گشتم ، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم ، نمی دانم کجا رفتم
اُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں ، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں ، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
شدم چوں مبتلائے اُو ، نہادم سر بہ پائے اُو
شدم محوِ لقائے او ، نمی دانم کجا رفتم
میں اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اس کے پاؤں پر سر رکھا ہوا ہوں اور ہمہ وقت اس کے دیدار میں محو اور میں نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں ۔
قلندر بُو علؔی ہستم ، بنامِ دوست سرمستم
دل اندر عشقِ اُو بستم ، نمی دانم کجا رفتم
میں بُو علؔی قلندر ہوں اور دوست کے نام پر سرمست ہوں اور میرے دل میں بس اُسی کا عشق ہے اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں ۔
حضرت بو علی شاہ قلندر علیہ الرحمہ کا آتشِ غمِ عشق میں جلنے اور تڑپنے کا حال آپ نے ملاحظہ کیا ٬ اب لگے ہاتھوں عشق و وارفتگی میں حضور اشرفؔی میاں کے تڑپنے ٬ مچلنے اور رقص کرنے کا حال بھی دیکھیں :
شرابِ شوق می نوشم بہ گردِ یار می گردم
سخن مستانہ می گویم و لے ہشیار می گردم
گہے خندم ، گہے گریم ، گہے افتم ، گہے خیزم
مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم
یعنی میں شرابِ شوق ( شرابِ عشق و معرفت ) پیتا ہوں اور اپنے یار کے اردگرد رقص کرتا ہوں اور اسی عالمِ کیف میں مستانہ کلام کرتا ہوں اور رقص کرتا ہوں ۔ کبھی ہنستا ہوں ٬ کبھی روتا ہوں ٬ کبھی گرتا ہوں ٬ کبھی اٹھتا ہوں ۔ اپنا حال یہ ہے کہ مسیحا میرے دل میں مسند نشیں ہے ٬ بایں ہمہ بیمار بنا گھومتا ہوں ۔ کیوں کہ مرضِ عشق کا علاج ممکن نہیں ۔
خلاصۂ کلام یہ کہ حضور اشرفؔی میاں کی شاعری و غزل گوئی صوفیائے متقدمین کی صدائے باز گشت ہے ۔ اگر صوفیائے قدیم کے غزلوں سے آپ کی غزلوں کا تقابل کیا جائے تو جا بجا فکری مماثلت نظر آئے گی ۔ بالخصوص آپ کے غزلیہ کلام میں امیر خسروؔ کے اسلوبِ غزل کا عکس و نقش ( درد بھرا انداز ٬ والہانہ اسلوب ٬ تڑپ ٬ اضطراب و التہاب ٬ سوز و گداز وغیرہ ) صاف دکھائی دیتا ہے ۔ آپ کے فارسی و اردو کلام میں لفظِ " عشق " عشقِ حقیقی کے معنی پر دلالت کرتا ہے اور شراب و خمر و مئے ٬ جام ٬ خودی ٬ کیف و سرشاری ٬ رند و ساقی جیسے الفاظ عارفانہ مفہوم کے حامل ہیں ۔ آپ کا ساقی ٬ جاناں ٬ یار اور صنم کوئی دنیاوی محبوب نہیں بلکہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کو ہم ذاتِ باری تعالیٰ ٬ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی ٬ بزرگانِ دین اور خود آپ کے پیر و مرشد سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ ان کا عشق ٬ حقیقی ہے اور ان کی محبت ٬ روحانی اور لا فانی ہے ٬ جس کے سمندر میں آپ بار بار ڈوبتے ہیں اور پھر ابھرتے ہیں اور مستانہ وار یہ نعرہ لگاتے ہیں :
