Type Here to Get Search Results !

اشرفؔی میاں کچھوچھوی کی اردو نعتیہ شاعری


اشرفؔی میاں کچھوچھوی کی اردو نعتیہ شاعری 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم : طفیل احمد مصباحی (
سابق مدیر ماہنامہ اشرفیہ ٬ مبارک پور ٬ اعظم گڑھ)
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
چودہویں صدی ہجری کے نعت نگاروں میں مرشد الانام ٬ شیخ المشائخ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں قدس سرہ کی شخصیت بڑی دل آویز ٬ ہمہ گیر ٬ جاذبِ نظر اور پُر کشش ہے ۔ آپ کے ذہن میں بلا کی وسعت اور ہمہ گیری پائی جاتی ہے ٬ جس کا انتہائی تابناک پہلو یہ ہے کہ آپ کا قلب اور قلم عشقِ رسول ﷺ میں سرشار نظر آتا ہے ۔ " تحائفِ اشرفی " آپ کے خامۂ اعجاز رقم کی خوب صورت شعری یادگار ہے ٬ جس میں عقیدے کی صلابت کے ساتھ عشق و عقیدت کی شدت بہر گام نظر آتی ہے ۔ نقّادانِ فن اور علما و مشائخ نے آپ کی صوفیانہ شاعری و نعت گوئی کی دل کھول کر پذیرائی کی ہے ۔ آپ کی نعتیہ شاعری کا فکری و فنی اختصاص قابلِ قدر ہے ۔ آپ کی نعتیہ شاعری حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بے پناہ عقیدت کا مظہر ہے ۔ انہوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل و محامد اور عادات و صفات کو جس عقیدت اور فنکارانہ جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے ٬ وہ ان کے عشق کی شدت اور جذبے کی صداقت کے آئینہ دار ہیں ۔ آپ کی نعتیہ شاعری فن کے سانچے میں ڈھل کر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت ٬ سیرت اور محبوبیت کی شان لے کر ابھرتی ہے ٬ جو قارئین کو ایک مخصوص اور والہانہ کیفیت عطا کرتی ہے ۔ محبتِ رسول و عشقِ شہِ کونین ﷺ ہی ان کے جذبات و احساسات اور خیالات کا اصل مرکز و محور ہے ۔ آپ کا دربارِ فیض بار میکدۂ عرفان و آگہی تھا ، جہاں بادہ گسارانِ طریقت کا ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا ۔ آپ صوفیائے متقدمین کی روش کو اپناتے ہوئے شاعری بھی کیا کرتے تھے اور آسان لب و لہجہ میں خالص عالمانہ و عارفانہ کلام موزوں کیا کرتے تھے ۔ آپ کے محبوب مرید اور مشہور مبلغِ اسلام حضرت مولانا غلام بھیک نیرنگؔ اشرفی ( وکیل انبالہ ) نے کے آپ کے شعری دیوان مرتب کر کے ۱۳۳۳ ھ میں " تحائفِ اشرفی " کے نام سے شائع کیا ۔ تحائفِ اشرفی کے " نعتیہ نقوش " عشاق مصطفیٰ ﷺ کے لیے وقیع سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
معیاری شاعری کی پہچان یہ ہے کہ اس میں ذہن و فکر کو اپیل کرنے اور تارِ روح کو جھنجھوڑنے کی بھر پور صلاحیت ہو ۔ ادھر شاعر کی نوکِ خامہ اور نوکِ زبان سے شعر ادا ہو ٬ ادھر قاری و سامع کے لبوں پر " مرحبا صد آفریں " اور " آہ و واہ " کے ترانے مچلنے لگیں ۔ نعت کے معیار کو ادبی و فنی نقطۂ نظر سے بھی پرکھا جاتا اور جذبہ و احساس کی برانگیختگی کے لحاظ سے جانچا جاتا ہے ۔ ادبی طبقے کی یہ دھاندلی اور ایک قسم کی محرومی ہے کہ وہ نعت میں ادبی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کو صرف اظہارِ عشق و عقیدت کا ذریعہ گردانتے ہیں ۔ ادب ادب ہے ٬ چاہے اس کا وجود کسی صنفِ سخن میں ہو ۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ " الناس اعداء ما جھلوا " ۔ انسان جس چیز کو نہیں جانتا ہے ٬ وہ اس کے ساتھ دشمنی کی حد تک برتاؤ کرتا ہے ۔ لیکن انصاف پسند ناقد ٬ جو فن پارہ کو کسی خاص عینک سے دیکھنے کا عادی نہیں ہوتا ٬ اس کو تقدیسی شاعری میں بھی ادبی معیار کی پرچھائیاں نظر آ جاتی ہیں ۔ استاذ الشعراء پروفیسر رانا غلام محیی الدین صاحب ( اوکاڑہ ٬ پاکستان )
