سلطان الہند کی چوکھٹ پر تقدیر بنانے آیا ہوں
••────────••⊰❤️⊱••───────••
رجب المرجب شریف کا مہینہ آنے سے پہلے ہی
ملک کے گوشے گوشے میں ہنگامہ عقیدت کا شور برپا ہوجاتا ہے، جنون عشق کے ہزاروں قافلے بارگاہ سیدی سلطان الہند میں حاضری کے لیے نکل جاتے ہیں، سنیوں کی ہر گلی اور کوچے میں سیدی خواجہ غریب نواز کے تذکروں کی دھوم مچی ہوتی ہے، کیوں دھوم نہ مچے؟ جو جس کا کھاتا ہے اسی کا گاتا ہے، ہمیں جو کچھ ملا انہیں کا صدقہ ملا، جو مل رہا ہے اسی در سے مل رہا ہے اور جو ملے گا بادشاہ ہند ہی کا صدقہ ملے گا۔
چھٹی شریف کی صبح میں ہمارے کرم فرما حاجی الیاس صاحب جو نانڈیڑھ مہاراشٹر سے آ رہے تھے، انہوں نے جےپور سے چوموں گاڑی بھیجی، نماز تہجد وغیرہ سے فارغ ہو کر تقریباً پونے چھ بجے گھر سے والد گرامی کے ساتھ نکلے، پونے سات بجے ایئرپورٹ پہنچ کر نماز فجر ادا کی، وہاں سے حاجی صاحب کے ساتھ اجمیر شریف چل پڑے، کافی دیر تک گفتگو ہونے کے بعد سب کی آنکھ لگ گئی، فقیر اپنی عادت کے مطابق مطالعے میں مشغول تھا، جاتے وقت جس رسالے کا مطالعہ کیا وہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا سید حسین علی چشتی رضوی اجمیری علیہ الرحمہ کا تصنیف شدہ مسمی دربارِ چشت تھا، آپ سیدی خواجہ فخر الدین چشتی کی اولاد سے ہیں، جو سیدی خواجہ عثمان ہارون کے مرید ہیں اور انہیں کے حکم سے سیدی خواجہ غریب نواز کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
اس رسالے میں بڑے ہی سادہ انداز میں حیات سیدی غریب نواز کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی ہے، خاص طور پر آپ کے داعیان کردار پر روشنی ڈالی ہے، ساتھ ہی درگاہ میں واقع مختلف چیزوں کا تعارف بھی پیش کیا ہے، اور بارگاہ سیدی سلطان الہند میں حاضری کے آداب بھی بیان کیے ہیں، آپ کا وصال ٢٥/نومبر ١٩٦٧ء کو ہوا، مزار پاک انا ساگر گھاٹی پر سیدی سید سالار مسعود غازی کے چلہ کے قریب واقع ہے۔
رسالے کو ختم کرنے کے بعد قدرت الہی کے نظارے میں مشغول ہوگیا، جہاں میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ انسانی عزم و ارادے کی قوت تسخیر سمندر کی اٹھتی ہوئی موجوں کے جگر میں شگاف ڈال دیتی ہے وہیں عشق کے اس گرم تیور سے بھی آشنا ہوں جہاں میدان جنگ کے عظیم سپہ سالار بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں، کیونکہ؛
بھڑک جاتی ہے جب یہ آگ تو بجھنے نہیں پاتی
چراغ عشق جل جاتا ہے تو مدھم نہیں ہوتا
تقریباً دس بجے ہم ہوٹل پہنچے، ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر لجھاتے ہوئے جب بارگاہ سیدی خواجہ غریب نواز میں پہنچے تو حب خواجہ میں شرابور ہوکر بارگاہِ سیدی خواجہ غریب نواز میں حاضر ہونے والے عاشقوں کا امنڈتا ہوا سیلاب دیکھ کر ایمانی دوبالا ہوگئی، ان کے دلوں میں کس قدر عشق سیدی خواجہ غریب نواز موجزن ہے، اس کا اندازہ لگانا اتنا ہی کٹھن ہے جتنا عشق کے نتیجے میں برپا ہونے والے طوفان کو سمجھنا دشوار ہے، کوئی ننگے پاؤں چلا آ رہا ہے تو کوئی آنسوؤں کو نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوا حاضر ہو رہا ہے، کوئی قیام میں مشغول ہے تو کوئی سجدے میں گرا ہوا ہے، عشق کے بھی عجیب وغریب انداز ہیں، کسی نے کیا خوب کہا؛
