ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ازقلم: حضرت شیرمہاراشٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجا نگر میراروڈ ممبئی
ازقلم: حضرت شیرمہاراشٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجا نگر میراروڈ ممبئی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
مفسر اعظم حضرت مفتی محمد احمد یارخاں نعیمی علیہ الرحمتہ والرضوان اعوذباﷲ پڑھنے کے مندرجہ ذیل نکتے بیان کرتے ہیں:
نمبر۱؎ :اعوذباﷲ پڑھنا گویا خلق سے خالق کی طرف رجوع کرنا ہے اور یہ تصوف کی پہلی سیڑھی ہے۔
نمبر۲؎: اعوذ پڑھنے میں اپنی مجبوری اور بے بسی کا اقرار ہے اور رب تبارک وتعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا اظہار اور یہ نفس کے پہچاننے کی پہلی منزل ہے {مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ}
نمبر۳؎: شیطان انسان کا دشمن ہے اور رب تعالیٰ انسان کا مولیٰ، مولیٰ کے پاس حاضری دینے میں دشمن راستہ قطع کرتا ہے تو انسان پکار کر عرض کرتا ہے کہ اے مولیٰ! تو ہی مجھے شیطان سے بچالے اور اپنی بارگاہ میں حاضر فرمالے اور انسان تصوف کی منزل جب ہی طے کرسکتا ہے جب ادھر سے طلب ہو۔
نمبر۴؎: قرآن کریم فرماتا ہے کہ قرآن کونہ چھوئیں مگر پاک لوگ تو قرآن پاک کی جلد کو پاک ہاتھ چھوئے اور قرآن پاک کی عبارت کو پاک زبان چھوئے اور قرآن کے مضامین کو پاک دل چھوئے اور اعوذ زبان ودل کی طہارت ہے شرک کرنے والا گویا قلبی جنبی ہے اور گنہ گار گویا قلبی بے وضو ہے اور اعوذ آب رحمت کا دریا ہے۔کوئی بھی آکر اس میں غوطہ لگائے پاک ہوجائے گا۔
نمبر۵؎: مومن کا دل حق تعالیٰ کا؟؟ تجلی گاہ اور حق تعالی کا باغ اور اس کا تخت ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ اور جنت ہمارا باغ ہے حق تعالیٰ نے جنت سے ہماری وجہ سے شیطان کو نکالا اور فرمایا: {فَاخَرُجْ مِنْھَامَذُء وماً مَدْحُوْرََ } لہذا لازم ہے کہ حق تعالیٰ کے باغ یعنی اپنے دل سے اس کے لئے شیطان کو نکالیں کیوں کہ میزبان کے لئے ضروری ہے کہ مہمان کی خاطر گھر صاف کرے مگر چونکہ ہم اس کے نکالنے پر مستقل قادر نہیں تھے تو اس میں اس کی امداد لی اور پڑھا اعوذ باﷲ۔
نمبر۶؎: رب تعالی فرماتاہے ۔
{اِلَیْہِ یَصْعَدُ الَکَلمُ الطَّیِّبِ} ۲؎ بارگاہ الہٰی میں پاک کلمے قبول ہوتے ہیں قرآن پاک کی ساری عبارت فی نفسہ پاک ہے لیکن اگر پڑھنے والا پاک نہ ہو تو اس گندگی کی وجہ سے یہ پڑھنا بارگاہ الہٰی میں قبول نہ ہوگا تو اعوذ سے اپنے آپ کو پاک کرکے اس کی تلاوت کو قابل بناتا ہے۔(تفسیر نعیمی)
’’تعوذ‘‘ کی قرأت کم و بیش جملہ انبیاء کرام نے کی ہیں
تقریباََ جملہ انبیائے کرام علیھم السلام اور اولیائے عظام علیھم الرحمتہ والرضوان نے مختلف عبارتوں سے اعوذ باﷲ پڑھی ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا:
{ اِنی اَعُوَذُ بِکَ اَنْ اَسْئَلُکَ ما لَیْسََ لِیْ بِہٖ عِلَمُ }
اے پروردرگار! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اور زیادہ علم کا متمنی ہوں۔ حضرت زلیخا سے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
{مَعَاذَ اﷲِ اِنَہٗ رَبِّیْ}
ﷲ ہی کی پناہ وہی میرا پروردگار ہے۔ اور اپنے بھائیوں سے فرمایا۔
{ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ اَنَ نَاخُذُ اِلّامَنْ وَّجَدَنا}
مفسر اعظم حضرت مفتی محمد احمد یارخاں نعیمی علیہ الرحمتہ والرضوان اعوذباﷲ پڑھنے کے مندرجہ ذیل نکتے بیان کرتے ہیں:
نمبر۱؎ :اعوذباﷲ پڑھنا گویا خلق سے خالق کی طرف رجوع کرنا ہے اور یہ تصوف کی پہلی سیڑھی ہے۔
نمبر۲؎: اعوذ پڑھنے میں اپنی مجبوری اور بے بسی کا اقرار ہے اور رب تبارک وتعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا اظہار اور یہ نفس کے پہچاننے کی پہلی منزل ہے {مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ}
