حاسدین رضا سے قطع تعلق ضروری کیوں؟
_______________________
اس خاکدان گیتی پر جن بزرگان دین
_______________________
اس خاکدان گیتی پر جن بزرگان دین
اکابرین ملت اور اساطین امت نے اپنی جلالت علمی
شان رفعت و عظمت اور خدا داد صلاحیت و لیاقت کی بنیاد پر بڑی محنت و مشقت اور جفاکشی و جوانمردی کے ساتھ پوری دنیائے انسانیت میں رشد و ہدایت کااجالا پھیلایا اپنی بزرگی و کرامت اور تصرفات کے ذریعہ تاریک قلوب و اذہان کو روشن کیا عرق ریزی و جاں فشانی سے گلشن اسلام میں تر و تازگی پیدا کی احقاق حق ابطال باطل کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اہلسنت و جماعت کے عقائد حقہ کو مستحکم تحفظ بخشا ان نایاب و نادر اور معظم و مکرم شخصیات میں ایک نام محقق علی الاطلاق ۔مجدد اعظم۔ مجتہد فی المسائل ۔امام المشارق والمغارب ۔ تاجدار لوح و قلم ۔ سلطان شعرو سخن ۔ شہنشاہ فقاہت و بلاغت ۔مصنف کتب کثیرہ ۔ جامع العلوم العقلیہ و النقلیہ ۔ حامی سنت ۔ ماحی بدعت امام احمد رضاخان قادری برکاتی رضوی فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کا بھی آیا ہے کائنات انسانیت انہیں کبھی ان کی علمی کارناموں سے یاد کرتی ہے تو ا کبھی ان کی تبلیغی خدمات اور دینی اشاعت کی حیثیت سے مانتی ہے ان کا تذکرہ کبھی ان کے اخلاق و کردار ۔ علم و عمل ۔ زہد و تقویٰ ۔ اخلاص و للہیت ۔ عشق و محبت ۔ عبادت و ریاضت اور روحانی مقام و مرتبے کے اعتبار سے بھی کیا جاتا ہے انہوں نے اپنے علم و عمل ۔ سیرت و کردار اور تقوی شعاری و پرہیز گاری سے اسلام کی تعلیمات کو خوب خوب عام کیا ہے اور کفر و شرک ۔ بدعت و ضلالت ۔ اور خرافات و ہفوات کی بیخ کنی میں کوئ کسر باقی نہیں رکھی ہے
محقق علی الاطلاق فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے جس عہد میں آنکھیں کھولیں وہ دور انتہائ نازک دور تھا.ہر طرف فتنوں کا طوفان عنفوان شباب پر تھا جو ایمان و اسلام اور عقائد و نظریات حقہ کے شیش محل کو خاکستر کرنے پر تلا ہوا تھا . دیوبندیت. مودودویت.ندویت. چکڑالویت. نیچریت.تبلیغیت.وہابیت اسمعیلیت.نجدیت.قادیانیت.مرزائیت.بہائیت.مہدویت انکار قران و حدیث.غیرمقلدیت و صلح کلیت اور متصوفہ.وغیرہ کےسیکڑوں فتنے تھے ۔ خارجی و داخلی دونوں قسم کے فتنے نے اودھم مچا رکھا تھا انہوں نے سب کی سر کوبی کی اور ارشاد فرمایا -
کلک رضا ہے خنجر خوں خوار برق بار
اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں
ان بے نظیر و لاجواب کارہائے نمایاں وجہ سے امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری برکاتی رضوی فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز ایک ممتاز شناخت کے حامل ہیں بلکہ حق و باطل کے مابین حد فاصل کی حیثیت رکھتےہیں حاسدین رضا سے قطع تعلق کیوں ضروری ہے حسد کی تشریح و توضیح کے بعد آشنائی حاصل ہوجائے گی :
حسد (ح ۔س ۔د) سے مرکب ہے اور مصدر ہے جس کے لفظی معنی جلنا، کُڑھنا اور کسی کی خوشی اور راحت پر دل کا گھٹن محسوس کرنا ہے اور چیچڑی ( یعنی جوں مشابہ قدرے ایک لمبا کیڑا ہے) اس کو بھی حسد کہتے ہیں جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے بعینہ حسد بھی انسان کے قلب و جگر میں جگہ بنا کر اس کے اعمال صالحہ کو دیمک کی طرح چاٹ کر تباہ و برباد کرتا رہتا ہے۔
محقق علی الاطلاق فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز نے جس عہد میں آنکھیں کھولیں وہ دور انتہائ نازک دور تھا.ہر طرف فتنوں کا طوفان عنفوان شباب پر تھا جو ایمان و اسلام اور عقائد و نظریات حقہ کے شیش محل کو خاکستر کرنے پر تلا ہوا تھا . دیوبندیت. مودودویت.ندویت. چکڑالویت. نیچریت.تبلیغیت.وہابیت اسمعیلیت.نجدیت.قادیانیت.مرزائیت.بہائیت.مہدویت انکار قران و حدیث.غیرمقلدیت و صلح کلیت اور متصوفہ.وغیرہ کےسیکڑوں فتنے تھے ۔ خارجی و داخلی دونوں قسم کے فتنے نے اودھم مچا رکھا تھا انہوں نے سب کی سر کوبی کی اور ارشاد فرمایا -