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے، گناہ نہیں
ہم نے اولیاء مسجد میں نماز ظہر ادا کی اور وظائف پڑھے، یہ مسجد وہ جگہ ہے جہاں سیدی خواجہ غریب نواز نے اجمیر شریف میں سب سے پہلے نزول فرمایا، دل کو حاصل ہونے والا قرار اور ذہن کو ملنے والا سکون یہاں سے اٹھنے کی اجازت ہی نہیں دے رہا تھا، مگر جس طرح بادشاہ کے دربار میں بلا وسیلہ حاضر ہونا درباری آداب کے خلاف ہے، اسی طرح یہاں پر بھی بلا وکیل کے حاضر ہونا یقیناً قانون شکنی اور توہین دربار جیسا جرم ہے، اس لیے ہم اپنے وکیل سید فرقان حسین رضوی چشتی حفظہ اللہ کے پاس حاجی صاحب کی وساطت سے پہنچے، آپ اجمیر شریف کے خادموں میں واحد ایسے خادم فقیر کے علم میں ہیں جو مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے پیرو کار ہیں، آپ سید حسین علی چشتی رضوی اجمیری کے پوتے ہیں، حضرت کی دست وقدم بوسی کرنے کے بعد حضرت سے ہی تقریباً ڈیڑھ بجے فاتحہ خوانی ودعا کروائی، حضرت سے اجازت لیکر واپس ہوٹل کے لیے نکل رہے تھے کہ ایک رافضی کی آواز کانوں میں آئی کہ ہم تو دیتے ہیں، ہم دینے والے ہیں پھر حسد وکینہ سے بھرپور یہ جملہ بھی اس کی غلیظ زبان سے نکلا کہ ہم مولائی دیتے ہیں اور بریلی والے صرف لیتے اور کھاتے ہیں، صبر وتحمل کا پیمانہ لبریز ہوا مگر خود کو قابو میں رکھتے ہوئے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا، ہم منزل کی طرف چلتے رہے، کمرے پر پہنچ کر والد صاحب کو رخصت کیا اور ہم آرام کرنے لگے تاکہ رات میں اچھے سے حاضری دے سکیں.
کچھ نیند آئی اور پھر آنکھ کھل گئی، کافی دیر تک سونے کی کوشش کی مگر نیند نہ آئی، پھر سیدی پاسبان ملت علیہ الرحمہ کے رسالے ہند کے راجہ کا مطالعہ کرنے لگا، نیند کی کمی بھی پوری ہوگئی اور طبیعت بھی ہشاش بشاش ہوگئی۔
یہ رسالہ در حقیقت سیدی پاسبان ملت کا مقالہ ہے جو آپ نے ١٩٦٥ء میں ہفت صد سالہ جشن غریب نواز کے لیے تحریر فرمایا تھا، پھر احباب کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کیا گیا، اس میں آپ نے پہلے وجہ تصنیف بیان فرمائی ہے پھر بدمذہبوں کا رد فرمایا، بارگاہِ سیدی خواجہ غریب نواز میں سلاطین زمانہ کی حاضری کی فہرست، معمولات و مراسم بارگاہ کو بھی بیان کیا، ساتھ ہی عمارات درگاہ کا ایسا تعارف پیش کیا ہے کہ پڑھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں بارگاہ سیدی سلطان الہند میں حاضر ہے شہر اجمیر پر بھی مختصر سی گفتگو فرمائی ہے، تبرکات مشائخ اور تصرفات و فیضان ارواح کی شرعی حیثیت کو بھی اجاگر کیا ہے، اخیر میں احکام مزارات کا بھی ذکر ہے. مطالعہ میں مزید لطف اور کتاب کی رونق میں اضافے کے لیے سیدی علامہ ارشد القادری کے مضمون کو بھی شامل کیا گیا ہے.