عشق بازی ست کارِ جاں بازی
اندر یں راه باختم خود را
یعنی عشق بازی اپنی جان کو مشقت میں ڈالنے والا عمل ہے ۔ عشق کرنا گویا اپنی جان پر کھیلنا ہے اور راہِ عشق کا میں چکر لگا رہا ہوں ٬ تاکہ محبوبِ حقیقی کا قرب و وصال میسر آ سکے ۔
چوں خودی رفت از من اے ساقی
بے خود و مست یافتم خود را
اے ساقی ( مرشد ) ! عشق و وارفتگی میں میری خودی فنا ہو چکی ہے اور میں بے خود اور مست ہو گیا ہوں ۔ اس کے بعد عالمِ وجد و کیف میں آپ کہتے ہیں کہ شمعِ عشق پر پروانے کی مانند جلنے اور عشقِ کے جلوؤں سے معمور ہونے کا یہ نتیجہ ہے کہ دنیا روشن اور پُر نور ہو گئی ہے ۔ نیز عشق و محبت میں دنیا و ما فیہا سے بے نیازی کا مجھے یہ صلہ ملا کہ میرے وجود میں میرا یار مجھے مل گیا ۔ یہاں " یار " سے دنیاوی صنم کے بجائے " حقیقی محبوب " مراد ہے ۔ اشعار دیکھیں :
عالمے گشت روشن و پُر نور
شمع ساں چوں گداختم خود را
اشرفؔی چوں گذشتم از اغیار
ہمہ تن یار یافتم خود را
غزل بہرحال غزل ہے ۔ زخمی غزال کی طرح آہ بھرنا اور درد سے کراہنا ٬ اس کی امتیازی خصوصیت ہے ۔ غزل کی شریعت میں نفسانیت ٬ پھوہڑپن ناجائز ہے ۔ رمز و کنایہ غزل کی پہچان ہے ۔ غزل عشقیہ اور غنائی شاعری ہے لیکن یہ عشق حقیقی بھی ہو سکتا ہے اور مجازی بھی ۔ خدا سے بھی ہو سکتا ہے اور خدا کے محبوب بندوں سے بھی ۔ دنیاوی محبوب و معشوق سے ہو سکتا ہے اور اپنے والدین اور اساتذہ سے بھی ۔ غزل میں عشق و حسن کی مصوری بذات خود اہم نہیں ، عاشق کے مچلتے اور سسکتے جذبات کی گرمی ، سوز و گداز ، کیفیتِ دروں اور لطافتِ بیان ٬ یہ اہم ہے ۔ غزل میں معاملہ بندی کو اہمیت دی گئی ہے اور جرأتؔ و مومنؔ کی معاملہ بندی کو سراہا بھی گیا ہے مگر ہمیں میرؔ کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے جو انھوں نے جرأت سے کہی تھی کہ میاں ! تم شعر کہنا کیا جانو ۔ اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ غزل میں معاملاتِ دل کا کھلا کھلا بیان مستحسن نہیں ۔ یہاں عریانیت نہیں بلکہ شرافت و حیا محمود ہے اور آتشِ غمِ عشق کی آنچ کافی ہے اور وہ بھی ایمائی انداز اور رمزیہ اسلوب میں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اشرفؔی میاں غزل کے بڑے شاعر ہیں ۔ ان کی فارسی غزل گوئی کا موازنہ امیر خسروؔ خسرو سے اور اردو غزل گوئی کا مقابلہ میرؔ سے کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کی غزلوں میں رمزیہ اسلوب اور ایمائی انداز نمایاں ہے ۔ نیز تغزل کی بھرمار ہے ۔ آپ کی غزلوں میں مچلتے سسکتے جذبات ٬ چشمِ گریاں سے ٹپکتے موتی اور آپ کے قلبِ بریاں سے اٹھنے والے دھواں کو با ذوق قاری بآسانی محسوس کر سکتا ہے ۔ ہمارے دعوے کی دلیل ملاحظہ کریں :