مسلمان ہونے کے ناطے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس سے والہانہ محبت ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے ، سو ہر شاعر ان کی مدحت میں شعر کہنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے ۔ بہت سے غیر مسلم شعرا نے بھی آں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بارگاہ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے ۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو میں بھی نعت گوئی کو ایک باقاعدہ صنف کی حیثیت حاصل ہے ۔ عہدِ حاضر میں بھی بہت سے شعرا ایسے ہیں جنھوں نے اپنے فن کو سرکارِ دو عالم ﷺ کی ثنا کے لیے وقف کر رکھا ہے ......... میرے نزدیک نعت کے معیار کو اس کی ادبی حیثیت سے جانچنا ایک قطعی مختلف عمل ہے ٬ جس میں اشعار کو فنِ شعر گوئی کے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اس کے ادبی معیار کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن جذباتی سطح پر اسے جانچنے کا حق صرف قاری کو حاصل ہے ۔ کیوں کہ یہ معاملہ شاعر اور اس کے ممدوح کے درمیان مؤدت و محبت اور عقیدت کے جذبات کی گہرائی کا ہے ٬ سو نعت کے اشعار اگر قاری کے وجدان اور روح کو سیراب کرنے اور اس پر وجد کی کیفیت طاری کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ صحیح معنوں میں معیاری نعت کہلانے کی مستحق ہے ۔ 
حضور اشرفؔی میاں کی شاعری اور بالخصوص نعت گوئی میں یہ وصف علیٰ وجہ الکمال موجود ہے ۔ ان کی نعت گوئی معیاری شاعری کا دلکش نمون ہے۔ انہوں نے عشق و وارفتگی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب کر نعت کے گوہرِ آب دار برآمد کیے ہیں اور بڑے سلیقے سے قارئین کے سامنے پیش کیے ہیں ۔ حضرت کی تخلیق کردہ نعوت کا مطالعہ قاری پر ایک روحانی اور وجد آفریں کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔ ان کے نعتیہ کلام میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کے ساتھ ساتھ عجز و انکسار کے جذبات اس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں کہ جیسے جسم میں روح ۔ ان کی نعت کے ہر شعر سے جذبۂ عشق کا والہانہ پن مترشح ہوتا ہے ۔ وہ جذبوں کی شدت کو بڑی سہولت سے سادہ زبان اور سنجیدہ لہجے میں سمو دینے کا فن خوب جانتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ وہ اس معزز خانوادے کے رکنِ رکین ہیں ٬ جس کی دہلیز علم و حکمت پر شعر و ادب ہاتھ باندھے چاکری کرتے نظر آتے ہیں ۔ سوز و گداز ٬ درد و کرب اور اضطراب و التہاب سے معمور آپ کے مندرجہ ذیل اشعار عشاق کے دلوں کو تڑپا دیتے ہیں : 
دل پہ غم نے پھر لگایا زخم کاری یا رسول 
درد میں اب حد سے گذری بے قراری یا رسول 
ہائے خواہش ہی مرے دل کو مدینے کی رہی
کٹ گئی حسرت میں اپنی عمر ساری یا رسول
آپ کی فرقت خزاں ہے نخلِ دل کے واسطے
آپ کا دیدار ہے فصلِ بہاری یا رسول
اب مریضِ عشق پر اپنے کرم فرمائیے 
ہجر میں کب تک کروں میں اشک باری یا رسول 
دل میں ہے شوقِ زیارت کیا کروں مجبور ہوں
رات دن کرتا ہوں غم میں آہ و زاری یا رسول 
قافلے ہر سال جاتے ہیں مدینے کی طرف
میری کب آئے گی واں جانے کی باری یا رسول
اشرفؔی شوقِ زیارت میں تڑپتا ہے مدام 
صدمۂ ہجراں سے ہے اب جان عاری یارسول
اشرفؔی میاں کے کلام میں عشقِ رسول ﷺ کی ضیا پاشیاں
شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبالؔ کہتے ہیں