کلک رضا ہے خنجر خوں خوار برق بار
اعدا سے کہدو خیر منائیں نہ شر کریں
ان بے نظیر و لاجواب کارہائے نمایاں وجہ سے امام اہلسنت امام احمد رضاخان قادری برکاتی رضوی فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز ایک ممتاز شناخت کے حامل ہیں بلکہ حق و باطل کے مابین حد فاصل کی حیثیت رکھتےہیں حاسدین رضا سے قطع تعلق کیوں ضروری ہے حسد کی تشریح و توضیح کے بعد آشنائی حاصل ہوجائے گی :
حسد (ح ۔س ۔د) سے مرکب ہے اور مصدر ہے جس کے لفظی معنی جلنا، کُڑھنا اور کسی کی خوشی اور راحت پر دل کا گھٹن محسوس کرنا ہے اور چیچڑی ( یعنی جوں مشابہ قدرے ایک لمبا کیڑا ہے) اس کو بھی حسد کہتے ہیں جس طرح چیچڑی انسان کے جسم سے لپٹ کر اس کا خون پیتی رہتی ہے بعینہ حسد بھی انسان کے قلب و جگر میں جگہ بنا کر اس کے اعمال صالحہ کو دیمک کی طرح چاٹ کر تباہ و برباد کرتا رہتا ہے۔
(لسان العرب ۔ باب الحا /ج ٨٢٤/١)
حسد کا اصطلاحی معنی :
المعجم الاوسط میں ہے :
الحسد التمنی بزوال نعمۃ شخص ما ( المعجم الاوسط /١٧٢)
حسد کا اصطلاحی معنی :
المعجم الاوسط میں ہے :
الحسد التمنی بزوال نعمۃ شخص ما ( المعجم الاوسط /١٧٢)
کسی شخص کی نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنا حسد ہے :
موسوعہ میں ہے :
الحسد ومعناہا فی اللغۃ ان یتمنی الحاسد زوال نعمۃ المحسود۔
موسوعہ میں ہے :
الحسد ومعناہا فی اللغۃ ان یتمنی الحاسد زوال نعمۃ المحسود۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکو یتیۃ ٢٧٠/١٧)
حاسد کا محسود سے نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرنا حسد ہے :
امام راغب اصفہانی حسد سے متعلق لکھتے ہیں :
جس شخص کے پاس نعمت ہو اس سے نعمت کی زوال کی تمنا کو حسد کہتے ہیں ( المفردات / ۱۱۸)
امام سرجانی فرماتے ہیں : حاسد صاحب نعمت سے نعمتوں کے زوال کی چاہت کرتا ہے اور تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمتیں اس سے چھن کر مجھے مل جائیں :
امام ماوردی فرماتے ہیں : حسد کی حقیقت یہ ہے کہ انسان محترم شخصیات کی خوبیوں اور نعمتوں پر شدید افسوس میں مبتلا ہوجائے :
حسد سے مراد یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کو نعمت و راحت میں دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے، ایسا سوچنا حرام اورقابلِ نفرت خصلت ہے :
قرآن میں ہے :
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا( النساء/۵۴)
امام راغب اصفہانی حسد سے متعلق لکھتے ہیں :
جس شخص کے پاس نعمت ہو اس سے نعمت کی زوال کی تمنا کو حسد کہتے ہیں ( المفردات / ۱۱۸)
امام سرجانی فرماتے ہیں : حاسد صاحب نعمت سے نعمتوں کے زوال کی چاہت کرتا ہے اور تمنا کرتا ہے کہ یہ نعمتیں اس سے چھن کر مجھے مل جائیں :
امام ماوردی فرماتے ہیں : حسد کی حقیقت یہ ہے کہ انسان محترم شخصیات کی خوبیوں اور نعمتوں پر شدید افسوس میں مبتلا ہوجائے :
حسد سے مراد یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کو نعمت و راحت میں دیکھ کر یہ تمنا کرے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے، ایسا سوچنا حرام اورقابلِ نفرت خصلت ہے :
قرآن میں ہے :
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا( النساء/۵۴)
بلکہ یہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے پس بیشک ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بہت بڑی سلطنت دی :