رو رہا ہے کس قلق سے دل ہمارا زار زار
چبھ گئے سینے میں غم سے اے گلِ بے خار خار
کریں آہ و نالہ پیہم مگر اس کو کچھ نہیں غم
مرے دل کو صبر ہوتا وہ ذرا خبر بھی ہوتا
کششِ دلِ حزیں خود اسے میرے پاس لاتی
مری آہ میں جو ہمدم کہیں کچھ اثر بھی ہوتا
وہ آئے چل دیے میں تڑپتا ہی رہ گیا
پہلو میں درد اٹّھا کہ اٹھتا ہی رہ گیا
کن مدتوں کے بعد ملی دولتِ وصال
حسرت سے ان کے منہ کو میں تکتا ہی رہ گیا
یہ جوشِ گریہ تھا کہ جب آئے وہ سامنے
کچھ بھی نہ کہہ سکا میں سِسکتا ہی رہ گیا
خبر نہیں تنِ لاغر کی اشرفؔی ہم کو
بھٹکتی پھرتی کہیں ہوگی کوئے یار میں روح
طے کیے عشق کی منزل میں بیاباں کتنے
میرے تلوؤں میں چبھے خارِ مغیلاں کتنے
نزع کے وقت نظر آئے اگر صورتِ یار
جی اٹھے کیوں نہ ترا طالبِ دیدار مریض
نہ پریشاں کرو اے بادِ صبا کے جھونکو
دوش پر کاکلِ خُم دار کو بل کھانے دو
غزل گو بالعموم طالبِ عشق اور طالبِ دید ہوتا ہے ۔ وہ اپنے محبوب سے عشق کے بدلے عشق اور محبت کے عوض محبت مانگتا ہے اور مانگی مراد پوری نہ ہونے کی ہونے کی صورت میں محبوب کو کھرا کھوٹا سنانے لگتا ہے ۔ لیکن بعض عشاق بڑے خود دار ٬ غیّور اور جفا کش ہوتے ہیں ٬ وہ اپنے یار کے ظلم و ستم کو ہنس ہنس کے سہہ لیتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے ۔ حضور اشرفؔی میاں اسی قبیلے کے ایک فرد ہیں ۔ وہ ساقی سے شرابِ عشق طلب کرتے ہیں ٬ ایسی شراب جس کی برسوں سے انہیں آرزو و جستجو تھی ۔ کوچۂ محبوب میں ملنے والی ذلتوں اور رسوائیوں کو " تحفۂ یار " کر وہ اپنے دامنِ طلب میں سمیٹ لیتے ہیں اور شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح آپ مستِ مئے عشق نہیں بلکہ غرقابِ مئے عشق ہیں اور اپنے یار کی محبت میں ایسے مست و بیخود ہیں کہ دنیا کی ہر چیز میں ان کو یار ہی کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ وہ ایسی عاشقِ شیدا ہیں کہ نہ صرف اپنے یار پر فدا ہیں بلکہ اس تصور پر بھی قربان ہیں جس کے دوش پر سوار ہو کر وہ یادِ محبوب کا سفر کرتے ہیں ۔ غرض کہ آپ کی غزلوں کا معنوی پہلو بڑا لطیف اور طرب انگیز ہے :
تیرے میکدے میں ساقی یہی دل کی آرزو تھی
کہ ملے وہ جامِ رنگیں مجھے جس کی جستجو تھی
جو گلی میں تیری ہوتا میں ذلیل و خوار و رسوا
مجھے عار کچھ نہ آتی مری اس میں آبرو تھی
میرے دل میں تیری صورت نے جمایا ایسا نقشہ
کہ جدھر نظر اٹھائی تیری شکل روبرو تھی
تیرے دھیان میں ہم ایسے ہوئے بے خبر کہ اصلا
نہ رہا خیال اپنا نہ کہیں خودی کی بو تھی
میں ترے فدا تصور کہ دکھائی اس کی صورت
مجھے جس کی جستجو تھی مجھے جس کی آرزو تھی
کیا کس نے کل رقیبوں سے بیاں ہمارا شکوہ
پسِِ پردہ سن رہے تھے جو تمہاری گفتگو تھی
وہ جمالِ بے مثالی جوں ہی اشرفؔی نے دیکھا