کتاب کو ختم کرنے کے بعد عصر کی نماز پڑھ کر مغرب کا ایمان افروز منظر دیکھنے کے لیے حاجی صاحب کے ساتھ چل پڑے، عاشقوں کے جم غفیر کا نظارہ کرکے ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی ملی، لبوں پر درود شریف کی ڈالی سجاتے ہوئے کسی طرح ہمت کرکے دروازہ نمبر چار پر پہنچے، اندر گھس بھی گئے مگر مغرب کی نماز کے لیے صفیں لگ چکی تھیں اس لیے واپس باہر آنا پڑا، باہر ہی مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد واپس آئے اور شاہجہانی مسجد میں پہنچے، عشا تک اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز میں گلہائے عقیدت پیش کیے، پھر سید فرقان حسین رضوی چشتی صاحب کی خانقاہ پر پہنچے، کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ضروریات سے فارغ ہوکر واپس اولیاء مسجد آئے، یہاں لوگوں کا ہجوم منتظر تھا کہ انہیں اولیاء مسجد میں نماز پڑھنے کا موقع ملے، ہم بھی کھڑے ہوگئے، کچھ دیر کے بعد موقع ملا تو عشا کی نماز اور اوراد ووظائف اندر ہی پڑھنا نصیب ہوا، دل تو یہاں سے جانے کے لیے تیار نہیں تھا مگر دیگر احباب کو بھی موقع ملے اس لیے ہم وہاں سے دوبارہ شاہجہانی مسجد چلے آئے کہ شاید کوئی محفل مل جائے، پہنچے تو ایک جگہ الحمد للہ محفل مل گئی، کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ گارڈ وغیرہ آئے اور سیدی اعلی حضرت قدس سرہ کے کلام پڑھنے سے منع کرکے چلے گئے، اس سے آپ وہاں کے حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جگہ جگہ لکھا ہوا تھا کہ مروجہ سلام یا نبی سلام عليك کے علاوہ کوئی اور سلام پڑھنا منع ہے، یہ انہیں لوگوں کی طرف سے تھا جو ہندوستان کے وزیراعظم کے حق میں زندہ باد کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر دور دراز سے آنے والے سیدی خواجہ غریب نواز کے دیوانوں کو آپ کی بارگاہ میں عشق نبی سے لبریز کلام رضا کو پڑھنے سے روکتے ہیں، بہرحال ساڑھے بارہ بجے تک وہیں رہے پھر کمرے چلے آئے۔
صبح نماز فجر کے بعد سلام کا نذرانہ پیش کیا، وظائف وغیرہ سے فارغ ہوکر آدھے گھنٹے کے لیے لیٹے مگر دو گھنٹے بعد آنکھ کھلی، جلدی جلدی فارغ ہوکر سید صاحب کے پہنچے، سید صاحب کے توسل سے اندر بھی حاضری کا شرف ملا، واپسی میں سید صاحب نے نیاز عطا فرمائی، پھر ہم جنتی دروازے پر پہنچے اور کافی دیر تک اس حال میں حاضری دی کہ؛
کچھ نہ بولوں گا زباں سے ان کی بزم خاص میں
آنسوؤں کے ساز پر کہنا ہے افسانہ مجھے
واپس کمرے پر پہنچے اور تیار ہوکر نماز جمعہ کے لیے مسجد گھوسیان کے لیے نکلے، دہلی دروازے سے پہلے رکشے والے نے چھوڑا، لوگ نماز میں مشغول تھے مگر کم علمی کی بنیاد پر حالت یہ تھی کہ ایسے اخبار پر نماز پڑھ رہے تھے جن میں جاندار کی تصویریں تھیں، ہمیں سید صاحب نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ صرف جمعہ پڑھنے باہر سے آتے ہیں جبکہ جمعہ ان پر فرض نہیں، حالانکہ اگر مسافر جمعہ پڑھے تو ظہر ذمہ سے ساقط ہوجاتی ہے، مگر جب یہ حالت ہم نے دیکھی تو زبان سے یہی نکلا کہ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