 کہ میری شاعری میں کاملیت کا عنصر صرف عشقِ رسول ﷺ سے میسر ہوا ہے ، ورنہ مجھ بندۂ ناچیز کی کیا اوقات کہ جس پر شاعری فریفتہ ہو ۔ عشقِ رسول ﷺ کا حاصل کیا ہے ٬ اسے اقبالؔ نے بیان کر کے گویا سمندر کو کوزے میں سمو دیا ہے : 
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ڈاکٹر اقبالؔ کے یہاں عشق سے مراد ایمان و یقین اور تسلیم و اطاعت ہے ۔ ایمان کا پہلا جُز " لا الہٰ الا اللہ " اللہ رب العزت کی الوہیت و وحدانیت کا اقرار ہے اور اس پر شدت سے یقین ہے ، اس شدت کو صوفیائے کرام نے عشقؔ سے تعبیر کیا ہے ۔ عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سمجھاتی ہے ، لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے وہ عشق ہے ۔ 
عقل ہے تیری سِپر ٬ عشق ہے شمشیر تری 
میرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تری 
ُڈاکٹر اقبالؔ کہتے ہیں کہ اپنے اعمال و اشغال کی بنیاد عقل کے بجائے عشق پر رکھو ٬ کیوں کہ عقل کا کام بیجا تنقید کرنا ہے ۔ 
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں 
 عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ 
 مرشدِ اقبالؔ پیر رومؔی کے بقول :
عقل قبر سے آگے نہیں دیکھ سکتی ٬ قبر سے آگے عشق کا قدم اُٹھتا ہے اور سچا عشق بندۂ مومن کو ایک جست میں زمان و مکان کی سرحدوں کو روندتا ہوا لا مکاں کی سیر کرا دیتا ہے ۔ اسی لیے اقبالؔ کہتے ہیں : 
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی نعتیہ شاعری عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پوری طرح ڈوبی ہوئی ہے ۔ آپ کی نعت گوئی میں ایک مرغِ بسمل کی تڑپ جا بجا محسوس کی جا سکتی ہے ۔ نعت میں آپ کا تغزلانہ لہجہ آپ کے جذبِ دروں اور باطنی کسک کو اجاگر کرتا اور حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آپ کی شدید محبت و وارفتگی کو ظاہر کرتا ہے ۔ آپ کے مذکورہ بالا نعتیہ کلام عشق رسول ﷺ کے جلوؤں سے پوری طرح معمور ہے ۔ یہ کلام بھی ملاحظہ کریں کہ آپ کس طرح مدینے کی یاد میں مضطرب ہیں اور ایک عاشقِ صادق کی طرح فریاد کر رہے ہیں : 
دل کو حسرت ہے مدینے میں پہنچ جاؤں میں 
درِ محبوب انہیں آنکھوں سے دیکھ آؤں میں
یہ مقدر ہے یہاں بیٹھ کے پچھتاؤں میں
سینکڑوں جائیں چلے راہ میں رک جاؤں میں
مجھ سے پوچھے جو کوئی شورشِ ہجراں کا حال
رو کے بس آبلۂ دل اسے دکھلاؤں میں
الغیاث اے مرے محبوبِ خدا سرورِ دیں
 حکم کر دیجیے جلدی سے چلا آؤں میں
اب نہیں تاب کہ میں صبر کروں ہجراں میں
دلِ رنجیدہ کو کس طرح سے سمجھاؤں میں 
میرے آقا میرے مولا میری لو جلد خبر
آستانے پہ تو مدفن کی جگہ پاؤں میں
قبر میں اشرفؔیِ زار کے پاس آ جانا
وہ مکاں تنگ ہے وحشت سے نہ گھبراؤں میں
 یہ خوب صورت اور دل پذیر اشعار بھی دیکھیں کہ کس قدر عشق و وارفتگی کے غماز ہیں : 
جب کوہِ مفرّح سے وہ روضہ نظر آیا 
 تسکینِ دلِ زار کا نقشہ نظر آیا 
 وہ روضۂ شاہنشہِ طٰہٰ نظر آیا
یا جنتِ ماویٰ کا بھی ماویٰ نظر آیا  
آنکھوں نے کسی کو جو نہیں خواب میں دیکھا 
 وہ قدرتِ خالق کا تماشا نظر آیا 
عشاق چلو روضۂ محبوبِ خدا میں 
 لو دور سے وہ قبّۂ خضریٰ نظر آیا 
اے اشرفؔیِ زار کہوں تجھ سے میں کیوں کر 
ان آنکھوں سے اس دم مجھے کیا کیا نظر آیا