ہوا ایسا بے خودی میں کہ رواں صدائے ہُوْ تھی
یہ صوفیانہ غزل بھی چشمِ بصیرت سے پڑھنے کے لائق ہے ۔ غزل کا سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ یہ حمدیہ غزل ہے یا پھر اس میں آپ نے اپنے شیخ و مرشد سے خطاب کیا ہے ۔ مقطع منقبت کا ہے ۔ غزل سادہ و سلیس اور برجستہ ہونے کے ساتھ تغزل کی خوب صورت مثال ہے :
میرے دل میں سمایا تو ہے
کوئی تجھ سا نہیں خوش رو ہے
آنکھ ملا کے دل کو چھینا
تیری نظروں میں جادو ہے
" فی انفسکم " سے ہم نے جانا
جو کچھ ہے وہ اللہ ہُوْ ہے
قولِ منصورؔ اب ہے لب پر
دل پہ نہیں مجھ کو قابو ہے
" انا اشرف " جب بولا اشرفؔی
پھر اب کس کی جُست و جُو ہے
غزل کے عام مضامین و موضوعات کو آپ نے تغزلانہ انداز اور سرمستانہ لہجے میں بیان کیا ہے ۔ آپ کے اسلوب کی دلکشی اور پیرایۂ بیان کی طرفگی قابلِ دید اور لائقِ داد ہے ۔ غزل کے پامال موضوع کو بھی آپ اپنے شستہ اور شائستہ اسلوب کی چاشنی سے نیا بنا دیتے ہیں ۔ آئینۂ دل میں تصویرِ یار نظر آنے والی بات بہت پرانی ہے ۔ یوں ہی حسیناؤں اور مہوشوں کی تیغِ نگاہ سے دل کا گھائل ہو جانا اور آنکھیں چار ہونے سے دل کا بیتاب ہونا ٬ عام سی بات ہے ۔لیکن ان دونوں مفہوم کو اپنے خاص غزلیہ لہجے میں جب آپ بیان کرتے ہیں تو ان کے اندر نئے پن کا احساس ہوتا ہے اور یہ بات شاعرانہ کمال کی دلیل ہے ۔ حسبِ سابق آپ کی یہ غزل بھی لطافت و نفاست اور جذب و تاثیر کی منہ بولتی تصویر ہے :
دل میں جھلک تمہارے رخِ پُر ضیا کی ہے
ذرّہ میں آفتاب یہ قدرت خدا کی ہے
جس پر نظر پڑی اسے بیتاب کر دیا
جادو ہے سحر ہے تیری چتون بلا کی ہے
تم ہم سے کیوں الجھتے ہو زلفیں بکھرنے پر
میری خطا نہیں ہے یہ شوخی صبا کی ہے
جب سرِّ " اینما " نے کیا اپنا کچھ ظہور
جو شکل دیکھی سمجھے یہ صورت خدا کی ہے
آے اشرفؔی نہ کیوں ہو جہاں تیرا شیفتہ
صورت میں تیری شکل کسی دل رُبا کی ہے
چوتھا شعر تلمیحی ہے اور عارفانہ رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔ اسی طرح دوسرے شعر کا دوسرا مصرع " جادو ہے ٬ سحر ہے ٬ تری چتون بلا ہے " سلاست و برجستگی کا خوب صورت مرقع ہے ۔ مطلع بھی لا جواب ہے ۔ اسی طرح درج ذیل کلام مواد و ہیئت ٬ زبان و بیان اور ندرتِ اسلوب کے اعتبار سے قابلِ مطالعہ ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ دوسرے شعر کا دوسرا مصرع " میرے مژگاں کی ترے روزن پہ چلمن چاہیے " تعبیر کی عمدگی کی اچھوتی مثال ہے ۔ نیز یہ مصرع " عاشقی کے واسطے دانائے ہر فن چاہیے " بڑا عمدہ اور معنویت سے پُر ہے ۔ غزلیاتِ اشرفؔی کا غائرانہ مطالعہ اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ آپ غزل کے مقتضیات اور ان کے فنکارانہ استعمال سے بخوبی واقف ہیں ۔ اس قسم کی بلند پایہ شاعری ایک بلند پایہ شاعر ہی کر سکتا ہے ۔ بیسویں صدی کے ممتاز غزل گو شعرا میں آپ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔ اشعار ملاحظہ ہوں :