بہرحال جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو مسجد جانے کا راستہ ہموار ہوا، مسجد گھوسیان پہنچے تو وہ پہلے سے ہی بھری ہوئی تھی، بازو والی بلڈنگ کی چوتھی منزل پر جگہ ملی، کچھ دیر انتظار کیا، ڈارھی والے ایک صاحب بولے کہ معلوم کیسے ہوگا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟ جب جماعت کھڑی ہوئی تو تکبیروں کی آواز چوتھی منزل پر اس طرح پہنچی کہ محسوس ہو رہا تھا کہ چوتھی کیا اگر چودھویں بھی ہوں تب بھی آواز پہنچ جائے، سبحان اللہ جو سرور ملا اسے تو اسیر سیدی تاج الشریعہ ہی محسوس کر سکتا ہے، حاجی صاحب نے کہا: کیا بات ہے سبحان اللہ مزہ ہی آگیا، بلا وجہ لوگوں نے لازم کر رکھا ہے۔
نماز سے فارغ ہوکر رخصت کا ناچار ارادہ بنانا پڑا، اگر فرائض کی تلوار گردن پر نہ لٹک رہی ہوتی تو پیاس بجھانے تک یہی رہتا کیوں کہ
کہتی ہے عقل دین بھی دنیا بھی طلب کر
دونوں سے منہ کو موڑ یہ ایماء عشق ہے
دعا وسلام کے ساتھ واپس ہوئے، جےپور کے لیے بس میں بیٹھے، راہ میں نماز عصر ومغرب ادا کی، تقریباً نو بجے جےپور پہنچے اور وہاں سے دس بجے تک سیدی سلطان الہند کی چوکھٹ سے خالی جھولی بھرکر گھر آگئے۔
چھٹی شریف کی صبح میں ہمارے کرم فرما حاجی الیاس صاحب جو نانڈیڑھ مہاراشٹر سے آ رہے تھے، انہوں نے جےپور سے چوموں گاڑی بھیجی، نماز تہجد وغیرہ سے فارغ ہو کر تقریباً پونے چھ بجے گھر سے والد گرامی کے ساتھ نکلے، پونے سات بجے ایئرپورٹ پہنچ کر نماز فجر ادا کی، وہاں سے حاجی صاحب کے ساتھ اجمیر شریف چل پڑے، کافی دیر تک گفتگو ہونے کے بعد سب کی آنکھ لگ گئی، فقیر اپنی عادت کے مطابق مطالعے میں مشغول تھا، جاتے وقت جس رسالے کا مطالعہ کیا وہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا سید حسین علی چشتی رضوی اجمیری علیہ الرحمہ کا تصنیف شدہ مسمی دربارِ چشت تھا، آپ سیدی خواجہ فخر الدین چشتی کی اولاد سے ہیں، جو سیدی خواجہ عثمان ہارون کے مرید ہیں اور انہیں کے حکم سے سیدی خواجہ غریب نواز کے ساتھ ہندوستان تشریف لائے رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
اس رسالے میں بڑے ہی سادہ انداز میں حیات سیدی غریب نواز کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی ہے، خاص طور پر آپ کے داعیان کردار پر روشنی ڈالی ہے، ساتھ ہی درگاہ میں واقع مختلف چیزوں کا تعارف بھی پیش کیا ہے، اور بارگاہ سیدی سلطان الہند میں حاضری کے آداب بھی بیان کیے ہیں، آپ کا وصال ٢٥/نومبر ١٩٦٧ء کو ہوا، مزار پاک انا ساگر گھاٹی پر سیدی سید سالار مسعود غازی کے چلہ کے قریب واقع ہے۔