نعت کی عمارت عشق کی بنیاد پر استوار کی جاتی ہے ۔ شاعر کا دل جب تک عشقِ رسول ﷺ کا مدینہ نہ بنے ٬ نعت وجود میں نہیں آ سکتی ۔ عشق جتنا سچا اور گہرا ہوگا ٬ نعت کے اشعار اتنے ہی اعلیٰ ٬ معیاری اور پائدار ہوں گے ۔ عشقِ مصطفائی اور محبتِ رسول ﷺ کا پاکیزہ اظہار نعت کا اہم موضوع و پہلو رہا ہے ۔ چنانچہ ایسی نعت جس میں حضور اکرم ﷺ کی ذات و صفات ٬ آپ کی سیرت و سنت ٬ آپ کے خاندان اور آپ کے صحابۂ کرا سے محبت کا اظہار ہو " عشقیہ نعت " کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس قسم کی نعتوں میں مدینہ سے دوری پر بے چینی ، روضۂ رسول ﷺ پر حاضری کی آرزو ، مدینہ جانے والوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھنا ، مدینے میں مرنے اور وہاں کی مٹی میں دفن ہونے کی آرزو ، مدینہ کی پُر فضا ہواؤں کا ذکر ، عشقیہ نعت کے موضوعات ہیں ۔ اس قسم کی نعتوں میں شاعر عشق محمدی ﷺ میں ڈوب کر جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔ عشقیہ نعت کا یہ قابلِ قدر اور فرحت آمیز نمونہ ملاحظہ فرمائیں : 
یا الہٰی ! درِ احمد پہ اجل آئے مری
آرزوئے دلِ حسرت زدہ برآئے مری
آپ کے عشق میں یہ جان جو کام آئے مری
آن کی آن میں بگڑی ہوئی بن جائے مری
اے شہِ ہر دوسرا فخر ہو مرنے پہ مجھے
آپ کے کوچے میں گر جان نکل جائے مری
جیتے جی شاق ہے طیبہ سے نکلنا مجھ کو
اب جو آؤں تو مرے ساتھ ہی موت آئے مری
پیچھے پھر پھر کے مدینے کی طرف دیکھتا ہوں
دیکھیے کب مجھے تقدیر یہاں لائے مری
یہ تمنا ہے کہ حاصل ہو حضوری مجھ کو
 ان کے دربار میں عرضی کوئی پہنچائے مری
اشرفؔی کیوں نہ ہو وہ میری طرح سے بیتاب
 دردِ دل کی جو کہانی کوئی سُن جائے مری
حالیؔ و اقبالؔ و دیگر شعرا کی طرح حضور اشرفؔی میاں کی نعت میں بھی عصری آگہی ، اجتماعی مسائل اور ملی شعور کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں اور وہ عصرِ حاصل کے سلگتے مسائل کا تصفیہ کرانے بارگاہِ رسول ﷺ میں حاضری دیتے ہیں اور کہتے ہیں : 
دشمنانِ دیں ہیں غالب آج کل
ڈالتے ہیں نیک کاموں میں خلل
 رات دن ہے شیوۂ کذب و دغل 
  آپ چاہیں تو بلا جائے یہ ٹل
یا رسول الله انظر حالنا
یا حبیب الله اسمع قالنا
فوجِ اعدا ہر طرف سے ہے دواں
 ایک عالم ہے مرا ایذا رساں
  اے مدد گارِ غریب و بیکساں
ظالموں کے ہاتھ سے دیجے اماں
 یا رسول اللہ انظر حالنا
 یا حبیب اللہ اسمع قالنا
شاعری ٬ شیشہ گری و مرصع سازی کا فن ہے ٬ لیکن نعت گوئی اس سے کہیں زیادہ عرق ریزی کا کام ہے ۔ یہ مبارک صنفِ سخن شیشہ گری ، ادب آموزی اور عشق آفرینی کا فن ہے ، جو محض اوزان و بحور کی پابندی ، الفاظ و معانی کے حسنِ انتخاب ، ردائف و قوافی کے مناسب ، بر محل اور خوب صورت استعمال یا زبان و بیان کے مروجہ اصولوں کی پاس داری کا نام نہیں ۔ نعت گوئی کے لیے ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزیں درکار ہیں ۔ زبان و بیان کے مروجہ اصول و آداب کی رعایت کے علاوہ الفاظ کے انتخاب اور چناؤ میں شانِ رسالت کا حد درجہ پاس و لحاظ ، معانی میں طہارت و نفاست ، بیان میں صداقت و خلوص ، گہری معنویت ، تہہ داری ، ممدوحِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا عظمت و رفعت کا شدید عرفان و احساس ، عشق و عقیدت ، ربودگی و شیفتگی ، فکر کی پاکیزگی ، روانی ، جوش ، ولولہ ، امنگ ، کسک ، سوزِ دروں ٬ اضطراب و التہاب اور ان تمام عناصر کے مابین ربط و ہم آہنگی بھی ضروری ہے ، تب کہیں اعلیٰ درجے کی نعتیہ شاعری وجود میں آتی ہے اور وہ شاعری ادبی تقاضوں کے عین مطابق شمار کی جاتی ہے ۔ اسی لیے بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ " نعت گوئی چاول پر قل ھو اللہ احد لکھنے کا فن ہے " ۔