نمبر۳؎: شیطان انسان کا دشمن ہے اور رب تعالیٰ انسان کا مولیٰ، مولیٰ کے پاس حاضری دینے میں دشمن راستہ قطع کرتا ہے تو انسان پکار کر عرض کرتا ہے کہ اے مولیٰ! تو ہی مجھے شیطان سے بچالے اور اپنی بارگاہ میں حاضر فرمالے اور انسان تصوف کی منزل جب ہی طے کرسکتا ہے جب ادھر سے طلب ہو۔
نمبر۴؎: قرآن کریم فرماتا ہے کہ قرآن کونہ چھوئیں مگر پاک لوگ تو قرآن پاک کی جلد کو پاک ہاتھ چھوئے اور قرآن پاک کی عبارت کو پاک زبان چھوئے اور قرآن کے مضامین کو پاک دل چھوئے اور اعوذ زبان ودل کی طہارت ہے شرک کرنے والا گویا قلبی جنبی ہے اور گنہ گار گویا قلبی بے وضو ہے اور اعوذ آب رحمت کا دریا ہے۔کوئی بھی آکر اس میں غوطہ لگائے پاک ہوجائے گا۔
نمبر۵؎: مومن کا دل حق تعالیٰ کا؟؟ تجلی گاہ اور حق تعالی کا باغ اور اس کا تخت ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ اور جنت ہمارا باغ ہے حق تعالیٰ نے جنت سے ہماری وجہ سے شیطان کو نکالا اور فرمایا: {فَاخَرُجْ مِنْھَامَذُء وماً مَدْحُوْرََ } لہذا لازم ہے کہ حق تعالیٰ کے باغ یعنی اپنے دل سے اس کے لئے شیطان کو نکالیں کیوں کہ میزبان کے لئے ضروری ہے کہ مہمان کی خاطر گھر صاف کرے مگر چونکہ ہم اس کے نکالنے پر مستقل قادر نہیں تھے تو اس میں اس کی امداد لی اور پڑھا اعوذ باﷲ۔
نمبر۶؎: رب تعالی فرماتاہے ۔
{اِلَیْہِ یَصْعَدُ الَکَلمُ الطَّیِّبِ} ۲؎ بارگاہ الہٰی میں پاک کلمے قبول ہوتے ہیں قرآن پاک کی ساری عبارت فی نفسہ پاک ہے لیکن اگر پڑھنے والا پاک نہ ہو تو اس گندگی کی وجہ سے یہ پڑھنا بارگاہ الہٰی میں قبول نہ ہوگا تو اعوذ سے اپنے آپ کو پاک کرکے اس کی تلاوت کو قابل بناتا ہے۔(تفسیر نعیمی)
’’تعوذ‘‘ کی قرأت کم و بیش جملہ انبیاء کرام نے کی ہیں
تقریباََ جملہ انبیائے کرام علیھم السلام اور اولیائے عظام علیھم الرحمتہ والرضوان نے مختلف عبارتوں سے اعوذ باﷲ پڑھی ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا:
{ اِنی اَعُوَذُ بِکَ اَنْ اَسْئَلُکَ ما لَیْسََ لِیْ بِہٖ عِلَمُ }
اے پروردرگار! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اور زیادہ علم کا متمنی ہوں۔ حضرت زلیخا سے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
{مَعَاذَ اﷲِ اِنَہٗ رَبِّیْ}
ﷲ ہی کی پناہ وہی میرا پروردگار ہے۔ اور اپنے بھائیوں سے فرمایا۔
{ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ اَنَ نَاخُذُ اِلّامَنْ وَّجَدَنا}
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:
{اَعُوذُ بِاﷲِ اَنْ اَکْوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ}
مزید فرمایا کرتے تھے۔
{اِنیَ عُذْتُ بِربِیْ وَرَبِکْمَ اَنْ تَرْجُمُوْنَ}
اور حضرت مریم رضی اﷲ تعالی عنہا سے کون واقف نہیں ہے آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہیں آپ بارگاہ خداوندی میں فرمایا کرتی تھیں:
{ اِنَّیِ اُعِیْذُھَاوِذُرّیِّتِھَامِنَ الشیْطانِ الرّجِیْمِ } اور ٹھیک اسی طرح کے الفاظ حضرت مریم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو مرد کی شکل میں دیکھ کر جامع لفظ کی تلاوت فرماتی:
{اِنَی اُعُوْذَ بِالرَّحمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتُ تَقِیاً} بے شک میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔ ہمارے نبی احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی کثرت سے اعوذ کی تلاوت کیا کرتے تھے اور انہیں اﷲ تبارک وتعالی کی جانب سے باضابطہ پڑھنے کی اجازت ہوتی تھی جیسا کہ قرآن مقدس کی آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ایک جگہ ہے:
{قُل رَبّ اَعُوْذِبِکَ مِنَ ھَمَزًاتِ الشَّیطٰینْ}اور دوسری جگہ ہے: {فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیَطٰنِ الرَّجِیْم}