طائرِ جاں کے لیے عمدہ نشیمن چاہیے
بہرِ دفعِ وحشتِ دل سیرِ گلشن چاہیے
کوئی دیکھے گا اگر تجھ کو نظر لگ جائے گی
میرے مژگاں کی ترے روزن پہ چلمن چاہیے
زلفِ پیچاں کے تصور میں بڑھا جوشِ جنوں
تیرے وحشی کے لیے زنجیرِ آہن چاہیے
کیسی کیسی مشکلیں آتی ہیں راہِ عشق میں
عاشقی کے واسطے دانائے ہر فن چاہیے
جلوۂ جانانہ ہے ہر سو عیاں اے اشرفؔی
نورِ باطن دیکھنے کو قلبِ روشن چاہیے
غزل ٬ رمز و ایما کا فن ہے ٬ جس میں تشبیہ و استعارہ کا ہنرمدانہ استعارہ کلام میں دلکشی میں اضافے کا موجب بنتا ہے ۔ اشرفؔی میاں کی غزل گوئی " آہ " بھرنے والی شاعری ہے اور " واہ واہ " کا خراج وصول کرنے والی شاعری ہے ۔ ذیل کی غزل میں حسنِ تشبیہ اور لطفِ استعارہ کا حسین سنگم نظر آتا ہے ٬ جو اہلِ ذوق اور اہلِ نظر سے مخفی نہیں ۔ نیز ایک ہی مصرع میں متصلاً " کُو کُو و کو بہ کو " کی تکرار نے شعر میں غنائیت بھر دی ہے ۔ راقم کی نظر میں یہ غزل آپ کی منتخب غزلوں میں سے ایک ہے :
چشمِ جاناں ہے شبیہِ چشمِ آہو ہو بہو
عنبریں ہیں کاکلِ شبرنگ کے مُو مُو بمُو
مست ہوگا ایک عالم مثلِ آہوئے ختن
اے صبا مت کر پریشاں بوئے گیسو سو بہ سو
عشقِ سروِ قدِّ جاناں میں ہے عاشق کا یہ رنگ
کر رہا ہے فاختہ کے مثل کُو کُو کُو بہ کُو
قتل کا گر ہے ارادہ دیر کیوں کرتے ہیں آپ
دیکھیے موجود ہے یہ تیغِ ابرو روبرو
اشرفؔی للہ سمجھے ان بتوں کے ظلم سے
آنکھ دکھلانے ہی میں کرتے ہیں جادو دو بدو
پیکر تراشی :
پیکر تراشی ایک ایسا الہامی نزول ہے جس کا زیادہ تر حصہ لاشعوری ہوتا ہے اور وہ اس وقت ورود کرتا ہے جب شاعر کے جذبات بامِ عروج پر ہوتے ہیں ۔ یہ شاعری کا وہ طاقت ور لسانی عنصر یا اثر آفریں صورتِ اظہار ہے جو شاعر کے مافی الضمیر کو سامع و قاری کے ذہن پر پوری طرح منکشف کر دیتا ہے اور جس سے تصور و خیال کی چلتی پھرتی تصویریں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں ۔ پیکر ( image ) کے لغوی معنی " شکل و صورت اور ہیئت و شباہت " کے ہیں ۔ اصطلاحِ شعر و ادب میں پیکر یا پیکر تراشی کا مفہوم یہ ہے : اشیا کی مشابہت جو صرف ذہنی تصویریں پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتی ، بلکہ زبان کے فنکارانہ استعمال سے جذبات و خیالات ، تصورات و اعمال اور اشیا کے حسی و ماورائے حسی تجربات کو محسوس و مدرک اجسام میں بھی بیان کرتی ہے ۔ بیان کے لحاظ سے پیکر کی تین قسمیں ہیں : حقیقی پیکر ، ادراکی پیکر ، تصوراتی پیکر ۔ غالبؔ کا مشہورِ زمانہ شعر ہے :
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