تفسیرصراط الجنان میں تحت آیت ہے :
اس آیت میں یہودیوں کے اصل مرض کو بیان فرمایا کہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو جو نبوت عطا فرمائی اور ان کے ساتھ ان کے غلاموں کو جو نصرت، غلبہ، عزت وغیرہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان پر یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور اہلِ ایمان سے حسد کرتے ہیں حالانکہ یہودیوں کا یہ فعل سراسر جہالت و حماقت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد پر فضل فرمایا تھا کہ کسی کو کتاب عطا فرمائی، کسی کو نبوت اور کسی کو حکومت اور کسی کو اکٹھی کئی چیزیں جیسے حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم الصلوۃ والسلام کو نوازا تو پھرا گر اللہ عزوجل اپنے حبیب، امام الانبیاء ، سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو اپنے کرم سے کتاب اور نبوت و رسالت عطا فرماتا ہے تو اے یہودیو! تم اس سے کیوں جلتے اور حسد کرتے ہو؟
دوسرے مقام پر ہے :
وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ( الفلق /۵)
تفسیرصراط الجنان میں تحت آیت ہے :
اس آیت میں یہودیوں کے اصل مرض کو بیان فرمایا کہ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو جو نبوت عطا فرمائی اور ان کے ساتھ ان کے غلاموں کو جو نصرت، غلبہ، عزت وغیرہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان پر یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور اہلِ ایمان سے حسد کرتے ہیں حالانکہ یہودیوں کا یہ فعل سراسر جہالت و حماقت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد پر فضل فرمایا تھا کہ کسی کو کتاب عطا فرمائی، کسی کو نبوت اور کسی کو حکومت اور کسی کو اکٹھی کئی چیزیں جیسے حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم الصلوۃ والسلام کو نوازا تو پھرا گر اللہ عزوجل اپنے حبیب، امام الانبیاء ، سیدالمرسلین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو اپنے کرم سے کتاب اور نبوت و رسالت عطا فرماتا ہے تو اے یہودیو! تم اس سے کیوں جلتے اور حسد کرتے ہو؟
دوسرے مقام پر ہے :
وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ( الفلق /۵)
تم فرماؤ ! میں صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔اس کی تمام مخلوق کے شر سے۔اور سخت اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں ۔ اور حسد والے کے شر سے جب وہ حسد کرے :
تفسیر خازن میں تحت آیت ہے :
حسد والا وہ ہے جو دوسرے کی نعمت چھن جانے کی تمنا کرے ۔یہاں حاسد سے بطورِ خاص یہودی مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم سے حسد کرتے تھے یا خاص لبید بن اعصم یہودی ہے۔ (خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۳۰)
تفسیر خازن میں تحت آیت ہے :
حسد والا وہ ہے جو دوسرے کی نعمت چھن جانے کی تمنا کرے ۔یہاں حاسد سے بطورِ خاص یہودی مراد ہیں جو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم سے حسد کرتے تھے یا خاص لبید بن اعصم یہودی ہے۔ (خازن، الفلق، تحت الآیۃ: ۵، ۴ / ۴۳۰)
اور عمومی طور پر ہر حاسد سے پناہ کیلئے یہ آیت ِمبارکہ کافی ہے۔ حسد بدترین صفت ہے اور یہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس سے سرزد ہوا اور زمین میں قابیل سے۔ حسد کے مقابلے میں رَشک ہوتا ہے اور وہ یہ ہے جس میں اپنے لئے بھی اسی نعمت کی تمنا ہوتی ہے جو دوسرے کے پاس ہے لیکن دوسرے سے چھن جانے کی تمنا اس میں نہیں ہوتی۔اس سورتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جادو اور حسد بد ترین جرائم ہیں کہ عام شروں کے بعد ان کا ذکر خصوصیت سے فرمایا گیا :