رسالے کو ختم کرنے کے بعد قدرت الہی کے نظارے میں مشغول ہوگیا، جہاں میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ انسانی عزم و ارادے کی قوت تسخیر سمندر کی اٹھتی ہوئی موجوں کے جگر میں شگاف ڈال دیتی ہے وہیں عشق کے اس گرم تیور سے بھی آشنا ہوں جہاں میدان جنگ کے عظیم سپہ سالار بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں، کیونکہ؛
بھڑک جاتی ہے جب یہ آگ تو بجھنے نہیں پاتی
چراغ عشق جل جاتا ہے تو مدھم نہیں ہوتا
تقریباً دس بجے ہم ہوٹل پہنچے، ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر لجھاتے ہوئے جب بارگاہ سیدی خواجہ غریب نواز میں پہنچے تو حب خواجہ میں شرابور ہوکر بارگاہِ سیدی خواجہ غریب نواز میں حاضر ہونے والے عاشقوں کا امنڈتا ہوا سیلاب دیکھ کر ایمانی دوبالا ہوگئی، ان کے دلوں میں کس قدر عشق سیدی خواجہ غریب نواز موجزن ہے، اس کا اندازہ لگانا اتنا ہی کٹھن ہے جتنا عشق کے نتیجے میں برپا ہونے والے طوفان کو سمجھنا دشوار ہے، کوئی ننگے پاؤں چلا آ رہا ہے تو کوئی آنسوؤں کو نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوا حاضر ہو رہا ہے، کوئی قیام میں مشغول ہے تو کوئی سجدے میں گرا ہوا ہے، عشق کے بھی عجیب وغریب انداز ہیں، کسی نے کیا خوب کہا؛
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں
عشق توفیق ہے، گناہ نہیں
ہم نے اولیاء مسجد میں نماز ظہر ادا کی اور وظائف پڑھے، یہ مسجد وہ جگہ ہے جہاں سیدی خواجہ غریب نواز نے اجمیر شریف میں سب سے پہلے نزول فرمایا، دل کو حاصل ہونے والا قرار اور ذہن کو ملنے والا سکون یہاں سے اٹھنے کی اجازت ہی نہیں دے رہا تھا، مگر جس طرح بادشاہ کے دربار میں بلا وسیلہ حاضر ہونا درباری آداب کے خلاف ہے، اسی طرح یہاں پر بھی بلا وکیل کے حاضر ہونا یقیناً قانون شکنی اور توہین دربار جیسا جرم ہے، اس لیے ہم اپنے وکیل سید فرقان حسین رضوی چشتی حفظہ اللہ کے پاس حاجی صاحب کی وساطت سے پہنچے، آپ اجمیر شریف کے خادموں میں واحد ایسے خادم فقیر کے علم میں ہیں جو مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے پیرو کار ہیں، آپ سید حسین علی چشتی رضوی اجمیری کے پوتے ہیں، حضرت کی دست وقدم بوسی کرنے کے بعد حضرت سے ہی تقریباً ڈیڑھ بجے فاتحہ خوانی ودعا کروائی، حضرت سے اجازت لیکر واپس ہوٹل کے لیے نکل رہے تھے کہ ایک رافضی کی آواز کانوں میں آئی کہ ہم تو دیتے ہیں، ہم دینے والے ہیں پھر حسد وکینہ سے بھرپور یہ جملہ بھی اس کی غلیظ زبان سے نکلا کہ ہم مولائی دیتے ہیں اور بریلی والے صرف لیتے اور کھاتے ہیں، صبر وتحمل کا پیمانہ لبریز ہوا مگر خود کو قابو میں رکھتے ہوئے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا، ہم منزل کی طرف چلتے رہے، کمرے پر پہنچ کر والد صاحب کو رخصت کیا اور ہم آرام کرنے لگے تاکہ رات میں اچھے سے حاضری دے سکیں.