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں جامعِ شریعت و طریقت تھے ۔ نعت گوئی کے اصول و آداب سے کما حقہ آشنا تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نعتیہ کلام میں کہیں بھی کوئی شرعی سقم یا حزم و احتیاط کے خلاف کوئی شعر یا مصرع نظر نہیں آتا ۔ آپ کی نعتیہ شاعری غزل اور تغزل کا نمونہ ہونے کے با وجود دائرۂ شریعت سے باہر قدم نہیں بڑھاتی ۔ آپ نے ممدوحِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے محاسن و کمالات اور نعت سے متعلق جس قسم کے موضوعات پر طبع آزمائی ہے ٬ حزم و احتیاط کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا ہے ۔ آپ کی نعتیہ شاعری میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے ۔ ذکرِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سیرتِ طیبہ کے ساتھ نعت کا بڑا مشہور اور دلچسپ موضوع رہا ہے ۔ قصیدہ کے انداز میں آپ نے میلادِ محمدی ﷺ کا ذکرِ جمیل بڑے اچھوتے انداز میں کیا ہے : 
ہم اپنے باغِ طبیعت سے گُل کھِلاتے ہیں
ہزار نغمۂ بلبل زباں پہ لاتے ہیں
جو اپنا زورِ طبیعت کبھی دکھاتے ہیں
 تو ہر طرف سے صدا مرحبا کی پاتے ہیں
یہ کیا خوشی ہے کہ پھولے نہیں سماتے ہیں
یہ کس نوید پہ ہم کھِل کھِلائے جاتے ہیں
 یہ لُولیانِ فلک کیوں فلک پہ ہیں رقصاں
یہ کیوں نجوم کھڑے مشعلیں دکھاتے ہیں
 جہاں میں کون سلیماں شکوہ آتا ہے
 کہ مورچوں میں صدا ادخلو کی پاتے ہیں
 یہ کس کے رعب و جلالت سے آج زیرِ زمیں
 لحد میں رستم و سہراب تھرتھراتے ہیں
خبر یہ کس کی ولادت کی ہو رہی ہے بلند
ملک فلک سے بشارت سنانے آتے ہیں
 یہ کس نے ڈھنگ سکھایا خدا پرستی کا
بُتانِ دہر جو سجدے میں سر جھکاتے ہیں 
 نشانِ سبز کیے نصب سقفِ کعبہ پر 
 یہ جبرئیل بشارت کھڑے سناتے ہیں 
 محمدِ عربی ٬ خاتمِ رسل ٬ شہِ دیں
وہ شاہِ کون و مکاں اس جہاں میں آتے ہیں
نہ کیوں زمین کرے ناز عرشِ اعلیٰ پر 
حبیبِ حق کے قدم اس کے سر پہ آتے ہیں 
میں تیرے جوشِ طبیعت پہ اشرفؔی قرباں 
بیاں کے وقت یہ مضموں کہاں سے آتے ہیں
مدینۂ منورہ کا سفر ٬ گنبدِ خضریٰ کی زیارت ٬ سلطانِ کائنات علیہ افضل الصلوات کے درِ اقدس پر حاضری اور پھر دمِ رخصت عشاقِ نبی کی گریہ و زاری ٬ یہ تمام چیزیں نعت کے موضوعات میں شامل ہیں ۔ مسافرینِ مدینہ اور زائرینِ حرم میں حضور اشرفی میاں جیسے عاشقِ صادق بھی ہیں ۔ وہ بھی سلطانِ کائنات کی بارگاہِ ناز میں بہ صد عجز و نیاز حاضری دیتے ہیں اور مظہرِ حسنِ ازل کے جلوؤں کی خیرات اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے فیوضِ نبوی و برکاتِ مصطفوی سے خوب خوب مالامال ہوتے ہیں ۔ اب اس کے بعد ۱۸ / ربیع الاول ۱۳۳۰ ھ کی وہ اندوہ ناک تاریخ آ جاتی ہے ٬ جب ایک سچے عاشق کو کوچۂ جاناں چھوڑنا پڑتا ہے اور جدائی کا زخم سہنا پڑتا ہے ۔ آتشِ عشق میں ہر آن سلگنے والا عاشقِ شیدا ہجر و فرقت کے اس کرب کو برداشت نہیں کر پاتا ہے اور بے ساختہ پکار اٹھتا ہے : 
درِ محبوب سے ہوتے ہیں جدا آج کے دن 
دل سنبھلتا نہیں اپنا بہ خدا آج کے دن
نہیں طیبہ سے سفر پیش ہوا آج کے دن
میرے نزدیک ہوا حشر بپا آج کے دن 
 ہو کے رخصت درِ والا سے بہ صد نالہ و آہ 
 روتے جاتے ہیں غریب و فقرا آج کے دن
کوئی چوکھٹ پہ فدا کوئی ستوں کے صدقے
 لے رہا ہے کوئی پردے کی بلا آج کے دن
 دیکھ کر قبّۂ خضریٰ نظرِ حسرت سے 
سیکڑوں کرتے ہیں فریاد و بُکا آج کے دن
دیکھیے کب مرے سرکار بلاتے ہیں مجھے 
اب تو میں شہرِ مدینہ سے چلا آج کے دن 
کل خدا جانے کہاں صبح کہاں شام ملے
 عاشقو کھالو مدینے کی ہوا آج کے دن
 دمِ آخر جو مدینے میں پہنچ جاؤں میں
 سمجھوں مقبول ہوئی میری دعا آج کے دن