" چمن میں جا کر نالہ کرنا " حقیقی پیکر ہے اور چمن میں جانے سے " دبستاں کا کھل جانا " ادراکی پیکر ہے اور " بلبلوں کا غزل خواں ہونا " تصوراتی پیکر ہے ۔ پیکر کی زبان خالص ادبی اور شعری زبان ہوتی ہے ، جو قاری یا سامع کے حواسِ خمسہ کو متاثر کر کے اس کے ذہن و فکر میں مشابہ پیکر تخلیق کرتی ہے ۔ غالبؔ کا یہ شعر بھی پیکر تراشی کی بہترین مثال ہے :
چِپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے
شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر اقبالؔ کو پیکر تراشی کے فن میں مہارتِ تامہ حاصل تھی ۔ وہ کہتے ہیں :
برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
اردو شاعری میں پیکر تراشی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہ ملکہ ہر شاعر کو حاصل نہیں ہوتا ۔ آسان لفظوں میں پیکر تراشی کا مطلب ہے : لفظوں کے ذریعے کسی تصور یا خیال کو اس طرح پیش کرنا کہ اس کی شکل و صورت سامنے آ جائے ۔ نعتیہ شاعری میں پیکر تراشی کے نمونے کم پائے جاتے ہیں ۔ ہاں ! امام احمد رضا خاں بریلوی اور محسنؔ کاکوروی کے نعتیہ کلام میں اس کی کثیر مثالیں موجود ہیں ۔ پیکر تراشی کے قابلِ قدر نمونے دبیرؔ و انیسؔ کے مرثیوں میں بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ پیکر تراشی سے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؔ محدث بریلوی کا یہ شعر دیکھیں :
سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول
پیکر تراشی ، شاعری کا جزوِ لا ینفک ہے ۔ اس عمل سے شعر کے حسن و دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے اور قارئین و سامعین متاثر ہوتے ہیں ۔ حضور اشرفؔی میاں کی بالیدہ فکر اور بلاغت آشنا قلم نے اپنے خیابانِ سخن میں منظر نگاری کے علاوہ پیکر تراشی کے نوع بہ نوع پھول سجائے ہیں ۔ پیکر تراشی کا یہ انداز دیکھیں :
شہِ خوبانِ من رنگیں قبا نازک ادا دارد
ہہر غمزه بہر عشوہ جہانے مبتلا دارد
بصد ناز و کرشمہ شوخیِ لا انتہا دارد
دلِ عشاق پامالِ خرامِ نازہا دارد
نہ در علم نظیرِ صورتش موجود و نے ممکن
چه گویم و صفِ حسنِ او کہ از خوبی چہا دارد
نگردد چوں فدایش عالمے کز بہرِ تسخیرے
قدِ رعنا ٬ رخِ زیبا ٬ جمالِ دل ربا دارد
بہ رقصم جاں فدا سازم بہ زیرِ پائے او خنداں
اگر از خواہشِ خود یار من قتلم روا دارد
مپرس از اشرفؔی احوالِ او در عشقِ تو چوں است
کہ آں بے چاره اندر سینہ دردِ لا دوا دارد
سہلِ ممتنع
سادگی و صفائی اور سنجیدگی و برجستگی کے علاوہ " سہلِ ممتنع " بھی آپ کی غزلوں کی ایک بڑی خصوصیت ہے ۔ آپ جو کچھ کہتے ہیں نہایت آسان اور سادہ لب و لہجے میں کہتے ہیں ۔ تکلفات و تصنعات اور بیجا تشبیہات و استعارات سے آپ اپنے کلام کو بوجھل نہیں کرتے ہیں ۔ آپ کے بعض کلام " سہلِ ممتنع " کے زمرے میں داخل ہیں ۔ مثلاً :
سلامت رہو میرے سر پر سلامت
ہمیشہ رہو سایہ گستر سلامت