تیسرے مقام پر ہے :
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۚۖ۔حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّۚ-فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(البقرہ/۱۰۹)
تیسرے مقام پر ہے :
وَدَّ كَثِیْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۚۖ۔حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّۚ-فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(البقرہ/۱۰۹)
اہل کتاب میں سے بہت سے لوگو ں نے اس کے بعد کہ ان پر حق خوب ظاہر ہوچکا ہے اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ چاہا کہ کاش وہ تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں ۔ تو تم (انہیں ) چھوڑدو اور (ان سے) درگزر کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے :
تفسیر صراط الجنان میں تحت آیت ہے :
جنگ ِاحد کے بعد یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہما کو معاذاللہ مرتد ہونے کی دعوت دی۔ ان بزرگوں نے سختی سے رد کردیا اور پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس واقعہ کی خبر دی۔حضور پر نورصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم نے بہتر کیا اور فلاح پائی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۱ / ۷۹)
تفسیر صراط الجنان میں تحت آیت ہے :
جنگ ِاحد کے بعد یہودیوں کی ایک جماعت نے حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہما کو معاذاللہ مرتد ہونے کی دعوت دی۔ ان بزرگوں نے سختی سے رد کردیا اور پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اس واقعہ کی خبر دی۔حضور پر نورصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم نے بہتر کیا اور فلاح پائی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۱ / ۷۹)
اسلام کی حقانیت جاننے کے بعد یہودیوں کا مسلمانوں کے کفر و ارتداد کی تمنا کرنااور یہ چاہنا کہ وہ ایمان سے محروم ہو جائیں حسدکی وجہ سے تھا۔ اس سے معلوم ہو اکہ حسد بہت بڑا عیب ہے اور ا س کی وجہ سے انسان نہ صرف خود بھلائی سے رک جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بھلائی سے روکنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑیوں کو‘‘یا فرمایا: ’’گھاس کو کھاجاتی ہے۔‘‘
(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد، ۴ / ۳۶۱، الحدیث: ۴۹۰۳)
حضرت وہب بن منبہ رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :حسد سے بچو،کیونکہ یہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔
حضرت وہب بن منبہ رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :حسد سے بچو،کیونکہ یہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے آسمان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے زمین میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔
(تنبیہ المغترین، الباب الثالث فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم رضی اللہ تعالی عنہم عدم الحسد لاحد من المسلمین۔۔۔ الخ، ص۱۸۸)
یاد رہے کہ حسد حرام ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثر ووجاہت سے گمراہی اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے اس کی نعمت کے زوال کی تمنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔
یاد رہے کہ حسد حرام ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثر ووجاہت سے گمراہی اور بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے اس کی نعمت کے زوال کی تمنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔
(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۱ / ۷۹-۸۰)
بخااری میں ہے :
إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخواناً۔
بخااری میں ہے :
إياكم والظن، فإن الظن أكذب الحديث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخواناً۔
(بخاری کتاب الادب باب ما ینہی عن التحاسد والتدابر/ مسلم فی البروج الصلۃ و الآداب ، باب تحریم التحاسد والتباغض و التدابر)
بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو :
لا تباغضوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخواناً، ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث أيام۔
لا تباغضوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخواناً، ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث أيام۔
(بخاری کتاب الادب ما ینہی عن التحاسد و التدابر/مسلم في البر والصلة والآداب، باب: تحريم التحاسد والتباغض والتدابر)
بغض نہ رکھو ، کسی سے حسد نہ کرو ،کسی کے پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائ بھائ بن کر رہو کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے جدا رہے :
سنن ابو داؤد میں ہے :
ایاکم والحسد فان الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب۔
سنن ابو داؤد میں ہے :
ایاکم والحسد فان الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب۔
(ابو داؤد ج ۷۲۰/۲ کتاب الادب باب فی الحسد)
حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھاجا تی ہے :
حسد ایما ن کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا (یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کنزالعمال، ج ۱۸۶/۲)
حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے ۔(مجمع الزوائد ج ۱۱۴/۸)
تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرائیت کر گئی، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی ج ۲۲۸/۴)
علامہ احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے، شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔
حسد ایما ن کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا (یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کنزالعمال، ج ۱۸۶/۲)
حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے ۔(مجمع الزوائد ج ۱۱۴/۸)
تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرائیت کر گئی، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی ج ۲۲۸/۴)
علامہ احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے، شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔
(مراٰۃ المناجیح ج ۶۱۵/۶)
عالمگیری میں ہے : الحسد المذکور ان یری علی غیرہ نعمۃ فیتمنی زوال تلک النعمۃ عن ذلک الغیر فھو حرام مذموم اما اذا تمنی مثل ذلک فلا بأس بہ۔
عالمگیری میں ہے : الحسد المذکور ان یری علی غیرہ نعمۃ فیتمنی زوال تلک النعمۃ عن ذلک الغیر فھو حرام مذموم اما اذا تمنی مثل ذلک فلا بأس بہ۔
(الہندیہ ج ۴۱۹/۵ زکریا دیوبند)
حسد مذکور وہ ہے کہ دوسرے میں کسی نعمت کو پاتا ہے اور دوسرے سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرتا ہے تو وہ حرام و مذموم ہے لیکن اگر اسی کے مثل کی تمنا کرتا ہے تو اس میں کوئ حرج نہیں ہے :
اس سے معلوم ہوا کہ کسی اہل ایمان سے حسد مذموم رکھنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے اور گناہ کبیرہ مرتکب فاسق و فاجر ہوتا ہے :