اشرفؔی کو دمِ رخصت درِ شاہانہ سے
 جو طلب کرتا ہے کر دیجے عطا آج کے دن
آپ کی نعت گوئی شعریت و شریعت سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ آپ کا نعتیہ اسلوب عارفانہ ہونے کے ساتھ غایت درجہ والہانہ و سرمستانہ ہے جیسا کہ مذکورہ بالا نعوت سے ظاہر ہے ۔ آسان اور سادہ لب و لہجے یہ نعت پاک بھی آپ کے جذبۂ کاملہ اور الفتِ وافرہ کی روشن مثال ہے :  
وصف ختمِ رُسل کا بیاں ہو گیا
حق عیاں حق عیاں حق عیاں ہو گیا
اُن کے حسنِ خدا داد کا ذکر سن
 دل تپاں دل تپاں دل تپاں ہو گیا
مدحِ سرور میں مرغِ چمن ذوق سے
نغمہ خواں نغمہ خواں نغمہ خواں ہو گیا
مصطفے کی صفت لکھتے لکھتے قلم
گل فشاں گل فشاں گل فشاں ہو گیا
اُن کی مدحت میں یہ عاجز و ناتواں
 لا بیاں ٬ لا بیاں ٬ لا بیاں ہو گیا
عشقِ احمد وصالِ خدا کے لیے
 نردباں نردباں نردباں ہو گیا
 نقشِ سُمِ براقِ نبی سے فلک
کہکشاں کہکشاں کہکشاں ہو گیا
 سن کے وصفِ جمالِ نبی دل مرا
 شادماں شادماں شادیاں ہو گیا
نام فرقت کا سنتے ہی یہ خستہ دل
 نیم جاں نیم جاں نیم جاں ہو گیا
اشرفؔی فیضِ نعتِ شہِ دین سے
 خوش بیاں خوش بیاں خوش بیاں ہو گیا
اشرفؔی میاں کی نعتوں کا تغزلانہ لہجہ
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی شاعری کا نمایاں ترین وصف تغزل اور سادگی ہے ۔ غزلیات کے علاوہ آپ کی نظم کردہ نعوت و مناقب میں بھی تغزل قدم قدم پر اپنا جلوہ دکھاتا ہے ۔ آپ کی تغزلانہ شاعری دلوں کے تار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اور قارئین و سامعین کو مسحور و متاثر کیے بنا نہیں رہتی ۔ تغزل ایک شعری اصطلاح ہے اور اس کیفیت کا نام ہے جو شاعری میں لطف و اثر اور حسن و درد پیدا کرتی ہے ۔ یعنی شاعری میں ایسا درد بھرا پیرایۂ بیان اختیار کرنا کہ سننے والا تڑپ اٹھے اور شعر براہِ راست جا کر دل پر لگے ۔ تغزل ٬ شعر کا وہ باطنی حسن ہے جو پڑھنے والے کی طبیعت میں ایک وجد آفریں کیفیت پیدا کرتا ہے اور وہ جھوم جاتا ہے ۔ اس کی شناخت ایک لحاظ سے مشکل ہے ۔ اسلوبِ بیان ، لب و لہجہ ، پیرایۂ غزل ، خیال انگیزی ، غنائی کیفیت ، بلاغت کا حسن اور تنظیمی جمال وہ عناصر ہیں جو غزل کو رعنائی و زیبائی بخشتے دیتے ہیں اور ان کا مجموعی تأثر " تغزل " کہلاتا ہے ۔ تغزل خالصتاً شعر کا باطنی حسن ہے اور اس کا تعلق قاری کے ذوق اور جمال آشنا طبیعت سے ہے ، یعنی یہ تمام عناصر مل کر قاری کو جمالیاتی آسودگی فراہم کرتے ہیں اور یہی تغزل کی پہچان ہے ۔ اہلِ ادب نے مولانا حسرت موہانؔی کے مندرجہ ذیل شعر کو " تغزل " کی واضح مثال کے طور پر پیش کیا ہے : 
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
 ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
 تغزل ایک طرزِ ادا اور مخصوص شعری اسلوب کا نام ہے جس کا تعلق معانی اور مواد سے ہے ۔ یہ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو دلی جذبات مثلاً : حسن و عشق وغیرہ کے جذبات کو ابھارتی ہے اور شعر کو مؤثر بناتی ہے ۔ تغزل سے شعر کے سادہ اور بے جان پیکر میں روح دوڑ جاتی ہے اور اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ " تغزل " کی بابت لکھتے ہیں :