رہے گا جو قاتل ترا گھر سلامت
نہ جائے گا لے کر کوئی گھر سلامت
مقابل میں اُس تیغِ ابرو کے آ کر
نکل جائے کیوں کر کوئی سر سلامت
پھنسا مرغِ دل دامِ گیسو میں ایسا
کہ ممکن نہیں ہووے جانبر جانب سلامت
جفا پر تمہاری دعا کر رہے ہیں
رہے شاد و خرّم ستم گر سلامت
سمائے نگاہوں میں ایسے کہ ہر سو
تمہیں تم ہو اے بندہ پرور سلامت
دلِ اشرفی باتوں باتوں میں چھپنا
رہے تا ابد میرا دلبر سلامت
معزز قارئین ! مذکورہ بالا صفحات میں حضور اشرفؔی میاں کی غزل گوئی اور اس کے متعلقات و لوازمات پر مختلف زاویے سے گفتگو کی جا چکی ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بتا دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نعت و غزل گوئی میں فصاحت و بلاغت اور اصلیت و جوش وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ٬ جو ادبی و لسانی نقطۂ نظر سے شاعری کے لیے امورِ ضروریہ میں سے ہیں ۔ آپ کی نعوت و مناقب اور غزلیات میں یہ چاروں چیزیں بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔ بلاغت ٬ اصلیت اور جوش کا مفہوم بیان کرتے ہوئے خلیفۂ اشرفؔی میاں ٬ علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
بلاغتؔ یہ ہے کہ کلام وقت اور حال کے مطابق ہو ۔ انسان میں گوناگوں خیالات و جذبات پائے جاتے ہیں ۔ کبھی غم و غصہ ہے اور کبھی مسرت و مہربانی ۔ ایک وقت بیتابی و بیقراری ہے تو دوسرے وقت راحت و سکون ۔ کبھی مستی و مدہوشی ہے اور کبھی باخودی و ہوشیاری ۔ پس جس حالت و کیفیت کا بیان ہو ، کلام اگر اس میں اس طرح ڈوبا ہوا ہے کہ کہنے والا کہہ رہا ہے اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے اس کا نقشہ کھنچا جاتا ہے ۔ تفصیل کی جگہ وضاحت ہے اور اجمال کی جگہ اختصار ، تو وہ کلام بلیغ کہلائے گا اور اسی کو " بلاغت " کہتے ہیں ........ اصلیت کے یہ معنی ہیں کہ جس چیز کا بیان ہو ، وہ باعتبارِ واقعہ یا شاعر کے عندیہ میں یا مخاطب کے عقیدے میں ویسا ہی ہو ، جیسا کہ اس کے الفاظ اس کو کہہ رہے ہیں اور اگر ( وہ کلام و بیان جو شاعر پیش کر رہا ہے ) ایسا نہیں ہے تو کلام کا اس قدر نقص اسے بے اثر بنا دے گا ۔ جوشِ بیان کے یہ معنی ہیں کہ شعر سن کر یہ اثرا پیدا ہو کہ مضمون نے شاعر کو ( شعر کہنے پر ) مضطر کر دیا ہے ، شاعر نے از خود مضمون نہیں لایا ہے ۔ یہ وہ امورِ جزئیہ ہیں جن سے شعر کا آب و رنگ کھلتا ہے اور زبانوں سے نکل کر دلوں کو تڑپا دیتے ہیں ۔
(مقدمۂ مثنوی ہشت بہشت ، ص : ۸ / ۱۰ ، نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی ، لاہور)
مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں حضور اشرفؔی میاں کے کسی بھی نعتیہ یا غزلیہ کلام کا آپ جائزہ لیں ٬ فصاحت و بلاغت اور اصلیت و جوش ہر جگہ اپنا جلوہ دکھاتے نظر آئیں گے ۔