Type Here to Get Search Results !

تراویح کا ہدیہ مانگنے والے حافظ کے پیچھے پنجوقتہ نماز پڑھنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4947)
تراویح کا ہدیہ مانگنے والے حافظ کے پیچھے پنجوقتہ نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ایک مسجد کے امام ہے جو حافظ قران ہے رمضان شریف میں تراویح کی نماز امام صاحب ہی پڑھاتے ہیں مسجد کمیٹی کی طرف سے ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ تراویح کے نام پہ محلہ سے جوبھی چندہ اٹھتا ہے وہ ختم تراویح کے دن نذرانہ کے طور پر حافظ صاحب کو دے دیا جاتاہے گزشتہ سال تراویح کا چندہ ایکاون ہزار 51000 ہزار ملا تھا مگر امسال چالیس ہزار 40000 چندہ وصول ہوا جب کمیٹی کے لوگ حافظ صاحب کو چالیس ہزرا نذرانہ تراویح کا دیۓ تو امام یعنی حافظ صاحب لینے سے انکار کردیۓ کہنے لگے اتنا کم نذرانہ میں نہیں لونگا ختم تروایح میں لوگ کار گاڑی وغیرہ دیتے ہیں مگر یہاں کچھ نہیں ملتا ہے پھر بھی کمیٹی کے لوگ زبردستی ہاتھ میں حافظ صاحب کو چالیس ہزار روپیہ تھمادیۓ اسکے بعد امام یعنی حافظ صاحب جمعہ کی تقریر کے دوران بولے اٸندہ سال سے میں خود تروایح کا چندہ وصول کرونگا اپ لوگ کمیٹی کو تروایح کا چندہ مت دیجۓگا اما سال جو لوگ ابھی تک تروایح کا چندہ نہیں دیۓ ہیں وہ حضرات مجھے لاکر دے اتنے جمعہ کی نماز میں شور شرابا ہوگیا کسی نے کہا امام صاحب اپ کے کہنے کے مطابق کمیٹی کے لوگ چور ہیں کسی نے امام صاحب سے پوچھا تروایح کی نذرانہ کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے تو امام صاحب کوئی جواب نہیں دیے اسکے بعد پھر بعد میں کمیٹی کی طرف سے دس ہزار روپیہ 10000 دیاگیا کیا ایسے حافظ کے پیچھے پنجوقتہ و تروایح کی نماز پڑھنا جاٸز ہے ؟  قران وحدیث کی روشنی میں جواب جلد دے  
سائل:- ماسٹر محمد افتاب عالم حبیبی جامع مسجد باگ کھال رشرا ویسٹ ضلع ہگلی کلکتہ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حافظ صاحب کم از کم مسائل فقہیہ کا مطالبہ کر لیتے جو کچھ کر رہیں ہیں سوائے فتنہ کہ کچھ نہیں ہے۔ میں خود تروایح کا چندہ کروں گا جو باقی اب مجھے دے کمیٹی کو نہ دینا یہ سب کیا ہے؟ 
مذکورہ صورت میں تروایح کی نماز پڑھانے کے عوض میں رقم لینا دینا دونوں حرام ہے اور حرام کا مرتک معلن فاسق ہوتا ہے تراویح پر اجرت لینے والے کی اقتداء میں نماز مکروہ تحریمی ہوگی۔تاآنکہ حافظ صاحب توبہ نہ کرلے۔
جب حافظ صاحب خود امام مسجد بھی ہے تو تروایح کی نماز عشاء میں داخل ہے عقلا بھی تروایح کی اجرت مانگنا جائز نہیں ہے۔جواز کی ایک ہی صورت ہے لوگ ہدیہ میں جو کچھ دے دیں۔
یاد رہے تروایح کی اجرت سمجھ کر دینے والے بھی توبہ کرے۔
فتاوی رضویہ میں ہے 
اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیم قرآن عظیم و علوم دین و اذان و امامت و غیرہا معدودے چند اشیاءکہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا) مطلقا حرام ہے، اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں، تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور
کماحققہ السید المحقق محمد بن عابدین الشامی فی رد المحتار علی الدرالمختار
(فتاویٰ رضویہ، ج19، ص 486،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
 ایک مقام پر اس اجرت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
جب کہ ان میں معہود و معروف یہی لینا دینا ہے ،تو یہ اجرت پر پڑھنا پڑھوانا ہوا 
فان المعروف عرفاً کالمشروط لفظاً‘
اور تلاوت قرآن و ذکر الٰہی پر اجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے والے دینے والے دونوں گنہگار ہوتے ہیں
کما حققہ فی رد المحتار و شفاءالعلیل و غیرھا
 اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں، تو ثواب کس چیز کا اموات کو بھیجے گا، گناہ پر ثواب کی امید اور زیادہ سخت و اشد ہے
 کما فی الھندیة و البزازیة و غیرھما و قد شدد العلماءفی ھٰذا ابلغ تشدید
ہاں اگر لوگ چاہیں کہ ایصال ثواب بھی ہو، تو اس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لیے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اتنی دیر کی ہر شخص کی معین کر دیں، مثلا: پڑھوانے والا کہے میں نے تجھے آج فلاں وقت سے فلاں وقت تک کے لیے اس قدر اجرت پر نوکر رکھا جو کام چاہوں گا، لوں گا۔ وہ کہے میں نے قبول کیا، اب اتنی دیر کے واسطے اس کا اجیر ہو گیا ، جو کام چاہے لے سکتا ہے ، اس کے بعد اس سے کہے : فلاں میت کے لیے اتنا قرآن عظیم یا اس قدر کلمہ طیبہ یا درود شریف پڑھ دو ۔ یہ صورت جواز کی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، ج23، ص537،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
بہار شریعت میں ہے 
 آج کل اکثررواج ہو گیا ہے کہ حافظ کو اجرت دے کر تراویح پڑھواتے ہیں، یہ ناجائز ہے، دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں، اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر کر لیں کہ یہ لیں گے، یہ دیں گے، بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے، اگرچہ اس سے طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے کہ’’ المعروف کالمشروط‘‘ ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا، پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کریں ،تو اس میں حرج نہیں کہ’’ الصریح یفوق الدلالة۔
(بھار شریعت، ج 1،ح 4،ص692 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area