کچھ نیند آئی اور پھر آنکھ کھل گئی، کافی دیر تک سونے کی کوشش کی مگر نیند نہ آئی، پھر سیدی پاسبان ملت علیہ الرحمہ کے رسالے ہند کے راجہ کا مطالعہ کرنے لگا، نیند کی کمی بھی پوری ہوگئی اور طبیعت بھی ہشاش بشاش ہوگئی۔
یہ رسالہ در حقیقت سیدی پاسبان ملت کا مقالہ ہے جو آپ نے ١٩٦٥ء میں ہفت صد سالہ جشن غریب نواز کے لیے تحریر فرمایا تھا، پھر احباب کے اصرار پر کتابی شکل میں شائع کیا گیا، اس میں آپ نے پہلے وجہ تصنیف بیان فرمائی ہے پھر بدمذہبوں کا رد فرمایا، بارگاہِ سیدی خواجہ غریب نواز میں سلاطین زمانہ کی حاضری کی فہرست، معمولات و مراسم بارگاہ کو بھی بیان کیا، ساتھ ہی عمارات درگاہ کا ایسا تعارف پیش کیا ہے کہ پڑھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں بارگاہ سیدی سلطان الہند میں حاضر ہے شہر اجمیر پر بھی مختصر سی گفتگو فرمائی ہے، تبرکات مشائخ اور تصرفات و فیضان ارواح کی شرعی حیثیت کو بھی اجاگر کیا ہے، اخیر میں احکام مزارات کا بھی ذکر ہے. مطالعہ میں مزید لطف اور کتاب کی رونق میں اضافے کے لیے سیدی علامہ ارشد القادری کے مضمون کو بھی شامل کیا گیا ہے.
کتاب کو ختم کرنے کے بعد عصر کی نماز پڑھ کر مغرب کا ایمان افروز منظر دیکھنے کے لیے حاجی صاحب کے ساتھ چل پڑے، عاشقوں کے جم غفیر کا نظارہ کرکے ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی ملی، لبوں پر درود شریف کی ڈالی سجاتے ہوئے کسی طرح ہمت کرکے دروازہ نمبر چار پر پہنچے، اندر گھس بھی گئے مگر مغرب کی نماز کے لیے صفیں لگ چکی تھیں اس لیے واپس باہر آنا پڑا، باہر ہی مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد واپس آئے اور شاہجہانی مسجد میں پہنچے، عشا تک اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز میں گلہائے عقیدت پیش کیے، پھر سید فرقان حسین رضوی چشتی صاحب کی خانقاہ پر پہنچے، کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ضروریات سے فارغ ہوکر واپس اولیاء مسجد آئے، یہاں لوگوں کا ہجوم منتظر تھا کہ انہیں اولیاء مسجد میں نماز پڑھنے کا موقع ملے، ہم بھی کھڑے ہوگئے، کچھ دیر کے بعد موقع ملا تو عشا کی نماز اور اوراد ووظائف اندر ہی پڑھنا نصیب ہوا، دل تو یہاں سے جانے کے لیے تیار نہیں تھا مگر دیگر احباب کو بھی موقع ملے اس لیے ہم وہاں سے دوبارہ شاہجہانی مسجد چلے آئے کہ شاید کوئی محفل مل جائے، پہنچے تو ایک جگہ الحمد للہ محفل مل گئی، کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ گارڈ وغیرہ آئے اور سیدی اعلی حضرت قدس سرہ کے کلام پڑھنے سے منع کرکے چلے گئے، اس سے آپ وہاں کے حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں، جگہ جگہ لکھا ہوا تھا کہ مروجہ سلام یا نبی سلام عليك کے علاوہ کوئی اور سلام پڑھنا منع ہے، یہ انہیں لوگوں کی طرف سے تھا جو ہندوستان کے وزیراعظم کے حق میں زندہ باد کے نعرے تو لگاتے ہیں مگر دور دراز سے آنے والے سیدی خواجہ غریب نواز کے دیوانوں کو آپ کی بارگاہ میں عشق نبی سے لبریز کلام رضا کو پڑھنے سے روکتے ہیں، بہرحال ساڑھے بارہ بجے تک وہیں رہے پھر کمرے چلے آئے۔