تغزلؔ در اصل بیان کی دل آسا ٬ خیال انگیز اور درد مندانہ کیفیت کا نام ہے جو جذبات اور درد و شوق کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس کا اندازِ بیان رمزی اور ایمائی ہوتا ہے ۔ یہ شیریں سبک اور خیال انگیز لفظوں میں خاص طور سے جلوہ گر ہوتی ہے ۔ تغزل کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ اس سے امنگ آسودہ بھی ہوتی ہے اور ابھرتی بھی ہے ۔ تغزل اس صفت کا نام ہے جو قاری کے دل میں امید اور شکست کے ملے جلے جذبے کو ابھارے ۔ خالص نشاط یا شدید الم کی لے تغزل کے منافی ہے ۔ سخت و کرخت الفاظ ٬ شدید جذبات کے جھٹکے ٬ تند و تیز موسیقی ٬ بوجھل فکریت اور گراں بار حکمت بھی روحِ تغزل کے خلاف ہے ۔
(مباحث ٬ جلد دوم ٬ ص : ۲۶۷ ٬ ۲۶۸ ٬ مطبوعہ : دہلی) 
پروفیسر عنوان چشتی کے الفاظ میں " اگرچہ تغزل کی اصطلاح تعبیروں کی کثرت سے خواب پریشان بن چکی ہے ٬ پھر بھی اس کے دو مفہوم بہت واضح ہیں ۔ ایک یہ کہ تغزل کا تعلق معانی اور مواد سے ہے ٬ خاص طور پر اس کا دائرہ حسن و عشق پر محیط ہے ، دوسرا یہ کہ تغزل ایک طرزِ ادا یا رنگ ہے جس میں نغمگی ٬ نفاست ٬ لوچ اور نزاکت شامل ہے ۔ اگر تغزل کے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو تصویر مکمل ہو جاتی ہے " ۔
(آزادی کے بعد دہلی میں اردو غزل ٬ ص : ۱۷ ٬ ۱۸)
غزل گوئی کی طرح اشرفؔی میاں کی نعتیہ شاعری میں بھی " تغزل " کا وصف کافی نمایاں ہے ۔ مندرجہ ذیل نعت زبان و بیان اور اسلوب و ادا کا حسین مرقع ہونے کے ساتھ اپنے اندر تغزل کی بھرپور چاشنی رکھتی ہے : 
سرورِ انبیا ٬ مقتدا جانِ جاناں
 دلبرِ اولیا ٬ مہ لقا جان جاناں
اس طرح سے نظر میں سما جانِ جاناں
ہر طرف تو ہو جلوہ نما جانِ جاناں
 ما سوا بھول کر یاد ہو تیری باقی
میرے دل میں گھر اپنا بنا جانِ جاناں
ایسا جلوہ دکھا دو کہ موسیٰ کی صورت
ہو کے بیخود رہوں میں پڑا جانِ جاناں
حسنِ بے مثل پر تیرے شیدا ہوا ہے
 آپ ہی حضرتِ کبریا جانِ جاناں
ایک عالم زلیخا کی صورت فدا ہے
حسن میں تم ہو یوسف لقا جانِ جاناں
تم پر سو جان و دل ہوں تو قرباں کر میں 
 میرے نازک ادا ٬ دلربا جانِ جاناں
ایک نظر کر ادھر بھی خدا کے لیے
ہجر میں مر رہا ہوں جلا جانِ جاناں
یاد میں مصحفِ رخ کے وردِ سحر ہے
سورۂ شمس اور والضحیٰ جانِ جاناں
ہند سے پھر مدینے میں مجھ کو بلا کر
دیجیے دردِ دل کی دوا جانِ جاناں
پہلے کہتا تھا ہوں طالبِ وصل تیرا
اب تو مطلوب خود بن گیا جانِ جاناں
کس زباں سے کہوں کون ہوں اور کہاں ہوں
 تیرے جلوے نے کیا کر دیا جانِ جاناں
 اشرفؔی طالبِ گوہرِ مدعا ہے
 اے مرے بحرِ جود و سخا جانِ جاناں
اشرفؔی میاں کی نعتیہ شاعری کی چار نمایاں خصوصیات: 
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی شعری کائنات نوع بہ نوع ادبی اوصاف و خصوصیات کے جلوؤں سے مزین ہے ۔ یوں تو آپ کو شاعری کی مختلف اصناف پر قدرت حاصل تھی ٬ لیکن آپ نے غزل ٬ نعت اور منقبت میں خصوصیت کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے اور دین و مذہب کے علاوہ شعر و ادب کے فروغ و استحکام کی گراں قدر خدمت انجام دی ہے ۔ آپ کی شاعری کا عام رنگ صوفیانہ و عارفانہ ہے ۔ غزل و نعت و منقبت ٬ ہر جگہ آپ کا کلام اسی رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے ۔ ترنم و تغزل اور سادگی و صفائی میں آپ کی شاعری بے مثال ہے ۔ غزل کے علاوہ آپ کی نعت گوئی میں بھی یہی وصف نمایاں ہے ۔ ڈاکٹر سید امین اشرف کے بقول : اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں ایک ولیِ کامل ٬ واقفِ اسرار حقیقت و معرفت اور پیکرِ انوار و تجلیات تھے ۔ بعض اوقات کسی فن کار کی شخصیت کے مطالعہ سے اس کی شاعری کے بارے میں رائے قائم کرنا یا شاعری کے مطالعہ سے شخصیت کے بارے میں اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے ٬ مگر حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت کی شاعری اور شخصیت میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ 