سد حرام ہے:
تفسیر صراط الجنان میں ہے :
حسد حرام(اور گناہ) ہے اور اس باطنی مرض کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی اہل ایمان سے حسد مذموم رکھنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے اور گناہ کبیرہ مرتکب فاسق و فاجر ہوتا ہے :
سد حرام ہے:
تفسیر صراط الجنان میں ہے :
حسد حرام(اور گناہ) ہے اور اس باطنی مرض کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔
(تفسیر صراط الجنان ج ١٦٤/١)
الحدیقۃ الندیہ میں ہے :
اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اوریہ اس پر عمل بھی کرتا ہےیا بعض اعضاء سے
اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
الحدیقۃ الندیہ میں ہے :
اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اوریہ اس پر عمل بھی کرتا ہےیا بعض اعضاء سے
اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
(الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الخامس عشر ج۱۶۰/۱)
فاسق وہ ہے جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو رد الختار میں ہے :
الفاسق ھو الخروج عن الاستقامة ولعل المراد به یرتکب الکبائر کشارب الخمر ( در مختار ج ۲ مطلب فی تکرار الجماعة فی المسجد / ۲۹۸) فاسق وہ ہے جو استقامت سے نکل جائے اور شاید اس سے مراد کبیرہ کا ارتکاب ہے جیسے شراب نوشی :
طحطاوی میں ہے : والفسق لغة خروج عن الاستقامة وھو معنی قولھم خروج الشی عن الشئ علی وجه الفساد وشرعاً خروج عن طاعة اللہ تعالی بارتکاب کبیرہ(طحطاوی / ۳۰۳) لغت میں فسق استقامت سے نکلنا ہے اور ان کے قول کا معنی وہی ہے کہ ایک شئ کا خروج دوسرے شئ سے بطور فساد ہو اور شریعت میں کبیرہ کا ارتکاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طاعت سے باہر نکلنا ہے اور قہستانی نے فرمایا کہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے یا صغیرہ پر اصرار کے ذریعے طاعت خدا وندی سے خارج ہونا ہے :
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کام میں مبتلا ہو اور تنبیہ کے باوجود اس سے باز نہ آتا ہو تو اُس کی اصلاح کی نیت سے اُس سے قطع تعلقی کرنا جائز ہے؛ تا کہ وہ اپنی غلط عادات سے باز آ جائے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت کعب بن مالک اور اُن کے دو ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) کے غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے متارکت اور قطع تعلقی کا حکم فرمایا تھا۔
پھر اگر کوئی شخص لوگوں کو سنگین گناہوں میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہو اور اُس سے باز نہ آتا ہو تو ایسے شخص سے اُس کی اصلاح کی نیت سے قطع تعلقی کی جا سکتی ہے تاوقتیکہ وہ اپنی نازیبا حرکات اور گناہ کے کاموں سے توبہ کر لے یہ حکم اس وقت ہے جب فسق ظاہر ہو جائے اور تنبیہ کرنے پر بھی باز نہ آئے :
یہ حکم عام ہے کہ کوئ مسلمان کسی مسلمان سے حسد کرے اور اس امراض قلبیہ کا اظہار ہوجائے اور منع کرنے کے بعد بھی اس فعل قبیح سے اجتناب نہ کرے تو اس کا بائیکاٹ کرنا جائز ہے لیکن وہی حسد جب معظم شخصیات یا علمائے کرام سے کیجائے تو اس سے دوری اختیار کرنا اور ضروری ہو جاتا ہے :
محقق علی الاطلاق فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کی ذات معیار حق و باطل ہے خوش عقیدگی و بدعقیدگی کے مابین حد فاصل ہے تو ان سے حسد کرنا بد اعتقادی و آزاد خیالی کے سبب ہی ممکن ہے جس کی قربت و مجالست زوال ایمان کا باعث بن سکتا ہے ضعف ایمانی کا شکار ہوسکتا ہے اس لئے حاسدین رضا سے قطع تعلق ضروری ہے کیونکہ اہل ہوا و بدعت سے قطع تعلق کرنا شرعا واجب ہے