اور فرماتے کہ میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام نے لوح محفوظ سے اسی طرح لاکر پڑھا ہے۔ حضرت علامہ نیشاپوری رحمتہ اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ
{اَعُوذُ بِاﷲِ اَنْ اَکْوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ}
مزید فرمایا کرتے تھے۔
{اِنیَ عُذْتُ بِربِیْ وَرَبِکْمَ اَنْ تَرْجُمُوْنَ}
اور حضرت مریم رضی اﷲ تعالی عنہا سے کون واقف نہیں ہے آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہیں آپ بارگاہ خداوندی میں فرمایا کرتی تھیں:
{ اِنَّیِ اُعِیْذُھَاوِذُرّیِّتِھَامِنَ الشیْطانِ الرّجِیْمِ } اور ٹھیک اسی طرح کے الفاظ حضرت مریم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو مرد کی شکل میں دیکھ کر جامع لفظ کی تلاوت فرماتی:
{اِنَی اُعُوْذَ بِالرَّحمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتُ تَقِیاً} بے شک میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔ ہمارے نبی احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بھی کثرت سے اعوذ کی تلاوت کیا کرتے تھے اور انہیں اﷲ تبارک وتعالی کی جانب سے باضابطہ پڑھنے کی اجازت ہوتی تھی جیسا کہ قرآن مقدس کی آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ایک جگہ ہے:
{قُل رَبّ اَعُوْذِبِکَ مِنَ ھَمَزًاتِ الشَّیطٰینْ}اور دوسری جگہ ہے: {فَاسْتَعِذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیَطٰنِ الرَّجِیْم}
اور فرماتے کہ میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام نے لوح محفوظ سے اسی طرح لاکر پڑھا ہے۔ حضرت علامہ نیشاپوری رحمتہ اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ
{تعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم لیدْ فع عنک العجب}
شیطان خبیث سے اﷲ تعالی کی پناہ مانگ تاکہ تجھ سے اﷲ تعالی خود بینی اور خود نمائی دور رکھے۔
(نزہتہ المجالس)
حضور اقدس صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم تلاوت قرآن کریم کے وقت اس طرح پڑھا کرتے:
{ اعوذ بالعفو العظیم من عذابہ العلیم ومن ھمزات الشیطن ان اﷲ ھوالسمیع العیم۔}
حضور اقدس صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم تلاوت قرآن کریم کے وقت اس طرح پڑھا کرتے:
{ اعوذ بالعفو العظیم من عذابہ العلیم ومن ھمزات الشیطن ان اﷲ ھوالسمیع العیم۔}
اورحضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم تلاوت قرآن کریم کے وقت اس طرح پڑھا کرتے۔
{اعوذباﷲ الواحد الماجد من کل عدو وحاسد ومن کل شیطن رجیم۔}
حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ تعالی عنہ یوں پڑھتے:
{اعوذ باﷲ المعین من الشیطن اللعین الی یوم الدین}
سید ناحضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کا یہ معمول تھا:
{اعوذ باﷲ من الشیطن والکفر والطغیان وھو المنعم المستعان}
سیدنا حضرت علی مرتضی رضی اﷲ تعالی عنہ آغاز تلاوت پر یہ پڑھتے :
سید ناحضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کا یہ معمول تھا:
{اعوذ باﷲ من الشیطن والکفر والطغیان وھو المنعم المستعان}
سیدنا حضرت علی مرتضی رضی اﷲ تعالی عنہ آغاز تلاوت پر یہ پڑھتے :
{اعوذباﷲ العظیم وجہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم}حضرت امام رافعی علیہ الرحمتہ والرضوان اس طرح پڑھا کرتے تھے:{اعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم}
شرح تہذیب میں اسے غریب کہا ہے۔ (جاری ہے)
شرح تہذیب میں اسے غریب کہا ہے۔ (جاری ہے)
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ترسیل دعوت: محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی
پوجانگر میراروڈ ممبئی
ترسیل دعوت: محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی
پوجانگر میراروڈ ممبئی