جلوۂ جاناناں ہے ہر سو عیاں اے اشرفؔی 
 نورِ باطن دیکھنے کو قلبِ روشن چاہیے
اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں کی اردو شاعری کا نمایاں وصف تغزل ہے ۔ غزل میں شوخی ٬ بے احتیاطی اور تخیل کی رنگ آمیزی کا در آنا غزل کی روح اور ہئیت و معنویت کے عین مطابق ہے ۔ مگر اعلیٰ حضرت کے کلام کی خوبی یہ ہے کہ عشقِ رسول میں عقیدت و محبت کی فراوانی کے باوجود کلام میں بے اعتدالی ہے نہ تخیل کی نادرہ کاری ۔ آدابِ رسالت کو قدم قدم پر ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے ۔ دوسرے عشقِ رسول میں اظہار عقیدت ، شرعی حدود سے متجاوز نہیں ہوتی ۔ عبد اور معبود ، کبریا اور محبوبِ کبریا کا فرق صاف واضح ہے ۔ تیسرے اعلیٰ حضرت کا کلام محض زورِ قلم کا نتیجہ ہے نہ زورِ طبع کا ۔ یہ تو قلبِ عارف کی دھڑکن ہے ، وہ قلب جو سرکار مدینہ ﷺ کی محبت کا خزینہ بن چکا ہے ۔ ان کے نعتیہ اشعار اور قصائد کی فضا میں مذہبی جوش و خروش کی بلند صدائیں ہیں نہ بار یک علمی نکات ٬ ان کے نعتیہ اشعار عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے دل کی کیفیات اور ہجرِ نبی کے صدمات کا مظہر ہیں ۔ ان اشعار کی تہہ کا تلاطم دلکش ہے اور پر سکون بھی ۔ ان میں دل آویز ماورائیت ہے اور بے قرار دل کی تھرتھر اہٹ بھی ۔  
چوتھے یوں تو دو جہاں کے سردار ، آقائے نام دار ، احمدِ مختار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اوصاف احاطۂ بیان میں نہیں آ سکتے ٬ مگر اعلیٰ حضرت اشرفؔی میاں نے آپ کے اوصاف کے بیان میں انہیں الفاظ و تراکیب کا استعمال کیا ہے ٬ قرآن وحدیث سے جن کی سند ملتی ہے ۔ مثلاً : سرورِ انبیا ، رہبرِ اولیا ٬ حبیب خدا ، سرورِ دیں ٬ خاتمِ پیغمبراں ، کعبۂ دیں ، قبلۂ حاجات ٬ مامن و ماوائے غریباں ، مرجعِ قومِ جن و انساں ، سلطانِ زمین و زمن ، واسطۂ بخشش ، مرجعِ مخلوق خدائے جہاں ، مظہرِ حق ، واقفِ اسرارِ باطن و عیاں ، سیدِ عالم ، امی لقب ، عالی نسب ٬ آئینۂ حق الیقیں ، باعثِ پیدائش ہر جز و کل ، خیر الانام ، زینتِ ارض و سما ٬ سراجا منیرا ٬ احمد و محمد اور حامد و محمود وغیرہ ۔ اعلیٰ حضرت کے کلام کی ایک اجتہادی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو لب و رخسار کے دائرے سے نکال کر شاہدِ حقیقی اور محمدِ عربی سے محبت کے اظہار کا وسیلہ بنایا ۔ ان کے نعتیہ اشعار کی فضا متغزلانہ ہے ۔ اپنی ہیئت اور ترکیب و ساخت کے لحاظ سے بھی یہ اشعار غزل کے حسن میں آتے ہیں ۔ ان میں انہیں رموز و علائم اور تراکیب و استعارات کی لالہ کاری ہے جو روایتی غزل میں متحمل ہوتے رہے ہیں ۔ مثلاً : گل ، کہکشاں ، وصل ، ہجر ، گیسو ، جام ، ساغر ، شراب ، میکدہ قفس ، خزاں ، بہار ، شمع ، پروانہ ، صبا ، ساقی ، چتون ، جادو ٬ سحر ، شوخی ، گلی ، رقیب ، زاہد ، تیغِ ابرو ، کاکلِ مشکیں ، دامِ زلف ، طائرِ دل ، جنونِ عشق ، دلبرِ خوش خرام ، مہِ خوش رو ، پارهٔ دل ، رخِ انور ، قدِ رعنا ، آتشِ فرقت ، شورشِ ہجراں ، سیرِ گلشن ، چشمِ گریاں ، آہوئے ختن ٬ حلقۂ زنجیر ، زلفِ گرہ گیر ، بتِ بے پیر ، لبِ جاں بخش ، کوئے جاناں ، سنبلِ پیچاں ، چاک گریباں ، عاشقِ بے جاں ، خارِ مغیلاں ، لالہ و نسریں ، نرگس و ریحاں ، سنگِ آستاں ، جلوۂ جاناں ، بیاضِ مصحفِ رخ وغیرہ ۔
(مقدمہ تحائفِ اشرفی ٬ ص : ۲۲ ٬ ۲۳ ٬ ناشر : جامع اشرف ٬ کچھوچھہ مقدسہ)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area