یہ مثل سچ ہے ہوجاتاہے صحبت کا اثر
آدمی کیا در و دیوار بدل جاتے ہیں
صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالع ترا طالع کند
_______________________
از قلم : محمد مقصود عالم فرحت ضیائی خلیفئہ حضور تاج الشریعہ و محدث کبیر و خادم فخر ازہر دار الافتاء و القضاء و ازہری دار الاشاعت و سرپرست اعلی جماعت رضائے مصطفے ہاسپیٹ وجے نگر ۔ وڈو ۔ کمپلی بلاری گنتکل آندھرا پردیش و شیخ الحدیث حضرت خدیجۃ الکبریٰ جامعۃ البنات ہاسن کرناٹک : (الھند)
فاسق وہ ہے جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو رد الختار میں ہے :
الفاسق ھو الخروج عن الاستقامة ولعل المراد به یرتکب الکبائر کشارب الخمر ( در مختار ج ۲ مطلب فی تکرار الجماعة فی المسجد / ۲۹۸) فاسق وہ ہے جو استقامت سے نکل جائے اور شاید اس سے مراد کبیرہ کا ارتکاب ہے جیسے شراب نوشی :
طحطاوی میں ہے : والفسق لغة خروج عن الاستقامة وھو معنی قولھم خروج الشی عن الشئ علی وجه الفساد وشرعاً خروج عن طاعة اللہ تعالی بارتکاب کبیرہ(طحطاوی / ۳۰۳) لغت میں فسق استقامت سے نکلنا ہے اور ان کے قول کا معنی وہی ہے کہ ایک شئ کا خروج دوسرے شئ سے بطور فساد ہو اور شریعت میں کبیرہ کا ارتکاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طاعت سے باہر نکلنا ہے اور قہستانی نے فرمایا کہ کبیرہ کا ارتکاب کرکے یا صغیرہ پر اصرار کے ذریعے طاعت خدا وندی سے خارج ہونا ہے :
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی گناہ کے کام میں مبتلا ہو اور تنبیہ کے باوجود اس سے باز نہ آتا ہو تو اُس کی اصلاح کی نیت سے اُس سے قطع تعلقی کرنا جائز ہے؛ تا کہ وہ اپنی غلط عادات سے باز آ جائے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت کعب بن مالک اور اُن کے دو ساتھیوں (رضی اللہ عنہم) کے غزوہ تبوک میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے متارکت اور قطع تعلقی کا حکم فرمایا تھا۔
پھر اگر کوئی شخص لوگوں کو سنگین گناہوں میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہو اور اُس سے باز نہ آتا ہو تو ایسے شخص سے اُس کی اصلاح کی نیت سے قطع تعلقی کی جا سکتی ہے تاوقتیکہ وہ اپنی نازیبا حرکات اور گناہ کے کاموں سے توبہ کر لے یہ حکم اس وقت ہے جب فسق ظاہر ہو جائے اور تنبیہ کرنے پر بھی باز نہ آئے :
یہ حکم عام ہے کہ کوئ مسلمان کسی مسلمان سے حسد کرے اور اس امراض قلبیہ کا اظہار ہوجائے اور منع کرنے کے بعد بھی اس فعل قبیح سے اجتناب نہ کرے تو اس کا بائیکاٹ کرنا جائز ہے لیکن وہی حسد جب معظم شخصیات یا علمائے کرام سے کیجائے تو اس سے دوری اختیار کرنا اور ضروری ہو جاتا ہے :
محقق علی الاطلاق فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز کی ذات معیار حق و باطل ہے خوش عقیدگی و بدعقیدگی کے مابین حد فاصل ہے تو ان سے حسد کرنا بد اعتقادی و آزاد خیالی کے سبب ہی ممکن ہے جس کی قربت و مجالست زوال ایمان کا باعث بن سکتا ہے ضعف ایمانی کا شکار ہوسکتا ہے اس لئے حاسدین رضا سے قطع تعلق ضروری ہے کیونکہ اہل ہوا و بدعت سے قطع تعلق کرنا شرعا واجب ہے
یہ مثل سچ ہے ہوجاتاہے صحبت کا اثر
آدمی کیا در و دیوار بدل جاتے ہیں
صحبت صالح ترا صالح کند صحبت طالع ترا طالع کند
_______________________
از قلم : محمد مقصود عالم فرحت ضیائی خلیفئہ حضور تاج الشریعہ و محدث کبیر و خادم فخر ازہر دار الافتاء و القضاء و ازہری دار الاشاعت و سرپرست اعلی جماعت رضائے مصطفے ہاسپیٹ وجے نگر ۔ وڈو ۔ کمپلی بلاری گنتکل آندھرا پردیش و شیخ الحدیث حضرت خدیجۃ الکبریٰ جامعۃ البنات ہاسن کرناٹک : (الھند)