صبح نماز فجر کے بعد سلام کا نذرانہ پیش کیا، وظائف وغیرہ سے فارغ ہوکر آدھے گھنٹے کے لیے لیٹے مگر دو گھنٹے بعد آنکھ کھلی، جلدی جلدی فارغ ہوکر سید صاحب کے پہنچے، سید صاحب کے توسل سے اندر بھی حاضری کا شرف ملا، واپسی میں سید صاحب نے نیاز عطا فرمائی، پھر ہم جنتی دروازے پر پہنچے اور کافی دیر تک اس حال میں حاضری دی کہ؛
کچھ نہ بولوں گا زباں سے ان کی بزم خاص میں
آنسوؤں کے ساز پر کہنا ہے افسانہ مجھے
واپس کمرے پر پہنچے اور تیار ہوکر نماز جمعہ کے لیے مسجد گھوسیان کے لیے نکلے، دہلی دروازے سے پہلے رکشے والے نے چھوڑا، لوگ نماز میں مشغول تھے مگر کم علمی کی بنیاد پر حالت یہ تھی کہ ایسے اخبار پر نماز پڑھ رہے تھے جن میں جاندار کی تصویریں تھیں، ہمیں سید صاحب نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ صرف جمعہ پڑھنے باہر سے آتے ہیں جبکہ جمعہ ان پر فرض نہیں، حالانکہ اگر مسافر جمعہ پڑھے تو ظہر ذمہ سے ساقط ہوجاتی ہے، مگر جب یہ حالت ہم نے دیکھی تو زبان سے یہی نکلا کہ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
بہرحال جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو مسجد جانے کا راستہ ہموار ہوا، مسجد گھوسیان پہنچے تو وہ پہلے سے ہی بھری ہوئی تھی، بازو والی بلڈنگ کی چوتھی منزل پر جگہ ملی، کچھ دیر انتظار کیا، ڈارھی والے ایک صاحب بولے کہ معلوم کیسے ہوگا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟ جب جماعت کھڑی ہوئی تو تکبیروں کی آواز چوتھی منزل پر اس طرح پہنچی کہ محسوس ہو رہا تھا کہ چوتھی کیا اگر چودھویں بھی ہوں تب بھی آواز پہنچ جائے، سبحان اللہ جو سرور ملا اسے تو اسیر سیدی تاج الشریعہ ہی محسوس کر سکتا ہے، حاجی صاحب نے کہا: کیا بات ہے سبحان اللہ مزہ ہی آگیا، بلا وجہ لوگوں نے لازم کر رکھا ہے۔
نماز سے فارغ ہوکر رخصت کا ناچار ارادہ بنانا پڑا، اگر فرائض کی تلوار گردن پر نہ لٹک رہی ہوتی تو پیاس بجھانے تک یہی رہتا کیوں کہ
کہتی ہے عقل دین بھی دنیا بھی طلب کر
دونوں سے منہ کو موڑ یہ ایماء عشق ہے
دعا وسلام کے ساتھ واپس ہوئے، جےپور کے لیے بس میں بیٹھے، راہ میں نماز عصر ومغرب ادا کی، تقریباً نو بجے جےپور پہنچے اور وہاں سے دس بجے تک سیدی سلطان الہند کی چوکھٹ سے خالی جھولی بھرکر گھر آگئے۔
_________(❤️)_________
کتبہ:- طارق محمود رضوی